511ہجری میں جب مسلمانوں میں
نفاق، پست ہمتی ، کمزوریاں اور بے اتفاقی اپنے عروج پر تھی اور قریب تھا کہ
مسلمانوں کی ساری سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتیں کہ یکایک رحمت الٰہی جوش
میں آئی اور اس نے سلطان نور الدین زنگی کو اسلام کی شمشیر بنا کر میدان
عمل میں لاڈالا ۔ اس نے مسلمانوں پر عیسائی اور یہودی باطل پرستوں کی
ہولناک یلغار کو اپنی بلند ہمت اور قوی بازﺅں سے روکا اور ایسی عظیم اسلامی
قوت کی بنیاد ڈالی جس سے تمام یورپ پر لرزہ طاری تھا۔
سلطان نور الدین زنگی 511ہجری میں شہر موصل میں پیدا ہوا ، مورخین نے اسے
خلفائے راشدین کے بعد تمام مسلمان حکمرانوں میں سب سے زیادہ بہتر قرار دیا
۔ کچھ لوگ اسے اسلام کے ہیروز میں شمار کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے بے
مثال اوصاف اور صفات سے نوازا تھا ۔ اس کی سیرت میں ان لوگوں کے جھلک
نمایاں تھی جو حضور ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوتے تھے۔
سلطان نور الدین زنگی ایک انتہائی نیک اور عبادت گزار شخص تھا ، رات کا
اکثر حصّہ وہ عبادت اور نوافل پڑھنے میں گزارتا ، کچھ دیر بستر پر لیٹتا
اور پھر اٹھتا اور تہجد کے لئے کھڑا ہوجاتا ۔ ایک رات وہ دیر تک عبادت کرنے
کے بعد بستر پر لیٹا ۔ خواب میں حضور ﷺ کو دیکھا ، حضورﷺ کے ساتھ دو آدمی
بھی تھے ، حضورﷺ نے ان دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”نورالدین یہ
دو آدمی مجھے ستارہے ہیں ان کے شر کا استحصال کر“۔ سلطان نے جب حضورﷺ کو
دیکھا تو بڑا پریشان اور فکرمند ہوا ۔
اگلے روز پھر سلطان نور الدین زنگی نے حضور ﷺ کو خواب میں دیکھا ، حضور ﷺ
نے پھر سلطان نور الدین زنگی کو مخاطب کرکے ان دو آدمیوں کی طرف اشارہ کیا
جو حضورﷺ کے ساتھ تھے اور کہا ”نورالدین یہ دو آدمی مجھے ستارہے ہیں اٹھ
اور ان کے شر کا استحصال کر“۔ کہتے ہیں پہلے دو دن جب سلطان نے خواب میں اس
حالت میں حضور ﷺ کو دیکھا تو مال و دولت کو صدقہ کیا ۔
تیسرے روز سلطان نور الدین زنگی نے جب پھر حضورﷺ کو ان دو آدمیوں کے ساتھ
خواب میں دیکھا اور حضورﷺ نے فرمایا ”نورالدین یہ دو آدمی مجھے ستارہے ہیں
اٹھ اور ان کے شر کا استحصال کر“۔اب تو سلطان نور الدین زنگی کی حالت بری
ہوگئی وہ رات کو اٹھ کر دیر تک روتا رہا۔ استغفار کرتا رہا۔ وہ اپنی فراست
ایمانی سے سمجھ گیا تھا کہ مدینہ النبی ﷺ میں ضرور کوئی حادثہ رونما ہوا ہے
، اس لئے کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ کوئی شیطانی قوت حضور ﷺ کی شکل مبارک
اختیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتی ، لہٰذا سلطان نور الدین زنگی کو اس خواب
کے سچا ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہ رہااور روکر کہنے لگا ،میرے آقا کو
میرے جیتے جی کوئی ستائے یہ نہیں ہوسکتا ، میری جان ، میری آل و اولاد سب
میرے رسول ﷺ پر نثار ہے۔ خدا اس دن کے لئے نور الدین زنگی کو زندہ ہی نہ
رکھے کہ حضور ﷺ ،سلطان نور الدین زنگی کو یاد فرمائیں اور وہ دمشق میں
بیٹھا آرام کرتا رہے۔ سلطان اسی وقت بستر سے اٹھا اپنے چند مسلح دستوں کو
ساتھ لیا اور بہت سا خزانہ گھوڑوں پر لادا اور بڑی تیزی کے ساتھ مدینہ
منورہ کی جانب روانہ ہوگیا۔
دمشق سے مدینہ منورہ کا راستہ تیز رفتار گھوڑا عموماََ پچیس دنوں میں طے
کیا کرتا تھا لیکن یہ خواب دیکھ کر سلطان ایسا بے چین اور مضطرب تھا کہ وہ
اپنے سپاہیوں کے ہمراہ سولہویں دن ہی مدینہ منورہ جا پہنچا۔ مدینہ کے رہنے
والے سلطان نور الدین زنگی کے اس طرح اچانک پہنچنے پر حیران پریشان اور فکر
مند تھے ، اس لئے کہ سلطان نے وہاں پہنچتے ہی شہر کے تمام دروازے بند
کروادیئے اور شہر کے اندر یہ منادی کروادی کہ شہر کے سارے لوگ سلطان کے
ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔
سلطان نور الدین زنگی کی طرف سے اہل مدینہ کے لئے یہ دعوت عام تھی جسے
لوگوں بڑی خوشی سے قبول کیا۔ اس طرح دعوت کے دوران مدینہ منورہ کے سارے لوگ
سلطان کی نظروں کے سامنے سے گزرے۔ سلطان حیران اور پریشان تھا کہ خواب میں
حضورﷺ کے ساتھ جو دو آدمی خواب میں دکھائی دیئے تھے وہ اس دعوت میں شرکت
کرنے والے لوگوں میں شامل نہیں تھے۔ سلطان کے لئے یہ صورت حال انتہائی
پریشان کن تھی اس نے مدینہ کے سرکردہ لوگوں سے پوچھا کہ کوئی شخص ایسا تو
نہیں جو اس دعوت میں شریک نہ ہو ا ہو۔ اس پر سلطان کو ان لوگوں نے بتایا کہ
مدینہ کے تمام لوگوں نے اس دعوت میں شرکت کی ہے لیکن دوعمر رسیدہ بزرگ ایسے
ہیں جوایک عرصے سے یہاں رہائش پذیر ہیں اور مغرب کے رہنے والے ہیں ۔وہ دن
رات عبادت میں مصروف رہتے ہیں اگر عبادت سے ان کے پاس کچھ وقت بچتا ہے تو
وہ جنت البقیع میں جاکر لوگوں کو پانی پلاتے ہیں، وہ زیادہ تر لوگوں سے
ملاقات نہیں کرتے۔ سلطان نے حکم دیا کہ ان دونوں کو حاضر کیا جائے۔
جب یہ دونوں آدمی سلطان کے سامنے لائے گئے ۔ تو سلطان نے ایک ہی نظر میں
انہیں پہچان لیا ،یہ دونوں وہی تھے جو خواب میں حضور ﷺ کے ساتھ سلطان کو
دکھائے گئے تھے۔ انھیں دیکھ کر سلطان کے غصے و غضب کی کوئی انتہا نہ رہی اس
کے باوجود وہ انھیں تحقیق کئے بغیر سزا بھی نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ
بڑے زاہدانہ لباس میں تھے اور ان کی شکل بھی مومنوں جیسی تھی۔ سلطان نے ان
سے پوچھا کہ تم دونوں کس کے یہاں رہتے ہوں۔ ان دونو ں میں سے ایک نے جواب
دیا کہ ہم نے روضہ رسول ﷺ کے پاس ایک مکان کرائے پر لے رکھا ہے اسی میں
رہائش پذیر ہیں۔ سلطان نے ان دونوں کو اپنے مسلح سپاہیوں کی نگرانی چھوڑا
اور خود شہر کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ اس مکان میں داخل ہوا جو ان دونوں نے
روضہ رسول ﷺ کے پاس کرائے پر لے رکھا تھا۔
یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا اور اس کے اندر سامان بھی مختصر سا تھا کوئی چیز
بھی قابل اعتراض نظر نہیں آتی تھی اور لوگ بھی ان کی شرافت اور اچھے کردار
کی تعریف کر رہے تھے، اس کے باوجود سلطان نور الدین زنگی کا دل ان کی طرف
سے مطمئن نہیں ہورہا تھا۔ سلطان نے مکان کا فرش ٹھونک بجا کر دیکھنا شروع
کردیا۔ یکایک سلطان کو وہاں بچھی ہوئی ایک چٹائی کے نیچے کا فرش ہلتا ہوا
محسوس ہوا۔ جب چٹائی ہٹا کر دیکھا تو وہاں پتھر کی ایک چوڑی سل رکھی ہوئی
تھی جب اسے ہٹایا گیا تو ایک انتہائی خوفناک انکشاف ہوا ، وہاں ایک سرنگ
تھی جو روضہ رسول ﷺ کی طرف جارہی تھی۔ سلطان نور الدین زنگی سارا معاملہ
سمجھ گیا ۔ سلطان نے جب اپنے خواب کے متعلق اہل مدینہ کو بتایا تواہل مدینہ
بھی ان ملعونوں کی اس حرکت پر حیران و ششدر رہ گئے۔
اب توسلطان نور الدین زنگی کے قہر و جلال کی کوئی حد نہ تھی اس نے گرجتے
ہوئے حکم دیا کہ ان دونوں ملعونوں کو زنجیروں سے جکڑ کر اس کے سامنے پیش
کیا جائے ۔ یہ دونوں جب سلطان کے سامنے پیش کئے گئے تو سلطان نے انتہائی
غضب ناک لہجے میں انہیں مخاطب کیا ”سچ سچ بتاﺅ تم لوگ کون ہو اور اس ناپاک
حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے“۔ ان دونوں ملعونوں نے اِدھر اُدھر کی بائیں
کرنا شروع کردیں۔ لیکن موت سر پر منڈلاتی دیکھ کر سوچا کہ اب کچھ چھپانا بے
سود ہے۔ انتہائی ڈھٹائی سے بولے ”اے مسلمانوں کے بادشاہ ہم نصرانی ہیں اور
اپنی قوم کی طرف سے تمہارے رسول ﷺ کے جسد مبارک چرانے پر معمور کئے گئے
تھے، ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی کام کار ثواب نہیں ہوسکتا ، لیکن
افسوس کہ عین اس وقت جب کہ ہمار ا کام بہت تھوڑا رہ گیا تھا ، تم نے ہمیں
گرفتار کرلیا۔
ان کے اس جواب سے سلطان غم اور غصے کی حالت میں اتنا رویا کہ داڑھی آنسوﺅں
سے تر ہوگئی ۔ پھر سلطان جلالی کیفیت میں اٹھا اور اس نے ایک جھٹکے سے اپنی
تلوار نیام سے نکالی اور ایک ہی وار سے دونوں بدبختوں کی گردنیں اڑادیں۔ اس
کے بعد اس نے آگ کا ایک الاﺅ روشن کروایا اور دونوں کی لاشیں بھڑکتی ہوئی
آگ میں ڈلوادیں کہ رسول اللہ ﷺ کی جناب میں گستاخی کرنے والوں کا یہی
حشرہونا چاہیئے۔
کہتے ہیں کہ یہ مقدس فریضہ انجام دینے کے بعد سلطان نور الدین زنگی پر رقت
طاری ہوگئی اور شدت جذبات میں رو رو کر کہتا جاتا تھا ”زہے نصیب ! اس خدمت
کے لئے حضور ﷺ نے مجھ جیسے غلام کا انتخاب کیا۔ اس کام کی تکمیل کے بعد
سلطان کو کسی قدر سکون ہو ا تو اس نے حکم دیاکہ روضہ رسول ﷺ کے ارد گرد ایک
گہری خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیا جائے ۔سلطان کے
اس حکم کی تعمیل میں روضہ رسول ﷺ کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ
زمین سے پانی نکل آیا اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا تاکہ آنے والے دور
میں کوئی دوسرا اس قسم کی گندی حرکت نہ کرسکے اور سیسے کی یہ دیوار روضہ
رسول ﷺ کے ارد گرد آج بھی موجود ہے۔ (حوالہ جذب القلوب صفحہ 124) |