بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سری رام نوامی کا تہوار
(Ramanavami Festival)
( 20اپریل بمطابق 9چیت:ہندؤوں کے مذہبی تہوار کے موقع پر خصوصی تحریر)
دنیاکے کل مذاہب و ادیان آسمان سے بذریعہ وحی نازل ہوئے۔انسان کے خالق اﷲ
تعالی نے انسان کو انسان بنانے کے لیے انبیاء علیھم السلام کو مبعوث
کیا۔اگر یہ بزرگ ہستیاں قبیلہ بنی نوع انسان میں تشریف نہ لاتیں تو جنگل کا
بادشاہ اور درندگی و سفاکی کی علامت شیر،چیتااوربھیڑیا نہ ہوتے بلکہ حضرت
انسان ہی ہوتا۔آج بھی جو اقوام انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے بیگانہ
ہیں ،دورحاضر کی تمدنی و سائینسی ترقی بھی انہیں انسانیت سے آشنا نہ کر سکی
اور نائن الیون کے بعد کی تاریخ ان حقائق کی بالمشافعہ آئینہ دار ہے۔سامان
ہدایت کے نزول کے بعد انبیاء علیھم السلام تو اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر
عازم آخرت ہو ئے تب بعد والوں نے ان تعلیمات کے ساتھ کوئی بہتر سلوک نہ
کیا۔جب انسانی زبانیں ارتقاء کے باعث تبدیلی کا شکار ہوئیں تو تعلیمات
انبیاء علیھم السلام کے ترجمے میں مقتدرمذہبی طبقات نے بددیانتی سے کام
لیااور اپنی نسلوں کے لیے تو مراعات تراش لی گئیں اور دیگر طبقات و
دیگراقوام و مذاہب کے لیے تعلیمات ربانی کو تعصب کے پیرہن پہنا دیے گئے۔قبل
از تاریخ کے زمانوں سے آج تک کے سفر میں ان گزشتہ آسمانی کتب کی اور انکی
تعلیمات کی وہ درگت بنی کہ حقیقی تعلیمات گویا کفن میں لپٹی ماضی کی قبر
میں کہیں دفن ہو چکیں اورانسان کو درس انسانیت سے آشناکرنے والی تعلیمات
طبقاتی تحفظات کے پندارمیں پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کے بت
پوجنے کامرقع کفروشرک بن گئیں۔ہندومت کی تراشی ہوئی موجودہ شکل ان طبقاتی
تفوقات کے تلخ حقائق کی زندہ مثال ہے۔
ہندوکیلنڈر’’شکلا پکاشا‘‘ کاایک اہم اورپہلامہینہ’’ چیت ‘‘یا ’’چیتر‘‘ہے،اس
مہنے کی 9تاریخ کو ہندؤوں کے ہاں سال کاایک اہم تہوار’’رام نوامی‘‘منایا
جاتاہے،یہ دن ’’رام‘‘ کا یوم پیدائش جسے ہندؤوں کی اصطلاح میں جنم دن کے
نام سے یاد کیاجاتاہے۔اس تہوار کا کل ہندومعاشرے میں بہت بڑے پیمانے اہتمام
کیاجاتاہے، یہاں تک کہ جو ہندو اپنی سرزمین وطن سے دور ہیں وہ بھی اس تہوار
کو بڑی دھوم دھام اور مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں ،جب کہ جو تعلیمات
مستند ذرائع سے انسانیت تک پہنچی ہیں ان میں کسی نبی نے اپنا جنم دن منایا
اور نہ ہی اپنے پیروکاروں کو اس دن کے منانے کا حکم دیا،بلکہ اس رسم کابیج
تو مغربی نوآبادیاتی تہذیب نے یہاں بویااور ہندو مذہب نے مغربی تہذیب کی اس
بدعت کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا بلکہ اسے اپنی مذہبی تہوار بھی قرار دے
دیا۔اس تہوارکے پورے دن میں مندوروں کے اندر پوجاکی جاتی ہے اور خاص طورپر
اس دن سے منسوب بھوجن گائے جاتے ہیں۔’’ایودھیا‘‘جو ’’رام‘‘کی جائے پیدائش
ہے ،اس شہر میں اس تہوار کا سب سے زیادہ زروشور ہوتاہے اور دوردراز سے جو
ہندویاتری یہاں آنے کی استطاعت یاشوق رکھتے ہیں وہ اس دن خاص طور یہاں وارد
ہوتے ہیں اور اس مذہبی تہوار کو اپنے مذہب کے مطابق منانے کااہتمام کرتے
ہیں۔
’’رام نوامی‘‘والے دن کاآغاز میں سورج نکلنے کے ساتھ ہی مندروں میں خاص قسم
کے گیت گائے جانے لگتے ہیں تآنکہ دوپہر کے وقت جو ’’رام‘‘کاوقت پیدائش ہے
ان گیتوں میں اور پوجامیں بہت شدت و حدت عود کر آتی ہے اور یہ سلسلہ دن
ڈھلنے تک باقی رہتاہے اور ایک داستان گواپنے سامنے موجود ہندو یاتریوں کو
’’سری رام‘‘کی کہانیاں بھی سناتارہتاہے۔بعض ہندو پنڈت و پروہت اور
شدیدمذہبی جذبات رکھنے والے اس دن روزے کابھی اہتمام کرتے ہیں اور صبح سے
شام تک اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق بھوکے پیاسے رہتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں
یہ تصور موجود ہے کہ جو اس دن روزہ رکھتاہے ’’رام‘‘نامی خدا اس پر اپنی
خوشی نچھاور کرتاہے اور خوش بختی کو اس کے ہم رکاب کرتاہے۔بعض شہروں میں اس
تہوار کی مناسبت سے ایک بیل گاڑی بھی سجائی جاتی ہے جس کی سجاوٹ پر بے پناہ
وسائل و اخراجات اٹھائے جاتے ہیں ،اس بیل گاڑی پر چارافراد سوار ہوتے ہیں
،ایک ’’رام‘‘بناہوتاہے،دوسرا’’لکشمانا‘‘بناہوتاہے جو ’’رام ‘‘کابھائی
تھا،تیسرا ’’سیتا‘‘بناہوتاہے جو ’’رام ‘‘کی بیوی تھی اور
چوتھا’’ہنومان‘‘بناہوتاہے جوجنگ میں ’’رام ‘‘کادست راست تھا۔ان چاروں نے ان
چاروں جیسالباس زیب تن کیاہوتاہے اور اس بیل گاڑی کو پورے شہر میں
دکھایاجاتاہے اور اس پر خوب دولت بھی نچھاور کی جاتی ہے جو بلآخر ہندؤوں کے
خاص طبقے کے حصے میں ہی آتی ہے اور بقیہ انسان اس سے محروم رہتے ہیں۔اس
تہوار کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تہوار ہندؤوں کا سب سے نچلا طبقہ
’’شودر‘‘بھی منا سکتے ہیں جبکہ ہندؤوں کے ہاں دیگرمذہبی تہوار منانے کے
حقوق بھی محفوظ ہیں۔اس سب کے برعکس انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات میں
انتہائی سادگی اور انسان دوستی نظر آتی ہے اور سب انسانوں کے لیے یکساں
جذبات و احساسات نبیوں کی مقدس تعلیمات کا خاصہ ہیں۔
ہندؤوں کی قدیم کتب کے مطابق کم و بیش5000سال قبل مسیح کی بات ہے کہ
ایودھیاکاایک بادشاہ ’’دساراتھ‘‘تھاجس کی تین بیویاں
کیوشالیہ،سومیتھرااورکیکیائی تھیں لیکن وہ بادشاہ شادیوں کے بہت بعد تک بھی
اولاد کی نعمت سے محروم رہاتھا۔بادشاہ خود اور اس کی رعایا کو بھی اس
محرومی نے بہت پریشان کررکھاتھا کہ ریاست کا کوئی بھی وارث وولی عہدابھی تک
نہیں تھا۔بادشاہ کو ’’رشی واسستھا‘‘نے کچھ خاص قسم کی عبادات تجویز کیں
جنہیں ہندؤوں کے ویدک دور کی اصطلاح میں ’’پتھراکامستی یجنا‘‘کہا جاتا
تھا۔اس قسم کی عبادت قربانی سے بھرپور ہوتی تھی اور اس میں گھی،دودھ اورغلے
وغیرہ کو نذرآتش کیاجاتاتھااور سمجھاجاتاکہ دیوتاکے حضورپیش کردی گئی
ہیں۔بہت جلد وہ بادشاہ ’’یجنا‘‘کی غرض سے ’’مہارشی روشیاسورنگس‘‘کے آشرم پر
گیااور ’’یجنا‘‘بجالایا۔اس قربانی کے نتیجے میں ’’یجنا‘‘کا
دیوتا’’یجنشوار‘‘وہاں ظہورپزیرہوااور بادشاہ کو کھیرکاایک پیالہ دیااور
کہاکہ یہ کھیراپنی بیویوں کو پلادو،بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔تینوں ملکائیں
امید سے ہو گئیں اور ’’چیتر‘‘کی نویں(نوامی) تاریخ کو ’’کیوشالیہ‘‘نے
’’رام‘‘کو جنم دیا،’’کیکیائی ‘‘نے ’’بھارت‘‘کو جنم دیااور’’سومیتھرا‘‘نے
دوجڑواں بچوں ’’لکشمن اورشترغان‘‘کو جنم دیا۔تب یہ دن ایودھیامیں ایک تہوار
کی طرح منایاگیا۔’’رام‘‘کو ہندومت میں خدا سمجھاجاتاہے ،حالانکہ وہ
’’خدا‘‘کیاہوا جو پیدائش کے لیے یعنی محض اپنے وجود کے لیے ہی کسی ماں کا
یعنی کسی انسان کامحتاج بنا،خداتو ایسا ہونا چاہیے جسے’’نہ کسی نے جنا ہو
اور نہ ہی اس نے کسی کو جناہو‘‘،گویا تمام کمزوریوں سے پاک۔
’’سری رام جی‘‘کا پورانام ’’راماچندرا‘‘تھا۔ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے
دیوتا’’وشنو‘‘کے ساتویں اوتار ’’سری کرشن‘‘تھے یعنی ساتویں دفعہ جب’’وشنو‘‘
اس زمین پر ظہورپزیرہوئے تو وہ ’’سری رام‘‘کی شکل میں وارد ہوئے۔یہ
ہندودھرم میں یوگاکادوسرادور تھاجسے ’’تریٹایوگا‘‘کہتے ہیں جبکہ یوگاکے کل
چارادوارہیں۔’’سری رام‘‘کی بیوی ’’سیتا‘‘تھی جس کے بارے میں ہندؤوں کاخیال
ہے کہ وہ ’’وشنو‘‘کی بیوی’’لکشمی‘‘جو دولت کی دیوی مانی جاتی ہے اس کی
اوتار تھی۔ہندؤوں میں ’’سری رام‘‘کو وہی حیثیت حاصل ہے جسے قرآن کی اصطلاح
میں ’’اسوہ ‘‘کہاجاتاہے۔ہندواپنی زندگی کے ہر معاملے میں ’’سری رام‘‘کی
ہدایات پر عمل کرنااپنا مذہبی فریضہ خیال کرتے ہیں اور ’’سری رام‘‘کو اپنا
نمونہ حیات خیال کرتے ہیں۔’’سری رام‘‘کی زندگی ایک مکمل انسان اور قابل
تقلید انسان کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہے۔’’سری رام‘‘نے نروان،دھیان اور
گیان کے لیے اپنی زندگی کے چودہ سال دشت وصحرامیں بسر کیے،اس کی بیوی کو
اغواکرلیاگیاجس کے بعد اس نے بیوی کی بازیابی کے لیے متعدد جنگیں بھی لڑیں
جن میں اس نے پامردی اور شجاعت کے جوہر دکھائے،اور اپنی خدادذہانت کے بل
بوتے پر فتح مند ہوا۔اس کے بعد وہ ایودھیاکابادشابنااور ایک مکمل پرامن
،عدل و انصاف اور پیارومحبت سے بھری ہوئی ریاست اس کے دور حکومت کا نتیجہ
تھی۔
ہزارہا سال قبل کی لکھی ہوئی تحریریں جن پر سے انسانی زبانوں کے بیسیوں
لبادے اتارے اور چڑھائے جا چکے ہوں کس طرح قابل اعتمادہو سکتی ہیں؟؟؟تاہم
پھر بھی اگر یہ سب کچھ جزوی طور پر حقیقت مان لیاجائے تو بھی کسی انسان کے
لیے بہت بڑاانعام یہی ہو سکتاہے کہ وہ خالق کائنات کا فرستادہ اور پیغام
برہو۔کسی انسان کو یہ توزیب نہیں دیتا کہ دوسرے اسی جیسے انسان اسے خدا مان
لیں،تب انسان اور انسان کے خدامیں کیافرق رہا؟؟۔جب کہ ہندؤوں کی کتب کا
مطالعہ کرنے والے بتاتے ہیں کہ ان کے کسی مذہبی راہنما نے خود کو خدا کہنے
کادعوی بھی نہیں کیااور انہیں کتب میں یہ بھی کہیں نہیں لکھاگیاکہ ان کی
زندگی میں ان کی پوجا کی جاتی رہی ہو،یہ سب تصورات بعد والوں کی اختراع
ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ درس توحید اور ختم نبوت کے بچے کھچے تصورات اور عقیدہ
آخرت آج بھی ہندومت کی کتب کی زینت ہیں جواس بات پر شاہد ہیں کہ یہ تعلیمات
کسی زمانے میں سچے انبیاعلیھم السلام پر سچے اورخدائے واحد کی طرف سے نازل
ہوئیں،لیکن چونکہ قرآن مجید نے ان کتب اور ان کے لانے والوں کی بالاسماء
شہادت نہیں دی اس لیے اس بات کی تصدیق اجمالاََ ہی کی جا سکتی ہے
ایماناََنہیں کی جا سکتی۔ |