ہر سال 22 اپریل کو "زمین" (کرہ ارض) سے محبت کا دن
منایا جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کے لئے یہ نئی بات ہوگی کیونکہ ہماری نظر
صرف اُس خبر یا بات پر ٹکتی ہے جس میں صرف ہماری ذات کا فائدہ ہوتا ہے۔ مگر
ہر سال دنیا میں یہ دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے اس دن مختلف تنظیمیں
اور سوسائیٹیز مختلف پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ کرہ ارض سے اپنی محبت، اس کی
بقاء اور ماحول کی حفاظت کے لئے کام کئے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو
شعور و آگاہی کی وجہ سے ماحول کے تحفظ کے مسئلے کو بہت سنگین لیا جا رہا ہے
۔ بہت سارے ادارے اِس مقصد کے لئے متحرک ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ہر صنف میں بے
تہاشا ترقی اور روز روز کی نئی ایجادات بھی ماحولیات پر برے اثرات مرتب کر
رہے ہیں، اب تو مختلف مصنوعات بنانے والے اداروں نے ماحول دوست مصنوعات
بنانا شروع کردیے ہیں اور دنیا اِس طرف روز بہ روز راغب ہورہی ہے کہ ترقی
کے چکر میں مگن ہو کر ہم اپنی زمین "مدرارتھ" کو کیا کیا نقصانات پہنچا رہے
ہیں۔ صنعتی ترقی کے مضراثرات اور انسانی ضروریات کے تحت جنگلات کی بے دریغ
کٹائی نے زمین کا حسن کم کردیا ہے اور ماحول کی تباہ کاریوں میں روز بہ روز
اضافہ ہو رہا ہے۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لئے اب تہذیب
یافتہ اقوام شجرکاری اور جنگلی حیات کی پرورش پر بہت توجہ دی رہی ہے۔ ہماری
تعلیمات میں شامل ہے کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہےمگر ہم سب درخت اور پودے
کے دشمن ہیں۔ پچھلے دور حکومت میں صوبائی جنگلات کا محکمہ ہمارے حلقے کے
وزیر صاحب کے پاس تھا مگر پتہ نہیں کس مصلحت کے تحت اُنہوں نے کبھی اس طرف
توجہ ہی نہیں دی اور پانچ سال پہلے جس طرح ضلع سوات کے پہاڑ بے شجر تھے آج
بھی ویسے ہی ہیں۔ اگر شورش زدہ علاقوں مے شجر کاری نہیں ہوسکتی تھی تو باقی
کا علاقہ مینگورہ (سیدو شریف)سے لے کر شموزئی اور لنڈا کی تک کا تو پر اَمن
تھا، وہاں پر تو مجھے کوئی ایک پودا بھی نیا نظر نہیں آیا مگر خیر اب عوام
کو خود احساس ہونا چاہئے۔ اگر ہم مغربی ممالک کو دیکھیں تو اُنہوں نے صفائی
ستھرائی کے وہ اُصول اپنا رکھے ہیں جو دین اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں۔ صفائی
کو نصف ایمان قراردے کرمسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے۔ مگر بد قسمتی سے
دنیا میں جہاں بھی دیکھیں سوائے چند ایک ممالک کے تمام مسلم ممالک اس صفت
سے عاری نظر آتے ہیں۔ اگر کسی مغربی ملک میں مسلمانوں کے علاقوں کو دیکھا
جائے تو وہاں صاف فرق نظر آئے گا۔ میرے ایک دوست کے مطابق جو کہ سویڈن میں
رہ کر آیا ہے کہ وہاں پر جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں پر صفائی ستھرائی
کا معیار بہت کم ہے کیونکہ وہاں کے رہائشی ہرجگہ کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں۔
ہمارے گلی کوچے دیکھیں گندگی کے ڈھیر ہونگے، پارکس دیکھیں، کھیل کود کے
میدان دیکھیں ہر جگہ ہم نے گند مچا رکھا ہوگا۔ کھانے پینے سے لے کر صحت کے
مراکز اور درس گاہوں تک ہر جگہ صفائی کی ناقص صورتحال ہوگی۔ جہاں گندگی
پھیلانے سے منع کیا گیا ہوگا وہاں غلاظت کے ڈھیر پڑے ہونگے، اگر ہم رستے پر
جارہے ہیں تو چھلکے ،کھانے پینے کے ڈبے اور فالتوکاغذ ادھر اُدھر پھینکنے
میں کبھی بھی عار محسوس نہیں کریں گے ۔ میرے والد صاحب نے ایک واقعہ بیان
کیا کہ اُن کے ساتھ ایک خاتون کام کرتی تھیں "میڈم کیرل مورس" جن کا تعلق
جرمنی سے تھا۔ ایک دن ایک میٹنگ کے سلسلے میں اُن کوایک دوسرے دفترجانا پڑا
جہاں تھوڑا سا فاصلہ پیدل چلنا تھا، اس درمیان اُن کے ادارے کے ایم ڈی صاحب
نے سگریٹ لگانے کے لئے ماچس کی تیلی جلائی ، ہلکی ہوا چل رہی تھی، ایک دو
تین دفعہ اُنہوں نے تیلیاں جلا ئی مگر بجھ جاتی اور وہ پھینک دیتے، پیچھے
سے آتی ہوئی مس کیرل مورس اُن تیلیوں کو اُٹھاتی اور اپنے پرس میں جمع کرتی
جاتیں، جب چوتھی دفعہ اُنہوں نے ماچس جلائی تو مس نے اُن سے کہہ دیا کہ اب
بس کریدیں اور اس طرح تیلیاں نہ پھینکیں۔ یہ بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن
کو ہم اتنی وقعت نہیں دیتے لیکن اِس سے آپ کی تربیت اور آپ کی قانون سے
محبت نظر آتی ہےخواہ وہ قانونِ فطرت ہو یا انسان کے وضع کردہ۔
ہم اگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ہماری بہت ساری عادتیں بہت گندی ہیں، پہلا
احتساب ہمیں اپنا خود کرنا ہوگا۔ صفائی صرف وجود اور ماحول کی نہیں ہوتی
بلکہ آپ کی روح کی طہارت بھی مقصود ہے۔ اگر ایک مسلمان اپنی روزانہ کی
ترتیب پر نظر ڈالے تو پائے گا کہ دن میں پانچ بار وہ اپنے آپ کو نماز کے
لئے صاف کرتا ہے اور پھر "حقیقی نماز" اُس کی روح کو پاک کردیتی ہے۔ اِسی
طرح ہماری سوچ اور فکر کی پاکیزگی بھی بہت اہم ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے
جب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے اداروں، مسجدوں، گھروں میں ہمیں تعلیم تو دی
جاتی ہے مگر تربیت کا فقدان ہے ۔ بہت کم اساتذہ اور والدین ہیں جو اپنے
بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی تربیت پربھی بھرپور توجہ دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں جاپان کے پہلوان "انوکی" پشاور آئے تھے، وہاں پر رسمی ریسلنگ کا
مقابلہ تھا جس میں عام عوام کے ساتھ پشاور کے تمام تعلیمی اداروں کے بچوں
کو مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں پر جو بے ترتیبی اور بدنظمی میں نے سرکاری
سکولوں کے طلباء میں دیکھی وہ پرائیوٹ اداروں کے بچوں میں نہیں تھی اور پھر
یہ فرق میں نے ہر جگہ پر دیکھا۔ ایسے اساتذہ کرام اب بہت کم ہیں جو تعلیم
کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں، اب تو رواج عام ہے بس کتاب
سے پڑھاو، رٹے لگواو اور ڈیوٹی ختم ۔ والدین کوتو چھوڑ دیں وہ تو سمجھتے
ہیں کہ میں نے اپنے بچے کو استاد اور مولوی کے حوالے کرکے اپنا فرض پورا
کرلیا۔ ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم ہر حکم کا صرف سطحی مطلب لیتے ہیں
کبھی اُس کی گہرائی میں نہیں جھانکتے۔ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے صفائی کو
نصف ایمان ٹھہرایا گیا ہے تو اِس کا مطلب صرف یہ نہیں کے آپ اپنے آپ کو پاک
رکھیں بلکہ اپنے ماحول، ذہن و فکر، شخصیت کو بھی ہر طرح کی گندگی، غلاظت،
کرپشن، ملاوٹ اور قوانین کی نافرمانی سے دور رکھیں۔ |