بسنت اور بسنتی

دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہو گا جو خوش رہنا نہ چاہتا ہو اور یہ خوشیاں محتاج ہوتی ہیں، مختلف قسم کے تہواروں کی، یہ تہوار ہی ہیں جن کی بدولت اپنے پیاروں سے ملنے کا موقع میسر آتا ہے۔ دنیا کی تاریخ تہواروں اور ان سے منسلک تہذیبوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر مذہب کے رہبر نے اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے انہی تہواروں کا سہارا لیا۔ اسلامی تاریخ بھی بہت سے تہواروں سے مذین ہے۔ عیدالاضحیٰ، عید میلاد النبیﷺ، شب ِمعراج اور شبِ قدر اسلامی تہذیب کے درخشاں ستارے ہیں جو خوشیاں بکھیرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاںہے کہ جب جب ایک تہذیب کے لوگوں نے دوسری کی ثقافت اور تہواروں کا رنگ لیا تو وہ اپنی تہذیب سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالار جب ایک قوم کو فتح کرنے میں ناکام ہو جائیں تو یہ ایک ایسا تیر ہے جو کبھی ناکام نہیں لوٹتا۔ جس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ہماری قوم کو اغیار کے پھینکے ہوئے جال میں کود پڑنے میں جو مزہ آتا ہے وہ اور کہاں، ویلنٹائن ڈے میں جام چھلکانے کے بعد، اپریل فومل میں اپنی قوم کا مذاق اڑانے کے بعد، اب بسنت میں آسمان کورنگیلاکرنے چڑھ دوڑے ہیں۔ مانا کہ یہ تہوار خوشیوں کا منبع ہے، لیکن جب انہی کی بدولت انسانی جانوں کا ضیاع ہونے لگے تو شاید ہی کوئی بے وقوف ہو گا جو ان کی حمایت کرے گا؟

کچھ ایسا ہی حال اب سرزمین پاکستان کا ہے۔ جہاں پر گزشتہ پنجاب حکومت نے بسنت اور پتنگ بازی پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ یہ پابندی جن وجوہات پر لگائی ان کو مدنظر رکھ کر ہر انسان اس فیصلے کی تائید میں سرتسلیم خم کرتا ہے۔ کیونکہ بہرحال پاکستان میں مسلمان بستے ہیں اور وہ یہ حدیث بخوبی جانتے ہیں کہ جس کا مفہوم ہے کہ: ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہے۔“ چنانچہ عوام نے جناب شہباز شریف کے اس فیصلے کو کچھ نے دل سے مانا اور قدر کی نگاہ دی تو کچھ نے با امر مجبوری اس کی تائید کی۔ لیکن یہ کیا چند دن میں پورے کا پورا منظر ہی بدل گیا ایک صاحب آئے اور وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہی بسنت کو منانے کا اعلان کر ڈالا۔

قطع نظر اس کے کہ اس خونی کھیل کی بھینٹ چڑھے خاندانوں کے آنسو ابھی رخسار سے زمین بوس بھی نہ ہو پائے تھے، ابھی تو وہ اپنے پیاروں کی گردنوں سے پھوٹتے لہو سے رنگ جانے والی ہتھیلی کو بے رنگ نہیں کر پائے تھے۔ اس فیصلے کا ابھی چونکہ باقاعدہ اعلان تو نہیں ہو پایا ہے مگر بسنتی (بسنت منانے والے) بہت پُر جوش ہیں خون کی ہولی کھیلنے کے لیے۔ اپنا سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔جب یہ سنتا ہوں کہ اس پیشے سے منسلک لوگوں کا روزگار ٹھپ ہوا پڑا ہے اور ان کاروزگار بحال کرنا ضروری ہے۔ نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے جناب بسنتی صاحب! روزگار بم دھماکے کرنے والوں کا بھی زوال پذیر ہوتا ہے۔ جب کوئی محب وطن افسران کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جاتا ہے۔ روزگار تو خوکش دھماکے کرنے والوں کا بھی متاثر نہ ہونے دیں کیونکہ انھوں نے بھی تو رقم بٹورنی ہوتی ہے۔ روزگار تو ٹارگٹ کلنگ والوں کا بھی ہے جو سپاری لے کر کام تمام کرتے ہیں، روزگار تو شراب فروش کا بھی ہے اور روزگار تو جسم فروش کا بھی ہے تو پھر دے دیجیے ان کو آزادی کہ وہ اپنا روزگار چلائیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں اور پھر اُمید رکھیں کہ اس پیسے سے وہ پاکستان کے حالات بدلتے جائیں گے۔ بسنتی نے یہ بھی کہا کہ حادثات ہوتے رہتے ہیں تو لے چلیں انھیں پنجاب دارلخلافہ لاہور کے علاقہ ریس کورس میں اور بٹھا دیجیے دوسری کلاس کے طالب علم وسیم کی دُکھیاری ماں کے سامنے جس کا لخت جگر اس بھیانک کھیل کی بھینٹ چڑھ گیا تا کہ انھیں حادثہ کے بعد دنیا کا بدلتا منظر بھی دیکھنے کو ملے۔ یہ بسنتی خوشیاں بانٹنے میں اس قدر مگن ہیں کہ انھیں نبی مہربان ﷺکے یہ الفاظ بھی یاد نہیں کہ جن میں آپﷺ نے فرمایا:” قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ایک مومن آدمی کا قتل اللہ کے نزدیک ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ بھاری ہے۔“ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار این ۔جی ۔اوز جو صبح شام انسانیت کا پرچار کرتے نہیں تھکتیں اور اسلام کو بدنام کرنے میں دشمنِ اسلام کے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں۔ سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔ بولیں بھی تو کیسے۔ انھیں اس کام کی تو اجرت دی نہیں گئی تو وہ یہ کام کیوں سر انجام دیں۔ ان کے فرائض میں تو طالبان کے ہاتھوں تذلیل کا شکار ہونے والی خاتون کوانصاف دلانا ہے۔ اگر ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا جائے تو ان میں رمشا مسیح کو دودھ پیتی بچی ثابت کرنا ہے بھلے وہ خود دودھ پلانے کی پوزیشن میں ہو اور انھیں تو ملالہ کو قوم کی آواز بنانا ہے چاہے اس کے لیے کئی ماﺅں کی ملالاﺅں کی بلّی دینی پڑے۔

خدا را! ہوش کے ناخن لیں کسی دوسرے کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اس گڑھے میں آن گرتا ہے۔ خدانخواستہ کسی بسنتی کی ڈور کا شکار اس کا اپنا بھی ہو سکتا ہے اور اس جان لیوا ڈور کو بنانے والوں سے بھی درخواست ہے کہ باز آجائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آگ لگ جائے گھر کو گھر کے چراغ سے۔ میری وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ وہ ماﺅں کے لخت جگر، بہنوں کے بھائی، بھائیوں کے دست و بازو اوروالدین کا سہارا نہ چھینیں اور حسب روایت بسنت پر پابندی برقرار رکھیں تا کہ ملکِ سر زمین کے وہ شہری جو بم دھماکے کے، ٹارگٹ کلنگ اور غرب سے اپنی جان بچا لینے میں کامیاب ہیں وہ اس ناگہانی آفت کی بھینٹ نہ چڑھیں۔
Fareed Razaqi
About the Author: Fareed Razaqi Read More Articles by Fareed Razaqi: 15 Articles with 11125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.