بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش [افسانہ]۔

 ۔"اوے کاکا جلدی بند کڑ اِسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! آ ڑہا ہے ڑفیق استاد۔ ۔ ۔ ۔ ! اگڑ جو اُسے تمھاڑی کاڑستانی کا پتہ چل گیا نہ بچو، ہم دونوں ہی اپنی نوکڑی سے جائیں گے"۔

غفُورعرف گاما ہوٹل کے دروازے سے دوڑتا ہوا اندر آیا۔ رفیق استاد کے اندرونِ شہر لاہور کے مخصوص لہجے کی نقل اتارتے ہوئے کاؤنٹر پر بیٹھے مُشتاق کو جھنجوڑتے ہوِئے بولا جو اُس وقت ہوٹل کی فضاؤں میں گونجتے فلک شگاف فلمی آئٹم سانگ "نائٹ کی ناٹی کہانی، یہ ہلکٹ جوانی" کی دھماکےدار "ہلکٹ" تانوں پر آنکھیں نیم وا کئے مست ومگن جُھوم رہا تھا۔ گامے کے اُس ایک فقرے کے کانوں میں پڑتے ہی وہ کچھ یوں ہوش میں آ گیا جیسے راہ چلتا نشئی پولیس کو دیکھ لے اور گھڑی بھر میں اُس کا سارا نشہ ہرن ہو جائے۔ اُس کی نیم وا آنکھیں جو اب تک چشمِ تصور میں ہوٹل میں گونجتے گانے کے جملہ "ہلکٹ" نظارے دیکھنے میں مگن تھیں، یکایک چوڑی کھل گئیں اور اُن کی پُتلیاں تیزی وطراری کے ساتھ اِدھر اُدھر حرکت کرنے لگیں جیسے کوئی پرندہ زمین پر بکھرے دانوں کو چُگتے چُگتے کسی متوقعہ حملے سے آگاہ رہنے کے لیئے اپنی نگاہوں کو ہمہ وقت متحرک رکھتا ہے۔ چہرہ البتہ مکمل بدحواسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ کاؤنٹر پر رکھے اپنے دونوں ہاتھوں جِس سے ابھی وہ چند ہی لمحات پہلے گیت کی تانوں پر طبلے کی سنگت کر رہا تھا کو تیزی کے ساتھ حرکت دی اور کاؤنٹر کے نیچے سی ڈی پلیئر کو بند کرنے کے کی غرض سے ایک کَل کو اپنی انگلی سے دبا دیا۔ بدحواسی میں انگلی کسی اور ہی کَل پر جا پڑی۔ جس کے دبتے ہی چلتا ہوا گانا فوراً تبدیل ہوا اور اگلا گانا اُسی روزوشور سے گونجے لگا۔ کوئی منی صاحبہ تھیں جو حلق پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہی تھیں:- "منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیئے"۔ اب یہ وہ بات ہے کہ وہ نام نہاد منی گانے کے نام پر جس بیباکانہ انداز میں اور جو کچھ گارہی تھی وہ تو خود ہی بتا رہا تھا کہ وہ کتنی پارسا ہے اور اگر جو وہ بدنام نہ بھی ہوتی تو ایسا واہیات گیت گا کر ضرور ہوجاتی۔ ہڑبڑائے مُشتاق نے پھر بڑبونگ میں وہی حرکت کی جو وہ اِس سے قبل کرچکا تھا۔ نتیجتاً اب ایک دوسرا گانا اسپیکروں سے اُبلنا شروع ہوا: "بیڑی جلئی لے جگر سے پیاء، جگر ما بڑی آگ ہے"۔

۔"ابے بھیجہ گھوم گئے لا ہے کیا تیرا؟۔ بڑا منی جر بنا پھرتا ہے۔ استاد کا نام سُنتے ہی تیرے ہاتھوں کے توتے اڑ جاتے ہیں"۔ مُشتاق کی یہ ہیئت کزائی دیکھ گاما زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی اُس نے آگے بڑھ کر سی ڈی پلیئر کی درست کَل دبا کر اُسے بند کردیا اور سی ڈی نکال کر اپنی قمیض کی جیب میں ڈال لی۔ کچھ دیر پہلے تک مُشتاق جو گانے کی تانوں پر جُھوم جُھوم کر محظوظ ہورہا تھا، اب گانا بند ہونے پر یوں مطمئن دکھائی دے رہا تھا جیسے اب تک وہاں کوئی ہنگامہِ محشر بپا تھا جو یکایک کسی فرشتے کی جُنبشِ ابرُو سے یکسر موُقوف ہو گیا ہو۔

مکمل چاک وچوبند نظرآنے کی کوشیش میں مُشتاق نے کندھوں کو اُچکا کر چوڑا کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا اُنہیں مستعدی سے کاؤنٹر پر ٹکا کر اطراف میں پھیلی میزوں اور کرسیوں پر بیٹھے گاہکوں کا عُقابی نگاہوں سے یوں جائزہ لینے لگا کہ جیسے اگر زرا سی بھی چُوک ہوئی تو کوئی گاہگ چائے یا کھانے کا بل ادا کیے بناء ہی رفوچکر ہوجائے گا۔ گاما کاندھے پر پڑے تولیے سے کاونٹر پر زوروشور سے صافی مارنے لگا لیکن اُس کی ترچھی نگاہیں ہوٹل کے داخلی دروازے پر ہی ٹکی ہوئی تھیں جہاں سے کسی وقت بھی رفیق استاد کی آمد متوقع تھی۔

چند منٹوں کے بعد ہوٹل کے داخلی دروازے سے جو اندرون بھاٹی گیٹ، حکیماں والا بازار میں کُھلتا تھا ایک شخص داخل ہوتا نظر آیا۔ لگ بھک پچاس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود اپنی گھنی سیاہ مگر پریشان زُلفوں، اوسط سے چھوٹے قد، درمیانی مگر مضبوط وصحت مند کاٹھی سے چالیس سے ذیادہ کا کسی طور بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ سفید شلوار قمیض پر سلوٹوں کا ایک وسیع جال بچھا ہوا تھا۔ سانولی رنگت۔ آںکھوں پر گہرے سیاہ چشمے لگا رکھے تھے۔ گھنی کالی موچھوں میں اکا دکا کوئی چاندی کا تار جھانکتا نظر آ رہا تھا۔ ماتھے پر گرمی کی وجہ سے پسینہ بہہ رہا تھا۔ اپنی قمیض کی بغلی جیب سے رُومال نکال کر پسینہ پونچا اورچشمہ اتار کر سُرمہ بھری آنکھوں سے تمام میزوں کا سرسری سا جائزہ لیا۔ کم وبیش تمام ہی کرسیوں کو گاہکوں سے بھرا دیکھ کر یوں سر ہلایا جیسے اپنے اطمینان کا اظہار کررہا ہو۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا کاونٹر تک آیا۔ مُشتاق جو کہ اب نشست سے اٹھ کر قدرے مودبانہ انداز میں کاونٹر ہی کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا کی طرف دیکھ کر بولا: "ہاں کاکا مُشتاق، آج کاڑوباڑ کیسا جاڑہا ہے؟" "استاد دھندا تو بڑا دھانسو جا رے لا ہے۔ بولے تو جاکاس" مُشتاق بتیسی نکلتا ہوا بولا۔ "بیٹا کتنی باڑی کہا ہے کہ اتنی ہندی فلمیں نہ دیکھا کڑ۔ دیکھ تیڑی زبان کا کیسا ستیاناس ماڑ دیا ہے"۔ "جی رفیق استاد میں بھی اُس کُو یہ ہیج سمجھتا۔ بیڑو! فلم بِنداس دیکھ لیکن اپّن کا مافِق دل پہ نہیں لینے کا، کیا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کیا ہے نا کہ استاد یہ سمجھتاج نہیں"۔ گاما جو کہ کاونٹر کے ساتھ ہی کھڑا تھا جسبِ عادت بیچ میں بول پڑا۔

گامے کی بات سن کر استاد رفیق کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ آ گئی: "تم دونوں کی تو بس وہ ہی مثال ہے کہ چوڑ چوڑی سے جائے ہیڑا پھیڑی سے نہ جائے اوڑ خڑبوزے کو دیکھ کڑ خڑبوزہ ڑنگ پکڑتا ہے ۔ سو نہ تم دونوں ہیڑا پھیڑی سے باز آ سکتے ہو اور نہ ہی ایک دوسڑے کا ڑنگ پکڑنے سے"۔

یہ کہتا ہوا وہ کاؤنٹر کے ساتھ لگی اپنی نشست کی جانب بڑھا۔ ابھی بیٹھنے والا ہی تھا کہ اُس کی نظر عقب میں پڑیں جہاں اُوپراللہ جلَّ جلال ہُو اور محمدﷺ کے طُغرے آویزاں تھے۔ اُن کے عین نیچے قائد اٰعظم محمد علی جناحؒ اور مصورِپاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی فریم کردہ تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ اُس کے عین نیچے ایک اور فریم شدہ تصویر بھی نصب تھی۔ اُس نے آگے بڑھ کر طُغروں اور فریموں کو اپنی انگلی کی مدد سے درست کیا اور پھر یہ کہتا ہوا اپنی نشست پر آ بیٹھا: "کنی واڑی سمجھایا ہے کہ سویڑے جھاڑ پونچ کرتے ہوئے ہل جائیں تو اُسی وقت دُڑسِت کڑلیا کڑو۔ آڑی تڑچھی ہونے سے بےحڑمتی ہوتی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ اچھا خیڑ، تم دونوں باہڑ کھڑی پک اپ پڑ لدھا سمیان اتڑوا کڑ تو اپنی نگڑانی میں اندڑ ڑکھوا دو"۔ رفیق استاد نے دروازے کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "شُکڑ ہے اللہ کا سب کچھ مل گیا لیکن خُدا کی پناہ بازاڑ میں تو جیسے آگ ہی لگی ہوئی ہے۔ ہڑ شئے کے بھاؤ آسمان سے باتیں کڑ ڑہے ہیں۔ اِس مہنگائی سے تو اب اللہ ہی بچائے"۔

۔"بولے تو رفیق استاد آج تو تم نے دیر بھی بڑی لگا دی"۔ مُشتاق نے سوال داغ دیا۔ "بس کیا پوچھتے ہو لاہوڑ شہڑ کی بے ہنگم ٹڑیفک کا۔ صڑف شاہ عالمی اور اکبڑی منڈی تک ہی تو گیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو شادے کا اُس نے مجھے کل ہی کہہ دیا تھا کہ استاد دوںوں یہاں سے کٹھے ہی میڑی پک اپ پڑ نکل چلیں گے۔ سویڑے کے جو ہم دونوں نکلے ہیں تو اب شام کا ویلہ ہونے کو آیا ہے تو واپس آئے ہیں۔ وہاں جاؤ تو ٹڑیفک جام اور واپس آؤ تو ٹڑیفک جام اور سونے پہ سہاگہ وہاں کا پولیوشن۔ پہلے اکبڑ منڈی آٹا، سوجی، نمک، چائے، چینی، چاول، دالیں اور مڑچ مصحالے لینا تھے۔ وہاں اتنا شدید ٹریفک جام تھا کہ بس اللہ کی پناہ! میری تو ظہڑ بھی قضاء ہوگئی۔ وہاں سے شاہ عالمی چوک اور پھر آگے ڑنگ محل چوک سے ہوتے ہوئے کسّہیڑا بازاڑ گئے۔ ہوٹل کی دیگیں قلعی کڑوانی تھیں اور کچھ نئے بڑتن بھانڈے بھی لینے تھے۔ فاڑغ ہوکر وہیں آگے شاہ عالمی کی "نی ویں مسیت" میں قضاء اور عصر پڑھی۔ واپسی میں بھی آدھے سے زیادہ وقت تو ٹڑیفک میں ہی پھنسے رہے" رفیق استاد کے چہرے کے ساتھ اُس کی آواز سے بھی بھرپور تکان ظاہر ہورہی تھی۔

اتنا کہہ کر وہ کاؤنٹر کے نیچے لگی دراز کھول کر چیزیں الٹنے پلٹنے لگا۔ اُس کا ہاتھ دراز سے باہر آیا توانگلیوں میں ایک سی ڈی دبی ہوئی تھی۔ سی ڈی کو دیکھ کر مُشتاق اور گامے کے چہرے پر ہلکی سی معنیٰ خیز مسکراہٹ نظر آئی۔ ایک دوسرے کو آنکھ کے گوشے میچ کر کھسکنے کا اشارہ کیا اور ہوٹل کے باہر جانے والے دروازے کی جانب مڑ گئے تاکہ رفیق استاد کی ہدایت کے مُوجب شادے کی پک اپ پر لدھے سامان کو ہوٹل کے عقب والے گودام میں منتقل کردیں۔

رفیق استاد نے سی ڈی کو نیچے جھُک کر پلیئر میں لگا دیا اور پھر جھٹ سے ایک کَل دبا دی۔ زرا سی دیر میں اسپیکروں سے دھیرے دھیرے سنتُور اوراُس میں مدغم ہوتی جلترنگ کی تانیں اُبھریں۔ ان دونوں سُریلے سازوں کے مدھر سنگیت کے مختصر سے انگ کے اختتام پر پیانو کا چھوٹا سا انگ ابھر کر تھما تو خان صاحب مہدی حسن خان مرحوم کی من موہنی سی مد بھری آواز میں دو بول اُبھرے:۔

۔"پیار بھرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!"۔؎

بولوں کے درمیان ایک لمحے کا وقفہ آیا۔ پھر پیانو کی دو تانوں کے ساتھ اگلے بول سنائی دیئے اور ہمراہ طبلے کی سنگت کا آغاز ہوا۔ پیانو اور طبلے کا ساتھ بانسری کی ہلکی مگر دل موہ لینے والی تانوں نے دیا:۔

دو شرمیلے نین ؎
جن سے ملا میرے دل کو چین
کوئی جانے نہ کیوں مجھ سے شرمائیں
کیسے مجھے تڑپائیں
پیار بھرے دو شرمیلے نین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

استائی اور انترہ مکمل ہوا تو دیگر تمام آلاتِ موسیقی پر ستار کی روح کو جنھنجھوڑتی تانیں حاوی ہویتں چلی گئیں اور وائلن نوازوں نے اُس کا پھرپور ساتھ دینا شروع کردیا۔ رفیق استاد تو جیسے مہدی حسن کی آواز، ساتھ سنگت کرتی موسیقی کی تانوں، گیت کے رومانوی بولوں اور رُوح کی گہرائیوں تک اتر جانے والی مدھر دھن کے جادو کا اسیر ہی ہوچکا ہو۔ نیم وا آنکھوں سے سر دُھنتا ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے کسی جہاںِ دیگر کی سیر کرتا پھر رہا ہو۔

باہر کھڑے گامے نے جب ہوٹل کے دروازے سے اندر جھانکا تو رفیق استاد کو اِس حال میں دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ناچ اُٹھی۔ مُشتاق جو آٹے کی بوری کو پک اپ سے نیچے اتارنے کی کوشیش کررہا تھا کے کاندھے کو ہلاتے ہوئے بولا: واہ بھئی واہ، بیڑو! اپنا استاد بھی کوئی تجھ سے کم نہیں۔ تُو ہندی فلموں کے آئٹم سانگ سن کرتو وہ پاکستانی فلموں کے گانے سن کر ٹُن ہوجا تا ہے۔ اندر جھانک کر تو دیکھ کیسا جھوم رہا ہے۔ کہیں کوئی گاہک اِس حال میں دیکھ کر بل چکائے بناء ہی اڑن چُھو نہ ہو جائے"۔ "ہاں یہ تو سچ ہے کہ اپنا استاد پاکستانی فلمی گیتوں کا بڑا ہی پکا عاشق ہے۔ اب بوڑھا ہونے کو جو آیا ہے اور اُس کی پسند بھی بوڑھوں جیسی ہی ہے۔ بھلا "بیڑی جلئی لے" اور "ہلکٹ جوانی" جیسے دھانسو آئٹم سانگز میں جو دم ہے وہ اُس کے اِن تھکے ہوئے گیتوں میں کہاں"۔

۔"ہاں یہ بات تو نے سولہ آنے ٹھیک بولی۔ لیکن کچھ بھی ہو اپنا استاد ہے دل کا راجہ، کیا سمجھا" گاما اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا: "ہاں تو اس بات سے کون انکار کرتا ہے۔ تُجھے استاد کا آسرا نہ بھی ملتا تو تیری خیر تھی۔ شکر کر کہ تیرا حال مجھ سا نہیں۔ نہ آگا نہ پیچھا۔ کوئی چھہ برس کی عمر تھی میری جب استاد مجھے ایک دن مِوری گیٹ کے سامنے اردُو بازار کے ایک کونے پر کُوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے کُوڑا چنتے ہوئے ترس کھا کر پکڑ لایا تھا۔ آج دس بارہ سال ہوگئے۔ اُس کی مہربانی ہے کہ اُس نے اپنے پاس رکھا، کھلایا پلایا، پہلے تو مجھے یہیں محلے ہی کے ایک سرکاری پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا اور پھر میرے شوق اور اچھی تعلیمی استعداد کے سبب شیراں والا گیٹ کے گورنمینٹ اسلامیہ ہائی اسکول میں داخلہ دلوایا۔ جہاں سے بڑے ہی اچھے نمبروں سے میڑک پاس کرنے کے بعد اب تیری دعاوں اور اللہ کے بعد رفیق استاد کی مہربانیوں سے چند ماہ قبل ہی میرا داخلہ رجحان ٹسٹ پاس کرکے نیشنل کالج آف آرٹس میں فلم وٹیلی وژن کے بیچلرز ڈگری کے چار سالہ پروگرام میں ہوگیا ہے۔ لالج سے آ کر ہوٹل سبھالتا ہوں۔ جانتا بھی ہے کہ استاد نے صرف داخلہ، رجسڑیشن اور امتحانی فیس ہی کی مد میں کوئی دس ہزار خود میرے ساتھ جا کر جمع کروایا اور اب ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار فیس بھی خود ہی کالج جا کر اپنے ہاتھوں سے جمع کرواتا ہے۔ میں نے استاد سے کہا بھی تھا کہ مجھے کسی شام کے کالج میں ہی ایف اے شیف اے کر لینے دو لیکن وہ بولا: "نہیں کاکا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ! میں چاہتا ہوں کہ تو وہی تلیم حاصَل کڑے جس کا کہ تجھے شُونق ہے۔ ویسے بھی سویڑے سویڑے ہوٹل کا کاڑوبار زڑا ٹھنڈا منڈا سا ہی ہوتا ہے۔ میں اورغفُوڑ کام سنبھال لیا کڑیں گے۔ کاکا تو جم جم پڑھائیاں کڑ۔ اصل ڑونق میلہ تو دوپہڑ، شام اور ڑات میں ہی ہوتا ہے۔ تو بے فکڑ ہو کڑ سویڑے کالج چلا جایا کڑ۔ تُو نے پڑھائی اور ہوٹل دوںوں ہی کو بہت اچھے طڑیقہ سے سنبھالنا ہے۔ آخر کو تُو میڑے ہوٹل کا منیجڑ ہے۔ پوڑے بھاٹی میں ہے ڑفیق استاد کی ٹکڑ کا کوئی ایک بھی ہوٹل۔ خبڑداڑ جو کالج میں کسی الٹے سیدھے چکڑوں میں پڑا۔ تو نے کوئی بھی ایسا ویسا کام نہیں کڑنا جس سے تیڑے ڑفیق استاد اور اُسے کے ہوٹل کے نام پر کوئی بٹہ لگے"۔

۔"ہاں ہاں ساری رام کتھا کی اپُن کو خبر ہے۔ بولے تو جیاستی ٹرٹر نیں مِنگتا"۔ گامے نے اپنی قمیض کی کالروں کو ہاتھوں کی انگلیوں میں پکڑ کراُچکایا اور گردن کو زرا سا خم دیتے ہوئے بولا۔ "ابے جو استاد نے سن لیا نہ تو اب کی بار نہیں چھوڑے گا اور تیرے ساتھ رھ رھ کر تو میری زبان بھی اب یونہی ہر وقت پھیسلتی ہی رہتی ہے۔ استاد سچ ہی کہتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ مُشتاق مسکراتے ہوئے بولا:۔ "ویسے تُو بھی تو میرے کچھ پیچھے ہی استاد کے پاس آیا تھا نہ؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جو تو بھی آگے اور پڑھ لیتا"۔ مُشتاق نے اُس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوئے دریافت کیا:۔

۔"ہاں میں جب آٹھ نو سال کا تو تھا اپنے محلے یاکی دروازہ جہاں پرانے کپڑوں کی جلال دین مارکیٹ کے ساتھ والے محلے میں ہمارا گھر ہے۔ میرا ابا وہیں کسی پرانے کپڑوں کی دکان میں کپڑوں کی چھٹائی اور مرمت کرنے کی نوکری کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے سے پیدل چلتا ہوا داتا دربار لنگر کھانے جاتا۔ ایک روز وہاں استاد نے مجھے چند بڑے لڑکوں سے جو میرا لنگر چھیننا چاہتے تھے اور میرے نہ دینے پر مجھے مار رہے تھے سے بچا کرگھر پہنچایا جہاں میری اماں نے مجھے اُس کے سامنے ہی کوسنے دے دے کر مارنا شروع کردیا۔ ویسے قصور اماں کا نہیں میرا ہی تھا وہ مجھے تیار کرکے اسکول روانہ کرتی اور میں روز اسکول سے بھاگ کر داتا دربار لنگر کھانے چلا جاتا۔ استاد نے یہ ساری باتیں سُن کر میری اماں سے کہا: "اسے ڑوز اندڑون بھائی گیٹ، بازاڑ حکیماں والا میں میڑے ہوٹل بھیج دیا کڑیں۔ میں ڑوز کچھ پیسے بھی دے دیا کڑوں گا اور میڑے پاس ایک اوڑ بھی کاکا اِسی کی عمڑ کا ہے۔ یہ اُس کے ساتھ سکول چلا جایا کرے گا۔ مَشتاق پڑھاکو کاکا ہے۔ اُس کے ساتھ ڑہے گا تو اِس کا بھی دل پڑھائی میں لگ ہی جائے گا اوڑ اِس کی آواڑہ گڑدیاں بھی ختم ہوجائَیں گی"۔ "لیکن مُشتاق مامے۔ ۔ ۔ ۔ !، تُو نے تو پڑھ لیا لیکن اپن کا حال تو جو تب تھا سو اب ہے۔ استاد مجھے اسکول بھیجتا اور میں وہاں سے بھاگ کر پھر ہوٹل آجاتا اور یوں میرا نام کئی بار اسکول سے کٹا۔ بےچارا استاد تو بہت کوشیش کرتا رہا لیکن اپنا پڑھائی میں جی ہی نہیں لگتا تھا پھر بھی جیسے تیسے کرکے استاد نے پیار، محبت، دھونس، ترلے، دھمکی، غصّہ اور ناراضگی دکھا کر اور دو چار بار کی کمپارٹمینٹوں کے بعد میڑک 33 فیصدی نمبروں ہی سے سہی، پاس کروا کر ہی چھوڑا۔ لیکن اب تو وہ بھی مجھ سے ہار مان گیا ہے۔ میں نے اُسے صاف صاف کہہ دیا کہ اب آگے مجھ سے نہیں پڑھا جائے گا۔ باقی رہی بات فلمی بھاشا کی تو یہ میں استاد کو تپا کر اُس کے مزے لینے کے لیئے بولتا ہوں۔ تجھے تو پتا ہی ہے نہ کہ وہ ایسی باتوں سے کتنا چڑتا ہے"۔

اِن ساری باتوں کے دوران پک اپ پر لدھا سارا سامان گودام میں رکھوا کر جب دونوں واپس ہوٹل کے اندر آئے تو استاد رفیق اُسی طرح آنکھیں نیم وا کیئے جھوم رہا تھا لیکن اب ہوٹل میں مہدی حسن کی جگہ مجیب عالم مرحوم کی آواز گونج رہی تھی:۔

وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں ؎
میرے ہر خواب کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں

استاد کا سر اور جسم گانے کی دھن پر جُھوم رہا تھا۔ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کاؤنٹر پر یوں چلا رہا تھا جیسے اُس گانے میں بجتے پیانو کو وہ ہی تو بجا رہا ہو۔ گانے میں جہاں جہاں پیانو رکتا تو ستار کے چھوٹے چھوٹے انگ بجنا شروع ہوتے۔ استاد اپنا ہاتھ الٹا سینے کے ساتھ کھڑا کرکے کہنی پر اپنی انگلیوں کو یوں چلانا شروع کردیا جیسے اُس جیسا ماہرِفن ستارنواز تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ مُشتاق اور گامے سمیت ہوٹل میں بیٹھے بہت سے گاہکوں کی نظریں استاد پر ٹکیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹیں کھیل رہی تھیں۔

۔"استاد سننا زرا"۔ مُشتاق کی تیز آوازسُن کر نیم وا آنکھیں کئے جھومتے رفیق استاد نے جیسے ہی آنکھیں وا کیں وہ فوراً ہی بولا:۔ "آج کی خریداری کی ساری رسیدیں اگر دے دیں تو میں اُسے حساب کتاب میں چڑھا لوں"۔ "ہاں کاکا، کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ میڑے ہوٹل کا منیجڑ ہی نہیں بلکے چیف اکاونٹینٹ اور جنڑل منیجڑ بھی تُو ہی تو ہے"۔ یہ کہتے ہوئے رفیق استاد نے اپنی قمیض کی سامنے والی جیب سے بہت ساری رسیدیں نکال کر مُشتاق کے ہاتھ پر یہ کہتے ہوئے دھر دیں: "ہاں اگڑ کچھ سمجھ نہ آئے تو بیشک جتنی باڑ چاہے پوچھ لینا" ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا کہ وہ گانا ختم ہوا اور رونا لیلیٰ کی آواز ابھری:۔

ہمیں کُھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے ؎
بھری دنیا کو ویراں پاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے

مُشتاق ساری رسیدوں کو سنبھالتا ہو فوراً وہاں سے کھسک لیا کیونکہ یہ بات اُس سے بہتر بھلا کون جان سکتا تھا کہ اگر جو اب وہ استاد کے سامنے ایک لمحہ اور کھڑا رہا تو پھر اُستاد گانے، دھن، شاعری، موسیقی اور اِس میں بجتے ایک ایک ساز کی تعریف میں وہ وہ لیکچر پلائے گا کہ دماغ کی اُوپر نیچے اور آگے پیچھے کی ساری چُولیں ہل کر رہ جائے گیں۔

مُشتاق ایک کونے میں جا کر اپنے حساب کتاب اور گاما باروچی کھانے کے کاموں کا جائزہ لینے میں جُت گیا۔ رفیق استاد کاؤنٹر پر بیٹھا گاہکوں سے وصولیاں کرنے کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا گانا جُھومتا جھامتا سنے جا رہا تھا۔ جہاں ایک سی ڈی ختم ہوئی دوسری لوڈ کردی۔ مغرب اور عشاء کی آزانوں کے وقت گیت مالائی سلسلے کو بند کر کے وہ مسجد نماز پڑھنے چلا گیا۔ اُس کی جگہ مُشتاق کاؤنٹر پر آ بیٹھا اور اُس کے واپس آنے کے بعد مُشتاق اور گاما باری باری نماز پڑھ آئے۔

کوئی رات ساڑھے نو کے قریب وہ تینوں کھانا کھانے کے لیئے ایک میز پر آ بیٹھے۔ یہ روز کا معمول تھا۔ وہ رات کا کھانا ساتھ ہوٹل ہی میں کھاتے۔ اُس روز کھانے کی میز پر کچھ ضرورت سے ذیادہ ہی خاموشی تھی۔ سب سر جھکائے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ گامے نے میز کے نیچے مُشتاق کے پیر کو اپنے پیر سے چُھوا۔ وہ متوجہ ہوا تو گامے نے آنکھوں سے اشارہ کیا جیسے کہنا چاہ رہا ہو: "استاد سے بات کرو"۔ جواباً اُس نے اپنے سر کو نفی میں ہلایا جیسے کہہ رہا ہو: "نہیں تم بات کرو استاد سے"۔ گامے نے یوں منہ بنایا جیسے کہہ رہا ہو: "تم بس استاد سے ڈرتے ہی رہنا"۔

۔"اپُن کو ایک بات بولنے کا ہے استاد"۔ گاما نے لُقمہ نگلتے ہوئے کہا۔ "ہاں بولو کاکا غفُوڑ کیا بات ہے؟" استاد نے پانی کے جگ سے گلاس بھرتے ہوئے پوچھا۔ "استاد وہ کیا ہے نہ کہ تم ہم دونوں کو اتوار کے اتوار چھٹی دیتا ہے۔ ہم دونوں کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ ویسے سچ پوچھ استاد دل تو اپنا سنے پلیکس جانے کا ہوتا ہے لیکن وہاں کا ٹکٹ اپنی حیثیت سے بہت ذیادہ ہے۔ سو میں اور مُشتاق ماما داتا دربار روڈ والے بھاٹی سنیما میں لاسٹ شو دیکھنے چلے جایا کرتے ہیں۔ ماما اور گاما نے سوچا کہ اب کی بار استاد کو بھی ضرور لے کر چلنا ہے۔ مت پوچھ استاد کیا پٹاخہ فلم ریلیز ہوئی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک آئٹم سانگ۔ اللہ قسم استاد یقین نہ آئے تو مُشتاق مامے سے پوچھ لے۔ وہ پچھلے ہفتے جو فلم دیکھی تھی۔ واہ کیا لش پش فلم تھی۔ فلم کے آئٹم سانگ نے تو سنیما میں آگ ہی لگا دی تھی۔ سنیما میں بیٹھے سارے منچلے ٹھرکی روپے دو روپے والی ریزگاری اسکرین پر اچھال اچھال کر ہیروین کو داد دے رہے تھے کہ بس مزا ہی آ گیا۔ تو پھر استاد گل مک گئی۔ اب تم بھی اِس اتوار کو ہمارے ساتھ چل رہے ہو"۔ رفیق استاد گامے کی ساری بات خاموش سے ایک ایسی مسکراہٹ کے ساتھ سُنتا رہا جسے کوئی معنی پہنانا بڑا ہی مُشکل تھا۔ جیسے ہی گاما خاموش ہوا اُسے نے اپنی نگاہیں اُس کے چہرے سے ہٹا لیں اور دُور خلاوں میں کہیں گھورنے لگا۔ گاما داد طلب نگاہوں سے مُشتاق کی طرف یوں دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ: "دیکھا مامے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! تُو تو ایویں ہی استاد سے ڈر رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!."۔

استاد کے چہرے پر سنجیدگی اور آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی نظر آرہی تھیں۔ "استاد تم نے کوئی جواب نہیں دیا" مُشتاق نے گامے کے بات کرنے کے دوران استاد کی مسکراہٹ کے پیشِ نظر ہمت پکڑتے ہوِئے سوال کر ہی ڈالا: "کاکا تم لوگ جہاں کہوں گے وہاں چلوں گا" استاد نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "لیکن ابھی میں تم دونوں کو ایک کہانی سنانے لگا ہوں"۔ "کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! کیسی کہانی استاد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟" مُشتاق حیران ہوتے ہوئے بولا: "سوال مت پوچھو، بس سُنتے جاؤ"۔ "اچھا چلو استاد سناؤ کہانی!" مُشتاق سعادتمندی سے بولا: "اِسی اپنے بھاٹی دڑوازے میں ایک نکا جیاء کاکا ڑھا کڑتا تھا"۔ استاد ٹہرے ہوئے لہجے میں بولنا شروع ہوا: "چھوٹا سا تھا تو اُس کا ابا اللہ کو پیاڑا ہوگیا۔ اُس نکے جئے کاکے کی عمڑ اُس ویلے کوئی چھہ سات سال کی ہوگی۔ اُس سے تین چھوٹے بہن بھرا اوڑ بھی تھے۔ ماں اُس کی نے لوگوں کے گھڑوں میں کام کاج کرنا شڑوع کڑ دیا لیکن پھڑ بھی گھڑ کا خڑچہ چلانا بہت مُشکل ہوگیا تھا۔ ایک دن اُس کی ماں کا چچہڑا بھائی جسے ساڑے بچے چاچا شوکی چاچا شوکی کہہ کڑ پکاڑتے تھے گھڑ آیا اور کاکے کی ماں سے کچھ کہا۔ جاتے وقت کاکے کا ہاتھ پکڑ کڑ ساتھ ہی لے گیا اور دونوں ایک مزدے میں سواڑ ہو گئے۔ مزدا بہت دیڑ تک چلتا ڑہا۔ شہڑ سے باہڑ نکل کر ویڑان سے عَلاقے میں ایک اشٹاپ پڑ ڑکا تو چاچا شوکی کاکے کو لے کر اتُڑ گیا۔ سڑک پار ایک بہت بڑی جالی داڑ آہنی پھاٹک والی نیچی سی عماڑت تھی جس کا پھاٹک تو بند تھا لیکن باہڑ لوگوں کی ایک بھیٹر جمع تھی جیسے وہ سارے ہی اندڑ جانا چاہتے ہوں۔ چاچا شوکی بھیٹر کو چیڑتا ہوا پھاٹک تک پہنچا۔ چوکیداڑ نے جو شاید اُسے پہچانتا تھا اندڑ جانے دیا۔ عماڑت کے ایک کونے میں چاچا شوکی چائے کی کنٹین چلاتا تھا۔ وہ کاکے کو اُس کی ماں سے کہہ کر مددگاڑ کے طوڑ پڑ کام کڑنے کے لیئے لایا تھا۔ چاچا شوکی ساڑا وقت ایک بڑے پتیلے میں چائے اُبالتا رہتا۔ چھوٹآ کاکا ایک دوسرے کاکے کے ساتھ جسے سب بالا بالا کہہ کڑ پکاڑتے اور عمر میں اُس سے کچھ چار پانچ سال بڑا تھا چائے کو شیشے کے چھوٹے چھوٹے گلاسوں میں بھڑ کڑ لوہے کی ایک جالی جس میں چائے کے گلاسوں کو لٹکانے کے لئیے گول گول دائڑے بنے ہوتے پھنسا کڑ عماڑت کے اندڑ بنے بڑے بڑے تاڑیک کمڑوں اوڑ دوسڑی طڑف بنے دفاتڑ میں کام کڑتے لوگوں کو چائے پہنچاتا اور پھڑ تھوڑی دیڑ بعد واپس جا کڑ چائے کے خالی گلاس سمیٹ کر واپس لے آتا۔ چند دنوں بعد اُسے پتہ چلا کہ بند پھاٹک والی وہ نیچی عمارت جس کے باہڑ ہڑ وقت لوگوں کا ایک جمِ غفیڑ ہوتا ہے دڑاصل لاہوڑ شہڑ کا مشہوڑ ایوڑنیو اسٹوڈیو ہے اور وہ بڑے بڑے تاڑیک کمڑے دڑاصل اسٹودیو کے مختلیف شوٹنگ فلوڑ تھے اوڑ دوسڑی طڑف فلم کومپنیوں، فلمسازوں، ہدایت کاڑوں، کہانی نویسوں اور بڑے بڑے اداکاڑوں کے دفاتڑ تھے۔

۔"ایورنیو اسٹوڈیو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ ارے استاد وہاں تو ایک زمانے میں پاکستانی فلمیں بنا کرتیں تھیں اوراب وہاں ٹی وی ڈراموں کی شوٹنگ ہوتی ہے۔ کبھی کبھار اکا دکا فلموں کی بھی شوٹنگ ہوجایا کرتی ہے۔ میں اور گاما ایک بار جا چکے ہیں وہاں۔ وہ تو یہاں سے بہت دور ملتان روڈ پر ہے"۔ مُشتاق سے رہا نہ گیا اور وہ بول ہی پڑا۔

۔"ہاں کاکا وہی ایوڑنیو اسٹوڈیو"۔ رفیق استاد کی آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہوئی۔ "ایک روز وہ چاچا شوکی کے ساتھ کھڑا چائے بنا ڑہا تھا۔ ایک آدمی آیا اور چاچا کو ڑیکاڑڈنگ اسٹوڈیو میں جہاں کسی گانے کی ڑیکاڑڈنگ ہو ڑہی تھی۔ بہت ساڑے لوگوں کے لیئے چائے بھجوانے کا آڑڈڑ دیا۔ شوکی چاچا نے فٹافٹ چائے کے گلاس بھڑ کر جالیوں میں چڑھائے، کاکے اوڑ بالے کو دے کڑ فوراً ڑیکاڑڈنگ اسٹوڈیو لے جانے کو کہا۔ کاکے کے لیئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ وہ کسی ایسے وقت میں ڑیکاڑڈنگ اسٹوڈیو جارہا تھا کہ جب وہاں فلمی گانے کی ڑیکاڑڈنگ ہو رہی تھی۔ وہ وہاں پہنچے تو اسٹوڈیو میں بے شمار سازندے جمع تھے۔ ایک میز پر سنتُور سجا ہوا تھا اور ایک سنتُورنواز مضڑاب [مصراب] سے جو اُس کے ہاتھوں کی شہادت اور درمیانی انگلیوں کے بیچ ایسے دبا ہوا تھا جسے سگڑیٹ دبایا جاتا ہے۔ انگلیوں کی پشت سے مضڑاب کا جو حصہ باہڑ نکل ڑہا تھا اُس پر اپنا انگوٹھا ڑکھے تاڑوں کو چھیڑ چھیڑ کر اُس کے سُڑوں کو جانچ ڑہا تھا۔ ایک طرف ستاڑنواز ایک بہت بڑے ستاڑ کی مختلیف کَلیں گھما کر تاریں کستا جاتا اور انگلیوں میں پہنے ہوئے مثلث نما آہنی چھلے "زَخمَہ" سے تنی ہوئی تاڑوں کے سُڑوں اور آھنگ کا اندازہ لگا ڑہا تھا۔ ایک طرف طبلچی طبلوں کی جوڑی لے کر فڑشی نشست پر براجمان تھا۔ دائیں جانب تین چاڑ قطاڑوں میں کئی وائلن نواز کرسیوں پر بیٹھے دھیرے دھیرے اپنے سازوں کو چھیڑ ڑہے تھے۔ ان کے ساتھ کی ایک بہت ہی بڑا پیانو رکھا ہوا تھا۔ ان سب کا جائزہ لینے کے بعد کاکے کی نظڑیں کمڑے کے ایک کونے میں چبوتڑے پڑ پڑی جہاں دو لوگ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک دبلا پتلا لمبا سا سنوالا خُوش شکل اوڑ خوش لباس جوان شخص جو سفید پتلون قمیض میں ملبوس تھا اور جوتے بھی سفید ہی پہن ڑکھے تھے۔ اُس کے سامنے ایک ہاڑمونیم ڑکھا تھا اور ہاڑمونیم پر ڑکھے کاغذ میں سے کچھ پڑھ پڑھ کرایک ہاتھ سے ہاڑمونیم کو ہلاتا اور دوسڑے ہاتھ سے ہاڑمونیم بجاتا جاڑہا تھا۔ ساتھ ہی ایک بہت ہی باڑعب سی شخصیت بڑاجمان تھی۔ اُس کے چہڑے کا وقاڑ گواہی دے ڑہا تھا کہ وہ کوئی بڑا مہان فنکاڑ ہے۔ سفید شلواڑ قمیض پر کالی سیاہ بند گلے والی کوٹی جس پڑ سیاہ شال کی بُکل ماری ہوئی تھی۔ ہاڑمونیم کی لے پر کچھ گنگنا رہا تھا۔

ابھی کاکا اس ساڑے منظر کے جادو میں کھویا ہوا تھا کہ اُسے کسی نے کاندھے سے پکڑا کر جنجھوڑا۔ کاکے نے مڑ کر دیکھا تو بالا کھڑا تھا:۔ "باشاھو کی سوچدے پئے او" بالا مسکراتے ہوئے بولا۔ "ارے تمھارے چائے کے سارے گلاس تو ویسے کے ویسے ہی پڑے ہیں۔ دیکھ کیا رہے ہو۔ جاو سامنے خان صاحب اور دادا کو چائے دے آو"۔ ۔"کون خان صاحب اور کس کا دادا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟" کاکا حیڑان ہوتا ہوا بولا۔ "ابے وہ سامنے دیکھ تجھے خان صاحب مہدی حسن خان اور دادا روبن گھوش نظر نہیں آ رہے کیا؟" بالے نے اُن دونوں کی طڑف اشاڑہ کڑتے ہوئے کہا۔ "م م م مہد مہدی حسن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !" ماڑے حیڑت کے کاکا اتنا ہی کہہ سکا۔ مہدی حسن کو اُس نے دیکھا بھلے ہی نہ ہو لیکن وہ اچھی طرح سے اُنہیں جانتا تھا۔ جب اُس کا ابا زندہ تھا اوڑ ڑیڈیو پر اُن کا گانا آتا تو ابا گانا سنتے وقت ہمیشہ واہ مہدی حسن واہ کہا کرتا اور خود اُسے بھی مہدی حسن کی آواز بہت بھلی لگتی تھی۔ ان کے گھرکے پاس ماجھے حلوائی کی دکان پڑ بھی ساڑے وقت یا تو ملکہ تڑنم نوڑجہاں کے گانے بجتے یا پھڑ مہدی حسن کے"۔

۔"ماجھا حلوائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟" گامے کا منہ حیرت سے کھلا۔ " ہاں تم کیا جانو ماجھے حلوائی کو۔ بھئی وہ اپنے ہوٹل کے ساتھ ہی ساجھے حلوائی کی جو دکان ہے نا جہاں سے ساڑے دن نحُوست ماڑے واہیات گانوں کی صدائیں بلند ہوتیں ہیں، ماجھا پہلوان اُس کا ابا تھا جو شاید تم دونوں کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اللہ کو پیاڑا ہوگیا۔ اب اُس کا بیٹا ساجھا پہلوان دن پھڑ واہیات گانے چلا چلا کر محلے کے بچوں کا اخلاق برباد کڑ ڑہا ہے" استاد بولتا چلا گیا۔ "اب استاد ایسا تو نہ کہو اُس کی وجہ سے محلے میں کسی رونق لگی رہتی ہے اور یہ تو نئے زمانے کی موسیقی ہے۔ نہ رہے وہ مہدی حسن اور نورجہاں اور نہ ہی رہی اُن کے اور تمھارے زمانے کی موسیقی" مُشتاق ماجھے پہلوان کی حمایت کرتے ہوئے بولا۔ "بہت افسوس ہوا تمھارے منہ سے یہ سن کر۔ سن لو یہ وہ لوگ ہیں جو نہ بھلائے گئے ہیں اور نہ ہی بھلائے جائیں گے۔ ہاں البتہ تمھاری یہ نئے دوڑ کی موسیقی اور اُس کی عمر دو دن سے ذیادہ کی نہیں" استاد کی آواز میں جوش تھا۔ "تُو جانتا ہے مُشتاق ہے میں نے تجھے فلم اور ٹی وی کے مضمون میں گڑیجویشن کرنے کے لیئے ہی کالج میں کیوں داخل کڑوایا ہے؟" "ہاں استاد اِس لئے کہ مجھے اس شعبے میں جانے کا بہت شوق تھا" مُشتاق مسکراتا ہوا بولا۔ "ہاں شُونق والی بات تو ڈرست ہے تیڑی۔ پر ایک بات اور بھی ہے۔ چل تو یوں سمجھ لے کہ جو کام مہدی حسن اور ملکہ تڑنم نوڑجہاں مڑحومین کڑ گئے ہیں نہ وہ خود بھی ہمیشہ ذندہ ڑھے گا اور اُن کو بھی سدا ذندہ ڑکھے گا۔ ہماڑے کام کی عمڑ جانتا ہے کتنی ہے؟ اُس کام کی عمڑ ہر ڑات ہوٹل کے بند ہونے پڑ دڑوازے پر تالا لگتے ہی پوڑی ہوجاتی ہے اور پھڑ اگلے ڑوز جب صبح غفُور تالا کھولتا ہے نہ تو ہڑ روز کی طڑیوں ایک نیاء کھاتہ کھلتا ہے اور رات کو پھڑ ہمیشہ کی طڑیوں تمام ہوجاتا ہے۔ اصل کام تو یہ بس لوگ کڑ گئے ہیں۔ اُن کا ہڑ ڑوز کا کیا کام ہمیشہ ذندہ ڑھ کڑ ان کو بھی لازوال کڑ گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کاکا کہ تُو بھی کچھ ایسا کام کڑے جس کی عمڑ سویڑے شڑوع ہو کڑ ڑات ہی کو ختم نہ ہو جائے" استاد کی نظریں تو مُشتاق کے چہرے پر گڑی تھیں لیکن دیکھ وہ کسی اور ہی دنیا میں رہی تھیں۔

۔"ارے استاد کاکے کی کہانی کو تو آگے بڑھاؤ"۔ گامے نے معاملہ بگڑتے دیکھ کر بات کا رُخ بدلنے کی کوشیش کرتے ہوِئے کہا۔ "ہاں تو میں کہہ ڑہا تھا کہ کاکا لڑزتے قدموں سے آگے بڑھا اور اُس نے خان صاحب کو کانپتے ہاتھوں سے چائے کا گلاس پیش کیا۔ اگلا گلاس اُس نے ڑوبن دادا کے سامنے پیش کیا۔ اُسے ڑوبن دادا کی شخصیت اور اُن کا پہناوا بہت بھلا معلوم ہوا۔ گانے کی ڑیکاڑڈنگ کے دوران کاکا کئی بار چائے لے کر اسٹوڈیو گیا۔ جب وہ آخری بار چائے کے گلاس سمیٹنے آیا تو عین اُس وقت گانے کی ڑیکاڑڈنگ شروع ہوئی۔ وہ سب کی نظروں سے بچتا بچاتا ایک کونے میں ستون کے پیچھے سکڑ سمٹ کڑ کھڑا ہوگیا۔ چھوٹا سا تو تھا وہ۔ کسی کی اُس پر نظر نہ پڑی۔ تمام سازندے دم سادھے ہوئے تھے۔ مہدی حسن مائیک کے سامنے اپنے کانوں پر بڑے بڑے ائیرفون لگاَئے تیار کھڑے تھے۔ سازندوں کے عین سامنے ڑوبن دادا اپنے ہاتھوں کو ہوا میں بلند کڑ کے بالکل تیار اپنی نگاہیں اُن پر ہی جمائے ہوئے تھے۔ ڑوبن دادا نے اپنا ہاتھ گھما کر سنتُورنواز کو اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی اُس نے مضڑاب سے اپنے ساز کو چھیڑ دیا۔

پہلے سنتُور اور اُس کے ساتھ ہی جلترنگ کی تانیں اُبھریں اور ٹہریں۔ پھر پیانو کا انگ ابھرا اور تھما تو مہدی حسن خان صاجب نے اپنی جادو بھڑی آواز میں دو بول کہے :۔

۔؎ "پیار بھرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!"۔

بولوں کے درمیان ایک لمحے کا وقفہ آیا۔ پھر پیانو کی دو تانوں کے ساتھ خان صاحب نے اگلے بول گائے اور ہمراہ طبلے کی سنگت کا آغاز ہوا۔ پیانو اور طبلے کا ساتھ بانسری بجنے لگی:۔

دو شرمیلے نین ؎
جن سے ملا میرے دل کو چین
کوئی جانے نہ کیوں مجھ سے شرمائیں
کیسے مجھے تڑپائیں
پیار بھرے دو شرمیلے نین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔

۔"ارے استاد یہ تو ہی گانا ہے جو تم ہوٹل میں بجاتے ہو"۔ گاما چلا کر بولا۔ ہاں یہ وہی گیت ہے۔ اُس روز وہ گیت تو ڑوبن دادا نے ڑیکارڈ کرلیا لیکن وہ گانا اس نکے جئے کاکے کےدل ودماغ میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ڑیکارڈ ہوگیا استاد دور کہیں خلاوں میں گھورتا ہوا ڈوبتی آواز میں بولا۔
۔"استاد کہیں وہ کاکے تم ہی تو نہیں"۔ مُشتاق شرارت بھرے لہجے میں بولا۔ "اور وہ تصویر جو قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کی تصویروں کے نیچے لگی ہے وہ کہیں روبن گھوش ہی کی تو نہیں"۔ ایک ٹھنڈی آہ نما سانس کے بعد انتہائی ٹہرے ہوئے لہجے میں استاد کی آواز سنائی دی: "ہاں وہ کاکا میں ہی تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ اور وہ تصویڑ ڑوبن داد ہی کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!. آج میں سوچتا ہوں کہ اگڑ شوکی چاچا مجھے اُس ڑوز اپنے ساتھ نہ لے گیا ہوتا تو شاید میں یہ نہ ہوتا جو آج ہوں"۔ "وہ کیسے؟" مُشتاق کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ "اُس ڑوز دادا ڑوبن گھوش کے گانے کی ڑیکاڑڈنگ نے میڑے اندڑ موسیقی سے ایک عجب سا لگاؤ پیدا کردیا۔ یہ لگاؤ وہ نہیں تھا جو ایک گانے یا ساز بجانے والے کو موسیقی سے ہوتا ہے۔ یہ وہ لگاؤ تھا جو ایک موسیقی کے چاہنے والے کو موسیقی سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک خاص لگاؤ تھا۔ اب میں اسٹوڈیو میں ڑیکاڑڈ ہونے والے فلمی گانوں پر اپنی خاص توجہ دینا شروع کردی۔ بطوڑِخاص میں اِس ٹو میں ڑہتا کہ ڑوبن دادا کی ڑہڑسل یا ڑیکارڈنگ کب ہے۔ میں پوڑی کوشیش کڑکے اُس دوران اسٹوڈیو کے اندڑ ہی گھسا ڑہتا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ ڑوبن دادا کے گانے مجھ پر ایک خاص اثر کرتے۔ مجھے ایسا لگتا کہ جیسے اُن کی بنائی ہوئی دھنیں میڑی ڑوح کی تاڑوں کو چھیڑ جاتیں ہیں۔ مجھ پڑ ایک جادو سا طاڑی کردیتی۔ شاید ڑوبن دادا کی موسیقی کی فڑیکیونسی میری رُوج کی فڑیکیونسی سے میچ کڑتی ہے"۔

۔"شوکی چاچا کے ساتھ کام کرتے کرتے مجھے تقریباً چھہ سال کا عرصہ گزڑ چکا تھا۔ میں جو بھی ٹھوڑا بہت کما لیتا وہ اپنی ماں کے ہاتھ پر دھڑ دیتا اور وہ اپنے کماؤ پوت کی کمائی کو اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھ کڑ مجھے جھولیاں بھڑ بھڑ دعائیں دیتی۔" اتنا کہہ کر استاد جیسے ہی سانس لینے کو رکا تو مُشتاق جیسے اِسی موقعے کی تلاش میں ہو یکدم بول پڑا: "اور پڑھائی؟"۔

مُشتاق کے سوال پر استاد کے چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم آیا۔ "جب میڑا ابا فوت ہوا تو میں محلے ہی کے ایک سڑکاری سکول میں دوسڑی جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ گھڑ میں جہاں ہم ڑہتے تھے میڑے ابا کے باپ دادا کی نشانی تھی کے سواء میڑی اماں کے پاس اور کچھ بھی نہ تھا۔ اُس نمانڑی نے ہم چاڑ بہن بھائیوں کا پیٹ بھڑنے کے لیئے ادھڑ اُدھڑ گھڑوں میں کام کڑنا شڑوع کڑدیا تھا لیکن دوںوں کی ساڑی کمائی ملا کڑ بھی اتنے پیسے کٹھے نہ ہو پاتے کہ وہ ہم بہن بھائیوں کو نئے کپڑے ہی خڑید کڑ دے سکتی تو بھلا پڑھائی کا خڑچہ کہاں سے اٹھاتی۔ میں دن بھڑ اسٹوڈیو کے فلوڑوں میں بھاگ بھاگ کر فنکاڑوں، ٹیکنیشنوں، پڑوڈکشن وڑکڑوں، سنئِروجونئیر آڑٹسٹوں، ایکسڑا فنکاروں، فلمی کہانی نویسوں اوڑ فلم کومپنیوں کے لوگوں کو چائے کے گرما گرم گلاس پہنچاتا۔ وہاں سب میڑا ایسا خیال ڑکھنے لگے جیسے کوئی چائے لانے والا لڑکا نہیں بلکہ اُن ہی میں جیسا کوئی فنکاڑ یا فلم انڈسٹڑی سے وابستہ کوئی کاڑکن ہو۔ موسیقی اور خاص طوڑ پر ڑوبن دادا کے ساتھ خاص لگاو کو دیکھ کڑ لوگ مجھے چھوٹا ڑوبن چھوٹا ڑوبن کہہ کڑ پکاڑنے لگے"۔

۔"وقت گزڑتا ڑہا۔ مجھے اسٹوڈیو میں کام کڑتے کوئی چھہ ایک بڑس کا عڑصہ گزڑ چکا تھا اور میڑی عمڑ کوئی باڑہ تیڑا سال کی ہوگئی۔ ایک ڑوز مجھے بالے نے بتایا کہ آج شام ڑوبن دادا کے ایک نئے گیت کی ڑیکاڑڈنگ ہونے والی ہے۔ ہم دونوں میں یہ بات شڑوع ہی سے طے تھی کہ وہ مجھے ڑیکاڑڈنگ اسٹوڈیوز جانے کے ذیادہ سے ذیادہ مواقعے فڑاہم کڑے گا۔ جب کوئی گانا ڑیکاڑڈ ہوتا تو فلمسازوں اور ہدایت کاڑوں کی جانب سے شوکی چاچا کو خاص ہدایت ہوتی کہ تمام سازندوں، گلوکاڑوں اور موسیقاڑ کو طلب کیئے جانے سے پہلے ہی چائے وغیرہ ملتی رہنی چاہیے تاکہ وہ تازہ دم ڑہیں اور گانے کی بہتڑین ڑیکاڑڈنگ ہو۔ شام کو ڑیکاڑڈنگ شروع ہوئی تو اسٹوڈیومیں خوب گھماگھمی نظڑ آنے لگی۔ سازندے اہنماک کے ساتھ اپنے اپنے سازوں کو تیار کررہے تھے۔ پھر فائنل ریہڑسل کا آغاز ہوا۔ وہ گانا اخلاق احمد مڑحوم گا ڑہے تھے۔ میں دوسڑی بار جب چائے کے گلاس کٹھے کرنے گیا تو فائنل ڑیہڑسلز کا آغاز ہوچکا تھا۔ میں نے ایک بڑے ستون کے پیچھے اپنا مخصوض کونہ پکڑ لیا اور وہاں آڑام سے آلتی پالتی ماڑ کڑ بیٹھ گیا۔ سارا گیت کئی کئی باڑ تمام سازندوں کی سنگت میں ڑیہڑس کیا گیا۔ میں اُس گانے کے بولوں اور دھن میں کچھ ایسا مگن ہوا کہ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں اُس وقت ڑیکاڑڈنگ اسٹوڈیو میں نہیں بیٹھا بلکہ بادلوں میں گھوم رہا ہوں۔ اُس گانا کا ایک ایک بول میڑے دل و دماغ پڑ سمجھو جیسے نقش ہوتا جا ڑہا تھا۔ پھر نہ معلوم کب میں گانا سُنتے سُنتے وہیں سو گیا۔ آنکھ کھلی تو گانا تو کب کا ڑیکاڑڈ بھی ہوچکا تھا۔ ساڑے سازندے بھی جا چکے تھے۔ ڑیکاڑڈنگ انجنیئر اوراُس کے عملے کا اکا دکا کاڑندہ اِدھڑ اُدھڑ گھومتے پھڑتے نظر آ ڑہے تھے۔ وہ میڑا ایوڑنیو اسٹوڈیو میں آخڑی دن تھا کیونکہ شوکی چاچا نے اپنی چائے کی کنٹین کسی اور کے ہاتھ بہت اچھے داموں میں فروخت کردی تھی جس کا مجھے اُس ڑات ہی پتہ چلا"۔

۔"استاد تو پھر تم اُس کے بعد کبھی اسٹوڈیو گئے اور روبن دادا سے ملے؟"۔ مُشتاق نے بے چینی سے سوال کیا۔ "اسٹوڈیو تو میں اُس دن کے بعد پھر کبھی نہیں گیا لیکن ڑوبن دادا سے تو ہڑ ڑوز ہڑ وقت ملتا تھا اور آج بھی ملتا ہوں۔ اُن کے گیتوں کے زڑیعہ۔ بحڑحال اب اماں کو یہ فکڑ لاحق ہوئی کہ میڑی آمدنی بند ہو جانے سے اُسے گھڑ کا خڑچ چلانے میں بڑی دقت ہوگی۔ میں تھا تو اُس وقت صرف باڑہ تیڑہ سال کا۔ لیکن ہم جیسے بچوں پڑ نہ بچپن آتا ہے نہ ہی لڑکپن۔ ہوش سنبھالتے ہی جوان ہوجاتے ہیں۔ میں نے اماں کوسمجھایا کہ تُو اتنی مذیداڑ ہانڈیاں پکا لیتی ہے۔ اگر ہماڑے گھر کی نچلی منزل کو ہوٹل میں تبدیل کڑدیا جائے تو اِس سے اچھا اور کوئی کام ہو ہی نہیں ہوسکتا۔ اُوپڑ والی منزل کے دو کمڑوں میں ساڑا ٹبڑ ڑھ لے گا۔ اماں بولی: "ڑفیق پتڑ۔ ۔ ۔ ۔ ! بات تو تُو نے بہت عقلمندی والی کی ہے لیکن ہوٹل کھولنے، کڑسیاں، میزیں، بڑتن بھانڈے، چائے کی پیالیوں، ڑکابیوں چُھڑی چمچوں کی خڑیداڑی کے لئے تو بڑا ڑوپیہ چاہیے وہ کہاں سے آئے گا؟"۔ میں نے کہا: "اماں شوکی چاچا نے اپنی کنٹین بڑے اچھے داموں فڑوخت کی ہے اگڑ وہ اِس وقت ہماری کچھ مدد کڑ دے تو ہماڑا کام ہوسکتا ہے"۔ میڑی بات اماں کے دل کو لگی اور اللہ کی مہربانی کہ اُس نے شوکی چاچا کے دل میں نیکی ڈال دی اور وہ اتنی رقم ادھاڑ پڑ دینے کو ڑاضی ہوگیا کہ جس سے ہوٹل کے کام چلاؤ قسم کے سامان کا بندوبست تو ہو ہی گیا۔ اللہ کا نام لے کڑ ہم ماں بیٹے نے ہوٹل کا آغاز کیا۔ شڑوع شڑوع کے چند ماہ تو بہت مشکلات کا سامنا کڑنا پڑا لیکن میڑے دل و دماغ پر ڑوبن دادا کے اُس آخڑی دن والے گانے کے بول کسی تعویز کی طڑح سے نقش ہوچکے تھے:۔

۔؎ سماں وہ خاب سا سماں
ملے تھے دل سے دل جہاں
کہاں لے کے چلا
مجھے یہ دل میرا
وہ دن کبھی تو آئیں گے
مجھے گلے لگائیں گے
کبھی آتے ہوئے، کہیں آتے ہوئے
ہم انہی راہوں میں مل جائیں گے

بس میں دن رات اللہ میاں سے پانچ وقت کی نماز پڑھ کڑ خوب دعائیں مانگتا اور ساڑا دن اور ڑات دیر گئے تک ہوٹل کے کاموں میں جت کر بس یہ گیت گنگناتا ڑہتا۔ مجھے ایسا لگتا کہ جیسے یہ گیت تو دادا نے بنایا ہی میڑے لئے تھا۔ مجھے اللہ تعالی کی زاتِ بابرکت سے کامل امید تھی کہ انشاءاللہ وہ دن ضروڑ آئیں گے جو خود آگے بڑھ کڑ مجھے گلے لگائیں گے اور اللہ نے چاہا تو مجھے محنت و مشقت کی انہی راہوں پڑ چلتے ہوئے ایک نہ ایک اپنے سہانے خوابوں کی منزل ضڑوڑ مل جائے گی۔ اللہ پاک کا بڑا کرم ہے مجھ ناچیز پڑ کہ اُس نے میڑے ساڑے خوابوں کو پوڑا کیا۔ میڑا ہوٹل بھی چلا اور میں نے پڑائیوٹ ہی سہی لیکن بی اے تک تلیم بھی حاصل کی۔ اپنے بہن بھائیوں کو پڑھایا لکھایا، اُن کی شادیاں کیں۔ ماشاءاللہ سے آج میں بال بچے داڑ ہوں اوڑ تم دونوں بھی میڑے بچوں جیسے ہی ہو۔ آج اللہ سوہنے کے کڑم سے میڑے ہوٹل کا شماڑ بھاٹی کے چند اچھے ہوٹلوں میں ہوتا ہے"۔

استاد کی آنکھوں میں تیرتی نمی کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ کچھ دیر وہ تینوں یوں گم سم و خاموش رہے جیسے سوچ رہے ہوں کہ بات کہاں سے اور کون شروع کرے۔ اچانک گامے کو جیسے ہوش آگیا ہو۔ اپنی آنکھیں سکیڑتے ہوئے بولا: "واہ استاد واہ! تمھارا بھی جواب نہیں۔ تم نے ہم کو خُوب اپنی کہانی میں لگا لیا۔ بھلا یہ کون سا وقت تھا اپنی داستان ہمیں سنانے کا۔ اتنے سالوں تک تو کبھی سنانے کا خیال نہیں آیا اور آج کچھ یوں سنائی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم نے سنی نہیں دیکھی ہو"۔ "کاکا غفُوڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ! یہ ہی تو دڑست ویلہ تھا اِس کہانی کو سنانے کا اوڑ اِس سے بہتڑ اوڑ کوئی موقعہ کون سا ہوسکتا ہے"۔ "استاد اب یہ بُجھارتے بُوجھنا بند کرو اور صاف صاف بتاو کہنا کیا چاہتے ہو؟"۔ مُشتاق استاد کی نم آلود آںکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔ "میں ابھی سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کئے دیتا ہوں لیکن اُس سے پہلے تم دونوں میڑے ایک سوال کا جواب دو۔ کون مجھے یہ بتائے گا کہ شہڑِلاہوڑ کے کُل کتنے دڑوازے ہیں؟" مُشتاق اور گامے نے ایک لمحے کے لیئے سوچا کہ استاد کی طعبیت تو ٹھیک ہے۔ بھلا اس عجیب سے سوال کا اُس کہانی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ گامے سے جب رہا نہ گیا تو وہ بول پڑا: "استاد بھلا لاہور کے دروازوں سے تمھاری اس رام کتھا کا کیا واسطہ؟"۔ "تم اس بات کو چھوڑو اور بس میڑے سوال کا جواب دو"۔ استاد رفیق کا چہرہ اور لہجہ دونوں ہی گھمبھیرتا سے لبریز تھے۔ "دس" گامے نے ہانک لگائی۔ "نہیں استاد دس نہیں اس گامے کو کیا پتہ۔ کوئی پندرہ کے قریب ہیں، کیوں استاد؟"۔ مُشتاق اندازہ لگتے لہجے میں بولا۔ "نا دس نا پندڑہ۔ ہیں تو پوڑے تیڑا دڑوازے لیکن کہا یوں جاتا ہے کہ باڑہ دڑوازے اور تیڑویں مُوڑی"۔ لیکن استاد آخر یہ دروازوے بھلا ہماری بات میں کہاں سے بیچ میں آگئے؟"۔ اب تو مُشتاق سے بھی رہا نہ گیا تو وہ بھی مارے حیرت کے پوچھ ہی بیٹھا۔ "بہت گہڑا تعلق ہے"۔ استاد کے چہرے پر ایک عجب پُراسرار سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ "یہ سارے دڑوازے صڑف دڑوازے نہیں یہ لاہوڑ شہڑ کی پہچان ہیں۔ یہ لاہوڑ شہڑ کا دل ہیں، اُس کی ڑوح ہیں اوڑ سچ پوچھوں تو یہ دڑوازے لاہوڑ شہڑ کی اصل تقافت ہیں۔ اپنے اِسی بھاٹی دڑوازے میں علامہ اقبال دوران تحصیلِ علم "اقبال منزل" میں رہا کرتے تھے۔ مولانا حالی جب پانی پت سے لاہوڑ آیا کڑتے تو اُن کا قیام بھی بھائی دروازے میں ہی ہوا کڑتا تھا۔ مغلیہ دور کی یادگاڑ عماڑتیں جو اب ہر گزڑتے دن کے ساتھ مٹی کا ڈھیڑ بنتی جاڑہی ہیں۔ شاید تمھیں معلوم نہ ہو کہ محمد رفیع جیسا عظیم فنکاڑ بھی ہماڑے بھاٹی گیٹ ہی کا ڑہائشی تھا۔ بحڑطوڑ میں جب چھوٹا کاکا تھا تو جب بھی وقت ملتا تو میں پیدل پیدل ہی لاہوڑ شہڑ کے ان ساڑے دڑوازوں کی سیڑ کو نکل پڑتا۔ پاویں کسی پاسے نکل جاو، ہماڑی تہذیب اور تقافت ہی تقافت دکھائی دیتی تھی۔ جس گلی، کوچے یا چوبارے وچ لنگ جاو تسی بس موجاں ہی موجاں۔ اک پاسے ملکہِ تڑنم نوڑجہاں کی آواز سنائی دے ڑہی ہے تے دوجے پاسے مہدی حسن کے گلے کا بھگوان بولتا سنائی دیتا۔ لاہوڑ شہڑ کے ان دڑوازوں میں شاید ہی کوئی ایسا گلی کوچہ ہو جہاں ان کی آوازیں سنائی نہ دے۔ مگر آج وہاں سے گزرو تو ہر گلی میں کوئی نہ کوئی فاحشہ یا تو اپنی ہلکٹ جوانی کی دھائی دیتی سنائی دے گی۔ کوئی سرِعام اپنے جگر سے بیڑی سلگانے کی دعوت گناہ دیتی ملے گی۔ کوئی منی لوگوں کو اپنی بدنامی کا چرچہ کرتی۔ کوئی انارکلی ڈسکو جاتی ملے گی۔ کوئی جلیبی بائی شرم و حیا کی جلبیاں تلتی سنائی دے گی اور کوئی ڑضیہ غنڈوں میں پھنسی واویلا کڑ ڑہی ہوگی"۔

استاد ایک لمحےکے لیئے رکا۔ ایک گہری سانس لے کر دونوں کی آنکھوں میں غور سے جھانکتے ہوئے بولا: "سچ پوچھو تو غنڈوں میں ڑضیہ نہیں پھنسی۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! غنڈوں میں تو ہم، ہماڑی ساڑی قوم، ہماڑی تقافت، ہماڑی نئی نسل، اُن کا مستقبل اور آنے والے نسلیں سڑ سے پاؤں تک پھنس گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اور اِسی ہلکٹ جوانی والی جگڑ سے بیٹری جلانے کی دعوتِ گناہ دیتں منی، انارکلی، جلیبی بائی اور ڑضیہ کو چاڑہ بنا کڑ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھنسایا گیا ہے اور مسلسل پھنسایا جا ڑہا ہے"۔

۔"استاد تم بھی نہ بات کا بتنگڑ بنانے کے ماہڑ ہو"۔ گاما منہ بناتے ہوئے بولا۔ "استاد تم نے سنا نہیں اب تو فاصلے دور ہور ہے ہیں اور دوستیاں بڑھ رہی ہیں جسے امن کی آشا کا نام دیا جارہا ہے اور تم ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے لیکر بس بال کی کھال ہی اتارے جارے ہو"۔

۔"امن دوستی اور خوشگواڑ تعلقات سب بہت اچھی باتیں ہیں لیکن امن، دوستی اور تعلقات کی آڑ میں یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے ہمارے لیئے اچھا ثابت نہ ہوگا۔ کہیں سے آلو، ٹماٹر، پیاز، ادڑھک، مڑچیں، چینی، دال اور چاول وغیرہ درآمد یا برآمد کرلینا اور بات ہے لیکن تقافت کے نام پر اُوچھا پن اور گھٹیا بازاڑی قدڑوں۔ موسیقی کے نام پر اخلاق باختہ اور شرم و حیا سے عاڑی اقداڑ کو پہلے تفریح کے نام پر منگوانا اور پھر اُسے معاشڑے میں سمونا اور ڑچانا ایک دوسری بات ہے۔ اگڑ یہ سب اتنا ہی اچھا ہوتا تو حضرت علامہ محمد اقبالؒ جیسے عظیم مُفکر کبھی الگ ملک کا مطالبہ نہ کرتے اور قائد اٰعظم محمد علی جناحؒ جیسے دُوراندیش انسان کبھی حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے دیکھے خواب کو سچ بنانے کے پیچھے ٹی بی کے موضی مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان اُس ملک پر یونہی نچھاور نہ کرتے"۔

۔"لیکن استاد یہ اب نیاء دور، نیاء زمانہ ہے۔ اَس نئے زمانے میں آپ کے زمانے کا سنگیت تو چلنے سے رہا"۔ مُشتاق نے وکیلوں کے انداز میں اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ "نئے دوڑ کا سنگیت" استاد کے لہجے میں گہرا طنز تھا۔ تم جسے سنگیت کہہ رہے ہو وہ تو سنگیت کے پاؤں کی جوتی کہلانے کے بھی لائق نہیں۔ موسیقی کو تو ڑوح کی غذا کہا جاتا ہے۔ جب ڑوحوں کو ایسی شیطانی غذا ملے گی تو پھڑ معاشڑے میں ایسی ہی سیاہ شیطانی اقداڑ جنم لے گیں اور وہی سب کچھ ہوگا جو آج ہمارے یہاں ہورہا ہے۔ چلو یہ ہی دیکھ لو کہ ہماڑے دوڑ کی موسیقی سُن کڑ دل ودماغ میں پاکیزگی بھڑ آتی تھی۔ میڑی زندگی کی کہانی میں نے تم لوگوں کو اسی لئے سنائی تھی۔ تم پوچھ ڑہے تھے نہ کہ اُس کا ان سب باتوں سے کیا تعلق ہے۔ میڑے جیسے انسان جسے سوائے اللہ کے کسی کا بھی آسڑا نہ تھا اس کو حوصلہ موسیقی نے ہی دیا اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔ جیسا سنو، پڑھوں اوڑ دیکھو گے ویسے خیالات تمھارے زہن میں جنم لے گے۔ تمھارے دور کی یہ مادر پدر آزاد موسیقی سوائے شیطانی جذبات کو بھڑکانے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتی ہے؟ دیکھ لو کہ ہماڑے دوڑ میں اِس نئے دوڑ میں کتنا فڑق ہے"۔ پھر استاد ایک لمحے کے لیئے رکا اور غفوُر کی طرف دیکھتا ہوا بولا:۔ " تم کہہ ڑہے تھے نہ کہ استاد ہماڑے ساتھ آئٹم سانگ والی فلم دیکھنے چلو۔ میں اب بھی تمھاڑے ساتھ چلنے کو تیاڑ ہوں لیکن مجھے تم صڑف اتنا بتاؤ کہ کیا تم وہ فلم اپنی ماں بہنوں کو بھی دیکھنے کی دعوت اُسی طرح سے دے سکتے ہو جیسے تم مجھے دے ڑہے تھے۔ ناقی ڑہی یہ بات کہ وہاں آیٹم سانگ پر سنیما میں آگ لگ جاتی ہے اور لوگ سکرین پر ناچتی گاتی ہیڑوین پڑ ڑیزگاڑیاں اچھلاتے ہیں تو شاہی محلے میں بھی یہ ہی کچھ ہوتا ہے۔ تم لوگوں نے تو ان کے بیچ کا فڑق ہی مکا دیا ہے"۔

اتنا کہہ کر استاد اپنی کرسی سے تھوڑا سا اٹھ کر مُشتاق پر جھک گیا اور اُس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر بولا: "مُشتاق مجھے حیڑت تو تم پڑ ہے۔ تم فلم اور ٹی وی کے شُعبے میں نیشنل کالج آف آڑٹس سے گڑیجویشن کڑنا چاہتے ہو تاکہ آگے چل کڑ فلم یا ٹی وی کے شُعبے میں جا کڑ اپنا نام بنا سکو۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تمھیں اپنی فلموں، اپنی موسیقی، اپنی تقافت، اپنے فنکاروں اور اداکاروں کے بارے میں ککھ پتا نہیں۔ اوڑ تو اوڑ تم یہ تک نہیں جانتے کہ لاہوڑ شہڑ کے کُل دڑوازے کتنے ہیں۔ میرے پیچھے دھڑلے سے ہلکٹ جوانی جیسے گھٹیا گانے سُنتے ہو۔ اتواڑ کی اتواڑ واہیات آئٹم سانگ والی گھٹیا فلمیں دیکھنے جاتے ہو۔ کیسے اس شُعبے میں جا کڑ کوئی ایسا کام کڑنے کے لائق بن سکو گے جس سے پتہ چل سکے کہ یہ کسی پاکستانی تخلیقکاڑ کی پاکستانی تخلیق ہے۔ اپنے نام کو ڑوشن کڑنے کی فکڑ چھوڑ کڑ پاکستان کا نام اور اُس کی تقافت کو اونچا کڑنے کی فکڑ میں لگ جاؤ۔ پاکستان کے صدقے تمھاڑا نام آپو آپ ڑوشن ہوجائے گا"۔

اتنا کہہ کر استاد میز سے اٹھ کھڑا ہوا اور کاونٹر کی طرف چل پڑا۔ مُشتاق گامے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سی ڈی نکال کر کاونٹر کی طرف چل پڑا۔ استاد کے عین سامنے جا کر سی ڈی اپنے ہاتھوں سے دو ٹکڑے کر کے کاؤنٹر پر رکھ دی اور بولا:۔ "استاد کیا اِس اتوار والے دن مجھے اور گامے کو ایورنیو اسٹوڈیو لے جا کر وہ والا ریکارڈنگ اسٹودیو دکھا سکتے ہو جہاں تمھارا روبن دادا اپنے وہ شہاکار گیت ریکارڈ کیا کرتا تھا۔ جسے سُن سُن کر میرا رفیق استاد ایک کامیاب انسان تو بنا ہی لیکن آج مجھ جیسے ایک بےآسر یتیم کے سر کا آسرا بھی بنا ہوا ہے۔ وہ تمھارا دادا روبن گھوش تھا اور تم ہمارے روبن گھوش ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، بھائی گیٹ کے روبن گھوش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔!!!۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.