بزرگوں کی روایت رہی ہے کہ وہ جو
باتیں کر گئے ہیں وہ اکثر سچ ہی ہوتے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے بات سے بات
پیدا ہوتی ہے اور بات سے بات بڑھتی ہے۔ ویسے بھی آج کل ہماری قوم کا حال
جوتے میں دال پکانے جیسا ہو رہا ہے۔ جوتیوں میں دال بننے کا محاورہ تو میں
نے بچپن میں ہی سنا تھا مگر اپنی قوم کی حالت اور شعور کی سرحد پر قدم رکھا
تو معلوم کہ اس محاورے کا معنی و مفہوم کیاہے۔ اس مثال کی ضرورت اس لئے
درپیش ہوئی کہ آج کل قوم کے جو حالات ہیں مذکورہ مثال اس پر صد فیصد صادق
آتی ہے۔ آج ہمارا وطیرہ صرف یہی ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے بری
الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اتحاد و یکجہتی اور بیداری کی
کوشش کر رہے ہیں مگر ہر دور کی طرح وہ اب بھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں
ہو رہے۔ صاحبِ اقتدار کو تو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں یکجہتی کا فقدان
ہے اس لئے انہیں اس بات کی فکر نہیں رہتی کہ کوئی ان کا بال بیکا بھی کر
سکتا ہے کیونکہ اتحاد و یکجہتی کے فقدان کی وجہ سے عوام کا کوئی مسئلہ حل
نہیں ہوتا جس کا بھرپور فائدہ حکمران اُٹھاتے ہیں اور اپنی شہنشاہیت چمکاتے
ہیں۔
ملت کو یہ احساس تو ضرور ہے کہ اب وہ دور نہیں رہا، آج انسان آسمان پر اپنی
کمندیں ڈال چکا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اپنے پرانے قصے اور نفرت کی دیوار کو
منہدم کردیا جائے اور دل کے آنگن کو کشادہ کرنا ہوگا۔ بقول شاعر:
اب ان پرانی عمارتوں کے قصیدے لکھنے سے فائدہ کیا
نئے چراغوں کو حوصلہ دو کہ وقت کروٹ بدل رہا ہے
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی انقلاب لانا ہو یا
کوئی تحریک چلانا مقصود ہو تو اس کی ذمہ داری کسی نہ کسی ایک کے سر تو ڈالی
جاتی ہے تبھی تو تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے اور اس میں مسلک، ذات،
فرقہ ، مذہب کی کوئی قید نہیں ہوتی ، اگر ہم اسی نقطے پر الجھے رہے کہ فلاں
اس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور فلاں اِس گروہ سے تعلق رکھتا ہے تو کبھی کوئی
تحریک کامیاب نہیں ہوگی اور نہ کوئی انقلاب آئے گا کیونکہ ہر شخص کا کوئی
نہ کوئی مذہب اور کوئی نہ کوئی مسلک ضرور ہوتا ہے۔ میرا اتفاق اس بات پر
نہیں ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب ، مسلک یا فرقہ
نہیں ہوتا کیونکہ آج کل کے حالات پر نظر ڈالنے سے یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے،
کیونکہ جو بھی دھماکہ ہوتا ہے اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی اقرار کر لیا جاتا ہے
کہ یہ دھماکہ فلاں نے کیا ہے۔ ہم تو کئی کئی حصوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں
جبھی تو ہماری کوئی سنتا ہی نہیں، ایک ہی گھر میں بھائی بھائی میں نظریاتی
اختلاف ہوتا ہے، لیکن ہم نے ہمیشہ اختلاف کو اختلاف کی نظر سے ہی دیکھا ہے
اس کے سدباب کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کسی کے ذاتی بُرے فعل کو بھی مذہب سے
جوڑنا قطعی غلط ہے۔
ہمیں ہمارا مذہب یہ نہیں سکھاتا کہ آپس میں کسی سے بیر رکھو، کسی کا ناحق
خون بہاﺅ۔ کسی کی حلق تلفی کرو بلکہ ہمارا مذہب تو صاف لفظوں میں یہی کہتا
ہے کہ انسان سب برابر ہیں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، کوئی حکمران ہو یا
عوام، اس کی جتنی بھی تفصیلات رقم کر دی جائیں کم ہی ہونگی اس لئے اس شعر
پر اکتفا کرتا ہوں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
ویسے بھی ہمارا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک تو پھر یہ فرقہ بندی، مسلک اور
گروہ بندی کیوں؟ آپ کا اتحاد دورِ حاضر کا قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتا ہے
اگر آپ سوچیں اور اس پر عمل کریں ۔ کیونکہ اتحاد میں برکت ہے۔ پانچ انگلیاں
جب تک الگ الگ ہوں ہر کوئی آپ کو بآسانی زیر سکتا ہے ۔ آپ پر اپنی حکمت اور
اپنا جبر مسلط کر سکتا ہے مگر جب یہی انگلیاں مل کر مُکے کی صورت میں یکجا
ہو جائے تو ایسے عناصر جو آپ کو ڈرایا کرتے ہیں، آپ پر اپنا جبر مسلط کرتے
ہیں پارہ پارہ ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی قیادت آسمان سے تو نہیں
اترے گی کیونکہ اب کوئی پیمبر نہیں آنے والا، یہ سلسلہ تو چودہ سو سال پہلے
قدرت نے بند کر دیا ہے اب تو قیادت زمین سے ہی اُگے گی وہ بھی ہمیں اور آپ
میں سے کوئی نہ کوئی آگے آئے گا تبھی زندگی کا کارواں آگے بڑھے گا۔ آج بھی
کئی سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے لوگ
موروثی سیاست میں کھوئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو عوام اور نہ ہی یہ ملک
ترقی کر رہا ہے۔ جس دن موروثی سیاست کی چھاپ اس ملک سے ختم ہوگا ملک ترقی
کی شاہراہوں پر گامزن ہونا شروع ہوگا۔ بقول شاعر:
تم آﺅ بزمِ اقتدار میں تو اس طرح آﺅ
کہ تم سے سارے چراغوں میں روشنی ہو جائے
اگر ہر شخص یا فرد اپنے آپ کو وقت کا رہبر ، مفتی اور قاضی سمجھنے لگا گا
تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ گذشتہ کئی
سالوں سے کتنے احتجاج و مظاہرے ہوئے ظاہر ہے کہ وہ انگلیوں پر شمار نہیں
کئے جا سکتے آخر حکومت کے ایوانوں سے ہماری آواز کیوں نہیں ٹکرائی ؟ حکومت
کے کانوں پر جوں کیوں نہیں رینگی؟ کیونکہ ہماری آواز صدا بہ صحرا ہو کر رہ
گئی کیونکہ ہم سب ٹکروں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ آج اگر اتحاد و یگانگت کے ساتھ
یہ مظاہرے یا احتجاج ہوتے تو ایوان میں زلزلہ آ چکا ہوتا اور آپ کی فوری
داد رسی بھی ہوتی، کا ش کہ یہ عوام سب کچھ سمجھ لیتی۔ کب تک بٹے ہوئے لوگ
اپنے تفرقے کو مصلحت پسندی میں تولتے رہیں گے، کب تک صرف بیان بازی ہوتی
رہے گی، کب تک ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے؟ آخر ہم ہوش کے ناخن کب
لیں گے؟ کب تک مولوی ٹولی میں بٹے رہیں گے؟ کب تک ہر شخص ڈیڑھ انچ کی مسجد
بناتا رہے گا؟ کب تک ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو
بذریعہ فیکس خط لکھتے رہیں گے؟ کب تک قوم کے نام پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے
رہیں گے؟ اب ائیر کنڈیشنگ پلانٹ روم سے باہر آنے کا وقت ہے، یکجہتی کا وقت
ہے، اتحاد کا وقت ہے، اپنی بات منوانے کا وقت ہے، وقت کی ضرورت ہے کہ آپسی
نظریات کو فراموش کرکے چند روزہ زندگی کو دوسرے کے لئے وقف کر دیں اس کے
لئے سب کو اتحاد کی ضرورت ہوگی وگرنہ سب بے سود ہوگا۔ کیونکہ یہی زندگی کا
مقصد بھی ہے ۔ سمجھ لیجئے اس محاورے سے کہ ” آپ سے اچھی زندگی تو ان
پروانوں کی ہے جو شمع کے گرد اپنی جان نچھاور کر دیتے ہیں“ ۔
پروانے مجھ کو رشک ہے تیری حیات پر
تھوڑی سی زندگی ہے مگر زندگی تو ہے
زمانہ حال میں سرکتی ڈھلکتی اوڑھنی یا ساڑھی کے پلّو کی طرح آزاد ہونے کی
تگ و دُو اور موروثیت کے مریدی سے اچھا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اقدار کو فروغ
دیتے ہوئے اپنے اندر اتحاد و یکجہتی ، بھائی چارگی اور ہمتِ مرداں کی طرح
خود کو ڈھالیئے جبھی آپ کے ملک میں اچھے باوقاراور انصاف فراہم کرنے والی
حکومت کا وجود ہو سکے گا کیونکہ آپ کے اندر اتحاد ہوگا ، تعلیمی اقدار اور
تہذیب ہوگی تبھی آپ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر سکیں گے۔ اللہ آپ سب کا
حامی و ناصر ہو۔ |