مسز اونچی ہیل والی چپل تو نہیں پہنتی

چند سال قبل ایک تقریب میں میری ملاقات اسلام آباد سے آئے ایک مہمان سے ہوئی جو ایک غیر سرکاری ادارے ( این جی او ) میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ۔ ملاقات کا سبب ہمارے ایک مشترکہ دوست بنے جو اسی ادارے میں ملازم تھے ۔ باتوں باتوں میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا ، کہنے لگے کہ ’’ جب میرا اندرون پنجاب سے اسلام آباد تبادلہ ہوا تو ابتدائی دنوں میں سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا تھا کیونکہ اسلام آباد میں عام طور پر رہائش کا اہتمام خاصا مشکل کام ہے ۔ پورے پاکستان کی ’’کریم ‘‘ اسی شہر میں رہائش کو ترجیح دیتی ہے یوں ایک تو کرایے بہت زیادہ ہیں دوسرا خالی مکان ملنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں نے اتوار کا ’’ڈان ‘‘لیا اور خالی مکانات کے کلاسیفائیڈ اشتہارات پڑھنے لگا ۔ میری نظر ایک ایسے اشتہار پر پڑی جو ہمارے دفتر کے سامنے والی گلی میں ایک خالی مکان سے متعلق تھا جو کرایے پر دینا مطلوب تھا ۔ چنانچہ میں نے اشتہار میں دیئے گئے فون نمبر پر رابطہ کیا تو ایک خاتون مجھ سے مخاطب ہوئیں جو آواز سے قریباً 40سے 45سال کی لگتی تھیں ۔ میں نے تعارف کروایا اور خالی مکان کو کرایے پر لینے کی خواہش کا اظہار کیا ساتھ ہی اس مکان کو ایک نظر دیکھنے کی بھی خواہش کی ۔ خاتون سے وقت طے ہواتو مقررہ وقت پر میں مکان دیکھنے چلا گیا ۔ یہ اس مکان کی دوسری منزل تھی جو مالک مکان کرایے پر دینا چاہتی تھی ۔ مکان کمال کا تھا ، کرایہ قدرے زیادہ تھا لیکن میرے ادارہ کو اس پر اعتراض نہ تھا ۔ چنانچہ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ یہ مکان لے لینا چاہیے ۔ بات چیت قریباً طے ہو چکی تھی کہ مذکورہ خاتون کہنے لگی ’’ہاں ایک بات بتائیں کہ آپ کی مسز اونچی ہیل والی چپل تو نہیں پہنتی ‘‘۔ میں نے کہا ہر روز تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ کبھی کبھی پہن لیتی ہیں ۔ اس خاتون نے مکان ہمیں کرایے پر دینے کی نیم رضا مندی ظاہر کی لیکن دبے لفظوں کہنے لگی کہ’’ ا ونچی ہیل پہننے سے گریز ہی کرے تو بہتر ہے کیونکہ نیچے والی منزل میں ہم رہتے ہیں اس طرح ہماری نیند میں خلل آئے گا‘‘ خاتون کے الفاظ سن کر میرا ارادہ بدل گیا ۔ یوں مزید 2ماہ تک کرایے کے مکان کی تلاش میں رہا ۔

یہ صرف ایک واقعہ ہے ہمارے ارد گرد ہر روز ایسے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں کہ مالک مکان ہمہ وقت کرایہ دار کی تاک میں رہتے ہیں کہ کس طرح اسے تنگ کیا جائے اور تنگ کرنے کا مطلب بھی صاف ظاہر ہے کہ طے شدہ کرایے میں اضافہ کیا جائے یا پھر نئے کرایہ دار کو بسایا جائے جس سے زائد کرایہ لیا جائے ۔ کرایے کے گھر میں رہنا کوئی سنگین جرم نہیں لیکن مالک مکان شاید یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کرایے پر رہنے والا کوئی جرم کر کے یہاں منتقل ہوا ہے ۔ آزادکشمیر کے سابق صدر /چیف ایگزیکٹو جنرل حیات خان (مرحوم ) نے اپنے دور اقتدار میں ایک منصوبہ بنایا تھا جس پر بعد میں عمل نہ ہو سکا ۔ ان کا خیال تھا کہ قصبات اور پہاڑوں میں رہنے والی آبادی کو سڑک کے کنارے آباد کیا جائے تا کہ انہیں زندگی کی تمام تر سہولتوں سے نوازا جائے ۔ یہ ایک اچھا منصوبہ تھا لیکن اچھے منصوبے ہمیشہ کاغذوں تک محدود رہتے ہیں تا کہ محفوظ رہیں ۔ ہجرت کر کے کرایے کے مکانوں میں رہنے کا رواج آج کا نہیں صدیوں پرانا ہے ۔ ہجرت کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ سہولتوں کا فقدان ہے کہ اگر آپ کے علاقے میں سڑک ہو گی نہ تعلیمی ادارہ تو آپ کس طرح وہاں رہیں گے ،مجبوراً ہجرت کر کے جب شہر کا رخ کیا جاتا ہے تو بے رحم مالک مکان کے ہتھے چڑھ جانا قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ مالک مکان کرایے پر گھر دینے سے قبل طرح طرح کے سوال بالکل اسی طرح کرتا ہے جس طرح نادرہ میں رجسٹریشن کے وقت یا نوکری کے وقت پی ایس سی میں کیے جاتے ہیں ۔ بچے کتنے ہیں ؟ کتنی عمر کے ہیں ؟ کس کس کلاسوں میں پڑھتے ہیں ؟ خاندان کا سائز کیا ہے ؟ ہیٹر استعمال کریں گے کہ نہیں ؟ گاڑی ہے کہ نہیں ؟ وغیرہ۔ اس مرحلے سے نکل جائیں تو چند ماہ تک وہ عجیب عجیب سی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ بچوں کو گھورتے ہیں اور آنے جانے والے مہمانوں پر کم ان کے کپڑوں پر نظر زیادہ رکھتے ہیں پھر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور جب اپنے کسی قریبی رشتے دار کو اسی گھر کی کرایے پر ضرورت ہو تو گھر خالی کروانے کے کئی بہانے کرتے ہیں۔ گھر کی مرمت کروانی ہے ؟ آپ گھر کی صفائی نہیں رکھتے کہ آپ کے بچے دیواروں پر پنسل سے لکھتے ہیں، آپ کے بچوں نے ہمارے بچوں کے کھلونے توڑ دیئے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کہتے ہیں کسی شہر میں جب ایک صاحب کرایے کا مکان تلاش کرتے کرتے ایک ایسے دفتر پہنچے جہاں بیٹھے ہوئے صاحب کو خود ایک عرصے سے مکان کی تلاش تھی ۔ مکان کے متلاشی نے جب کسی خالی مکان کے بارے دریافت کیا تو دفتر میں براجمان صاحب نے اسے سامنے والی دفتر میں ایک آفیسر کے پاس بھیج دیا اور کہا اس کی اوپر والی منزل خالی ہے حالانکہ اس عمارت میں اوپر والی منزل ہی نہیں تھی ۔ جب وہ صاحب اس عمارت میں گئے اور مذکورہ آفیسر سے پوچھا کہ آپ کی اوپر والی منزل جوخالی ہے کرایے پر مل سکتی ہے؟ تو اس نے غور سے دیکھا اور استغفار کیا کہ آپ کو یہاں کس نے بھیجا تو اس نے اشارہ کر کے بتایا تو آفیسر صاحب مسکرانے لگے کہ میری اوپر والی منزل خالی ہونے سے آپ کا کام نہیں چلے گا ۔ کیونکہ عمارت کی اوپر والی منزل تو ہے ہی نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ کرایے کے مکانوں میں رہنے والوں کی بھی ایک یونین ہونی چائیے تا کہ یہ بھی اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
عابد صدیق
About the Author: عابد صدیق Read More Articles by عابد صدیق: 34 Articles with 38552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.