السلام علیکم: آج میں صرف اور صرف وطن عزیز کے طلبا اور مستقبل کے معماروں
سے اک سوال پوچھنا چاہتا ہوں پلیز اسے نہ صرف ٹھنڈے دل و دماغ سے پڑھیں
بلکہ اس کو سمجھنے کی کوشش بھی کریں۔
میرے وطن عزیز کے معمار آج کس راستے پہ چل پڑے ہیں جن کو صبح اسکول، کالج
اور یونیورسٹی میں ہونا چاہئے وہ مختلف پارکوں ،آئسکریم پارلر، ہوٹلز اور
ساحل سمندر کے کنارے نہ صرف اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں بلکہ اپنے
والدین کے اعتبار کو بھی ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔
آج ہم اسے روشن خیالی قرار دیتے ہیں اور اس کے حق میں جلسے جلوس اور ریلیاں
نکالتے ہیں کہ ہم روشن خیال ہیں۔ یاد رکھیں کوئی بھی معاشرہ یا تہذیب کبھی
بھی روشن خیالی کے خلاف نہیں لیکن روشن خیالی اور بے حیائی میں میں زمین
اور آسمان کا فرق ہے جو ہمیں نجانے کیوں نظر نہیں آتا اور نہ ہی ہم اسے
محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخر ہم نے ہر اک ٹیکنالوجی کا منفی رخ ہی کیوں استعمال کرنا شروع کردیا ہے
چاہئے وہ انٹرنیٹ ہو یا پھر موبائیل فون جن کے کیمروں کا منفی استعمال سب
سے زیادہ طلبا میں ہے۔
ہم ویلنٹائن ڈے کے حق میں بڑھ چڑھ کر دلائل دیتے ہیں لیکن سوچنا یہ ہے کہ
کیا ہمارا مذہب، معاشرہ یا ہماری تہذیب میں اس کی کوئی گنجائش ہے اگر ہے تو
پھر ہماری غیرت بہنوں اور بیٹیوں کے نام پر کیوں بھڑک اٹھتی ہے انہیں
ویلنٹائں ڈے منانے پر کیوں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سوچنا صرف یہ ہے کہ آخر ان معصوم ذہنوں میں یہ زہر کہاں سے آیا اور ان کی
ذمہ داری ہم کس پر ڈالیں والدین، اساتذہ یا پھر ماحول جس میں ٹی وی، ڈش،
کیبل اور سینما جیسے علم دشمن عناصر کو یا پھر موبائل کمپنیز کو جو صرف اور
صرف ایسے پیکیجز متعارف کرانے میں پیش پیش ہیں جن کا فائدہ تو شاید آٹے میں
نمک کے برابر ہو لیکن نقصانات کا اندازہ لگانے سے ہم قاصر ہیں۔
نوٹ: اس تحریر کا مقصد کسی شخص کا ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے
بلکہ صرف اور صرف اپنے وطن عزیز کے طلبا کے ذہنوں پہ چھائی ہوئی گرد کو صاف
کرنے کی اک حقیر سی کوشش ہے
کاش کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات
آپ کے جواب کا انتظآر رہے گا
شکریہ |