کیا تصوف ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھا نے کا؟

حقیقت تصوف کا عالمگیر پہلو: سچ تو یہ ہے کہ تصوف کا آغاز اسی وقت سے ہوا جب سے حضرت آدم و حواکی اس دنیامیں آمد ہوئی ہاں یہ ضرور ہے کہ شعوری طور پر اس کا علم یا مرتب شکل میں اس کا احساس ابن آدم کو بعد میں ہوا۔ جس تصوف کی بات اسلام کرتا ہے یہ اسلام کا ایک اہم جز ہو نے کی حیثیت سے کبھی بھی اس سے الگ نہیں رہا۔ تاریخ بتا تی ہے کہ ایمان و اسلام کے بعد انسانی معاشرے کے بال و پر استوار کرنے ،ایمانی قوت کو انجلاء بخشنے اورصالح معاشرہ کی تشکیل و تعمیرمیں اس نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔جہاں کو ئی دنیاوی جرم و سزاکا نظام یا حیاتیاتی منشور و دستورکا دور دور تک تصور نہ ہو،ایسے نازک وقت میں افرادِ معاشرہ صرف اور صرف ایک ایسی مافوق الفطرت طاقت کی خوشنودی کی خاطر زندگی کے شب و روزگزار رہے ہوں ایسی فضاکی تعمیر میں اسی تصوف نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ یہ ہمیشہ ایمانی حرارت کو تازگی بخشتا رہابلکہ ہر اس کام سے بھی بچاتا رہا جس سے اس کا رب ناراض ہوتاہے اورمعصیت کی صورت میں گریہ و زاری کر کے رضائے الٰہی کے حصول پر آمادہ کرتارہاہے ۔حضرت آدم تین سو سالوں تک مسلسل روتے رہے ،حضرت یونس بطن ماہی میں گڑ گڑائے نیز دیگر انبیائے سابقین اور مومنین کاملین نے آخرایسا کیوں کیا؟ ․․صرف اس لیے نا!․․ کہ اس کا رب اس سے راضی ہو جائے اور خالق ومخلوق کے مابین جو فاصلہ سا بن گیا ہے اسے قربت و وصال میں بدل دے اورنفس پھر کبھی اس سے غافل نہ ہونے پائے ۔چند افرادکی ایک جماعت نے خدا ے واحدکی عبادت کا اعلان کیا اورتراجم بادشاہ روم کے ظلم سے نجات کے لیے جورڈن(اردن)کے پایۂ تخت عمان کے قریبی علاقے رقیم کے ایک پہاڑی میں گوشہ نشیں ہو ے اور رضائے الٰہی کی خاطر تین سو سالوں تک روپوش رہے ،جنھیں تاریخ اصحا ب کہف (سورہ ٔکہف آیت ۹تا ۲۶ میں بالتفصیل ذکرہے )کے نام سے جانتی ہے ۔یہ کیوں کر ہوا ! اس لیے نا ․․کہ وہ وصال یار کو فرقت میں بدلنا نہیں چاہتے تھے۔

حقیقت تصوف یعنی مشاہدہ و مراقبہ ہی کے انجلا کے خاطر حضرتِ یحیٰ علیہ السلام بچپنے میں پہاڑوں کی طرف نکل جایا کرتے او ر بار گاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہو کر اس قدر روتے اور خوف خدا کا کچھ اس طرح تصور جماتے کہ ایک دفعہ ان کی والدہ جو انھیں تلاش کو نکلی تھیں ان کی آہٹ پاکر انھیں ملک الموت سمجھ بیٹھے اور بے ساختہ یہ پکار اٹھے کہ’ ملک الموت ذرامہلت دے کہ میں اپنی والدہ کو آخری سلام کہہ آؤں رات کافی بیت چکی ہے‘ !․․․․در اصل تصوف انھیں کڑ یوں کا نام ہے جو خلق کو خالق سے ایک لمحہ بھی جدا ہو نے نہیں دیتا ۔

مذکورہ بالا اختصار کے بعد بہت حد تک یہ خلش دور ہو چکی ہو گی کہ آخر وہ تصوف ہے کیا جواسلام سے کبھی الگ نہیں رہااور جس کی ضرورت ہر دور میں یکساں محسوس کی گئی!․․جب ہم سیرت رسول کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ اعلانِ نبوت سے قبل غار حراء سے اور اعلان نبوت کے بعد حدیثِ جبرئیل سے اقوام عالم کو پھر سے یہ سبق یاد کرایا جاتا ہے اور نبی برحق اپنے جانثاروں کو اس رنگ میں رنگنے کے لیے باضابطہ طور پر درسگاہِ تصوف بچھا دیتے ہیں جو آج بھی تاریخ اسلام میں ’صفہ ‘ کے نام سے آنے والے ہردور کے لیے نظام تصوف کی بنیادیں فراہم کرتی ہے ۔ شاید یہی صفہ اصطلاح تصوف کی وجہ تسمیہ ہو جیسا کہ بہت سے اکابرین کا ماننا ہے کیوں کہ احسان و تزکیہ کے مٹتے نقوش کوعملًا دوبارہ اسی صفہ سے باظابطہ حیاتِ جاوداں میسر ہوئی تھی ۔

حدیث جبرئیل کے مطالعے سے احسان و تصوف کے تعلق سے جو باتیں صاف نظر آتی ہیں وہ یہ کہ حضرت جبرئیل امیں نے حضور ﷺ سے اسلام اور ایمان کے ساتھ احسان کے بارے میں سوال کیا ۔اس اخیر کے سوال میں آقاے دوعالم ﷺ نے فرمایا :کہ تم اﷲ کی عبا دت اس حال میں کرو گو یاتم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس حال کو نہ پاسکو تو اﷲ تعالیٰ تو تم کو یقینا دیکھ رہا ہے ۔نیز جبرئیل امیں کے چلے جانے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمیں تمہارادین سکھا نے آئے تھے۔یہاں لفظ دین بڑی اہمیت کاحامل ہے اگر آپ اس پر غور کریں تو صاف ظاہرہوگا کہ احسان و تصوف بھی اسلام و ایمان کی طرح دین ومذہب کا ایک جز ہے ۔یہاں یہ بھی وضاحت کرتے چلیں کہ اکثر حضرات اسلام کو کبھی دین و مذہب کے معنیٰ میں لیتے ہیں تو اس درجہ بندی کے لحاظ سے احسان و تصوف اسلام کا جز ہو گا اور بہ صورت اول قسیم ۔اسلامی تصوف در اصل یہی ہے جس کی قدرے توضیح ہوئی اور از آدم تا ایں دم جس تصوف کے وجود کی بات کرتے ہیں وہ دراصل یہی ہے۔

تصوف اور عصر حاضر کی کشمکش کا علاج: لیکن یہ اس وقت ہے جب اصل و حقیقت کو دیکھیں اور محض اصطلاح و افواہ کے گورکھ دھندے میں نہ پڑیں کیوں کہ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ اصطلاحات اور مروجہ الفاظ و عنوانات نے حقائق کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے اور رفتہ رفتہ سیکڑوں مشکلات کھڑے کردیے اوراسی سبب ہمیں تصوف کے حریفوں اور حامیوں کا جم غفیر نظر آتا ہے ورنہ آج بھی اگر ہم نئے اصطلاحات اور عرفی ، رواجی اور روایتی ناموں میں نہ الجھیں تومسئلۂ تصوف بالکل صاف و شفاف آئینے کی طرح نظر آئے گا اور اس اختلاف میں جو ایک مستقل کتب خانہ وجود میں آگیا ہے اور فضول بحثوں کا جو طویل سلسلہ شروع ہو گیا ہے یہ یک لخت ختم ہو سکتا ہے اور ہم اپنے بہت سے حریفوں کو اپنا موافق بنا سکتے ہیں ۔

شبہ : ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں لفظ تصوف کا استعمال ترک کر دینا چاہئے بلکہ ہمیں ایسے اصطلاح میں الجھنے سے اجتناب کرنا چاہئے جس نے دین کی اس عظیم اورروشن حقیقت پر پر دہ ڈال دیا ہے جو احسان ،تزکیہ،تہذیبِ اخلاق اورروحانی وباطنی کیفیات میں رسول اﷲ ﷺ کی اتباع و تقلید کی دعوت دیتا ہے۔
خلاصۂ بحث :اس اختصار کے بعد حدیث و قرآن اورصوفیاء کرام کے سیرت و کردارکی روشنی میں ہمیں اسلامی تصوف، احسان کامترادف نظر آتا ہے جسے اصطلاحِ صوفیا میں مشاہدہ ( اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاْہَُ)او رمراقبہ(فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاْہُ فَاِنَّہٗ یَرَاْک) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یا الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ کی حدیث سے مستعار لی گئی تشریح ہے،یعنی ھوالاول والاٰخر والظاھر والباطن پر ایمان مکمل ہو جائے اور جب ایسا ہو گا تو لا محالہ اخلاص و سچائی پیدا ہو گی اور خلوت و جلوت ہر جگہ فاینما تولوا فثم وجہ اﷲ (تم جدھر منھ کرو گے ادھر وجہ اﷲ ہے ) کا احساس پو رے طور پر بیدار ہو جائے گا۔حاصل یہ کہ تصوف نام ہے یاد خدا میں مر نے جینے کااور ان عوارض و خوارج سے اجتناب کا جو خوف خدا وندی یا خدا کے حضور جواب دہی اور فکر آخرسے غا فل کر دے۔ وھو معکم اینما کنتم (تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے )وفی انفسکم افلا تبصرون۔(وہ تمہارے نفسوں میں ہے کیا تم دیکھتے نہیں)اور الم یعلم بان اﷲ یریٰ (کیا نہیں معلوم کہ اﷲ دیکھ رہا ہے )کا مصداق بن جائے ۔چنانچہ جب حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ سے تصوف کے بارے میں پو چھا گیا تو آپ نے فرمایا تصوف یہ ہے کہ آپ بلا تعلق غیر،اﷲ کے ساتھ ہو جائیں۔(عوارف المعارف باب الخامس فی ماھیۃ التصوف)

آخری بات: فن تصوف نام ہے ان وسائل کا جو تعلق بین الخلق والخالق کو مضبوط بنائے۔اور اس کے لیے صوفیا کے یہاں ہمیں تزکیہ و طہارت کی مشق ،ذکرو فکرکی کثرت،مراقبہ و محاسبہ پر استمرار،دنیاسے بے نیازی اور حقوق العباد و حقوق اﷲ کی مکمل ادائیگی کی کو شش وغیرہ نظر آتے ہیں۔ ان سب کے لیے مجاہدہ اورپھر ان کی مختلف تعبیریں ، مختلفterms جو ہمیں ملتے ہیں وہ عوارض تصوف کی حیثیت رکھتے ہیں حقیقت تصوف کی نہیں جو کسی نہ کسی طرح مشاہدہ و مراقبہ کی قوت کو بڑھا نے کے لیے ہیں جن کی تکمیل کے بعد ایک جسمِ خاکی لبادۂ بشریت کے اس خوبصورت وجود میں سما جاتا ہے جو واقعی اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق ہے اور رفتہ رفتہ اس مقام و مرتبہ کو پا لیتا ہے جہاں سے اس کا وجود قدر ت خدا وندی کے ظہور کامظہر ہو جاتا ہے اوربندہ یاد خدا وند ی میں کچھ یوں فنا ہو تا ہے کہ اﷲ اس کی ہر خواہش کی تکمیل فرماتا ہے ۔کبھی اس کی آنکھوں سے دوریاں سمٹ جا تی ہیں تو کبھی انکے دلوں پراسرار منکشف ہوجاتے ہیں۔یعنی پہلے تووہ اپنے رب کی خشنودی چاہتا تھامگراب خودرب اسے راضی رکھنے کو پسند فرماتا ہے۔پہلے وہ اپنے رب کو یاد کرتا تھا اب اس کا رب خود اس کا ذکر جمیل فرماتا ہے ۔ حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ(م۲۹۷؍۹۰۹)نے اسی لیے مقاصد تصوف کے ضمن میں فرمایا کہ اﷲ تم کو اپنی ذات میں باقی کر کے تمہیں تمہاری ذات سے فنا کر دے۔ شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی نے فرمایا’’تصوف عبارت از فنا و بقا ست‘‘۔(مکتوبات امام ربانی)۔حدیث قدسی اذاتقرب عبدی اِلَیَّ بالنوافل الیٰ اٰخرہ سے بھی یہی ظاہر ہے۔اور غار حر ا کی خلوت اورمدر سۂ صفہ کے مجاہدے ،مراقبے ،تزکیہ و تصفیہ نیز ’’لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ‘‘ پر عمل پیراہو نے والے سابقین اولین کی زندگیاں بھی یہی روشنی فراہم کر تی ہیں ۔
قرون الیٰ کے بعد تصوف مختلف حالات میں :آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خیرالقرون کے بعدکبھی تصوف کی تفہیم بگڑی تو اسے غیر ضروری بھی سمجھا گیا لیکن جب اصل تصویر کواہل نظر نے دیکھا تو اس سے خوب فیض یاب ہوے اور دوسروں کو کیابھی ۔اور پھرآگے چل کر یہ غلو اور تفریط سے دوچار ہوا اور اٹھا رہویں صدی میں آتے آتے اس میں اس قدر آمیزش ہوئی کہ بالآخرردعمل کے طور پر ایک متشدد جماعت وجود میں آئی جس نے سرے سے کسی بھی باطنی عمل کا انکار کردیا اور ساتھ ہی ایسے افراد کو بھی مورد الزام بنا یا جو ظاہر و باطن کے قائل تھے اور حال و قال کے داعی ۔دور حاضر تک آتے آتے حال یہ ہوا کہ ہر طرف اس کا اثر ظاہر ہو نے لگا اور حد یہ ہوگئی کہ اس نئی جماعت کے زیر اثر اٹھنے والے تشدد کی وجہ سے مذہب اسلام ہی کودہشت گردی کے زمرے میں لا کھڑا کر دیاگیا ۔اوراس انتہا پسندی( extremism )کو اس خلا نے نے بھی اتنی ہی روغن فراہم کیا جو احسان و تصوف سے ناآشناتھا جتنا کہ دیگر اسباب دنیوی نے جیسے عدم انصاف ،بیجا ظلم،ڈکٹیٹریٹ،بھوک , بیجا خوف و حراس اور ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد متنفرانہ تشہیر و تظہیر وغیرہ نے۔ لیکن ان سب کے باوجود آج ایک بارپھر دنیا کو اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ اسلام کی وہ تصویر جسے صوفیاے کرام نے دکھائی تھی جہاں ہر جگہ صرف اور صرف نرمی اور سوزو گدازکی کیفیت کار فرماہے اسے اپنانے کی ضرورت ہے ۔اور اس مادی دور میں جہاں لوگوں کی اکثریت اطمینان قلب سے محروم ہے ایک بار پھر اِنھیں راستوں کی محتاج ہے جس پر چل کر اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال ہو اجا سکتا ہے اوردنیا وآخرت میں نجات کی دولت سے بہر ور بھی۔

اسلامی تصوف اور دور حاضر کے مسائل :دور حاضر کا سب سے بڑامسئلہ فسادِ نیت ہے کیوں کہ یہ باطن کی وہ منافقت ہے جو زہر ہلاہل سے کہیں زیادہ پر خطر ہے کیوں کہ ظاہری خطرات سے انسان محفوظ رہ سکتا ہے لیکن باطنی خطرات کا وہ کیا مداواکرے۔جبکہ اس فساد نیت کا علاج صوفیا کے یہاں بنیادی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ان کا سارازور اسی کی اصلاح میں ہوتا ہے ۔ اس پر قابو پالینے کے بعد انسان کا ظاہر باطن کے موافق او ر باطن ظاہر کا عکس جمیل بن جاتا ہے اور پھر اِس کے ذریعہ وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں ہر کو ئی اپنی عزیمت کو دوسرے کی رعایت پر ترجیح دیتا ہے اپنی تکلیف کو دوسرے کی راحت کا لازمہ سمجھتا ہے ۔جہاں اس حدیث کی جلوہ گری نظر آتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ احب لغیرک ماتحب لنفسک ۔دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔

اسلامی تصوف اور ہندستان کے صوفیا:یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ تصوف کو مر کزیت صرف ہندستان میں حاصل رہی البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہندستان بھی اس کا اہم مر کز رہا ہے اور سلاسل تصوف کے متعدد نئے شعبے اسی سر زمین سے ابھرے اور ایک عالم کو مسخر کر گئے ۔مثلا طریقۂ مداریہ،قلندریہ،شطاریہ اورمجددیہ وغیرہ ۔مولا نا سید ابو الحسن علی ندوی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’گیارہویں صدی سے تقریبا ہندستان ہی تصوف اور اصلاح باطنی کا علمبر دارنظر آتا ہے‘‘۔(تزکیہ و احسان یاتصوف و سلوک ص۹۳)

ہندوستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں کی اکثریت صوفیاے کرام کے ہاتھوں ہی دامن اسلام سے وابستہ ہوئی جن میں حضرت خواجہ معین الدین سلسلۂ چشتیہ کے اہم بزرگ ہیں آپ کو سلطان الہند اسی لیے کہا جا تا ہے کہ آپ کی روحانی خدمات سے پو را بر صغیرفیضیاب ہوا۔اس کے علاوہ ہزارہا ہستیوں نے اپنے اخلاق و کردار سے اپنے رسول ﷺکی سچی نیابت و نقابت کا فریضہ انجام دیا جن میں حضرت شیخ علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش ۔حضرت شیخ حمید الدین نا گوری وغیرہ گیارہویں صدی عیسوی کے ان ہستیوں میں سے ہیں جن کا فیض بر صغیر سے جاری ہو کر ایک عالم کو فیضیاب کررہاہے۔بارہویں صدی عیسوی امام غزالی اور شیخ عبد القادرجیلانی رضی اﷲ عنہما کا دور ہے اس میں بھی ہندستان کی ایک شناخت ہے جہاں شیخ مجدد الف ثانی جیسے علوم ظاہر و باطن کی عدیم المثال ہستی گوہر آبدار کے انمول موتی تراش رہے تھے ۔اسی طرح ہر صدی میں اس حوالے سے صوفیاے کرام کا ایک جم غفیر ہندستان میں رہااور درجنوں سلاسل یہاں سے اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمگیر ہو گئے۔ ابوالفضل نے آئینہ اکبری میں لکھا ہے کہ ہندستان میں مندرجہ ذیل روحانی سلاسل نے کام کیاہے:
(۱)حبیبیان(۲)طیفوریان(۳)کرخیان(۴)سقطیان(۵)جنیدیان(۶)گازرونیان(۷)طوسیان(۸)فردوسیان(۹)سہروردیان(۱۰)زیدیان(۱۱)عباسیان (۱۲)ادہمیان(۱۳)ہبیریان(۱۴)چشتیان۔(آئن اکبری ج۲؍ص۲۰۳،مرتبہ سر سید احمد خان بہ حوالہ :کائنات تصوف از سید محمد اشتیاق عالم ضیاء شہبازی،بھاگلپور)
Md Nooruddin
About the Author: Md Nooruddin Read More Articles by Md Nooruddin: 10 Articles with 24944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.