بصرہ کا نوجوان مجاہد اور عبادت گزار عامر بن عبد اﷲ التمیمی رضی اﷲ عنہ

عربی سے ترجمہ : محمد سہیل احمد سیالوی

’’آٹھ شخصیات زہد میں بے مثال تھیں اور ان میں اعلی ترین عامر بن عبد اﷲ التمیمی ہیں ‘‘(علقمہ بن مرثد )

ہم اس وقت چودھویں صدی ہجری میں ہیں ،امت کے ہادی و رہبرجلیل القدر صحابہ اور کبار تابعین خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق کے حکم پربصرہ شہر کی بنیاد رکھ رہے ہیں -ان کا عزم ہے کہ ایک ایسا نیا شہر بسایا جائے جو فارس کے علاقے میں مشغول ِ جہاد، اسلامی لشکر کی قیام گاہ بن سکے ،یہ شہر دعوت الی اﷲ کا مرکز ہو اور اعلائے کلمۃ اﷲ کے میدان میں مینارۂ نور ثابت ہو سکے -

نجد،حجاز،یمن اور جزیرۂ عرب کے مختلف علاقوں سے لوگ قافلہ در قافلہ اس نو آباد شہر کی طرف آتے جا رہے ہیں تاکہ اس شہر کو کسی دشمن کے حملے کا کوئی خوف نہ رہے ،انہی مہاجرین میں نجد کے قبیلے بنی تمیم کا ایک نوجوان بھی ہے جسے عامر بن عبد اﷲ التمیمی العنبری کہہ کر پکاراجاتا ہے---

عامر بن عبد اﷲ پر ابھی ابھی جوانی کی رعنائیاں طاری ہوئی ہیں، نرم و ملائم جلد، چمکدار چہرہ ،پاکیزہ کردار اور صاف ستھرا دل -بصرہ اس وقت نو آباد ہو نے کے باوجود اسلامی شہروں میں مال و دولت کی ریل پیل میں سب سے اونچا مقام رکھتا تھا ،یہاں اسباب دنیا کی فراوانی تھی ،جنگوں سے ملنے والا مال غنیمت مجاہدین کے ساتھ یہاں کثرت سے آرہا تھا اور جب مجاہدین کے قافلے آتے تو خالص سونے کے ڈھیر لگ جاتے تھے لیکن تمیمی جوان کو اس مال و دولت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ،اسباب ِ دنیا سے اسے کوئی رغبت نہیں تھی ،اس کا دل تو ان نعمتوں کے تصور سے مہکتا رہتا تھا جو اﷲ رب العالمین نے اپنے خاص بندوں کے لیے تیارکر رکھی ہیں،وہ دنیا سے منہ پھیر کر کامل طور پر اﷲ تعالی کی رضا کی طرف متوجہ تھا--

اُن دنوں جلیل القدر صحابی سیدنا ابو موسی اشعری ، بصرہ کے مرد ِ میدان تھے ،وہ اس سر سبز شہر کے والی بھی تھے ،مختلف علاقوں کی طرف جانے والے اسلامی لشکروں کے کمانڈر بھی تھے اور معلم ِ بصرہ بھی، معلم بھی ایسے جو اپنی رعایا کو اﷲ کی راہ دکھا رہے تھے ---

عامر بن عبد اﷲ ، ابو موسی اشعری سے چمٹ گئے ، امن ہو یا حالت جنگ ، سفر ہویا حالت ِ اقامت عامر بن عبد اﷲ ،حضرت ابوموسی سے الگ نہ ہوتے ،عامر نے حضرت ابوموسی سے قرآن مجید اس طرح پڑھا جس طرح وہ محمد رسو ل اﷲ ﷺ کے قلب اطہر پر اترا تھا ،نبیٔ کریم ﷺ کی احادیث صحیح سند کے ساتھ روایت کیں ،ابوموسی ہی سے عامر نے تفقہ کی دولت بھی سمیٹی ،تکمیل علم ہو چکی تو عامر بن عبد اﷲ نے اپنی زندگی کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا ، ایک حصہ میں وہ حلقۂ ذکر قائم کر کے بیٹھتے ، بصرہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے --

دوسرا حصہ خلوت کی عبادت کے لیے مختص تھا اس میں وہ اﷲ رب العالمین کے حضور اس قدر قیام کرتے کہ پاؤں شل ہو جاتے ---

تیسرا حصہ جہاد فی سبیل اﷲ کے لیے تھااس میں وہ تلوار تھامے غازی اور مجاہد کے روپ میں نظر آتے ---

ان تین کاموں کے علاوہ ان کی زندگی کی کوئی اور مصروفیت نہیں تھی --یہا ں تک کہ انہیں ’’بصرہ کا عابد و زاہد‘‘ کہا جانے لگا ---

بصرہ کے اس نوجوان زاہد کی بہت سی باتیں تاریخ میں محفوظ ہیں ---

بصرہ کا ایک شخص کہتا ہے کہ میں ایک قافلے میں سفر کر رہا تھا ،جس میں عامر بن عبد اﷲ التمیمی بھی موجود تھے ،رات ہوئی تو قافلہ درختوں کے ایک جھنڈ کے قریب اترا ،عامر نے اپنا سامان جمع کیا، گھوڑے کو درخت سے باندھا، اس کی رسی لمبی کر دی اور چارہ اس کے آگے ڈال دیا، پھر وہ اس درختوں کے جھنڈ میں چلے گئے یہاں تک کہ ہماری نظرو ں سے اوجھل ہو گئے ،میں نے اپنے دل میں کہا ـ : میں ضرور ان کے پیچھے جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ رات کی تاریکی میں اس جھنڈ میں وہ کیا کر رہے ہیں ؟

میں ان کے پیچھے چل پڑا، وہ چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں درختوں نے آپس میں مل کر ایک پردہ سا بنا دیا تھا، یہاں کھڑا شخص دور سے نظر نہیں آسکتا تھا، یہاں پہنچ کر انہوں نے منہ قبلہ کی طرف کر لیا اور نماز پڑھنے لگے ، میں نے ایسی خوب صورت ،کامل اور خشوع و خضوع والی نماز کبھی نہیں دیکھی تھی، کافی دیر کے بعد جب وہ نماز سے فارغ ہوے تو اﷲ تعالی کے حضور دعا اور مناجات میں مشغول ہو گئے ،اور یوں کہنے لگے :
’’یا اﷲ تو نے مجھے اپنی مرضی سے پیدا فرمایا،پھر تو نے اپنی مشیت سے مجھے دنیا کی مصیبتوں سے ہم کنار کیا ،پھر حکم دیا کہ میں ثابت قدم رہوں ---

یا اﷲ !اے قدرت اور طاقت والے پروردگار! اگر تو اپنی مہربانی سے مجھے ثابت قدمی عطا نہ کرے تو میں کیسے ثابت قدم رہ سکتا ہوں؟ ---

یا اﷲ ! تو جانتا ہے کہ اگر ایک طرف دنیا اور اس کی سب نعمتیں ہوں اور دوسری طرف تیری رضا اور خوشنودی ہو تو میں دنیا اور اس کی تمام نعمتوں کو تیری رضا پر قربان کر دوں گا --
یا اﷲ! اے ارحم الراحمین !میری بخشش فرما دے ---
یا اﷲ ! میں نے تجھ سے ایسی محبت کی ہے کہ جس نے ہر مشکل کو آسان کر دیا ہے اور مجھے تیرے ہر فیصلے پر راضی کر دیا ہے !مجھے تیری محبت میں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میرا دن کیسے گزرتا ہے اور شام کیسے کٹتی ہے ---

و ہ شخص کہتا ہے کہ یہ سارا منظر دیکھنے کے بعد مجھے نیند آنے لگی اور میں بستر پر دراز ہو گیا ، رات بھر وقفے وقفے سے میں سوتا جاگتا رہا ،جب بھی آنکھ کھلتی میں عامر کو اسی جگہ کھڑے پاتا ،وہ نماز پڑھ رہے ہوتے یا مناجات میں مشغول ہوتے یہاں تک کہ صبح کی روشنی پھیلنے لگی ---

نماز فجر کا وقت ہوا تو عامر نے نماز فجر ادا کی پھر دعا کرنے لگے :
یا اﷲ !صبح ہو گئی ،لوگ اپنے اپنے کاموں اور حاجتوں کے لیے نکلنے لگے ، ہر کسی کی کوئی نہ کوئی تمنا ہے ،یا اﷲ ! میر ی حاجت یہی ہے کہ تو میری بخشش فرمادے !اے سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ! میری اور ان سب کی حاجات کو پورا فرما دے !

یا اﷲ میں نے تجھ سے تین چیزیں طلب کیں ،تو نے دو تو مجھے عطا فرما دی اور ایک سے نہیں نوازا ،یا اﷲ میری وہ تیسری حاجت بھی پوری کر دے تاکہ میں تیری اس طرح عبادت کر سکوں جیسے میں چاہتا ہوں---

اتنا کہہ کر عامر اپنی جگہ سے اٹھے ،تب ان کی نظر مجھ پر پڑی اور انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ شخص سار ی رات مجھے دیکھتا رہا ہے ،یہ جان کر ان کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی ،انہوں نے نہایت ہی افسوس بھرے لہجے میں کہا :
میرے بھائی لگتا ہے تم ساری رات میری نگرانی کرتے رہے ہو ؟
میں نے کہا : جی ہاں ---
عامر نے کہا: اﷲ تیرے عیبوں پر پردہ ڈالے ،خدا کے لیے میرے اس عمل کا کسی سے ذکر نہ کرنا !

میں نے کہا: آپ یا تو مجھے وہ تینوں باتیں بتائیں جو آپ نے اﷲ تعالی سے عرض کی ہیں یا پھر میں سارا منظر لوگوں کو بتا دوں گا ---
انہوں نے کہا: ایسا نہ کرنا
میں نے کہا : میں تو ضرور ایسا کروں گا !
جب انہوں نے میرا اصرار دیکھا تو کہا : اگر تو مجھ سے پختہ عہد کرے کہ تو کسی کو نہیں بتائے گا تو میں تجھے وہ تینوں چیزیں بتاتا ہوں --

میں نے عرض کیا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی زندگی میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا اور آپ کے راز کو فاش نہیں کروں گا -

تب انہوں نے کہا :
مجھے اپنے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ خوف عورتوں کے فتنے کا تھا، میں نے اﷲ تعالی سے عرض کی : یا اﷲ!میرے دل کو عورتوں کے فطری میلان سے خالی کر دے ،اﷲ تعا لی نے میر اس دعا کو قبول فرمالیا ، اب میری صورت حا ل یہ ہے کہ مجھے کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا کہ میں دیوار کے پاس بیٹھا ہوں یا کسی عورت کے پاس -

دوسری دعا میں نے یہ مانگی کہ یا اﷲ اپنی ذات کے علاوہ ہر چیز کا خوف میرے دل سے ختم فرما دے ، اﷲ تعالی نے میری دعا کو شرف قبولیت نصیب فرمایا اور اﷲ کی قسم اب میں زمین و آسمان کی کسی چیز سے نہیں ڈرتا سوائے اﷲ تعالی کے -

میں نے عرض کیا : تیسری چیز جو اﷲ تعالی نے عطا نہیں کی وہ کون سی ہے ؟
انہوں نے فرمایا:

میں نے دعا کی کہ یا اﷲ میری نیند کو ختم کر دے تاکہ میں دن رات تیری عبادت میں مشغو ل رہوں ،لیکن میری یہ آرزو ابھی پوری نہیں ہوئی-
وہ شخص کہتا ہے کہ یہ سن کر میں نے ان سے کہا :
اپنے آپ پر کچھ نرمی کیجیے ، آپ ساری رات عبادت میں کھڑے رہتے ہیں اور سارا دن روزے کی حالت میں گزارتے ہیں ، اس سے کم عبادت بھی جنت دلا سکتی ہے ،اور اس سے کم اعمال بھی جہنم سے بچا سکتے ہیں --

انہوں نے کہا:
مجھے خدشہ رہتا ہے کہ کہیں مجھے اس دن شرمندہ نہ ہونا پڑے جس دن شرمندگی کچھ فائدہ نہ دے گی ،خدا کی قسم ! جہاں تک ہو سکا میں عبادت ِ خداوندی کی کوشش کرتا رہوں گا،اگر میں کامیاب ہو گیا تو اﷲ کی رحمت اور جہنم میں گیا تو میری کوتاہی --

لیکن یاد رہے کہ عامر بن عبد اﷲ صرف رات کے عابد( راہب اللیل ) نہیں تھے ، وہ دن کے گھڑ سوار اور غازی بھی تھے ،جب بھی جہاد پر جانے کے لیے پکارا جاتا تو وہ سب سے پہلے اس پکار پر لبیک کہتے ، کسی بھی غزوہ کے لیے مجاہدین کی روانگی کا موقع آتا تو وہ موجود ہوتے ، یہاں بھی ان کا انداز نرالا تھا ،جہاد کے لیے روانگی کا وقت آتا تو وہ قافلۂ جہاد میں شریک ایک ایک شخص کے پاس جاتے ،اس کا جائزہ لیتے اور اپنے لیے رفقائے سفر کا انتخاب کرتے ، جب سفر کے ساتھی چن لیتے تو ان سے کہتے :
میں تمہارا رفیق اس شرط پر بن سکتاہوں کہ تم میری تین باتیں قبول کر لو !پہلی یہ کہ دوران سفر میں تمہارا خادم ہوں گا اور یہ حق کوئی مجھ سے نہیں چھین سکے گا، دوسرا یہ کہ دوران سفر اذان پڑھنے کی ذمہ داری میری ہوگی اس معاملے میں کوئی مجھ سے جھگڑا نہیں کرے گا ،اور تیسرا یہ کہ جب تک میرے پاس نفقہ ہوگا تم سب کا خرچ میرے ذمہ ہوگا،اگر وہ ان شرائط کو مانتے تو عامر بن عبد اﷲ ان کے رفیق سفر بن جاتے اور اگر وہ نہ مانتے تو کوئی نیا رفیق سفر منتخب کرتے جو ان شرائط کو تسلیم کر لیتا ---

عامر بن عبد اﷲ ان مجاہدوں میں سے تھے کہ جو جنگ کے وقت سب سے آگے ہوتے اور مال غنیمت لیتے وقت چھپتے پھرتے ،دوران جنگ اُن خطرناک جگہوں تک گھسے چلے جاتے جہاں جانے کی کسی میں ہمت نہ ہوتی ،لیکن جب مال غنیمت لینے کا موقع آتا تو دامن بچاتے پھرتے ---

قادسیہ کی فتح کے بعد سیدنا سعد بن ابی وقاص کسری کے محل میں داخل ہوے اور عمرو بن مقرن کو حکم دیا کہ سارا مال و اسباب جمع کرو ، اس کی فہرست بناؤ، تاکہ پانچواں حصہ بیت المال میں بھیجا جائے اور باقی مجاہدین میں تقسیم کیا جائے ،جب کسری کے جمع کردہ مال و دولت کو جمع کرنا شروع کیا گیا تو اتنی قیمتی اور نفیس ترین اشیاء سامنے آئیں جن کی خوبیاں بیان نہیں کی جا سکتی تھیں اور جنہیں شمار نہیں کیا جا سکتا تھا ،اس میں سیسے کے بنے ہوے بڑے بڑے صندوق بھی تھے جو سونے ،چاندی کے برتنوں سے لبا لب بھرے تھے،ایران کے بادشاہ ان برتنوں میں کھانا کھاتے تھے -یہاں پر اعلی ،قیمتی لکڑی کہ بنی الماریاں تھیں جن میں کسری کے کپڑے ،پوستینیں اورزرہیں وغیرہ تھیں ،جن پر ہیرے اور جواہرات جڑے تھے --

یہاں ایسے ڈبے تھے جن میں خوب صورت زیورات اور آرائش و زیبائش کے رنگا رنگ سامان بھی تھے-یہاں ایران کے بادشاہوں کی تلواروں سے بھرے صندوق موجود تھے ،یہاں ان بادشاہوں کی یادگاریں بھی تھیں جن کی سلطنتوں پر ایران کے بادشاہوں نے غلبہ پایاتھا ---

اسلامی لشکر کے کارندے مال غنیمت کے یہ انبار اٹھا کر لارہے تھے اور یہ سب کچھ لوگوں کے سامنے ہو رہا تھا ،اتنے میں ایک غبار آلود ،بکھرے والوں والا شخص آیا ،اس نے ایک بہت وزنی اور بڑے حجم کا صندوق دونوں ہاتھوں سے اٹھا رکھا تھا، یہ صندوق کھولا گیا تو اس میں موجود ہیرے ،جواہرات کو دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں ،پورے مال غنیمت میں اس جیسی قیمتی اور نفیس چیزیں موجود نہیں تھیں ،لوگوں نے لانے والے سے پوچھا: تمہیں یہ کہاں سے ملا ؟
اس نے کہا : میدان جنگ میں فلاں جگہ پڑا ہوا تھا-
لوگوں نے کہا: کیا تم نے اس سے کچھ لیا تو نہیں --
وہ شخص بولا: اﷲ تمہیں ہدایت دے ، یہ صندوق اور کسری کے یہ تمام خزانے میرے نزدیک کٹے ہوے ناخن کے ٹکڑے جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتے ---

اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتاکہ یہ بیت المال کی امانت اور مسلمانوں کا حق ہے تو میں اس کی طرف دیکھتا تک نہیں ---

لوگوں نے پوچھا: تم کون ہو ؟
اس نے کہا: اﷲ کی قسم! میں تمہیں نہیں بتاؤں گا کہ میں کون ہوں ،میں اپنی دیانت کی تعریفیں نہیں کروانا چاہتا، میں اﷲ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے یہ توفیق بخشی اور میں اسی سے اجر کی امید رکھتا ہوں ---
یہ کہہ کر وہ شخص چل پڑا---
لوگوں نے ایک شخص کو بھیجا کہ اس کا پیچھا کرو اور معلوم کرو کہ یہ کون ہے ؟
پیچھا کرنے والا پیچھا کرتا رہا جب صندوق اٹھا کر لانے والا اپنے دوستو ں میں پہنچا تو پیچھا کرنے والے کو بتایا گیا کہ یہ ’’بصرہ کے زاہد ‘‘عامر بن عبد اﷲ التمیمی ہیں ---

ایسی بے نیازی والی، عبادت سے معمور زندگی کے باوجود عامر بن عبد اﷲ لوگوں کی ایذاؤں سے نہ بچ سکے ، اور زندگی کی کڑواہٹیں انہیں بھی جھیلنا پڑیں -انہیں بھی انہی حالات کا مقابلہ کرنا پڑا جن کا مقابلہ ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے جوپوری قوت سے حق کی بات کرتا ہے ، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہتا ہے --

اس اذیت کا سبب یہ بنا کہ ایک دن عامر بن عبد اﷲ نے رستے میں دیکھا کہ پولیس کا ایک سپاہی ایک غیر مسلم شخص کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا،غیر مسلم زور زور سے چلا رہا تھا، لوگو! مجھے پناہ دو ،اﷲ تمہیں پناہ عطا کرے -اے مسلمانو! اپنے نبی (ﷺ) کے نام پر مجھے پناہ دے دو !
عامر بن عبد اﷲ قریب پہنچے اور غیر مسلم سے پوچھا: کیا تو نے ٹیکس ادا کیا ہے ؟
اس نے کہاؒ: جی کیا ہے -
پھر آپ اس پولیس والے کی طرف متوجہ ہوے اور اس سے پوچھا: تم اس سے کیا چاہتے ہو ؟
اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ یہ میرے ساتھ چلے اور میرے افسر کا کھیت صاف کرے ---عامر بن عبد اﷲ نے غیر مسلم سے پوچھا: کیا تم یہ کام اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہو ؟
اس نے کہا: ہر گز نہیں ، میرے بدن میں اتنی طاقت نہیں ،اور پھر میں اپنے بیوی بچوں کے لیے روزی کہاں سے لاؤں گا ؟
عامر بن عبد اﷲ پولیس والے کی طرف متوجہ ہوے اور کہا: اسے چھوڑ دو
پولیس والے نے چھوڑنے سے انکار کر دیا - آپ نے اپنی چادر اس غیر مسلم پر پھینک دی اور فرمایا: میرے زندہ ہوتے ہوے وہ حق ان سے نہیں چھینا جا سکتا جو نبیٔ کریم ﷺ نے انہیں عطا کیا ہے ---

لوگ جمع ہو گئے ،سب نے عامر بن عبد اﷲ کی بات کی تائید کی ،ان کا ساتھ دیا اور اس غیر مسلم کو پولیس والے سے زبر دستی چھڑا لیا---
اس واقعے کے بعد ،اس پولیس افسر نے آپ کے متعلق یہ تہمت لگائی کہ :
یہ حکومت وقت کے باغی ہیں ---
یہ اہل سنت وجماعت سے خارج ہیں ---
یہ نکاح نہیں کرتے (یعنی خلاف سنت کام کرتے ہیں )
یہ گوشت اور دودھ استعمال نہیں کرتے ---
حکام سلطنت کے پاس آنے سے کتراتے ہیں ---
کیس امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان کی خدمت میں بھجوا دیا گیا --

امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان نے والیٔ بصرہ کو حکم دیا کہ عامر بن عبد اﷲ کو بلاؤاوران سے ان اعتراضات کے متعلق پوچھو اور جو جواب دیں اس سے مجھے آگاہ کرو --بصرہ کے والی نے آپ کوبلایا اور کہا: امیر المومنین نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے ان الزامات کے متعلق پوچھوں جو آپ پر لگائے گئے ہیں -آپ نے فرمایا: پوچھیے
والیٔ بصرہ نے کہا: آپ کو تو علم ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے نکاح فرمایا، پھر آپ نکاح کیوں نہیں کرتے ؟
عامر بن عبد اﷲ نے فرمایا:
میں نے اس لیے نکاح کو ترک نہیں کیا کہ میں سنت رسول ﷺ کو اہمیت نہیں دیتا ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اسلام میں رہبانیت ( دنیا کو چھوڑ چھا ڑکر الگ تھلگ ہو جانا) جائز نہیں ،در اصل بات یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ زندگی صرف ایک دفعہ ملتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اسے صرف عبادت الہی میں گزاروں ،اگر میں نکاح کروں گا تو بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی مجھ پر غالب آ جائے گی -
والی بصر ہ نے سوال کیا : آپ گوشت کیوں استعمال نہیں کرتے ؟
عامر بن عبد اﷲ نے کہا: میں استعمال کرتا ہوں ،جب مجھے خواہش ہواور گوشت مل جائے تو استعمال کر لیتا ہوں -اگر میرا جی نہ چاہے یا گوشت نہ ملے تو نہیں کھاتا -
والی بصرہ نے پوچھا:آپ پنیر کیوں نہیں کھاتے ؟
آپ نے فرمایا:
ہمارے علاقے میں پنیر مجوسی لوگ تیار کرتے ہیں ،اور پنیر میں بکری کے گوشت کا ایک مخصوص حصہ استعمال کیا جاتا ہے ،ظاہر ہے کہ مجوسی لوگ اﷲ کے نام پر جانور ذبح نہیں کرتے ،اگر دو مسلمان گواہی دے دیں کہ اس پنیر میں ڈالا جانے والا گوشت کا وہ حصہ جس بکر ی کے جسم سے لیا گیا ہے وہ بکری شرعی طریقے پر ذبح کی گئی تو میں اسے کھا لوں گا --
والی بصرہ نے آخر میں سوال کیا :
حاکموں کی مجلس میں آنے اور ان کے دربار میں حاضر ہونے سے آپ کو کیا رکاوٹ ہے ؟
عامر بن عبداﷲ نے فرمایا:ـ
تمہارے دروازوں پرمصیبت زدہ لوگوں اورحاجت مندوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے تم ان کی حاجتیں پوری کرو اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو جنہیں تم سے کوئی حاجت طلب نہیں کرنی ---

یہ سب جوابات امیر المومنین کی خد مت میں پیش کیے گئے ، حضرت عثمان کو ان میں بغاوت ، اہل سنت وجماعت سے خارج ہونا یا کوئی اور خرابی نظر نہ آئی -لیکن ادھر آپ کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا تھا -پروپیگنڈہ مہم زور و شور سے جاری تھی ،حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ عامر بن عبد اﷲ کے مخالفوں اور حامیوں کے درمیان لڑائی کا خطرہ پیدا ہو گیا -تب حضرت عثمان نے حکم دیا کہ عامر بن عبد اﷲ کو شام بھیج دیا جائے اور وہ وہاں رہائش اختیار کر لیں ،آپ نے شام کے والی حضرت معاویہ کو حکم دیا کہ عامر بن عبد اﷲ کا بھرپور اسقبال کریں اور ان کی تعظیم و تکریم کا پورا پورا خیال رکھیں ---

کوچ کا دن آگیا، عامر بن عبد اﷲ نے بصرہ سے روانگی کا ارادہ کیا تو شاگردوں ، د وستوں اور چاہنے والوں کا ایک ہجوم آپ کو الوداع کہنے شہر سے باہر تک آپ کے ساتھ آ گیا ،مربد کے مقام تک وہ لوگ آپ کے ساتھ چلتے آئے،یہاں آپ نے فرمایا:
لوگو! میں رخصت ہونے لگا ہوں ،میں ایک دعا کرتا ہو ں تم اس پر آمین کہنا!
لوگ دم بخود ہو گئے ،ہر طرف خاموشی چھا گئی ، اعضاء کی حرکتیں بھی رک گئیں ،سب کی نظریں آپ پر گڑی ہوئی تھیں ،آپ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا :
یا اﷲ ! جن لوگوں نے مجھ پر جھوٹے الزام لگائے ،میری چغلیاں کھائیں ،اور مجھے میرے وطن اور دوستوں سے دور کرنے کا سبب بنے ،یا اﷲ !میں نے انہیں معاف کیا تو بھی انہیں معاف فرما دے ،یا اﷲ ! انہیں دین و دنیا کی عافیت نصیب فرما !یا اﷲ !یا ارحم الراحمین ! مجھے ،انہیں اور سب مسلمانوں کو اپنی رحمت ،عفو اور احسان کے پردوں میں لپیٹ لے !!!
یہ کہہ کر آپ نے سواری کا رخ شام کی طرف پھیر لیا --
عامر بن عبد اﷲ نے باقی زندگی شام میں گزاری ،آپ نے بیت المقدس کو اپنا مسکن بنایا ،امیر شام معاویہ بن ابی سفیان نے آپ کی تعظیم و تکریم اور آپ سے حسن سلوک میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ،انہوں نے آپ کو وہ عزت دی جس کے آپ حق دار تھے --

جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کے دوست آپ کے پاس آئے ،دوستوں نے دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں -دوستوں نے کہا:ـ اس قدر عبادت و ریاضت کرنے کے باوجود آپ اس وقت رو رہے ہیں ؟
آپ نے فرمایا: خدا کی قسم !میں نہ تو اس لیے رو رہا ہوں کی مجھے دنیا میں رہنے کی حرص ہے ، اور نہ ہی اس لیے کہ مجھے موت کا خوف ہے -میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ سفر لمبا ہے اور زاد ِ راہ بہت تھوڑا، رستے میں کتنی گھاٹیاں آئیں گی ،کتنے ٹیلوں سے واسطہ پڑے گا، پتا نہیں جنت میں جانا نصیب ہوتا ہے یا جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے ،اتنا کہہ کر آپ کی سانس اکھڑنے لگی ،آپ کی زبان اﷲ کے ذکرسے تر ہوگئی ،اور یوں یہ مرد ِحق اس مقام پر مدفون ہوا جو قبلۂ اول بھی ہے، حرمین شریفین کے بعد سب سے مقدس مقام بھی اور رسو ل اﷲ ﷺ کے سفر معراج پر روانہ ہو نے کا مرکز بھی---اﷲ کریم عامر بن عبد اﷲ کی قبر کو نور سے معمور فرمائے اور جنۃ الخلد میں ان کے چہرے کوہمیشہ تر و تازہ رکھے ---آمین
Muhammad Sohail Ahmad
About the Author: Muhammad Sohail Ahmad Read More Articles by Muhammad Sohail Ahmad: 8 Articles with 9865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.