الیکشن 2013 اس وقت ملک میں سب
سے اہم ترین معاملہ ہے اور پوری قوم کی نظریں آنے والے دنوں پر جمی ہوئی
ہیں سیاسی پارٹیاں اس وقت عوام دوستی کی ’’بہترین مثال‘‘ پیش کر رہی ہیں
اور سچ ہی ہے کہ
شہر یاروں کا غریبوں کے دروں پر آنا
ہے تو ایک بات مگر بات بڑی ہوتی ہے
اور یہ بڑی بات آج کل ہو رہی ہے ۔ بات یہاں تک بھی درست ہے کیونکہ گھر کے
اندر ہے لیکن گھر کے اختلافات اگر حد سے بڑھ جائیں تو غیروں کو گھر کے
اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور یہ مداخلت پھر
بڑھتی جاتی ہے اور چاروں طرف سے ہوتی ہے۔ یہی حال ہمارا ہے کہ ہمارے
سیاستدان ایک دوسرے سے اختلافات کرتے ہوئے اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ نہ
ملکی وقار کا خیال کیا جاتا ہے نہ قومی عزت کا۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں
کے مسئلے کو جس طرح اُچھالا گیا اور ایم کیو ایم جو اپنے آپ کو قومی جماعت
کہلاتی ہے صرف کراچی کے مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ پہنچ گئی اور حل کے لیے
اُس سے درخواست کرنے لگ گئی کیا قومی جماعتیں ملک اور قوم سے نکل کر غیروں
سے اپنے معاملات کا تصفیہ طلب کرتی ہیں لیکن یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم
مارشلائوں کو بھی خود دعوت دیتے ہیں اور پھر جمہوریت پسندی کا شور اٹھا دیا
جاتا ہے۔ ایک طرف انتخابات جیتنے کے لیے اور لوگوں میں شہرت حاصل کرنے کے
لیے غیر ملکی مداخلت کی مخالفت کی جاتی ہے اور دوسری طرف خود غیروں کو دعوت
دی جاتی ہے ،ایک طرف دہشت گردی کی مذمت کی جاتی ہے اور دوسری طرف سیاسی
مخالفین کو مار دیا جاتا ہے اور یہی ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے ظاہر ہے اگر
یہ درست ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران تو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ جیسے
حکمران ویسی قوم کہ وہ قوم کی جیسی تربیت کرتے ہیں اس کے سامنے جیسا نمونہ
پیش کرتے ہیں اورجس طرح ہر گناہ ہر جرم کرکے بھی بری ہو جاتے ہیں قوم رد
عمل میں ارادی طور پر یا غیر ارادی ، لیکن وہی کچھ کرنا شروع کر دیتی ہے
اور افراد خود کو قابل سزا بھی نہ سمجھتے ہیں اور نہ مانتے ہیں ہاں ہر ایک
دوسرے کو بڑے شوق اور دھڑلے سے قابل گردن زدنی سمجھتا ہے اور الیکشن میں تو
یہ سیاسی رویہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ایم کیو ایم ہو یا کوئی بھی دوسری
سیاسی جماعت اور خاص کر جو حکومتی حلیف بھی ہو نہ تو پارلیمنٹ میں کسی قومی
معاملے پر مضبوط موقف اپنا تی ہے نہ باہر کیونکہ ان پر حکومت سے نکل جانے
کا خوف سوار رہتا ہے اور با اختیار ہونے کے بعد بے اختیار ہونے کا دکھ سہنا
ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ باربار استعفوں کی دھمکی بس
دھمکی ہی رہی یہ تو چلیں ملک کے اندر ہوتا رہاگھر کی بات تھی لیکن اپنے ہی
ملک کے خلاف اقوام متحدہ میں پہنچ جانا انتہائی افسوسناک ہے۔ الیکشن جیتنے
کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی اور وہ بھی جب کہ ایک
جماعت خود حکومت میں ہو اور یہ بھی سب جانتے ہوں کہ عالمی طاقتیں پاکستان
کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں کیونکہ حکومتیں لاکھ ان کی نمک خوار ہوں عوام کی
اکثریت ان کا نمک کھانے کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور وہ ہر ہتھکنڈے سے ان کو
زیر دام لانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔الیکشن کے دنوں میں تو یہ عمل مزید زور
پکڑ جاتا ہے تاکہ یہ طاقتیں اپنی مرضی کے لوگ منتخب کروا سکیں اب کی بار
بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اور غیر ملکی این جی اوز کی صورت میں اپنے سارے
گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں اور ہماری سیاسی پارٹیاں آپس میں ہی بر سر پیکار
بھی ہیں اور بلیم گیم بھی جاری ہے اور ان عوامل اور سازشوں کی طرف کسی کا
دھیان بھی نہیں ہے۔ وہی طاقتیں جو اسلام اور مکہ مدینہ کا نام دیکھ کر بدک
جاتی ہیں اور مسلمانوں کو جنونی اور دہشت گرد قرار دے دیتی ہیں خود اپنے
مذہبی مشنوں کو پاکستان بھیج کر اس کے الیکشن پر اثر انداز ہو رہی ہیں ایسی
ہی ایک تنظیم چرچ ورلڈ سروسز پشاور اور کوئٹہ سمیت پورے پاکستان میں انسانی
ہمدردی اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر معلوم نہیں کیا کچھ کر رہی تھی اب
الیکشن پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یو ایس ایڈ کے طول
طویل اشتہارات ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت ہیں۔ کراچی میں
تجارتی سرگرمیوں کے لیے ان غیر ملکیوں سے وعدے ہو رہے ہیں لیکن الیکشن میں
مدد دینے کی شرط پر۔ یہ چالیں ہیں جنہیں ہم سب جانتے ہیں لیکن ہمیں الیکشن
جیتنا ہے چاہے ملک کا نقصان ہو، فکر وطن کس کو ہے۔ امریکی حکومت نے تو یہ
اعلان کیا کہ اُن کا کوئی اہلکار اِن دنوں پاکستان نہیں آئے گا میرے خیال
میں اسکی ضرورت بھی نہیں ان کا مدعا ویسے بھی پورا ہو رہا ہے۔ ابھی 13
اپریل کو امریکی سفیر رچرڈولسن نے اعلان کیا کہ امریکی سفارتخانے نے ایک
یوتھ کونسل ترتیب دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ کہ پاکستانی نوجوانوں سے
براہ راست رابطہ کیا جائے گا یعنی براہ راست اور علی الاعلان مداخلت ’’ہے
جرم ضیعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ اِن نوجوانوں سے کیا کہا جائے گا، ان کے
ذہنوں میں کیا ڈالا جائے گا، برین واشنگ کے کون کون سے گر آزمائے جائیں گے،
کیا ابھی حال ہی ہونے والے ایک سروے میں جن اڑتیس فیصد نوجوانوں نے اسلام
اور شریعت کو ملکی مسائل کا حل سمجھا ان کے خیالات اپنے دین کے بارے میں
ویسے ہی رہیں گے یا ان پر مغربیت اور لادینیت کا غلبہ ہو جائے گا اور کیا
وہ اپنے ملک کے بارے میں بھی اپنے نظریات بدلنے سے باز رہیں گے، نظریہ
پاکستان جو آج کل نہ صرف میڈیا اینکرز بلکہ کچھ سیاستدانوں کی بھی زد میں
ہے اس کی بقا کی ضمانت دی جا سکے گی ۔دیکھنے اور سوچنے کے تو یہ معاملات
ہیں منصوبہ بندی تو انہیں روکنے کی ہونی چاہیے لیکن افسوس کہ کوشش معاشرے
قوم اور مذہب کو بچانے کی بجائے حکومت بچانے کی ہے۔ غیر ملکی مداخلت چاہے
جارحانہ ہو اور ملک میں خون بہائے یا دیگر طریقوں سے پاکستانی ذہن کی موت
واقع ہو جائے دونوں ہی اس ملک کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اگر سرحدوں کی حفاظت
مسلح افواج کی ذمہ داری ہے تو نظریے کی حفاظت سیاستدانوں کے ذمے ہے۔ لیکن
ہمارے سیاستدان اسکی حفاظت تو کیا کریں گے اسکی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے
ہیں اور یوں ملک کی شکایت اقوام متحدہ میں کرنا تو ایک دو طاقتوں نہیں بلکہ
پوری دنیا کو مداخلت کی دعوت اور اجازت دینا ہے جو انتہائی افسوسناک بلکہ
شرمناک ہے۔ دو چار سیٹوں کی کمی یا زیادتی اتنی بڑی بات نہیں لیکن اگر یہ
ملک خدانخواستہ نہ ہو تو ایک شہر یا ایک صوبہ آپ کو وہ عزت نہیں دے سکتا ہے
جو اب ہے اور نہ ہی وہ شہریت جس کی آپ کو تلاش رہتی ہے آپ کو مل سکتی ہے
اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور اسے اندر اور باہر کے دشمن سے محفوظ رکھے کہ
نجانے کتنے گھروں کے عوض یہ گھر ٹھہرا۔ |