پاکستان کی وادی سوات سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ
طالبہ ملالہ یوسفزئی کا نام امریکہ کے ٹائم میگزین کی دنیا کے سو سب سے
بااثر افراد کی سالانہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ اس فہرست میں جگہ
پانے والی واحد پاکستانی ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے لیے تعلیم کے حق کی حامی ملالہ
یوسفزئی گزشتہ برس اکتوبر میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئی تھیں
اور ابتدائی علاج کے بعد انہیں برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ صحتیابی کے
بعد انہوں نے برطانیہ میں اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے۔
|
|
ملالہ کا نام اس فہرست میں ’آئیکون‘ کے درجے میں رکھا گیا ہے اور اس درجے
میں ان کے علاوہ برما کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سو چی، امریکی خاتونِ
اول مشیل اوباما اور برطانوی شہزادی کیتھرین میڈلٹن کا نام بھی شامل ہے۔
ٹائم میگزین کا کہنا ہے کہ طالبان ملالہ کو شہید تو نہ کر پائے لیکن اس
واقعے نہیں انہیں ایک استعارہ بنا دیا اور اب ملالہ وہیں ہیں جہاں وہ ہونا
چاہتی تھیں یعنی کہ واپس سکول میں۔
میگزین کے مطابق ملالہ دنیا میں تعلیم سے محروم چھ کروڑ بچوں کے بارے میں
آگاہی پھیلانے کے لیے جو آپ بیتی لکھ رہی ہیں وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ
دنیا میں جرات کا مترادف اور ہر جگہ کی لڑکیوں کے لیے ایک چیمپیئن ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کی اس آپ بیتی کا نام ’میں ملالہ ہوں‘ ہو گا اور اس کتاب کے
بارے میں ملالہ نے کہا تھا کہ ’میں اپنی کہانی سنانا چاہتی ہوں لیکن یہ ان
چھ کروڑ بچوں کی کہانی بھی ہو گی جو تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔‘
|
|
انھوں نے امید ظاہر کی تھی کہ ان کی کہانی ہر لڑکے اور لڑکی کے سکول جانے
کے حق کے لیے چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہو گی۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کے دوران بی بی سی اردو
کے لیے گل مکئی کے قلمی نام سے ڈائری بھی تحریر کی تھی اور بعدازاں یہی
ڈائری ان کی وجہ شہرت بنی تھی۔
ملالہ نے اپنے آبائی علاقے میں خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے ملالہ فنڈ
بھی قائم کیا ہے جس کے تحت انہوں نے حال ہی میں سوات میں چالیس لڑکیوں کی
تعلیم کے لیے پینتالیس ہزار ڈالر کی امداد جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
|