آپ مسلمانوں کی تاریخ پر نظر
دوڑائیں……خلافتِ راشدہ، عہدئے خلفائے عباسیہ،عہد ِمغلیہ وغیرہ کیا آپ کو
کہیں بھی ایسا نظام نظر آتا ہے کہ کسی خلیفہ یا کسی مغل بادشاہ نے کوئی
پارلیمنٹ بنائی ہو اور اس کے مشورے کو اپنے اوپر لازم کیا ہو۔آپ کو ان سارے
ادوار میں کہیں بھی جمہوریت نام کا کوئی نظام نظر نہیں آئے گا بلکہ تاریخ
میں یہ آپ کو ایک ڈیڑھ صدی پہلے ہی ملے گا اور وہ بھی اس وقت جب خلافت
ناپید ہوگئی اور استعمار نے حیلے ،مکر ودھوکہ اور مسلمانوں کی غفلتوں کے
باعث ہماری سرزمینوں پر قبضے کر لیے۔پھر جب ہمارے وسائل کو لوٹنے اور ہمارے
اندر فساد برپا کرنے کے بعد وہ ہماری سرزمینوں سے نکلے تو ہمیں جھوٹے
نبیوں،بدعتیوں اورجمہوریت کے باطل دین کا تحفہ دے کر گئے!!۔
اسلامی نظامِ حکومت میں بادشاہ یا خلیفہ ایسے کسی مشورہ کا پابند نہیں ہو
تاجو شریعت کے خلاف ہو بلکہ خود خلیفہ وبادشاہ کا ایسا اقدام جس پر اﷲ اور
اسکے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مہر نہ ہو مردود ہے۔چہ جائے کہ اسے
اسمبلی میں بیٹھے جاہلوں، زانیوں،شرابیوں اورعزت ومال کے لٹیرے احمقوں کی
رائے و مشورہ کا پابند بنایا جائے۔پھر آپ اس بات پر غور و تأمل کریں کہ اﷲ
کا نظام ’’شریعت بل‘‘ کے نام پر ان کے سامنے پیش کیا جائے کہ اگر وہ پاس کر
دیں تو ٹھیک ورنہ وہ اس قابل نہیں کہ ملک کا قانون بن جائے۔جبکہ اسلام میں
تو خلیفہ وبادشاہ بھی الہی قانون کے سامنے سب کے ساتھ برابر جواب دہ ہے کہ
اگر وہ کفر کا ارتکاب کرے تو اسے معزول کیا جائے گا جیسے کہ صحیح مسلم کی
حدیث میں ہے۔لیکن یہاں جمہوری آمرجو چاہے کرے کیونکہ اسے عوام نے اختیار
سونپ دیا کہ اپنی شخصی و ذاتی سوچ کو پوری قوم پر مسلط کردے۔لوگوں کی رائے
کو اس میں کوئی دخل نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔ زمین اﷲ کی نظام اسکا مخلوق
اسکی اور حکم بھی اسی کا چلے گا﴿وہوالذی فی السماء الہ وفی الارض الہ ﴾ وہ
ذات جو آسمانوں میں الہ ہے وہ زمین میں بھی الہ ہے۔اس لیے جب آپ اسکے
پہریدار بنتے ہیں تو آپ کفر کے پہریدار ہیں اور اسکی حفاظت کررہے ہیں ۔ آپ
کو اس نظام میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال تو ہوتا ہے لیکن اﷲ
عزوجل کے وقار کا خیال نہیں ہوتا جبکہ اﷲ قرآن میں فرماتے ہیں ﴿مالکم لا
ترجون ﷲ وقاراً﴾ تمہیں کیا ہے کہ اﷲ کے تقدس ووقار کا خیال نہیں کرتے۔
جمہوریت میں اکثریت کی رائے کا احترام ہے چاہے وہ دین کی دشمنی پر ہی مبنی
ہو۔صرف اکثریت کو ہی قانون بنانے کا حق ہے چاہے وہ اسلام کے مخالف قانون ہی
کیوں نہ ہو۔اﷲ قرآن میں فرماتے ہیں﴿وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل
اﷲ﴾ اگر آپ اکثریت کی پیروی کریں گے تو وہ آپ کو سیدھی راہ سے ہٹادیں
گے۔اگر کسی کے ذہن میں یہ آئے کہ بڑے بڑے علماء بھی تو اسمبلیوں میں جاتے
اور اسی نظام کوصحیح سمجھتے ہیں ۔اس پر ہم کہتے ہیں کہ آپ اپنی عقل پر ماتم
کیجیے کہ پیٹ پرستوں کو جنہوں نے چہروں پر داڑھیاں سجالی ہیں آپ انہیں
علماء سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے سچے علماء دیکھنے ہیں تو جاکے جہاد وقتال
کے میدانوں میں دیکھیں جن کے پیٹ اندر کو دھنس گئے ہیں اورپوری اسلامی دنیا
میں طاغوتوں کی خفیہ جیلیں جن کے مقدس وجود سے بھر دی گئی ہیں۔اﷲ انہیں
رہائی دلائے اور ہمیں ان کی رہائی کے لیے طاغوت کی تباہی وبربادی کا سبب
بنا دے (اٰمین)۔ہم آپ کو وہی بات کہتے ہیں جو حضرت علی ؓبن ابی طالب نے کہی
تھی﴿اعرف الحق تعرف اہلہ﴾ حق کو پہچانوں ،اہلِ حق کو تم خود ہی پہچان
لوگے۔شخصیتوں کے ساتھ حق کو نہ پہچانوں کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اور اسکی
پگڑی بڑی خوبصورت ہے، وہ تقریر اچھی کرلیتا ہے بلکہ حق کو پہچانوں پھر ایسے
شخص کے عمل کو دیکھو کہ وہ کتنا اس پر کاربند ہے!!!۔
شریعت سازی اور قانون سازی
قانون رب العلمین بناتاہے، قانون بنانے کا حق اﷲ نے نبی اکو بھی نہیں عطاء
فرمایا۔ہمارے پاس غلطیوں ،کوتاہیوں سے پاک منزل من اﷲ قانون ہے……اﷲ کی کتاب
اور اسکے رسول کی سنت!!! کیا اسکے بعد کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔جب کوئی اﷲ
کے مقابلہ میں قانون سازی کرتا ہے اور پھر اسے قانون کا درجہ دیتا ہے تو وہ
اﷲ کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔وہ مشرک ہے اور ہمارا دشمن ہے۔پھر
پولیس و فوج اسی قانون کی رکھوالی کرتے ہیں اور اسکی مخالفت کرنے والے کو
جیلوں میں ڈالتے اور سزائیں دیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے حکمران اوراسکی رعایا
سبھی اسلام کے قانون کے تابع ہیں۔کوئی چھوٹا یا بڑا قانون کے سامنے علیحدہ
حیثیت نہیں رکھتا بلکہ سبھی قانون کے سامنے برابر ہیں۔جیسے کہ اسلام کا
وطیرہ تھا جب نبی اکے عہد میں ایک عورت نے چوری کی تو آپ انے فرمایا کہ
﴿لوان فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدہا﴾اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری
کرتی تو میں اسکے ہاتھ کاٹ دیتا اور فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک
ہوگئے کہ جب کوئی کمزور ان میں چوری کرتا تو اس کے ہاتھ کاٹ دیتے اور اگر
امیر ہوتا تو اسے چھوڑدیتے تھے۔
وہ قانون جو یہ اسمبلیاں بنائیں گی اس کی کوئی قیمت نہیں چاہے وہ اسلامی ہی
کیوں نہ ہو کیونکہ جس طریقہ پر وہ بنائے گئے ہیں وہ ہے ہی غیر اسلامی اور
’’کفر‘‘۔لہذا مسئلہ صرف شریعت کے نفاذ کا نہیں جو ’’عوامی نمائندوں‘‘ کے
ہاتھوں نافذ ہوجائے تو ٹھیک ہے۔بلکہ مسئلہ تو خلافت کے قیام کا ہے جس میں
صالح اور نیک انسان اﷲ کا فرمانبردار خلیفہ اور اسکے سمیت سارے عوام الہی
قانون کو جواب دہ ہوں۔نہ کہ جو شریعت یہ جاہلوں کے نمائندے پاس کریں گے پھر
اس کی تفسیر یہ خود اور سپریم کورٹ میں بیٹھا ایک شخص اس کے مطابق کرے گا
جو اسے شیطان املا کروائے گا۔
وضعی قوانین اور بعض کی شریعت کے ساتھ موافقت
کوئی اگر یہ کہہ کے دھوکہ دینا چاہے کہ’’ ہمارے دستور‘‘ میں بعض قوانین
اسلامی بھی ہیں جیسے حدود آرڈینینس وغیرہ۔پہلی بات یہ ہے کہ ان کے اس
جملہ’’ہمارے دستور‘‘ پر غور کریں تو آپ کو حقیقت سمجھ آئے گی۔ کیا کسی احمق
نمائندے نے آج تک یہ کہا’’اﷲ کے دستور میں ‘‘مسئلہ اسطرح ہے۔ کیونکہ وہ
جانتا ہے کہ اس کا دستور اﷲ کا قانون نہیں ہے۔
دستور کے اندر موجود بعض قوانین جو اسلامی ہیں وہ اس پورے دستور کو اسلامی
نہیں بناسکتے۔وہ دستور جو اﷲ کے مقابلے میں قانون سازی کا حق جاہل نمائندوں
کو دیتا ہے…… وہ دستور جو شرک کے مظاہر کی سرپرستی کرتا ہے…… وہ دستور جس
کی بنیاد انگریزوں کا1935کا ایکٹ ہے نہ کہ قرآن وحدیث……وہ دستور جو
مسلمانوں کی مددو نصرت کرنے کو جرم ودہشت گردی کہتا ہے…… وہ دستور جو ان
حکمرانوں کو کافروں سے دوستیاں کرنے سے نہیں روکتا…… جو انہیں مسلمانوں پر
بمباریاں کروانے اور انہیں پکڑ کے ٹارچر کے لیے کافروں کے حوالے کرنے سے
منع نہیں کرتا……وہ دستور جو جہاد کو جاری نہیں کرتا بلکہ دہشت گردی کانام
دے کر اسے مٹاتا ہے…… وہ دستور جو ملک میں شراب پینے بنانے ، پھیلانے اور
اسکی تجارت کرنے کی اجازت دیتا ہے……وہ دستورجو سود ی لین دین کرتا ہے اور
اسکے اداروں کو خود تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ اﷲ نے اسے اﷲ ورسول کیساتھ جنگ
قرار دیا ہے……وہ دستور جو زنا کے اڈوں کو باقاعدہ لائسنس جاری کرتا ہے اور
زناء کاری کے تحفظ کے لیے آرڈینینس رکھتا ہے……وہ دستور جوہر غیر اسلامی عمل
کی حمایت کرتا ہے چاہے اس میں کیسا ہی فساد ہو…… وہ جو مسلمانوں میں غیر
مسلموں کے طریقوں کوجائز قرار دیتا ہے……یہ فہرست بہت طویل ہے۔لیکن اس دستور
میں موجود بعض اسلامی قوانین اسے کفریہ دستور ہونے سے خارج نہیں کرتے۔اﷲ
تعالیٰ فرماتے ہیں﴿ان الذین یکفرون بااﷲ ورسلہ ویریدون ان یفرقو بین اﷲ
ورسلہ ویقولون نومن ببعض ونکفر ببعض ویریدون ان یتخذوا بین ذالک سبیلا
اولئک ہم الکافرون حقا واعتدنا للکافرین عذابا مہینا﴾جو لوگ اﷲ کے ساتھ اور
اسکے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اورجو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اﷲ اور اس
کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر
ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اوروہ چاہتے کہ اس کے اور اسکے بین بین
کوئی راہ نکالیں۔یہی لوگ اصل کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز
سزا تیار کر رکھی ہے(النساء150-151)۔پس آپ بھی بعض اسلام پر ایمان رکھتے
ہیں اور بعض سے انکاری ہیں
لیکن حقیقت میں آپ کا معاملہ اس آیت مذکور شکل سے بھی بدتر ہے۔
امریکی پالیسیاں اور دین سے دستبراداری
ویسے تو زمانوں سے ہی کفر کے یہ ذہنی وجسمانی غلام انہی کی مانتے اور انہی
کی عبادت کرتے آرہے ہیں لیکن گیارہ ستمبر کے بعد ان کی کفر کے لیے اطاعت
اپنی آخری حدوں تک پہنچ گئی ہے۔کیونکہ طاغوتِ اکبر امریکہ کا حکم کی ان کے
ارادے کے درمیان حائل ہے۔امریکہ نے جہنم کے بدلے ان کی جان ومال کا سودا
کرلیا ہے اور یہ اسی کی راہ میں صبح شام کتے کی موت مرتے ہیں اور یہ ان کے
ساتھ ایسا وعدہ ہے جو کیمپ ڈیوڈ اور وائٹ ہاؤ س میں کیا گیا ہے۔وہ پیسے
دیکر ساتھ بتاتا بھی ہے اتنا کھانا ہے اور اتنا فلاں مد میں خرچ کرنا
ہے۔ساتھ ہی خبردار کرتا ہے کہ اسلامی قیادت، اسلام کے ساتھ وابستہ ہر اس
عمل کی راہ پوری قوت سے روکیں جس کا ہدف مسلمانوں میں بطورِ نظام اسلام کا
احیاء ہو۔
ایسا حکم ماننے میں حکمران اور ان کے دم چھلے اور فوج کے ادارے ذرہ بھر بھی
پس وپیش نہیں کرتے اور انہیں اس کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کہ ان کا یہ عمل
انہیں دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا ہے۔وہ امریکہ کے حکم پر علاقے کا
گھیراؤ کر لیتے ہیں تاکہ ایسے گھیراؤمیں موجود صہیونی کافر ایک نہتی مسلمان
معصوم بیٹی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹے اوربے گناہ گرفتار کر کے لے جائیں۔
جب کہ ہم تو اس قوم کے وارث ہیں کہ جن کے اجداد نے ایک مسلمان بیٹی کی خاطر
سندھ فتح کرلیا تھا اور اسے رہا کرواکے اسکے گھر بھیجا۔لیکن آج اسی محمد بن
قاسمؒ کے وارث ہونے کا دعوہ کرنے والوں کی خفیہ جیلوں میں مسلمان بیٹیوں کی
سسکیاں اور چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ایساکرنے والوں کے لیے یہ معمولی کام ہیں
لیکن علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ اسلام سے خارج ہوچکے اور کفر کے کیمپ
میں کھڑے ہیں!!!
تنخواہ دارعلماء کا کردار
پوری مسلمان دنیا میں نوجوانوں کے اندر بیداری کی اس لہر کے خلاف ہراول
دستے کا کردار تنخواہ دارعلمائے حکومت سر انجام دے رہے ہیں۔ہم انہیں یہی
کہنا چاہتے ہیں ……مسلمانوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو اور دنیا کے تھوڑے فائدے
کے لیے اپنی آخرت تباہ نہ کرو۔علمی میدان میں وہ اہل السنۃ کے عقیدہ اور
اسکے اندر ایمان کی تعریفات کو بدل دینا چاہتے ہیں تاکہ طاغوتوں کے لیے ان
کے کفریہ اعمال کو شریعت کی چھتری کا سایہ دیا جاسکے۔ اس کے ساتھ وہ ایسے
باطل و بے دلیل فتاویٰ جاری کرتے ہیں کہ جن سے مسلمانوں کے ان سچے لوگوں کا
خون مباح ہوجائے۔طاغوت کی اعانت کے لیے دینی سیاست کی راہ میں اشکالات و
شبہات کو فروغ دینا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔جہاد ولی الامر کی اجازت اور
امام کے بغیر نہیں ہوتا، موجودہ دور میں جہاد سے بہت سے فساد واقع ہوتے ہیں
اور یہ کہ کمزوری کے وقت طاقتور کو تسلیم کرلینا عین اسلام ہے چاہے اہل دین
غارت ہوجائیں۔پھر انہوں نے تعطیلِ جہاد، تأجیلِ جہاد اور توقیفِ جہاد کی
نئی نئی اصطلاحات ایجاد کر رکھی ہیں۔
ہم نہیں کہتے کہ وہ انبیاء کے وارث علماء ہیں بلکہ ہم انہیں اہلِ علم کہتے
ہیں۔اس لیے ہم انہیں خبر دار کرتے ہیں قبل اسکے کہ عامۃالناس ان کے خون کو
مباح کرلیں ،اﷲ سے ڈرجائیں اور حق بات بیان کریں اور دنیا وی مفادات کی
خاطر آخرت کو تباہ نہ کریں بلکہ آپ انبیاء کے وارث بنیں اور اس ذمہ داری کو
جو اﷲ عزوجل نے آپ کے کندھوں پر ڈالی ہے اس کو ادا کریں ۔میدان میں نکلیں
اور ہماری قیادت کریں اور یاد رکھیں جب ہم میدانِ جہاد میں غلطیاں کریں گے
اور انکی کی درستگی کے لیے علماء ہمارے پاس نہ ہوں گے تو اس کا گناہ آپ کے
کندھوں پر بھی ہوگا۔اﷲ کے اس قول کو یاد رکھیں-
﴿یا ایہا الذین امنوا اتقوا اﷲ وکونوا مع الصادقین﴾ اے ایمان والو اﷲ سے
ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو!!!۔ |