لا اکراہ فی الدین کا صحیح مفہوم

اسلام اور مسلمان اس وقت دنیا میں سب سے مظلوم ہیں کیوں کہ جہاں اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اس کے خلاف صف آراء ہیں وہیں خود اس کے نام لیوا بھی اس دانستہ و نادانستہ اس کے خلاف ہی عمل کر رہے ہیں۔ فارسی کا ایک مقولہ ہے کہ عذر گناہ بد تر از گناہ یعنی گناہ کا عذر تراشنا گناہ سے زیادہ بد تر ہے کیوں کہ اگر ایک فرد کوئی گناہ کرے گا اور اس کو یہ احساس ہوگا کہ میں نے یہ گناہ کیا ہے یہ غلط کام کیا ہے تو توقع ہے کہ اللہ اس کو توبہ کی مہلت اور ہدایت عطا فرمائے گا اور اس کا گناہ صرف اس کی ذات تک ہی محدود رہے گا لیکن اگر کوئی فرد گناہ کرنے کے بعد اس کا جواز تراشے گا تو اول تو چونکہ وہ خود کو حق بجانب سمجھ رہا ہوگا اس لیے اسے گناہ کا احساس ہی نہیں ہوگا اور وہ توبہ کرنے سے بھی محروم رہے گا دوسرا بڑا نقصان جو اس سے پیدا ہوگا کہ گناہ کا جواز تراشنے سے کتنے ہی لوگ اس کی بات کو حجت بنا کر وہ گناہ کریں گےاس طرح ایک تو وہ فرد کئی لوگوں کو گناہ میں مبتلا کرنے کا سبب بنے گا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ عذاب جاریہ کا بھی مستحق ہوگا۔

یہ تمہید بینا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں ہر فرد بزعم خود مفتی و مولانا بن جاتا ہے اور اسلامی احکامات کی من مانی تفسیر و تعبیر کرنا شروع کردیتا ہے۔بالخصوص جب کسی کو اسلامی احکامات کی پابندی کا کہا جائے تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ جناب دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ایسا کہنے والے دراصل اپنی کم علمی کا ثبوت دیتے ہیں۔کیوں کہ اس آیت کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے جو یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ پہلے ہم علماء کے نزدیک اس آیت کا کیا مفہوم ہے وہ بیان کرتے ہیں پھر اپنی بات کریں گے۔

یہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٦ کا ابتدائی حصہ ہے اور آیت الکرسی کے فوراً بعد ہے۔تفسیر ابن کثیر میں صفحہ نمبر ٤١٢ میں اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ (کسی کو جبراَ اسلام میں داخل نہ کرو، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہوچکی، اس کے دلائل و براہین بیان ہوچکے ہیں- پھر کسی پر جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا، جس کا سینہ کھلا ہوا، دل روشن اور آنکھیں بینا ہونگی تو وہ خود بخود اس کا والا و شیدا ہوجائے گا، ہاں اندھے دل والے۔ بہرے کانوں والے، پھوٹی آنکھوں والے۔اس سے دور رہیں گے-پھر اگر انہیں جبراَ اسلام میں داخل کیا بھی تو کیا فائدہ-کسی پر اسلام کے قبول کرانے کے لیے جبر اور زبردستی نہ کرو-اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو وہ نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنادیں گے، یہودیوں کے سپرد کردیں ۔اسی طرح انکے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے- جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین کے انصار بنے یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فری کاریوں سے نجات پانے کے لیے سرور رسل علیہماالسلام نے یہ حکم فرمایا کہ بنی نضیر کو یہودیوں کو جلاوطن کردیا جائے اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو انکے پاس تھے ان سے طلب کیے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنا لیں -اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنو سالم بن عوف کا ایک شخص حصینی نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا اس نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنالوں -ویسے تو یہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں۔اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کردی گئی)۔

اسی طرح مولانا سید ابو لاعلیٰ مودودی اپنی شہرہ آفاق تفہیم القرآن میں بیان کرتے ہیں تفہیم القرآن جلد اول صفحہ نمبر ١٩٦ پر اس آیت کی تشریح میں کہتے ہیں کہ ( یہاں دین سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے، اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے-اس آیت کا مطلب یہ ہےکہ اسلام کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جاسکتا ہے- یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر پر جبراً منڈھی جاسکے)۔

اسی طرح امام احمد رضا خان بریلوی صاحب اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ( صفات الہیہ کے بعد لا اکراہ فی الدین فرمانے میں یہ اشعار ہے کہ اب عاقل کے لیے قبول حق میں تامل کی کوئی وجہ باقی نہ رہی)
یہ تین مختلف علماء کی تفاسیر سے میں نے اس آیت کی تفسیر آپ لوگوں کے سامنے بیان کی ہے اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اسلام لانے کے بعد اسلام کے احکامات پر عمل کرنا جبر ہے بلکہ اس میں واضح طور پر یہی کہا گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلم نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن اگر ایک شخص ایمان لاتا ہے تو اب اس پر اسلامی احکامات کی پابندی لازمی ہوگی اس کے لیے اگر ذمہ داران کو سختی بھی کرنی پڑے گی تو وہ کریں گے۔اب یہ کہہ کر جان نہیں بچ سکتی کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ ہم اس بات کو کچھ مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کریں گے اللہ مجھے سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔دیکھیں ایک فرد صبح دس بجے سو کر اٹھتا ہے، گیارہ بجے ناشتہ کرتا ہے۔یہ اس کی روٹین ہے اب وہ ایک ادارے میں ملازم ہوجاتا ہے جہاں صبح آٹھ بجے پہنچنا لازمی ہے۔تو اسے اپنی ساری روٹین تبدیل کر کے صبح سویرے اٹھ کر کام پر جانا لازمی ہے کیوں کہ اب وہ ایک ادارے کا ملازم ہے اور اس ادارے کے تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا اس کے لیے لازم ہے۔اب اگر وہ فرد یہ کہے کہ میں ادارے کے کچھ اصولوں کو مانوں گا کچھ کو نہیں مانوں گا تو سیدھی سی بات ہے کہ مالک یا تو اس کو سختی سے ادارے کے قوانین کا پابند کرے گا یا اس کو نکال باہر کرے گا۔

اسی طرح ایک کالج یا تعیلمی ادارہ ہے اس کے اصول و ضوابط بہت سخت ہیں لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ میرا اس کالج سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جب میں اس کالج میں داخلہ لونگا تو اس کالج کے تمام اصول و ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہوگی اور اب اس کالج میں داخلے کے بعد میری مرضی ختم ہوگئی بلکہ میں اس کالج کی حدود میں اس کالج کے قوانین کا پابند ہوں۔اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری مرضی میں کالج کے اصولوں کو مانوں یا نہ مانوں۔اگر میں لگاتار کالج کے اصولوں کی خلاف ورزی کرونگا تو مجھے یا تو سختی سے کالج کے اصولوں کا پابند کیا جائے گا یا مجھے کالج سے باہر کردیا جائے گا۔اور میری اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کہ یہ ظلم ہے جبر ہے۔

تو بھائی میرے اسی طرح اللہ کا قانون ہے اگر کوئی فرد مسلمان ہے تو اس پر دین کے احکامات کی پابندی کرنا لازم ہوگی۔اگر وہ اسلامی احکامات کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی اسلامی حکومت ہو تو وہ ا س فرد کو سزا بھی دے گی۔

لا اکراہ فی الدین کا غلط مفہوم پیش کرنے والوں کے سامنے ہم ایک مثال رکھتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمایا ان کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ خلیفہ بنے ان کے دور میں ایک فتنہ منکرین زکات کا بھی تھا یہ ایک گروہ تھا جو کہتا تھا کہ ہم نماز پڑھیں گے، روزے رکھیں گے۔اور تمام اسلامی احکامات کی پابندی کریں گے لیکن ہم زکات نہیں دیں گے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے باقاعدہ جہاد کیا اور ان کو زکات کا پابند کیا تھا۔اب یہ جدید روشن خیال اس پر کیا کہیں گے؟

آخری بات کہ جو لوگ دین کے احکامت کو جبر کہتے ہیں ان کا دوغلا پن بھی ملاحظہ کریں۔اسلام کہتا ہے کہ سات سال کی عمر سے بچے کو نماز پڑھنے کی ترغیب دو اور دس سال کے بعد بھی اگر بچہ نماز نہ پڑھے تو اس پر سختی کرو اور اسکی پٹائی کر کے بھی اس کو نماز کا پابند بناؤ۔ روشن خیال اس پر فوراً کہیں گے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ لیکن ڈھائی سال کے بچے کو صبح اٹھا کر اسکول بھیجا جاتا ہے بچے رو رہے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ ان معصوم بچوں کو لازمی اسکول بھیجتے ہیں ان کے نزدیک یہ جبر نہیں ہے لیکن نماز کی پابندی کرنا جبر ہے۔اسلام لڑکا لڑکی کو پسند کی شادی کا حق دیتا ہے لیکن ولی کی اجازت بھی لازمی قرار دیتا ہے اب ہوتا یہ ہے کہ ولی کی اجازت لڑکی گھر والوں کی اجازت کے بغیر شادی کرلے تو کہا جائے کہ جی دین میں جبر نہیں ہے لیکن ولی کی اجازت کو ظلم کہا جاتا ہے۔

بہر حال میری کوشش تھی کہ میں اس بات کی وضاحت کرسکوں اس میں، میں کتنا کامیاب ہوتا ہو یہ تو آپ لوگ ہی بتائیں گے۔اللہ مجھے دین کے احکام سمجھنے سمجھانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین  
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1450570 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More