شروع کر رہا ہوں اپنے رب کے نام سے او ر اس
التجا سے کہ اے میرے رب جو میں کہنے جا رہا ہوں،اس کو اپنی پکڑ میں نہ لینا
کہ میں ایک بہت محدود علم والا، کم بصارت والا، کم بصیرت والا، کم حوصلے
والا، کم طاقت والا ایک کم ظرف شخص ہوں۔﴿کہ تیرا در گزر اور رحم ہی میری
دیدہ دلیر نا فرمانیوں سے باعثِ نجات ہے﴾
انسان عجیب ہی چیز ہے۔ یہ وہ مخلوق بن گئی ہے جس کو شاید اپنے ارد گرد،
اڑوس پڑوس، محلے اور گاؤں، شہر اور ملک، خطے اور پوری دنیا اور پھر اس دنیا
سے باہر کے سارے خلاؤں کے بارے میں جان لینے کا، معلومات حاصل کر لینے کا
فخر حاصل ہو چکا ہے۔ نہیں جانتا تو اپنے بارے میں۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ
ہے کہ اپنے بارے میں جاننا نہیں چاہتا۔ اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں تو
اسکی اقدار اسقدر گنجلک ہو چکی ہیں کہ سلجھانے نے کی کوشش میں جس ڈور کو
بھی پکڑتا ہے، وہ اسکو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور اپنی بنیاد کی اتھاہ
تاریکی میں گھسیٹ لے جاتی ہے۔
اس خالقِ بر حق نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اس کی اسکی نشونما کو ایک ایسی
ترتیب کے ساتھ مشروط ومربوط کر دیا جس کو مختصر اور جامع الفاظ میں معاشرہ
کہا جاتا ہے۔ اور انسانی معاشرے کی جامع تکمیل کے لئے دو عناصر ایسے تخلیق
فرما دیے اور کہا کہ اگر ان کو اپنا لے گا تو اپنے اندر اور باہر لاگو کر
لے گا تو اپنے خالق کی محبت پا لے گا۔اول حقوق اللہ،اور دوئم حقوق العباد۔
حقوق اللہ گو ہیں تو واضح مگر ہم نے بذاتِ خود اپنے مکروح دنیاوی مفادات کی
قیمت پر اور ہمارے تعلیمی نظام نے کسی اور کے مکروح مفادات میں دھندلا کر
رکھ دیے ہیں۔ میرے نزدیک بہت سادہ الفاظ میں میری ساری زندگی پر، میرے سانس
کے آنے جانے پر، میرے پلنے بڑھنے پر، میرے سیکھنے سکھانے پر، میرے کھانے
کمانے پر، میرے رہن سہن پر، میری شادی غمی پر، میری اولاد و جائیداد پر،
میری جوانی اور بڑھاپے پر، میری دوستیوں اور دشمنیوں پر غرض ہر رویے ہر چیز
پر اللہ کا حق ہے اور وہ بھی اللہ کے محبوب، ختم الرسل، حضرت محمد صلیٰ
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پر۔ ایک مسلمان کی تمام محبتوں پر اللہ اور
اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت کو فوقیت دینے کا حکم دے کر کوئی
حجت نہیں چھوڑی گئی۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس محبت کو جانچنے کا پیمانہ
اللہ ہی کے پاس ہے۔مگر کیا وقتِ وصال وہ پوچھے گا نہیں کہ ہجر کی لمبی لمبی
راتیں کیسے کاٹیں؟ کیا جواب دیں گے؟
حقوق العباد ،اپنے لغوی معنوں میں اللہ کے بندوں کے اللہ کے بندوں پر حقوق
ہیں۔ اللہ نے انسان کو انسان کے جوڑ ،ربط ، ملاپ ،وصال سے پیدا کیا ہے۔ یہ
چند الفاظ ہیں کہ جو اپنی تفسیر میں ایک گندھے ہوئے انسانی معاشرے کا پتہ
دیتے ہیں۔ ہر ایک انسان کی زندگی میں پلنے بڑھنے، سیکھنے سکھانے، کھانے
کمانے، رہن سہن، شادی غمی، اولاد و جائیداد، جوانی، بڑھاپا، دوستیاں اور
دشمنیاں وغیرہ سارے معاملات اس کی معاشرتی اصلیت کا عکس ہوتے ہیں۔ کسی بھی
معاشرے کا ہر انسان ایک اکائی کی مانند ہوتا ہے۔ دونوں کی مضبوطی یا کمزوری
باہم مربوط ہوتی ہے۔ ایک مضبوط معاشرہ اپنی ہر اکائی کو جوڑے رکھتا ہے۔ جڑے
رہنے میں مدد دیتا ہے۔ جہاں کسی معاشرے نے اپنی کسی اکائی کو نظر انداز
کرنا شروع کیا، وہیں سے اس معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اور وہ
اکائی اپنے ہی معاشرے سے بغاوت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اپنی ہی کسی اکائی
کو نظر انداز کرنا دراصل اس معاشرے کی بے حسی کی علامت ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب
معاشرہ اپنا حق ادا نہیں کرے گا تو۔۔۔اب کانٹا بو کر کسی پھل کی توقع کرنا
حماقت نہیں تو اور کیا ہے ۔اگر ہم احاطہ کرنا چاہیں کہ کون کون سی چیز ہے جو حقوق العباد کے زمرے میں
آتی ہے تو یہ ناممکن ہو گا۔ایک انسان کے پیدا ہونے سے ایک مخصوص مدت تک
زندگی گزارنے کے بعد مر جانے تک ان گنت معاشرتی مراحل و مسائل ہیں جن سے
انسان گزرتا ہے۔﴿چند جبلی تقاضوں پر مبنی مسائل کو چھوڑ کر﴾ ان کا ایک
سرسری جائزہ تو شاید ممکن ہو، مگر کسی کی ذاتی، نفسیاتی اور جذباتی کیفیات
کو کوئی بھی دوسرا شخص محیط کر سکے، یہ ناممکن ہے۔ صرف کیس ٹو کیس ہی ان کا
احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال کافی عرصہ پہلے میرے ذہن میں آیا تھا کہ اگر
انسان کا مثبت یا منفی پہلو بیان کرنا ہو یا مجموعی طور پر انسان کی برائی
یا اچھائی کا احاطہ کرنا ہو تو یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ ایک فرد کا مثبت
یا منفی پہلو دوسرے کے نزدیک بھی ویسا ہی ہے۔ بعض اوقات مستند اصول اور
ضابطے بھی لاگو کرنا مشکل ہو جاتے ہیں۔ایک طویل عرصہ کشمکش کے بعد یہ بات
سمجھ میں آ ہی گئی۔ بلکہ یوں کہیے کہ گمشدہ چیز مل گئی۔ کرہ ارض پر پھیلے
تمام متنوع معاشروں کے تمام انسانوں کے تمام مسائل کا ایک ہی حل، انصاف۔ یہ
وہ عنصر ہے جو کسی معاشرے کی کسی بھی اکائی کے مسائل کو اس کی ابتدائی حد
سے باہر نکلنے ہی نہیں دے گا۔
اب ہمیں صرف یہ تلاش کرنا ہے کہ یہ کام کرے کون کون اسکا اہل ہے۔ کون اس
ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برا ہو سکے گا۔ صرف اور صرف وہ شخص جو اپنے علاوہ
تمام انسانوں کو اپنی تمام حسیات کے شر سے محفوظ رکھ سکے۔ نہ دوسرے کا برا
بولے، نہ دوسرے کا برا سوچے، اسکے وجود سے کسی کو ضرر نہ پہنچے۔اسکا تزکیہ
نفس کمال کو پہنچا ہوا ہو۔ایسا صاحبِ کمال اس کائنات میں ربِ کائنات نے صرف
ایک ہی پیدا کیا ہے، اللہ کے محبوب، ختم الرسل، حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ
وآلہ وسلم۔چور کو اقبالِ جرم پر سزا کا حکم دینے کے بعد مصلا بچھا کر رونے
والا۔ اپنے چچا کے قاتل اور کلیجہ چبانے جیسی سنگدلی کو معاف کر دینے والا۔
ابو جہل جیسے دشمن کی مغلظات سن کر بھی اسکے لیے دعائیں کرنے والا۔ حتیٰ کہ
اپنی بیٹی کو یہ تنبیہ کرنے والا کہ میری نسبت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈال
دے اور اس جیسے لاتعداد واقعات یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ آپ﴿ صلیٰ اللہ علیہ
وآلہ وسلم﴾ جیسا غیر جانبدار، صاحب کردار، عالی ظرف منصف اس کرہ عرض نے نہ
دیکھا نہ سنا۔ اللہ نے انسان کو پیدا فرما کر کبھی بھی فراموش نہیں کیا۔اس
کی تربیت کے لیے نصاب اور صاحبِ نصاب دونوں کی ترویج کرتا رہا۔ اس نے اپنے
آخری کلامِ اور اپنے نبی آخر الزماں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ہم
تک معاشرتی کامیابی کا یہ نسخہ پہنچا دیا کہ تمہارا کوئی رشتہ ﴿ماں باپ،
بھائی بہن، عزیز قرابت دار﴾، کوئی مفاد، کوئی نقصان اس بات پر مجبور نہ
کردے کہ تم ناانصاف بن جاؤ۔
آج جب ہم اپنے معاشرے میں روز بروز پھیلتا ہوا بگاڑ دیکھتے ہیں، تو نہ جانے
ہمیں اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ یہ بگاڑ اس نظام کا ہے جس کو ہم نے
اپنا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو ہی لے لیں، اسلامی جمہوریہ
پاکستان۔اسلام کا پیوند ہم نے جمہوریت نامی نظام کے ساتھ لگا رکھا
ہے۔اسلامی تو خیر یہ نام کا ہی ہے ۔﴿ تاکہ روزِ قیامت ہم اپنے رب سے یہ کہہ
سکیں کہ جس اسلام کو تو نے اپنا دین کہا تھا یہ وہی ہے۔۔۔سبحان اللہ﴾۔ یہ
جمہوریت اگر وہی نظام ہے جس کی فسوں کاری ہم اقوامِ مغرب میں دیکھتے ہیں،
تو اس کے تو خمیر میں نا انصافی، دوغلا پن ،جھوٹ اور بے شرمی شامل ہے۔ بھلا
جس نظام میں ملوکیت کو ایک بنیادی جزو کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہو اور
تحفظ بھی دیا گیا ہو وہ کسی انسانی معاشرے کے لیے درست کیسے ہو سکتا ہے۔ جس
نظام میں حکومت حاصل کرنے کی دوڑ میںزبان درازی کی کھلی اجازت ہو، غیبت
جیسے گناہ کو شاندار روایات قرار دیتے ہوئے اپنے مدِ مقابل کے جبہ و دستار
کو تار تار کیا جائے، قول و فعل کے تضاد کو جمہوریت کا حسن کہا جائے،
الیکشن کی جس دوڑ میں سیاہ اور سفید سرمائے کے حامل افراد، مزارعوں اور
ہاریوں کا خون چوسنے والے وڈیروں اور زمینداروں، نوابزادوں، خانوادوں اور
خانقاہوں اور مزاروں کے مجاوروں،گدی نشینوں، پیروں اور مذہب کا کاروبار کر
کے اپنی چاندی بلکہ سونا بلکہ بلیک گولڈ بنانے والے ملاؤں کی آشیرباد کے
علاوہ کوئی حصہ نہ لے سکے۔۔۔
۔۔۔اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمتِ دیں میں ہوسِ جاہ کا راز۔۔۔
اور جس نظام میں ووٹ ڈال کر معصوم، شریف، عزت دار شخص کے ساتھ ساتھ ایک
مستند، چور، قاتل،ڈاکو، زانی، راشی،اور مرتشی شخص بھی ایک قوم کی، ایک ملک
کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں برابر شامل ہو، الیکشن کے بعد حکومتی پارٹی کو
پانچ سال تک سارے مزے چکھنے کی، لوٹ کھسوٹ کرنے کی کھلی چھٹی ہو، ساری
عدالتیں، سارے انتظامی ،تعلیمی دفاعی ادارے ان کے وزیروں کے ملازم بن جائیں۔
جو کچھ بھی وہ کریں کسی قسم کے ضابطے، احتساب اور عدالت سے پانچ سال کے لئے
بری الزمہ قرار دیے جائیں۔ کیونکہ ان کے لیے انصاف کا ترازو پانچ سال کے
بعد ہی مزین کیا جائے گا۔ ان کے لئے صرف وہی کٹہرہ ہے جس میں معصوم، شریف،
عزت دار شخص کے ساتھ ساتھ ایک مستند، چور، قاتل،ڈاکو، زانی، راشی،اور مرتشی
شخص بھی بصورتِ منصف ہو گا۔ آنکھیں کھولئے! یہ نظام چند انسانوں کا مجبور
انسانوں کو محکوم اور مجبور بنانے کا، جانوروں سے بھی بد تر، جنگلی نظام ہے۔
طرہ یہ کہ یہ میدانِ نا انصافی سجانے کے لئے ہمارے طالع آزماؤں نے پانچ سال
کا انتظار کبھی نہیں کیا۔ اور جس بیورو کریسی کو ہر حکومت کے وزراﺀ روزِ
اول سے اپنے باپ کا ملازم تصور کر کے رگیدنا شروع کرتے ہیں، وہی ان سے گلو
خلاصی کا بندوبست کرنا شروع کر دیتی ہے﴿اس کے بڑے عمدہ عمدہ نمونے ہمارے
ریکارڈ میں موجود ہیں﴾۔ اور یوں یہ پانچ سالہ پروگرام دو تین سال میں ہی
اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
اس بد قسمت ملک کی ساری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس ترازو کا پلڑہ جس
طرف بھی جھکا وہ اپنے ساتھ اس ملک کو بھی جھکا گیا۔ پھر میرے عزیز ہم وطنوں
ہوتا ہے۔ جھکی گردن پر فوجی بوٹ اپنی بدنیتی کے پورے وزن کے ساتھ رکھ دیا
جاتا ہے۔ جس جمہوریت کو فوجی جوتوں کے نیچے دس دس گیارہ گیارہ سال رگیدا
جاتا ہے، اسی کی گرد کو ملک اور عوام کے چہروں پر مل دیا جاتا ہے کہ یہ لو
نیا جمہوری ترازو۔
یہ سلسلہ ابھی اور کتنا چلنا ہے قرائن مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں بتاتے۔
جیسی فصل بوئی گئی، ویسا ہی پھل ہم کھا رہے ہیں۔اور جو کچھ ہم بو رہے ہیں
وہ بیج اسی پھل کا ہے جو ہم کھا چکے یا کھا رہے ہیں ۔ یہی ہمارا ورثہ
ہے۔ہمارے پچھلوں نے ہمارے لئے اور ہم نے اپنی اوراپنی اولاد اور آنیوالی
تمام متوقع نسلوں کے لئے اسی ضابطے کو لئے پسند کر لیا ہے۔ جیسا ہمارا علم
ویسا ہمارا عمل۔ کہ انسان کا عمل اور ردِ عمل اس کی تربیت اور تعلیم کا
آئینہ ہوتا ہے۔ورنہ اللہ کی تمام مخلوق اپنی اپنی جبلت کے مطابق اپنے
سروائیول، اپنی بقا کے لئے اپنی جدوجہد کو اپنے معاشرے کے قوائد وضوابط کے
مطابق ہی طے کرتی ہے۔ مگر ایک انسان شعور پکڑنے کے بعد اپنے ضمیر یعنی
کانشس کی طاقت سے، سچ اور جھوٹ ،حق اور باطل کو الگ الگ کر دیتا ہے۔ اگر
ایسا نہیں ہوتا تو ۔۔۔ہاں جانوروں میں ایسا نہیں ہوتا۔
جب ہم سب جانتے ہیں کہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ پلنے والا نہیں، چلنے
والا نہیں۔ تو معاف کیجیے گا۔۔۔جس ڈگر پے ہم چل رہے ہیں،اس کی منزل انصاف
نہیں، جس نظام کو ہم نے اپنا لیا ہے۔ یہ باطل ہے حق نہیں۔اگر آج ہمیں اپنے
رب سے، اپنے خالق سے اپنے لئے اپنے معاشرے کے لئے انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا
تو ایک لمحے کے لئے اپنے گریباں میں جھانک لیں، کہ ہم خود کیا ہیں۔
اگر ہمیں انصاف چاہیئے تو ہم پر انصاف کرنا بھی لازم ہے، کیونکہ ہمارا اخیر
بھی ترازو کے کسی ایک پلڑے میں ہی ہونا ہے۔ یہ ہمیں آج طے کرنا ہے کہ ہم اس
روز جھکے ہوئے پلڑے میں ہونگے یا اٹھے ہوئے میں۔ کسی مسئلے کے حل کے لیے
رجوع بھی اسی سے کیا جاتا ہے جس کے پاس اس کا حل ہو﴿میرا مطلب مذہب کے
دکاندار اور ٹھیکیدار ہر گز نہیں﴾۔اور ہم نے خوب رجوع کیا۔ ہماری اہلیت اور
خلوص کا پول تو اس بات سے کھل جاتا ہے کہ آزادی کے بعد ۶۲ سال ہم نے بغیر
کسی اصول اور ضابطے کے گزار دیئے۔ان ۶۲ سالوں میں ایک تو نظریہ پاکستان کو
شرقا غربا دفن کیا گیا۔ دوسرے ایک پوری نسل کو مفاد پرستی، خود غرضی سے بے
حس اور شترِبے مہار بنا دیا۔سب سے بڑھ کر ان ۶۲ سالوں میں سود کی شکل میں
اس امتِ محمدی میں جو تخمِ حرام ڈالا گیا، اس کے بعد ۔۔۔
وائے ناکامی !متاعِ کارواں جاتا رہا۔۔۔کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا
رہا
اب جو آئین بنا، اپنے بنیاد میں تضادات اور منافقت ۔اپنے نتائج میںرزقِ
حرام، لاقانونیت، مفاد پرستی اور حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کو قانونی تحفظ
فراہم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہاں اس میں تڑکے بہت کمال سے لگائے گئے
ہیں۔ کہ ہر طبقے کا منہ بند کر دیا گیا ہے۔ ہر زاہد ہر رند اسی کا دم بھرتا
ہے۔۔۔۔پاکستان کا مطلب کیا؟
اگر میں غلطی پر نہیں تو کیا پاکستان کی آزادی کی بنیادی وجہ یہی تھی نا کہ
ہندو ہم پر اللہ کے نظام اور رسولِ اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
تعلیمات پر عمل کرنے پر قدغن لگاتا ہے۔ ہندو ہم سے انصاف نہیں کرتا۔ ان دو
وجوہات میں سے ہندو کا لفظ ہٹا دیجئے تمام آئینی تڑکوں کے ساتھ سب کچھ ویسے
کا ویسا ہی ہے۔
آج ہندو سے آزادی کے بعد کونسی چیز ہے جو ہمیں اس بات سے منع کرتی ہے کہ ہم
اپنے ساتھ، اپنے معاشرے کے ساتھ، اپنے متعلقین کے ساتھ، حتیٰ کہ اللہ کی
ساری مخلوق کے ساتھ انصاف نہ کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے رب نے ہمارے لئے
تمام آلائشوں سے پاک، ایک مکمل اور جامع ضابطہ حیات اور آئین ترویج کر کے
اور اس آئین کی ہر شق کو حضور ﴿صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم﴾ کے ذریعے عملی
طور پر برحق اور جامع ثابت کر کے میں تمام اقوامِ علم میں ممتاز کرلینے کا
ذریعہ دیا ہے۔ ہدی اللمتقین کہہ کر اس نے یہ طے کر دیا ہے کہ علم صرف یہ
جاننے کا نام ہے کہ میرا رب کس حال میں مجھ سے کیا چاہتا ہے، اس کے علاوہ
جو کچھ ہے وہ زندگی گزارنے کے ہنر ہیں، انکی حیثیت ایک فن سے زیادہ کچھ
نہیں۔ایک منشی کے بہی کھاتوں سے کمپیوٹر تک ۔۔۔ایک گدھا گاڑی سے لے کر جہاز
اور چاند گاڑیوں تک۔۔۔ جڑی بوٹیوں سے لے کر فارماسیوٹیکل ریوولیوشن
تک۔۔۔کسان کے ہل سے لیکر ٹریکٹروں اور تھریشروں تک۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر
پتھر کے دور کے انسان کا، پتھر کے اوزار سے جانور شکار کرنے سے لے کر ڈیزی
کٹر اور ڈرون سے انسان کا وحشتناک شکار کرنے تک سب ہنر ہیں۔۔۔ اور یہ ہنر
بھی کس کی دین ہیں، اسی اللہ کی۔ بس وہ اتنا کہتا ہے کہ جب تو میری طرف
لوٹے گا، تو تیرا سب کیا تیرے نامہ اعمال میں ہوگا۔ جو میرے لئے اور مجھ سے
ڈر کر کیا وہ بھی اور مجھ سے نڈر ہو کر میرے غیر کے لیے کیا، وہ بھی ۔چاہے
وہ تیری ہنر مندی ہو یا بے ہنری۔ سب کسب اور سب بے کسب میرے ترازو میں
آجائے گا۔ سو مجھ سے ڈرتا رہے، میں تیرے لیے ہدایت کا در کھول دوں گا۔
۔۔ہدی اللمتقین ۔۔۔اور تو میرے دیے گئے ہر ہنر میں کامیاب و سرفراز ہو گا۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنی نظم انسان اور بزمِ قدرت میں فرماتے ہیں،
میں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر
جل گیا پھر میری تقدیر کا اختر کیونکر؟
نور سے دور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں؟
کیوں سیہ راز ، سیہ بخت ، سیہ کار ہوں میں؟۔۔۔۔۔
آہ اے رازِ عیاں کے نہ سمجھنے والے!
حلقہ دامِ تمنا میں الجھنے والے
ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابندِ مجاز
ناز زیبا تھا تجھے ۔ تو ہے مگر گرمِ اعجاز
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے پھر ، نہ سیہ کار رہے
پاک رکھ اپنی زباں تلمیذِ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو
آج ہم ناکامیوں اور گراوٹوں کا شکار ہیں، اور ہماری گردنوں پر سے ظلم اور
جبر کے طوق ہٹ نہیں رہے، کیونکہ ہماری اپنے اللہ کے ساتھ امیدیں محض دعاؤں
تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ پھر بھی ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ جس
ذاتِ اقدس سے ہم دعاؤں کی قبولیت کی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں اسکے لئے
ہمارے ایمان کی حالت کیا ہے۔۔۔ یہ اس کا فیصلہ ہے اور اٹل ہے کہ مغرور شخص
سے ایماں کوسوں دور ہوتا ہے۔اور مغرور لوگ اپنے گریبان میں کبھی نہیں
جھانکتے۔
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خُوگر ہیں
اُمتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر(ص)ہیں
by Raja Saeed Ahmed |