اسلام عالم گیر مذہب ہے۔ اسلامی
تعلیمات اس بات پر گواہ ہیں کہ جو بھی انہیں اپناتا ہے وہ ترقی کی منازل طے
کرتے ہوئے اپنی زندگی کے اندر ایک ایسا انقلاب برپا کرتا ہے کہ وہ فراز کی
بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی روشن تعلیمات سے اعراض
کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لوگ نشیب کے اندر ایسے گرتے ہیں کہ ان
گہرائیوں اور پستیوں سے نکلنا ان کے لئے دشوار ہو جاتا ہے۔ اسلام نے ہر چیز
کو چاہے وہ قول سے متعلق ہو یا فعل سے، بالفاظ دیگر اس کا تعلق زبان سے ہو
یا عمل سے ہو۔ ہر چیز کے منفی و مثبت پہلوﺅں کو واضح کر دیا ہے۔ مجموعی طور
پر اگر بنظرِ غور ان تعلیمات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی
طرح عیاں ہوجاتی ہے ۔ کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک جسم کی مانند
دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے دین اسلام نے اپنے پیروکاروں کو پر اچھائی و برائی
کی تنبیہ کر دی ہے۔ ان برائیوں میں سے ایک زہریلی بیماری جھوٹ ناصرف خود
بیماری ہے بلکہ بے شمار بہت سی اخلاقی ہمدردیوں کا سبب بنتا ہے۔ شریعت کے
اندر اس عمل کی قباحت کی وجہ سے جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت وار د ہوئی ہے۔
جھوٹ بولنے والوں کو اللہ کی لعنت کا مستحق ٹھرایا گیا ہے۔ جھوٹ مطلقاََ
بولنا حرام ہے اور وہ چاہے مذاقاََ ہو حقیقتاََ ہو۔ اللہ نے قرآن میں
فرمایا ہے: ” یقینا اللہ تعالیٰ ان لوگو کو( تمام معاملات میں) سیدھا راستہ
نہیں دکھاتاجو جھوٹا اورحق سے انکارکرنے والا ہو۔“(الزمر:3)لیکن ہم اپنی
زندگیوں میں نظر دوڑائیں ہم اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیئے جھوٹ کاکثرت
سے استعمال کرتے ہیں مگر ہمارے معاملات درست ہونے کے بجائے بگڑتے ہی جاتے
ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کہ حکم کو مان کر جھوٹ کو ترک نہیں کیا۔جھوٹ
کو ترک کرنا مومنوں کی صفات میں ایک صفت ہے ۔جیسا کہ جناب محمد ﷺسے سوال
کیا گیا:”کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟“آپﷺنے فرمایا :”ہاں“پھر دریافت کیا
گیا :”کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟“فرمایا:”ہاں“پھر پوچھا گیا :”کیا مومن
جھوٹا ہو سکتا ہے؟“فرمایا :”نہیں(جھوٹ بولنا مومن کی شایان ِشان
نہیں)“(موطا امام مالک)لیکن ہمارے معاشرے میں جھوٹ بولنا عادت بنا لیا گیا
ہے۔اور یہ حقیقتاََیا مزاقاََبولا جا رہا ہے۔جب کسی کو جھوٹ بولنے سے منع
کیا جائے تو جواب ملتا کہ ”جناب میں تو مزاق کر رہا تھا ۔“لیکن نا جا نے
کیوں ہم مزاقاََاپنی آخرت برباد کررہے ہیں ۔جو شخص دوسروں کو ہنسانے کے
لیئے جھوٹ بولے وہ چاہے زبان سے ہو یا SMSکے ذریعے اس کے بارے میں دل تھا م
کر فرمان رسول ﷺپڑھ لیجئے۔ہلاک ہو جائے وہ شخص جو لوگو کو ہنسانے کے لئے
جھوٹ بولتا ہے وہ پھر ہلاک ہو جائے وہ تباہ وبرباد ہو جائے۔“(رواہ ابوداﺅد)اب
کچھ لوگ جھوٹ بولتے تو نہیں مگر دوسروں سے جھوٹے لطیفے ،قصے ،کہانیاں،اسٹیج
ڈرامے،ناول وغیرہ پڑھ اور سن کر بہت محفوظ ہوتے ہیں۔بچوں کو نصیحت کرنے کے
لیئے جھوٹی کہانیوں کاسہارا لیا جاتا ہے۔یا سب جہالت کی وجہ سے ہے۔تاریخ
اِسلام حقیقی روشن کارناموںسے بھری پڑی ہے۔اس میں بہت ہی پندونصاح اوراسباق
پوشیدہ ہیں ۔مگر دین سے دوری کی وجہ سے بچوں کو اسلامی واقعات سنانا تو
درکنار بڑے بھی ان سے واقف تک نہیں ۔پھر بھی ہم اپنے بچوں کہ بگڑنے سے
ناداں ہیں ۔اور انہیں ٹوکتے اور ڈانٹتے رہتے ہیں ۔حالانکہ ہم اس میں برابر
کہ قصور وارہیں ۔اس لیئے ہم اپنے بچوں کومسلم حکمرانوں اور نوجوانوں کی
بہادری کے حقیقی واقعات سنائیں تاکہ ان میں نصیحت کے حصول کے ساتھ ساتھ
ایمان بھی پختہ ہو اور بہادری بھی آئے۔ویسے بھی اب ہمارے لیئے مختلف مکتبا
ت مثلاََدا رالسلام ،دارالاندلس اور ان کے علاوہ بھی کئی مکتبات نے بچوں کی
سیریز کے نام اسلامی واقعات پر مشتمل کتب ،سی ڈیزوغیرہ متعارف کراکر آسانی
پیدا کردی ہے۔لہٰذا جھوٹے ناولوں اور کہانیوں کی بجائے بچوں کو اسلامی
سیریز خرید کر دیں۔اور جھوٹ سے کنا رہ کشی اختیار کریں ۔اسلام نے جھوٹ
بولنے کہ ساتھ اس کے سننے سے بھی منع کیا ہے ۔اللہ تعالٰی قرآنِ کریم میں
ارشاد فرما رہے ہیں:”اور جب آپ لوگوں کو دیکھیں کہ وہ ہماری آیات میں مشغول
ہیں (انہیں جھوٹے قصے کہ کر نشانہِ تحقیر بنارہے ہیں)توآپ وہاں سے چلے
جائیں یہاں تک کہ وہ لوگ دوسری باتوں میں مشغول ہو جائیںاوراگر آپ کو شیطان
بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ہرگز ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھیں۔
(الانعام:68)جھوٹ بولنا مطلقاََقبیح عمل ہے مگر جب اللہ اور اس کے رسول ﷺپر
بولا جائے تویہ فوراََعذابِ الٰہی کو دعوت دینے والا عمل ہے۔ ہم اس میں بھی
دانستہ یانادانستہ طور پر مشغول نظر آتے ہیں۔اس کی صورت یہ ہے کہ ہم قرآن
وحدیث کی حقیقی تعلیمات کو یہ کہ کر ترک کردیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان
پر عمل ممکن نہیں۔پھر ہم قرآن و حدیث کے علاوہ پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔اس
وقت مسلمانوں کی اکثریت حقیقی اسلام سے دور نظرآتی ہے۔ایسے لوگو کے بارے
میں قرآن میں یہ حکم آیا ہے۔”جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں یقینا
وہ(دنیا وآخرت میں)کامیاب نہیں ہوں گے۔(ایسے جھوٹ کا )فائدہ تو تھوڑا ہے
مگر (دنیا وآخرت )میں ان جھوٹوں کے لیئے دردناک عذاب تیا ر کردیا گیا ہے۔(النحل:116,117)اور
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:”جو شخص جانتے بوجھتے مجھ پر جھوٹ بولے تو وہ
یقین کرلے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔(بخاری/مسلم)اس حدیث کی زد میں تما م
جدید لوگ جو شریعت کو ناقص سمجھتے ہیں اور غیروں کی تعلیما ت ہر عمل پیرا
ہو چکے ہیں آجاتے ہیں۔اسی طرح کاروباری حضرات کی طرف نظر دوڑائی جائے تو
نظر آتا ہے کہ کاروباری حضرات جب تک جھوٹ نہ بولیں انہیں کاروبار چمکتا نظر
نہیں آتا۔ان کے بارے میں بھی یہ سخت وعید آئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں کہ روزِقیامت اللہ تعالٰی نہ ان سے بات کرے گا اور
نہ ان کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا بلکہ ان کے لیئے سخت دردناک عذاب ہے:(۱)اپنے
ازار(شلوار،تہ بندیا پینٹ وغیرہ)کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا(۲)کسی پر
احسان کرکے اسے جتلانے (ذلیل کرنے)والا(۳)جھوٹی قسم کھاکر اپنا مال بیچنے
والا(مسلم)اسی طرح گھروں میںخواتین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عادتاََاپنے بچوں
کو بلانے کے لیئے جھوٹ بولتی ہیں۔مگر جب بچہ پاس آتا ہے تو اسے کچھ بھی
نہیں دیا جاتا۔تو یہ بھی جھوٹ ہے ۔جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ
نے بیان فرمایا کہ ایک دن رسول اللہﷺہمارے گھر تشریف لائے ۔اسی دوران میری
ماں نے مجھے بلایا اور کہا ”آﺅ !تمہیں کچھ دونگی۔“تو آپ ﷺنے پوچھا :”کہ تم
نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟“کہنے لگیں:”کھجوردینے کا“آپ نے فرمایا :”اگر
تم انہیں کچھ نہ دیتیں تو یہ تمہارے حق میں جھوٹ لکھ دیا جاتا“(ابو داﺅد)جھوٹ
بولنا اتنی بری صفت ہے کہ یہ منافقین کی صفت میں شمار کی گئی ہے۔جیسا کہ
حدیث مبارکہ میں منافقین کی صفات بیان کی گئیں ہیں :(۱)جب بات کرے تو جھوٹ
بولے۔(۲)جب بھی وعدہ کرے تو جھوٹ بولے۔(۳)اسے امانت دی جائے تو اس میں
خیانت کرتا ہے۔(بخاری)اسی طرح رسول اللہﷺنے اپنے ایک صحابی ابوبکرہ رضی
اللہ عنہ سے فرمایا :”کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتلاﺅں؟یہ
بات آپ نے تین بار ارشاد فرمائی ۔تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے
فرمایا :”کیوں نہیں ضرور بتلائیں۔“آپ نے فرمایا:”اللہ کے ساتھ کسی اور کو
برابر ٹھہرانااور والدین کی نافرمانی کرنا۔آپﷺ نے کسی چیز کا سہارا لیا ہو
ا تھا پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اورفرمانے لگے:”خبر دار جھوٹی بات اور
جھوٹی گواہی سے بچو،خبر دار جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرو یہ
الفاظ آپﷺ نے بار بار دہرائے۔صحابی فرماتے ہیں کہا آپ نے یہ الفاظ اتنی بار
دہرائے کہ میں دل میں خواہش کی کاش اب تو بس آپ خاموش ہو جائیں“(بخاری:5976)تو
اس حدیث سے جھوٹ کی کراہت معلوم ہوتی ہے کہ یہ کتنا قبیح عمل ہے۔اس لیئے تو
یہ جھنم میں لے جانے کاسبب بنتا ہے۔جیسا حدیث مبارکہ میں آتا ہے:”کہ تم
جھوٹ سے ہمیشہ بچو کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں
پہنچا دیتے ہیں اور ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کی تگ ودو میں لگا
رہتا ہے تو اللہ کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والاہے۔(مسلم:2607)اس
لیئے جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دے کر اس سے بچنے کاحکم دیا ہے۔جو
لوگ جھوٹ جیسے قبیح فعل کو ترک کر دیتے ہیں وہ دنیاو آخرت کامیاب ہو جاتے
ہیں ۔جھوٹ بولنا تمام مواقع پر منع سوائے چند شرعی مصلحتوں کی بناپر تین
مواقع پر جھوٹ بولنا جائز قرار دے دیا گیا ہے ۔وہ تین مواقع یہ ہیں ۔سیدہ
امِ کلثوم رضی اللہ تعا لٰی عنھا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:”میں نے لوگو
ں کوان باتوںمیں سے جو وہ (جھوٹ کو جائزقراردینے کے لیئے) کہتے ہیں۔کسی
جھوٹی بات کی اجازت دیتے ہوئے رسول اللہﷺکو نہیں سنا سوائے تین مواقع
پر(۱)جنگ کے دوران(۲)لوگو کے درمیان اصلاح کروانے کے لیئے(۳)میاں بیوی کے
درمیا ن صلح کروانے کے لیئے۔(مسلم:2605)ان تین مقامات پر اس مصلحت کے تحت
جھوٹ بولنا جائز ہے کہ مومنوں کے آپس میں تعلقات عمدہ رہیں۔ورنہ
مطلقاََجھوٹ بولنا حرام ہے۔تواس طرح جھوٹ کی قباحت قارئین پر واضح ہو چکی
ہے۔لہٰذا وہ لوگ جو جھوٹ بول کربول کر ضلالت وگمراہی کے اندھیروں میں ڈوب
چکے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں۔جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کریں اور سچ
کے دامن کوتھام لیں کامیابی ان کا مقدر بن جائے گی۔ان شاءاللہ |