میں نے زندگی میں کیا سیکھا، کیا سمجھا۔قسط نمبر ۲

ٹھہرو،اپنےخیال پر اتنےنہ ڈٹےرہوکہ پاگل ہو جاوّ۔تمھاراکام صرف خواہش کرنا ہے اوربس۔ہوتاوہی ہے جو اس خدا کو منطورہوتاہے۔ہماراچاہانہیں ہوتا کیونکہ ہم کٹھ پتلی ہیں،مٹی ہیں،روبوٹ ہیں۔کر توسب کچھ وہی رہا ہےہم نہیں۔لیکن مایوس نہ ہو،مایوسی گناہ ہے۔خیال بھی وہی ڈالتا ہے اور پورا بھی وہی کرتا ہے۔وہ ہمیں باور کراتا ہے کہ دیکھوتم کچھ نہیں،میں ہوں سب کچھ۔میں تم پرفضل وکرم نہ کروں تو تم کیا کر سکتے ہو۔مجھ پر بھروسہ کرو،میں ہر وقت تمھارے ساتھ ہوں۔مجھ سے مانگو۔

ہاں البتہ اگر تم حق پر ہو تو پھر ڈٹےرہو اور کسی کی نکتہ چینی سے نہ ڈرو۔اور یہ خیال تک نہ کرو کہ لوگ
کیا کہتے ہیں۔کوئی دوسرا نہیں،انسان اپنا نفع نقصان آپ کرتا ہے۔اپنی عزت ذلت،اپنی خوشی غمی خود بناتا ہے۔حتٰی کہ اپنی جنت دوزخ بھی خود بناتا ہے۔آگے کوئی جنت یا دوزخ بنی ہوئی نہیں ہے۔سو آپ ہی اپنا محاسبہ کرو۔اپنا لائحہ عمل خود مرتب کرو اور آج سے اور ابھی سے عمل شروع کرو۔معجزات کا انتظار نہ کرو، یہ کچھ جھوٹ،کچھ پروپیگینڈا ہوتے ہیں اور کچھ سچ۔سچی بات تو یہ ہے کہ جب انسان ایک نصب العین بناتا اور اس پر عمل کرتا ہے تو معجزات بھی ظہور پذیر ہونے لگتے ہیں۔

آپ جہاں دلچسپی لیتے ہیں وہاں آپ کو خوشی بھی ملتی ہے اور روحانی توانائی بھی۔خوب سوچ سمجھ کر اور دل جمعی سے کام کریں، کامیابی آپ کی منتظر ہوتی ہے۔سوچ،فکر اور کامیابی کسی کی میراث نہیں۔ہمارا چرواہا اور مالک ہمارا خدا ہے۔وہ ہمیں بھوکا نہیں رکھتا۔وہ ہمیں سر سبز چراگاہوں اورمیٹھے پانی کے ٹھنڈےچشموں یعنی اچھے،مخلص اور نیک لوگوں کے پاس لے جاتا ہےجہاں سے ہمیں ہمارا رزق،علم و حکمت و دانا ئی ملتی ہے۔ اگر اپنا رخ اس کی طرف موڑ لو گے اور دل میں کسی قسم کا فکرو غم نہیں کرو گےتو وہ تمہیں اپنا بنالے گا اور خود تمھارا حصہ تمہیں دے گااور تمھاری حفاظت کرے گا۔

اپنےمتعلق اتنی سنجیدگی و رنجیدگی سے نہ سوچو۔ خدا نے تمہیں بہترین) فی احسنِ تقویم( بنایا ہے۔وہ تم سے وہی کرائے گا جو وہ چاہے گا،اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہوگا۔خدا انسان کو ہر وقت نیا جذبہ، نئی روح اور نئی سوچ دیتا رہتا ہےتاہم یہ انسان پر ہے کہ وہ کس جذبے اور کس سوچ پر عمل کرتا ہے۔ہم اپنے بچوں کی جسمانی تربیت تو کرتے ہیں لیکن روحانی تربیت کو نظر انداز کر دیتےہیں۔سو یہ بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت و راہنمائی کریں۔

حقیقی خوشی دل کی خوشی ہے،یعنی خدا کو پانے اور اس کے دیدار کے خوشی کہ اس کی کوئی انتہا نہیں۔

دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا تم اپنے لئےچاہتےہوکہ وہ تمھارےجیسےہیں اور تم ان کے جیسے۔ اور خدا ہر ایک کے دل میں ہے۔ماں باپ اور بڑوں پر نکتۃ چینی کرنا بےوقوفی ہےکہ انہیں خدا نے ہم سے زیادہ مرتبہ دیا ہے۔

انسان کیلئے اس کا گھر،تن ڈھانپنے کیلئےکپڑا،دو وقت کی روٹی اورایک مخلص ساتھی ہی کافی ہے۔انسان دو باتیں چاہتا ہے،اول وہ سب کچھ حاصل کرے جو وہ چاہتا ہے،دوم ان چیزوں سےلطف اندوز ہو۔لیکن کم ہی لوگ ایسا کر پاتے ہیں کیونکہ وہ خودکو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں اور خدا کو بھول جاتے ہیں حالانکہ ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے۔

اپنی تکا لیف و مسائل کا شمار کرنے کےبجائےان بےشمار نعمتوں کا شمارکروجو خدا نےتمہیں عطا کر رکھی ہیں۔پس اپنےشکوےکو شکرمیں بدل دو۔وہی کرو جس کےمتعلق تمہارادل گواہی دےکہ یہ کام اچھا ہے۔تنقید کی پرواہ نہ کرو۔تنقید تو ایک قسم کی توصیف ہے۔

کسی کی برا ئی نہ کرو بلکہ اس کی اچھائی بیان کرو، اس طرح وہ خود بخود ٹھیک ہو جائےگا۔کیاتم نہیں دیکھتے کہ سکول ماسٹر شرارتی لڑکےکوہی کلاس کامانیٹر بناتاہےکہ وہ دوسروں کو ٹھیک کرے۔اس طرح سے نہ صرف اس لڑکے کی اصلاح ہوتی ہے بلکہ وہ ماسٹر کے قابو میں بھی آجاتاہے۔اسی لیےتوجناب غوث ا لاعظم حضرت عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ نےچور کو قطب بنا دیا تھا کہ وہ خود بھی ٹھیک ہو اور دوسروں کی بھی اصلاح کرے۔

مجھ سے ملنے والا ہر شخص مجھ سے اس لئے بہتر ہے کہ میں اس سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔ میں اپنے شاگردوں سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔میں برائی سے نفرت کرتا ہوں لیکن برے آدمی سے نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وقت ٹھیک ہو جائے اور میں خراب ہو جاوں۔ خدا کی ذات بڑی بے نیاز ہے، وہ کافر کو مسلمان اور بعض اوقات مسلمان کو بھی اس کے غرور کی وجہ سے کافر بنا دیتی ہے۔

اپنی ذات کا اظہار انسانی فطرت کی غالب ضرورت ہے۔خدا نےبھی اپنی ذات کے اظہار کیلئےکائنات بنائی اور اس میں طرح طرح کی مخلوقات پیدا کیں۔

تم لوگوں کو ان کا حق دو یعنی ان کو اہمیت دو، ان سے محبت کرو، ان کی دلچسپی و ضرورت کےمتعلق ان کی راہنمائی کرو تو وہ تمہیں تمہاراحق دیں گے یعنی تمہیں اہمیت دیں گے، تم سے محبت کریں گے اور تمہاری دلچسپی و ضرورت کےمتعلق تمہاری راہنمائی کریں گے۔

خدا لامحدود ذات ہےجو بےشمارصفات اور بےانتہاقدرت کا مالک ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائےکم ہے، جتنی بھی عبادت کی جائےکم ہے۔اس سے جتنی بھی محبت کی جائےکم ہے، اس کا جتنا بھی شکر کیا جائےکم ہے، اس سے جتنا بھی ڈرا جائےکم ہے، اس سے جتنی بھی امید رکھی جائےکم ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی جتنی بھی معرفت حاصل کی جائےکم ہے۔وہ ہماری عقل وعلم، سوچ و فکر اور وہم و گمان سے بہت دور ہے۔ اس لئے اگر تم خدا بنتے ہو تو شوق سے بنو لیکن یاد رہے کہ خدا نہ کھاتاہےنہ پیتاہےنہ سوتاہےبلکہ اسے اونگھ تک نہیں آتی۔وہ ہر ایک کی سنتا اورمددکرتاہے۔سب کوزندگی، حسن،صحت،جوانی اور نعمتیں دیتا ہے۔وہ کسی سےکچھ نہیں لیتا۔اور سب سےبڑھ کر یہ کہ نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی حساب نہیں۔سو اگر تمہیں اس کا بندہ بننا ہے تو اس کی فرماںبرداری کرنی پڑےگی اوراپنےاچھے و برے اعمال کاحساب دیناپڑےگا۔اور اگرمٹی بنناہےتو ہر قسم کی تنگی و سختی کو برداشت کرنا پڑےگا،اپناحق چھوڑناپڑےگاحتٰی کہ اپنےآپ کو،اپنےوجودکو۔
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 51968 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More