گئے وقتوں کی باتیں بہت قیمتی ہواکرتی ہیں۔جوقوم اپنے ماضی سے ناآشنارہتی ہے وہ
مستقبل میں بھی اندھیری راہوں میں بھٹکنے کا بندوبست عظیم کرلیتی ہے۔ساحل سمندر کے
قریب آباد برصغیر کے ایک قصبے میں راجہ کی حکومت تھی ۔جسے وہ خاندان نسل درنسل بڑی
شان وشوکت سے نبھارہاتھا۔بہادری‘جاہ وجلال اورہیبت اس ذی وقارخاندان کے قریباً
گزشتہ سات کے سات حکمرانوں کے نصیب میں آئی تھی۔ہرراجہ ان تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ
لہوولعب سے بھی کنارہ کش رہتااور اسی بناءپر انکی فوج کہ سپہ سالاروں پربھی انکی
اخلاقی برتری کاخوب اثر تھا۔فوج کا جاہ وجلال مہ خانے وعشرت کدوں میں غرق نہ
ہواتھااور دشمن راجپوت گھرانوں کے ایک ایک سپوت سے خوف کھاتاتھا۔شہزادے‘سپہ سالار
سے لے ریاست کے تمام بڑے عہدے دارحسن کی مہکار کے بجائے تلواروں کی جھنکار سے محبت
کرتے تھے ۔اس سب کی بنیادی وجہ گزشتہ حکمرانوں کے اوصاف تھے جنھیں حسن وساقی نے
داغدار نہیں کیاتھا۔
سلطنت کا آٹھواں حکمران راﺅ بھگت اپنے آباﺅاجداد سے متضاد اوصاف کامالک تھا۔موسیقی
ورقص کا دلدادہ یہ راجہ اپنے والد کے زیر سایہ تو جیسے تیسے خشک وبے کیف لمحات گزار
چکالیکن عنان اقتدار سنبھالتے ہی اُس نے صدیوں سے قائم اپنی خاندانی روایات کو
سرعام ذلیل ورسوا کیا۔دربار کے لالچی وٹھگ امراءاُس کے ہر قبیح فعل کی بھی داد دیتے
اورنذرانے وصول کرتے ‘مگر راناسری ناتھ جوکہ بھگت کے ولی عہد ہونے کے بھی خلاف
تھا‘ہمیش کڑھتارہتا۔قلب شاہی میں اُسکے لیئے ویسے ہی قدر کم ہوچکی تھی کیونکہ راﺅ
بھگت جانتاتھاکہ وہ اسکے بڑے بھائی پریم چند کے گدی سنبھالنے کاپرزورحامی تھااورزن
کے بجائے میدان جنگ کامتمنی۔سلطنت میں یہی رواج چلاآرہاتھاکہ راجہ کاسب سے بڑا
بیٹاہی باپ کے بعد تخت پر جلوہ افروز ہوتا۔مگربھگت کے باپ مہاراجہ دلیپ نے اپنی
آخری سانسوں میں سب سے چھوٹی زوجہ کے اکلوتے بیٹے بھگت کو اس کی تمام ترخامیوں کے
باوجود ولی عہد بنادیا۔جبکہ سری ناتھ نے جان کی پرواہ کیئے بغیر مہاراجہ دلیپ کو
بھگت کے خفیہ کرتوتوںکے بارے میں واضح بتادیاتھاحالانکہ وہ جان چکاتھاکہ مہاراجہ
دلیپ اب اپنے فیصلے سے نہیں بدلے گا۔مگر نوے سال کے اس بوڑھے نے عتاب شاہی کی پرواہ
کیئے بغیر یہاں تک کہہ دیاکہ یہ شخص تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے فوج کا سپہ سالار
بنایاجائے۔دراصل سری ناتھ راجپوتوں کاشیدائی تھااور چاہتاتھاکہ سلطنت سداقائم رہے
اسی خاطر جان کی پرواہ کیئے بغیر جو بات بھی راجدھانی کیلئے بہتر ہوتی بغیرلگی لپٹی
کے بادشاہ سے عرض کردیتا۔مگر آداب سلطنت کوملحوظ خاطررکھتا۔
بھگت کی تخت نشینی کے بعدسلطنت زوال کی جانب تیزی سے گامزن تھی مگر ابھی تک شاہی
فوج کی کمان پریم چند کے ہاتھوں میں تھی اسی بناءپر فوج پر میں بھی واجد علی شاہ
جیسی فوج کی رعنائیاں نہ تھیں۔البتہ بادشاہ کی بے اعتدالیاں‘ناانصافیاں اور پازیب
کی جھنکار سب کچھ ملیامیٹ کرنے پر تلی تھیں۔شاہی فوج ویسے تو بادشاہ کے ہرحکم کی
پابند تھی مگر کبھی کبھار شہزادہ پریم چند(سابق ولی عہد) اپنے چھوٹے بھائی(بادشاہ)
کے ایسے احکامات کو پس پشت ڈال دیتاجن کے قوی منفی اثرات کاخدشہ ہوتا۔
دن گزرتے گئے اور جتناپریم چند اور سری ناتھ قریب ہوئے اتناہی مہاراجہ ان سے
دورہوتاگیا۔ان کے قرب کاواحد مقصد راجپوت سلطنت کی بگڑتی ہوئی حالت
کوسنوارناتھا‘مگر رنگین مزاج شاہ پرست ان خشک مزاج بندگانِ خداسے متنفرہوچکے تھے‘وہ
انکی ہرحرکت کواپنے سینے پرمونگ دلنے کے مترادف گرانتے اور بادشاہ کے کان بھرتے
۔کون سی جگہ ہے جہاں خوشامد نے بربادی نہ مچائی ہو‘دنیاوی امورمیںکونسامقام ہے جہاں
اسکی نہ چلی ہو۔مگر اسکا انجام ہمیشہ عبرتناک رہاہے۔ہوایوں کے بادشاہ راﺅ بھگت نے
پریم چند اور ریاست کے پرانے اورمخلص نمک خوار راناسری ناتھ کو معزول کرکے انصاف کی
دھجیاں اُڑاتے ہوئے براہ راست فوج کی باگ ڈور سنبھال لی۔شہنایوں پرفریفتہ‘رقص
وسرورکے رسیا اورشراب کے عادی اب افسران فوج بننے لگے ۔وہ مہمات پر جاتے ہوئے بھی
اپنی محفل کے چیدہ چیدہ افراد لے جاتے ۔مہاراجہ اپنی عقل پراتنے نازاں تھے کے سری
ناتھ کی جگہ مشیرخاص رکھنے کی زحمت ہی گوارانہ کی۔نصیب اس قدر برے نکلے کے ایک دن
بڑی عبادت گاہ کے عالم سے مذہبی معاملات پراُلجھ بیٹھے اور ان سے توہین آمیزسلوک
کیا۔عالم نے عبادت گاہ میں جاکرمنادی کرادی کے بادشاہ کے خلاف چھاپہ مار فوج تیار
کی جائے یہ لامذہب ہوگیاہے۔شاہ پرست مصاحب بھی چونکہ مذہب سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھتے
تھے ‘بادشاہ سے کچھے کچھے رہے لیکن لالچ آنکھوں پرپٹیاں باندھ دیتاہے۔دو‘چارکے
سواسب ہربات پرجان فداکرنے لگے۔کہتے ہیں جب چیونٹی کی موت آتی ہے تو اُسے پر لگ
جاتے ہیں۔بھگت نے خانہ ءخدا پرچڑھائی کردی ۔اور یہ اُسکے اقتدار کے تابوت میں آخری
کیل ثابت ہوئی۔
چند نسل درنسل امراءنے عوامی حمایت کی مہم تیزکردی۔ہمدردی بھی انہیں حاصل ہوئی
اوربھگت کا تختہ اُلٹ دیاگیا۔اب بندیلہ خاندان کا داماد سیاہ وسفید کا مالک
تھا۔بھگت محل کی خفیہ سرنگ سے فرار ہوگیا۔کافی عرصئہ بعد جب اُسے محسوس
ہوایاکروایاگیاکہ ریاست کے عوام اب بھی اُسے اسی طرح چاہتے ہیں‘انہیں خوش فہمیوں نے
اُسے جکڑ کر وطن واپس پہنچایا۔عوام نے خاموش نفرت کااظہارکیا۔عوام کو بھرپور اعتماد
تھاکہ بندیلہ حاکم جسونت ملک کے مجرم کوکیفرکردار تک پہنچائے گا۔لیکن نہایت ہی
چالاکی سے ایساماحول بنایاگیاکہ بے گناہ انسانوں کے قاتل‘لادین‘عزت کے
بیوپاری‘عبادت گاہ کے مجرم ‘ارمانوں کے قاتل شخص کوریاست کی ملکیت محل نماقلعہ میں
محصور کیاگیا۔عوامی ردعمل سے محفوظ رکھنے کی خاطر جیل سے زائد گارڈ دیئے گئے۔اور
سری ناتھ ‘ پریم چنداورآنکھ رکھنے والے لوگ سوچتے رہ گئے کہ مہاراجہ جسونت کیاسے
کیاہوگئے اور ایک قیدی کو سلطان جیساپروٹوکول مل گیا۔ |