ضمیر کی آواز

آخر بھاگتی ہوئی زندگی سے فرصت نکال کر میں پاکستان پہنچ ہی گیا ۔لاہور ائیر پورٹ پر قدم رکھتے پاکستان کی مہکتی ہوئی خوشبو کو اچھی طرح اپنی سانسوں میں جزب کیا ۔موسم بہار کی آمد آمد تھی جس نے ماحول کوکافی خوبصورت بنایا ہوا تھا ۔میرے ساتھ مسافروں کو لینے اُ ن کے عزیز و اقارب آئے ہوئے تھے مگر میرا کوئی عزیز نہیں آیا تھا آتا بھی کیسے کسی کو یقین ہی کیسے ہو سکتا تھا کہ میں پاکستان آ سکتا ہوں ویسے بھی میرے عزیز تو گنے چنے سے ہی تھے ۔اماں اور ابا کے بعد ایک دور کی خالہ تھی ۔ائیرپورٹ سے با ہر نکل کر ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا اور ڈرائیور میرا اشارہ دیکھ کر ایک لمہے کی تاخیر کئے بغیر آگیا ۔جناب کہاں جائیں گئے آپ ڈرائیور نے پوچھا؟میں نے اُسے اپنے گاؤں کا نام بتایا اور کہا کہ وہاں تک جانے کے کتنے پیسے لو گئے جناب آپ جو مناسب ہوں و ہ دے دینا اُس نے جواب دیا میں چپ چاپ ٹیکسی میں بیٹھ گیا اور ٹیکسی چل پڑی ۔کب سے ٹیکسی چلا رہے ہو میرے سوال پر ڈرائیور نے پھیکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا جناب جب سے بڑا ہوا ہوں یہی کام کر رہا ہوں پہلے میرے والد کرتا تھا جب وہ بوڈھا ہو گیا تو اب یہ کام میں کر رہا ہوں ۔ڈرائیور شکل سے کافی مہذب نظر ا ٓ رہا تھا شاید کچھ پڑھا ہوا بھی تھا اُس کی آنکھوں میں معاشی تنگدستی واضح نظر آرہی تھی ۔میرا ذ ہن بے اختیار ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئے-

زندگی کہاں لے جاتی ہے کچھ پتا نہیں چلتا میرا گاؤں ہی میری کل دنیا ہوا کرتا تھا ۔میری شرارتوں نے گاؤں والوں کی ناک میں دم کیا ہوا تھا روز ہی کوئی نا کوئی میری شکایت لے کر ابا کے پاس پہنچ جاتا تھا اور کہتا تھا سمجھا لو اپنے لاڈلے بشیرے کو اور میرا ابا اُن سے کہتا تھا تو گھبرا نہ میں ابھی اُسے ٹھیک کرتا ہوں اور پھر مجھے ڈھونڈکر گھر لے جاتے تھے اور پیار سے کہتے تھے پتر بس کر اب تو بڑا ہو گیا ہے اور شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور اُن کے ہاتھ کا لمس اپنے سر پرمحسو س کر کے میں بہت خوش ہوتا تھا اور سوچتا تھا کہ گاؤں میں واحد لڑکا تھا میں جس کے ابا نے کبھی نہیں مارا تھاویسے بھی میں اپنے ما ں باپ کی آنکھوں کا تارا اکلوتا بیٹا تھا ۔اماں تو پھر مجھے دیکھ کر ہی جیتی تھی میں جب تک گھر واپس نہیں ا ٓ جاتا تھا وہ دروازے پر میری راہ ہی تکتی رہ جاتی تھی اور اماں تب تک کھانا نہیں کھاتی تھی جب تک مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلا تی نہیں تھی اور ابا کہتے تھے شبو اب یہ بڑا ہو گیا ہے اسے خود کھانے دیا کروتو اماں کہتی تھی میرے لیئے تو بچہ ہے اور جتنا بڑا ہو جائے بچہ ہی رہے گا ۔گاؤں میں ابا کی لوگ بہت عزت کرتے تھے کیونکہ ابا لوگوں کی مدد کرتے رہتے تھے جب سردارں بیمار ہو گئی جس کا کوئی بھی کمانے والا نہیں تھا تو ابا نے اس کی بیماری کا خرچ اُٹھایا تھا ۔گاؤں میں ابا کی جو زمین تھی وہ اچھی خاصی زرخیز تھی اور فصل خوب ہوتی تھی۔ابا کو مجھے پڑھانے کا خوب شوق تھا مجھے گاؤں کے اکلوتے مدرسے سے آٹھ جماعتیں کروانے کے بعد شہر میں خالہ کے پاس مزید پڑھنے کے لیئے بھیج دیا -

پھر شہر میں میڑک کے بعد کالج داخلہ لے لیا میرے لئے شہر کی دنیا بڑی عجیب تھی بڑی بڑی سڑکیں اور سڑکوں پر دوڑتی چم چماتی گاڈیاں مجھے بڑی اچھی لگتی تھی۔ایک دفعہ میرے ایک کلاس فیلو سے ملنے اُ س کا ایک دوست آیا وہ بڑی شاندار گاڈی پر آیا تھا میرے دوست نے بتایا کہ دیکھوں اس کا باہر کا ویزہ لگ گیا ہے اب اس کے وارے نیارے ہیں ۔تب مجھے پتا چل گیا جو لو گ باہر ولیت چلے جاتے ہیں وہ خوب پیسے کماتے ہیں اور شاہانہ زندگی گزارتے ہیں پھر میں نے بھی سوچ لیا چاہے جو کچھ مرضی ہو جائے میں باہر ولیت ضرور جاؤں گا کالج سے تعلیم مکمل ہونے پر میں گاؤں واپس آ ٓگیا اور آتے ہی اماں ابا کو ضد کرنے لگا مجھے باہر ولیت بھیجوں اور وہ میرا یہ مطالبہ سن کر بڑ ے پریشان ہو گئے اور ابا نے سمجھا یا پتر تجھے پتا ہے ہم تیرے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتے پھر تو کیوں ضد کر رہا ہے تیری ماں نے تو بڑے مشکل دن گزارے ہیں جب سے تو شہر گیا ہے اور اب تو باہر جانے کی بات کر رہا ہے تجھے کس چیز کی کمی ہے تیری اپنی زمین ہے اُسے سمبھال اور تجھے کیا چاہیے مگر میری آنکھوں میں جو باہر جانے کا نشہ چڑھا ہوا تھا وہ نہیں اترا شروع سے ہی ضدی تھا اپنی ہر بات منوانے والا آخر میری گھر سے چلا جانے کی دھمکی سن کر میرے ابا نے میرے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور آدھی زمین بیچ کر مجھے ولیت بھیج ہی دیا ۔گھر سے جاتے ہوئے اماں کے آنسو ہی نہیں رکتے تھے بار با ر کہتی تھی پتر جلدی واپس ا ٓجانا اور وہاں سے فون کرتے رہنا میں نے اماں کو کہا ہاں اور تیاری رکھنا میں جلدی آؤں گا پھر تجھے اور ابا کو ساتھ لے جاؤں گا مگر ابا نے مجھے کہا پترہمارا مرنا جینا اسی وطن میں ہے تو ولیت دیکھ کر آجا مگر ہمیں لے جانے کی با ت نہ کر یہ زمین کی خشبو ہی ہماری زندگی کی کل جمع پونجی ہے اور پھر کہا اپنا خیا ل رکھنا اور یاد رکھنا تیرا سب کچھ بھی تیرے اپنے وطن میں ہے۔پھر پورے گاؤں والوں سے مل کر میں ولیت روانہ ہو گیا ۔ولیت جا کر تو میری زندگی ہی بدل گئی شروع شروع میں ابا اور اماں کو فون کرتا رہا مگر پھر وہا ں کی تیز اور چمکیلی روشنیوں میں ایسا ڈوبا اور اندھی خواہشوں کی دلدل میں ایسا دھنسا کہ کچھ یاد نہیں رہا کہ میں پاکستان میں بھی رہتا تھا کبھی۔میرے اما ں ابا بھی ہوتے تھے پھر تانیہ بہرام سے شادی کر کے وہیں اپنے ڈیرے جما لئیے جب کافی عرصے بعد ابا کو فون کیا تو ابا نے کہا پتر لگتا ہے تو ہمیں بھول گیا ہے اتنے عرصے بعد تجھے ہماری یاد آئی ہے اب تجھے خدا کا واسطہ واپس ا ٓ جا تیری اماں تو تجھے یاد کر کرکے بیمار ہو گئی ہے اب مزید انتظار کی سکت باقی نہیں رہی اور زندگی میں پہلی بار میں نے ابا کو فون پر روتے ہوئے سنا اور پھر اماں سے بات کرتے تو اماں سے بات ہی نہیں ہو رہی تھی پھوٹ پھوٹ کر بس روئے جا رہی تھی میں نے واپس آنے کا دلاسہ دیا اور فون بند کر دیا اب میں انھیں کیا بتاتا کہ میری زندگی کے لوازمات میری بیوی اور بچے ہیں-

پھر ایک عرصہ بیت گیا میں نے فون پر ہی خبر نہ لی ۔پاکستان آنے سے پہلے تانیہ نے کہا تھا کہ کیا ضرورت ہے پاکستان جانے کی بچے آپ کے بغیر اُداس ہو جائیں گئے مگرجب میں نے یہ کہا کہ تانیہ میں بھی تو کسی کا بچہ ہوں جو ابھی تک میری راہ تک رہے ہیں پھر وہ خاموش ہو گئی ۔جناب آپ کا گاؤں ا ٓ گیا ہے ڈرائیور کی آواز جب میری سماعت سے ٹکرائی تو میں ماضی کے خیالوں اور سوچوں کے طوفان سے نکل کر حقیقت کی دنیامیں پہنچ گیا ۔ ۔گاؤں ویسے کا ویسا ہی تھا دھول مٹی اُڈاتی ٹیکسی ہرے بھرے کھیتوں کے قریب سے گزر رہی تھی جس میں میرا بچپن مسکرا رہا تھا اور میرا لڑکپن اٹھکلیا ں کر رہا تھا۔

زندگی کیسے اتنی تیزی سے کروٹ بدلتی ہے کچھ پتا نہیں چلتا مدرسے میں بچے پڑھ رہے تھے اور ماسٹر غلام رسول ہمیشہ کی طرح حقہ پیتے ہوئے بچوں کو اُونچی اُونچی آواز میں پڑھنے کو کہہ رہا تھا جب کہ شہتوت کی چھڑی اُس کے پاس پڑی تھی جس سے وہ ضدی بچوں کو ٹھیک کرتا تھا اب ماسٹر کا چہرہ بھی کافی عمر رسیدہ لگ رہا تھا بچے اپنا سبق بھول کر ٹیکسی کو دیکھنے لگ گئے میرا دل کیا ماسٹر سے سلام دعا کر لوں پھر سوچا اماں ابا سے ملنے کے بعد ہی ملوں گا ۔دیتو اپنی فصل کے پاس کھڑا مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا شا ید میری ولیت کی رنگت سے اُسے مجھے پہچاننے میں دشواری ہو رہی تھی۔دیتوکی فصل پر میں خوب ہلا گلا کرتا تھا بیچارے کی گنے کی فصل میرا ہمیشہ شکار رہتی تھی اُس منظر کو یاد کر کے بے ساختہ میرے لبوں پر ہلکی سی مسکان آگئی۔اس پہلی گلی میں موڑ لو میں نے ڈرائیور کو کہا۔اب ٹیکسی گاؤں کی گلیوں میں داخل ہو چکی تھی ۔گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچے ٹیکسی کے پیچھے بھاگنا شروع ہو گئے ادھر روک لوں ایک پکے سے مکان کی طرف اشارہ کر کے میں نے ڈر ائیور کو بتایا۔ٹیکسی سے نکل کر میں باہرآیا اور یادوں کے خوبصورت ادوار میرے دلوں و دماغ کو مسحور کرنے لگے ۔کچے پکے مکانات میرے گھر کے قریب اپنی جواں اُمیدوں کے ساتھ ویسے کہ ویسے ہی موجود تھے کچھ تبدیلی نہیں تھی ۔گھر کے دروازے پر پہنچا تو دراوازے پر لگا ہوا تالہ دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔چاچا پھتونے مجھے دیکھ لیا تھا جس کی( ہٹی ) دکان ہماری گلی میں موجو د تھی ۔اوئے بشیرے تو کب آیا -

چاچا پھتونے مجھے پہچان لیا تھا ۔تو نے بڑی دیر کر دی اب کیا لینے آیا ہے یہاں چاچا پھتو نے بڑے زخمی لہجے سے مجھے کہا ۔میں نے چاچا پھتو کے سوال کو نظر انداز کر کہ کہا چاچا یہ میرے گھر تالہ کیوں لگا ہوا ہے ۔اماں ابا کہا ں گئے ۔اماں ابا تیری راہ تکتے تکتے زندگی کی بازی ہار گئے بشیرے ۔چاچا پھتو کی بات سن کر میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی ۔ازیتوں کا طوفان میری آنکھوں میں اُمڈ آیا ۔میں ساکت کھڑا کسی مجرم کی طرح یہ دل ہلا دینے والی خبر سن رہا تھا ۔تیرا کوئی اتا پتا ہی نہیں تھا کہ تجھے خبر دیتے تیر ا اباکے مرنے کے بعد تیری اماں حوصلہ ہار بیٹھی اور انتظا ر لے کر اس دنیا سے چلی گئی جاتے ہوئے تجھے یہ پیغام دے گئی بشیرے کہ جب میرا پتر بشیرا آئے تو اُسے میری قبر پر ضرور آنے کا کہنا چاچا پھتو بتا یا جا رہا تھا اور غم اور سسکیاں میرے وجود کو چھلنی کر رہی تھی ۔ندامت کے شرمناک آنسو میری آنکھوں سے جاری تھے۔مجھے اپنے وجود سے گھن آ رہی تھی مامتا کے انتظار کو ،محبت اور پیار کی مٹھاس کو میں نے کھو دیا ۔باپ کی شفقت کا لمس اپنی زندگی کی مستیوں میں پامال کر دیا ۔ میں بوجھل قدموں سے چاچا پھتوکے ساتھ قبرستان چل پڑا اور اماں اور ابا کی قبر پر خوب دھاڑیں مار مار کر رویا ۔زندگی بھر اماں اور ابا نے مجھے خوشیا ں ہی خوشیاں دی اور میں نے اُن کو بے حسی اور سفاکی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔آنکھوں سے نکلنے والے زار قطار آنسو بھی میرے دامن پر لگے بے رحمی کے داغدار دھبوں کو کبھی دھو نہیں سکیں گئے ۔پورا دن اماں اور ابا کی قبر پرگزارنے کے بعد اپنی یادوں کے گھر واپس آیا اور پھر سامنے والی ماسی جیراں سے اپنے گھر کی چابی لے کر گھر داخل ہوا ۔تین کمروں پر مشتمل گھر کتنا پیار بھرا تھا جس میں اما ں اور ابا کی پیار بھری آوازیں گونجی تھی اور اب وہا ں سوائے میری بکھری ہوئی یادوں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔آہ کس طرح گزاریں ہوں گئے میرے انتظار کے دن یہ احساس اب جاگا جب میں نے اپنی زندگی کی بہاروں کو کھو دیا اور اب غم اور دکھ کے موسم ہمیشہ میری زندگی میں رہے گئے اور رہنے بھی چاہیے۔آہ ، ضمیر کی آواز نے جاگتے جاگتے بہت دیر کر دی آہ ،ضمیر کی آواز نے جاگتے جاگتے بہت دیر کر دی اتنا کہتے ہوئے میں نڈھال ہو کرگر پڑا۔
BabarNayab
About the Author: BabarNayab Read More Articles by BabarNayab: 26 Articles with 24402 views Babar Nayab cell no +9203007584427...My aim therefore is to develop this approach to life and to share it with others through everything I do. In term.. View More