مقدمۂ’’شفاء ورحمت‘‘

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد للّٰہ ربّ العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی اٰلہ وصحبہ واھل بیتہ الاطھار ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، امابعد:
فقد قال اللّٰہ تعالی فی کلامہ المجید:
﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظٰلمین الا خسارا﴾صدق اللّٰہ العلی العظیم ۔

علامہ قرطبی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں دو قول یا دو تفسیریں ذکر کی ہیں:
(۱) شفاء للقلوب بزوال الجہل ۔(جہالت کے امراض کو دور کرنے کے لئے یہ قرآن کریم شفاء ہے ۔)
(۲) شفاء من امراض ظاہرۃ بالرقی والتعوذ ونحوہ ۔(جسمانی امراض کے لئے یہ قرآن کریم شفاء ہے، دم درود اور تعویذ وغیرہ کے ذریعے۔)

امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے صحیح البخاری کی کتاب الطب میں مستقل باب باندھا ہے: باب الرقی بالقرآن والمعوذات ۔ یہاں انہوں نے روایت نقل کی ہے:
عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا ’’ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ینفث علی نفسہ فی المرض الذی مات فیہ بالمعوذات ، فلما ثقل، کنت انفث علیہ بھن، وامسح بید نفسہ لبرکتھا……ای علی یدیہ ثم یمسح بھما وجھہ ۔‘‘
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مرض الوفات میں اپنے آپ کو معوذات سے دم کیا کرتے تھے، جب مرض نے شدت اختیار کی، تو پھر میں معوذات پڑھ کر ان کو دم کرتی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں پر دم کرکے اپنے چہرہ مبارکہ پر دونوں ہاتھوں کو پھیرتے تھے، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں بھی معوذات خود پڑھ کر ان کے ہاتھوں پر پھونک مارتی اور تبرک کے لئے ان ہی کے ہاتھوں کو ان کے چہرۂ اقدس پر پھیراتی تھی ۔

امام مسلم رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اس قسم کی ایک روایت بیان کی ہے، لیکن اس میں مرض الوفات کی تخصیص نہیں ہے بلکہ عموما جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دونوں ہاتھوں کو پھیراتے۔

سنن میں دار قطنی نے ایک لمبی روایت ذکر کی ہے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم تیس (۳۰) آدمیوں کی جماعت کو ایک قوم کے پاس بھیجا، جب ہم وہاں گئے،ان سے مہمان نوازی چاہی، انہوں نے عالم عرب کے اقدار کے بر خلاف ہماری ضیافت سے انکار کردیا، اتنے میں ان کے سردار کو بچھو نے ڈس لیا، وہ ہمارے پاس آئے ، کہ کیا تم میں سے کوئی بچھو کے زہر کا علاج جانتاہے؟ ابن قتیبہ نے اس روایت میں یہاں تک ذکر کیاہے کہ وہ کہنے لگے کہ سردار مرنے کو ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: جی میں کرسکتاہوں ،لیکن مفت میں دم نہیں کروں گا جب تک عوض نہ لوں۔ انہوں نے کہاکہ ہم آپ کو تیس بھیڑ ،بکریاں دیدینگے۔ وہ فرماتے ہیں : میں نے سورۂ فاتحہ سے انہیں سات مرتبہ دم کیا، چنانچہ وہ صحتیاب ہوگئے، اب انہوں نے ہماری ضیافت بھی کی اور بھیڑ بکریاں بھی دیں۔ ہم نے کھانا تناول کیا او ربکریوں کو صحیح سالم اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے کر آئے، بارگاہ ِرسالت ﷺمیں حاضری دے کر پورا واقعہ بتایا ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دم درود ہے۔ میں نے کہاکہ مجھے تو کوئی پتہ نہیں تھا، البتہ دل میں یہ بات آئی اور دم کردیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی ان بھیڑ بکریوں میں سے کھلاؤ ۔( امام بخاری اور امام مسلم نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ امام بخاری نے تو باب الرقی بفاتحۃ الکتاب کا بالاستقلال ترجمہ قائم فرمایا ہے۔)

سورۂ فاتحہ اور معوذات کے حوالے سے ذخیرۂ احادیث میں بہت کچھ ملتاہے، قرآن کریم اور الفاظ حدیث کے مختلف الفاظ اور جملوں وآیتوں سے ماہرینِ ِعلاج روحانی نے متعدد امراض کے نسخے متعین فرمائے ہیں۔ شارح بخاری علامہ ابن بطال نے کہاہے کہ معوذات میں دعاء اور دم دورد کے متعلق جامع کلمات وارد ہیں۔
’’اذھب الباس رب الناس ، اشف انت الشافی، لاشفاء الا شفاء ک، شفاء لایغادر سقما‘‘ یہ الفاظ حدیث ہیں، جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاص کر نظر بد اور دیگر امراض کے لئے بالعموم یہ پڑھ کر دم فرماتے تھے، اکثر صحابہ رضی اﷲ عنھم کو یہ کلمات یاد ہوگئے تھے،وہ بھی روحانی علاج کے لئے ان الفاظ کو پڑھ کر دم کیا کرتے تھے۔

ایک حدیث میں یہ بھی مذکورہے کہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس بن شملی ؓ کے اوپر کچھ پڑھ کر پانی پر دم فرمایا اور وہ پانی ان پر چھڑ کا گیا، پانی پر دم کرکے پلانا اور چھڑکانا دونوں مشروع ہے۔ حدیث کی کتابوں میں عجیب وغریب اور بہت جامع صیغے دعاؤں اور مختلف امراض وحاجات کے لئے مروی ہیں۔ اہل علم سے رجوع کرنے پر ان مفید تر اور حسین تر کلمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
بعض روایات میں نشرہ، رقیہ(دم) ، تمیمہ (تعویذ)، تِوِلہ (دھاگے؍گنڈی) ودعۃ(سیپیاں) کی تحریم کا ذکر ہے۔ یہ درست ہے۔ لیکن اسکی تفصیل ہے۔ خلاصہ اس تفصیل کا یہ ہے:

علامہ قرطبی کے بقول مذکورہ بالا اسبابِ علاج چار شرطوں سے مشروط ہیں:
(۱) علاج روحانی کلام اﷲ ، اسماء اﷲ یاصفات اﷲ تعالی کے ذریعے ہو۔
(۲) اس حوالے سے مکتوب یامقرؤ کوئی بھی عبارت ہو تووہ عربی زبان میں ہو۔
(۳) ان تمام اسباب کو مؤثرحقیقی نہ جانا جائے۔ بلکہ اسباب کی حد تک ان کو تسلیم کیاجائے۔
(۴) شرک، سحر ،غیر معروف المعنی والدلالۃ کلمات سے اجتناب کیا جائے۔

بعض علاقوں میں علاقائی ٹوٹکے بھی نظربد دور کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں وہ بھی اگر مذکورہ بالا شرطوں کے مطابق ہوں تو درست ہیں۔ علماء نے مختلف مواقع پر اس کے جواز پر کلام فرمایا ہے۔

علاج بالاحجار بھی ایک طریقۂ شفاء ہے۔ جیسے بعض جڑی بوٹیوں میں ماہرین کے بقول خواص ہوتے ہیں ایسے ہی بعض احجارکریمہ کے بھی خواص ماہرین جانتے ہیں، مثلا بلڈ پریشر، سر درد ، سر کا چکرانا، اور بخار وغیرہ کے لئے بعض حضرات علاج بالأحجار کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈسپرین اور پیراسٹامول ڈاکٹر کے کہنے پر استعمال کرتا ہو۔ البتہ مذکورہ بالا علامہ قرطبی کے شرائط ہر جگہ ملحوظ ہوں۔ مصر کے ڈاکٹر زکریا ہمیمی پروفیسر سائنس کالج قاہرہ نے اس پر بین الاقوامی، تاریخی، علمی اورسائنسی حوالوں سے بہت خوبصورت مقالہ لکھا ہے۔ انہوں نے اس کے جواز اور مختلف احجار (الماس، یاقوت، زمرد، عقیق ، مرجان)سے علاج بھی لکھے ہیں۔

ڈاکٹر ہمیمی کی کتاب ’’القدرۃ الشفائیۃ للأحجار الکریمۃ‘‘قابل دید ہے۔ انڈیا کے ڈاکٹر وجایا کمارنے بھی اس پر تحقیق کی ہے۔

علاج بالقرآن پر اجرت لینا بالاتفاق جائزہے، البتہ حنفیہ کے یہاں تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن قرّاء کے تقیّد بالوقت والمکان کی وجہ سے متأخرین نے اسے بھی جائز کہاہے۔

ہاں ان تمام امور کے لئے ماہر ہونا مستند ہونا اور معتمد ہونا شرط ِاولیں ہے۔ آج کل نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ دنیا کے چپّے چپّے پر جعلی عاملین اور جادوگروں نے جھوٹ، دغا اور فریب کے بازار گرم کر رکھے ہیں۔ کچھ نے پیٹ پوجا کے لئے جو بڑا جرم نہیں ہے ،لیکن کچھ نے انسانیت یا امت کو گمراہ کرنے کیلئے یہ بازار سجا رکھے ہیں۔ کمزور ایمان واعتقاد کے عام لوگ اور خواتین بالخصوص ان کے جالوں میں بڑی آسانی سے پھنس جاتی ہیں۔ جس سے اعتقادی بے راہ روی اور جلب منافع کے ایسے ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں ، جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ،دل خون کے آنسوں رونے لگتاہے۔ پھر فقہاء کرام اور اہل افتاء سدًّا للذریعۃ ان ہی حرکتوں کی وجہ سے عملیات کے تمام اقسام اور سب ماہرین پرقدغن لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ صحیح العقیدہ، قرآن وسنت اور اسلاف کے علوم وافکار وعملیات کے ایسے امین اور معتبر لوگوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ صحیح کو سقیم اور غلط سے الگ کرکے اس میدان میں مکمل نظریاتی اور فکری انداز میں کچھ حضرات کو آگے لایاجائے، یوں عوام کے دکھوں کا مداویٰ اور عقائد و نظریات کی حفاظت و درستگی بہم پہنچائی جائے۔

ہمارے حضرت پیر صاحبزادہ عزیز الرحمن رحمانی نے بقدر استطاعت اسی انداز میں جن برگر فیملیز میں اصلاح کا کام کیا ہے، اس دور میں یہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ راقم کو قریبًا تین (۳) سال سے ان سے نہایت قربت کا موقع ملاہے، عربی ادب سے تعلق کی بناء پر میں بذات خود ان امور سے گریزاں واقع ہواہوں، لیکن حضرت علامہ بنوری ؒ اور حضرت مفتی احمدالرحمن صاحب نوراﷲ مرقدیھما کے ان صاحبزادے کو قریب سے دیکھ کر میں متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

صاحبزادہ عزیز الرحمن رحمانی ایک جید عالم اور خانوادۂ علم وعرفان کے چشم وچراغ کے علاوہ ملک بھر اور دنیا بھر کے اہل حق بزرگوں سے گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ حضرت خواجہ خان محمد کندیاں شریف رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت مولانا نفیس شاہ الحسینی مرحوم مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ،حضرت مولانا عبد المجید صاحب مدظلہٗ کہروڑ پکا اور عرب کے کئی مشائخ سے ان کو کسب فیض کا موقع ملاہے۔ حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی اور دمشق کے ایک رفاعی شیخ نے انہیں خلافت بالمجاز سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔

ہم نے ان کے ساتھ خیبر پختونخواہ ، اسلام آباد وپنڈی، پنجاب سندھ اور بلاد حرمین شریفین کے متعدد اسفار کئے ہیں۔ جہاں کے بزرگوں سے وہ مسلسل رابطے اور اکتساب میں رہتے ہیں، پاکستان میں جہاں کہیں حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اوراولیاء عظام کے قبور ومزارات ہیں ان پر مسنون طریقے سے حاضری ان کی طبیعت ثانیہ اور مزاج ہے۔

علاج بالقرآن ہی ان کا محور ہے، لیکن استشفاء بکلما ت الحدیث اور کہیں کہیں علاج بالأ حجار میں بھی میں نے انہیں دیکھا ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کام کو انہوں نے دنیوی منافع کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ ان کے یہاں الحمد ﷲ بہت بڑے کاروباری پروجیکٹ ہیں۔اہل علم اور غریب مریضوں کو اپنی جیب سے ہمیشہ نوازتے ہیں ،خیراتی کاموں میں راز داری پر انکا اصراررہتا ہے۔ ورنہ میں تفصیل کچھ نہ کچھ یہاں ذکر کر دیتا۔ شبہائے جمعہ اور رمضان المبارک میں ان کے یہاں ذکر واذکار اور تلاوت کے جو زمزمے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر آدمی معمور ومخمور ہوجا تا ہے۔

اﷲ تعالی ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے ان کے فیض کو عام فرمائے او رنہج صحیح پر انہیں استقامت نصیب فرمائے، ان کی زبان وقلم میں غیب سے شفاء کلی عطاء فرمائے ۔ آمین۔

وما ذلک علی بعزیز

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877964 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More