ٹرین سٹیشن پر آکر رکی تو چند پولیس والوں کے ہمراہ ایک شخص کو نیچے اتارا گیا اتنے
میں سٹیشن پر موجود ایک پولیس افسر آگے بڑھا اور ٹرین نے اترنے والے شخص کو ہتھکڑی
لگانے لگا۔ ساتھ موجود پولیس اہلکاروں نے منع کیا کہ ہتھکڑی نہ لگائیں لیکن پولیس
افسر نے کہا کہ ہتھکڑی ضرور لگے گی اور پھر اسے ہتھکڑی لگادی گئی۔ یہ سارا منظر
وہاں پر موجود ایک خاتون بڑی دلچسپی اور توجہ سے دیکھ رہی تھی وہ آگے بڑھی اور اس
نے پولیس آفیسر سے پوچھا کہ یہ ملزم جسے ہتھکڑی لگائی گئی ہے کون ہے؟اس کا یہ سوال
موجودہ صورت حال کے عین مطابق تھا کیونکہ ہتھکڑی لگانے والے پولیس آفیسر اور بظاہر
ملزم دکھائی دینے والے شخص میں انتہائی حد تک مشابہت تھی اور خاتون جو کچھ محسوس
کررہی تھی اس لحاظ سے اس کا یہ سوال بر محل تھا۔ پولیس انسپکٹر نے جواب دیا کہ یہ
میرا سگا بھائی ہے۔اور فوج میں ملازم تھا اب فوج کی زندگی کی اکتا کر اسے چھوڑنے پر
آمادہ ہے ۔ فوجی قوانین کے مطابق اس کا کورٹ مارشل ہوا ہے اور اب سے کچھ عرصہ جیل
کی سزا کاٹنا ہے لہذا اسے گرفتار کرکے جیل بھیجنا ضروری ہے
خاتون نے دوسرا سوال داغ دیا تو کیا ہتھکڑی لگانا ضروری ہے؟ پولیس آفیسر نے جواب
دیا کہ ہاں! یہ پولیس قوانین کی پاسداری ہے اور میرا فرض ہے کہ قانون کے مطابق
کارروائی کیجائے جبکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا یہ بھائی اگر ہتھکڑی نہ بھی
لگائی جائے تو فرار نہیں ہوگا۔لہذا رشتہ تعلق برادری اپنی جگہ اور فرض کی ادائیگی
اپنی جگہ۔ خاتون اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتی ہوئی وہاں سے روانہ ہوگئی -
جی ہاں! ایسے پولیس والے بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور اس معاشرے کےلئے قابل
تقلید ہیں اور جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا نیک لوگوں کی وجہ سے ہی قائم و دائم ہے
تو میں کہوں گا کہ ادارے اور تھانے بھی ایسے ہی آفیسرز کی وجہ سے اپنا وجود برقرار
رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے چند بھیڑیںکالی ہوتی تھیں اور بقیہ سفید۔ لیکن اب معاملہ الٹ
ہوچکا ہے کہ اب کسی بھی ادارے میں چند ہی سفید بھیڑیں ہیں باقی سب تو کالی ہو چکی
ہیں اور اسقدر کالی ہوچکی ہیں ان کی پہچان بھی مشکل ہے۔آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ آج
مغل بھائی کس طرح سے پولیس کے حق میں کالم لکھ رہے ہیںکیونکہ میں نے ہمیشہ پولیس کی
مخالفت میں ہی قلم آزمائی کی ہے۔ لیکن اچھائی کی تعریف نہ کرنا اسے نہ سراہنا بھی
تو انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
تو! وہ موصوف جن کا اوپر ذکر کیا گیا آج کل خوش قسمتی سے ہماے علاقے کی تھانہ سٹی
میں بطور ایس ایچ او(انسپکٹر )تعینات ہوکر آئے ہیں۔ ان کے بارے میں اکثر اخبارات
بھی پڑھاتھا اور لوگوں سے سنا تھا کہ بڑا کڑک افسر ہے ۔جب ان کے دو تین ملاقاتیں
ہوئیں تو وہ ”جیسا سنا تھا ویسا پایا“ کہ مترادف تھا۔پہلی ملاقات ڈی ایس پی سرکل
کہروڑپکا فاروق کمیانہ کے آفس میں ہوئی ۔ کمیانہ بھی نہایت اچھے اخلاق اور اوصاف کے
مالک ہیںبہرحال دوبارہ ایک دوست کے سلسلے میں تھانے جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے
تھانے میں حیران کن حدتک تبدیلی محسوس کی۔ہرشخص اپنی جگہ اپنی ڈیوٹی پر پوری طرح
چاک وچوبند تھا اور فل ڈریس میں۔ اس سے پہلے جب کبھی تھانے جانے کااتفاق ہوا تو
وہاں ایک بے ترتیبی ہر شے سے عیاں ہوتی تھی لوگوں کے مسائل بھی حل ہوتے تھے اور
شنوائی بھی ہوتی تھی۔ لیکن روایتی سستی اور کاہلی اور بدنظمی سے۔ اور ظاہر ہے کہ جب
سستی کاہلی اور بدنظمی سے کسی کام کو کیاجائے تو اس میں ٹائم بلکہ خوامخواہ کا ٹائم
درکار ہوتا ہے ۔
اب جب سے موصوف نے چارج سنبھالا ہے ہر کام سلیقہ مندی سے اور چابک دستی سے میرٹ پر
ہورہا ہے ۔اہل شہر مطمئن اور خوش ہیں کہ عرصہ دراز کے بعد ایک مخلص پولیس افسر
تھانہ سٹی میں تعینات ہوا ہے جو علاقے کی بھلائی کیلئے کام کرنا چاہتاہے۔ کام کرنا
جانتا ہے اور بالخصوص کام کروانا جانتا ہے۔ علاقے سے جرائم کاخاتمہ چاہتا ہے۔ انکا
کہنا ہے کہ ”اللہ رکھے کی بجائے اللہ بخش کو کیفرکردار تک پہنچانا چاہئے“ چھوٹے
چھوٹے مینڈکوں کو پکڑنے کی بجائے مگرمچھ کا سر کچلنا چاہئے۔ شراب پینے والے سے
زیادہ شراب بیچنے والے کی بیخ کنی ہونی چاہئے۔ جوا کھیلنے والے کے بجائے جواکھلوانے
والے کو نشان عبرت بنانا چاہئے۔ زنا کاری اور فحاشی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی
سرپرستی اور چھت مہیا کرنے والے کی گردن دبوچنی چاہئے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو
سبق ملے کہ یہاں تو سربراہ اورکرتادھرتا ہی دھر لیاجاتا ہے تاکہ مرتکب افراد میں
احتساب کا خوف ہو جس سے جرائم میں لازمی طور پر کمی ہوگئی۔
سائل اورمظلوم کیلئے تھانہ دارالامان ہونا چاہئے تاکہ یہ لوگ اپنا تحفظ محسوس کریں
اور ظالم مجرم گناہگار اور بالخصوص ٹاوٹ مافیا کیلئے دارالاحتساب ہونا چاہئے تاکہ
انہیں معلوم ہوسکے کہ تھانہ بنیادی طور پر بنا ہی شرفا کی دادرسی اور بدمعاش اور
طاقتورکی بیخ کنی کیلئے ہے۔اور ٹاﺅٹ مافیا تو مجھے لگتا ہی گولی کی طرح ہے اور میرے
ہوتے ہوئے کسی ٹاوٹ کو تھانے کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی۔ میں دو باتوں
کو ذہن میں رکھ کر کام کرتا ہوں ایک تو یہ کہ کسی بھی وقت وائرلیس پر میسج چل سکتا
ہے انسپکٹر محمد گلزار تلہ کا تبادلہ کردیا گیا ہے یا موت کا فرشتہ بھی اٹل حقیقت
ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں
میرا خیال ہے کہ آج کے کالم میں پولیس کے قلابے کچھ زیادہ ہی مل گئے ہیں لیکن میں
پھر اپنی بات دہراﺅں گا کہ جب اس ڈیپارٹمنٹ میں اس قسم کے لوگوں کے بارے میں سنا
جاتا ہے یا معلوم ہوتا ہے تو ایک انجانی سی فرحت و راحت محسوس ہوتی ہے کہ ایسے لوگ
بھی تلہ جیسے لوگ بھی اس دنیا میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اپنی حلال روٹی
روزی کا وسیلہ کررہے ہیںبہت سی باتیں مزید شیئر کرنے کو دل چاہتا ہے لیکن قرطاس کی
طوالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی خیر ”یار زندہ صحبت باقی“پھر کسی کالم میں پولیس
اور انسپکٹر گلزار تلہ کے حوالے سے قلم آزمائی کرونگا
کالم میں یہ باور کرانا اور ذہن پر نقش کرنا بھی مقصد ہے کہ جب کسی علاقے میں حاکم
عادل او انصاف پسند آجائے اور رشوت ستانی اقربا پروری دوست پروری ٹاﺅ ٹ ازم فیورٹ
ازم اور فیورازم کو پس پشت ڈال دے تو علاقے سے بدسکونی بے راہروی فحاشی ظلم راہزنی
ڈکیتی زیادتی چوری چکاری کر ختم کرنے میں کوئی شے مانع نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر
ملتان میں ڈی سی او ملتان نسیم صادق کہ جس نے بڑے بڑے بگڑے ہوﺅں کو نتھ ڈال دی۔
ہمارے علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر راﺅ امتیاز احمد نے علاقے کی فلاح و بہبود کے حوالے
سے نہایت سخت اقدامات اٹھائے اور شہر کی خوبصورتی میں اضافہ اور وسعت مل گئی۔ اور
.... اور اگر ہمارے حکمران بھی اوپر بیان کردہ برائیوں سے کنارہ کش ہوجائیں تو کوئی
وجہ نہیں ملک پاکستان میں خوشحالی سکون اطمینان کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی عوام کی
دسترس سے باہر ہو لیکن اس کیلئے محمد گلزارتلہ، نسیم صادق اور راﺅ امتیاز بننے
کیلئے نفس کو مارنا پڑتا ہے پھر کہیں جاکردانا گل و گلزار ہوتا ہے- |