ڈاکٹر مسکین حجازی۔ کچھ یادیں کچھ باتیں

بعض افراد زندگی میں اتنے’’ اِن‘‘ہوتے ہیں کہ ُان کے ’’آؤٹ‘‘ ہونے کا گماں بھی محال دکھائی دیتا ہے۔ یہی معاملہ ڈاکٹر مسکین حجازی سے متعلق بھی ہے۔ جو اس جہاں فانی سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن دل ہے کہ تسلیم ہی نہیں کرتا۔ میرا 1989 ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ ہوا تو اس وقت ڈاکٹر مسکین حجازی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر مسکین حجازی اس کے علاوہ یونیورسٹی کی سطح پر تقریباً ہر ذمہ داری میں نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ وہ سٹوڈنٹس ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین بھی تھے جہاں اقبال خلیل انہیں معاونت فراہم کرتے تھے جبکہ شعبہ صحافت کے موجودہ چیئرمین احسن اختر ناز اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے پبلک ریلیشنز آفیسر ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر مسکین حجازی کی شخصیت ایسی تھی کہ ایک دو لیکچرز کے بعد ہی طلباء و طالبات ان کے گرویدہ ہوگئے۔ وہ صحافت اور خصوصاً مسلم صحافت کی تاریخ انتہائی مزے لے لے کر پڑھایا کرتے تھے۔ ظفر علی خان کی مدبرانہ اور دلیرانہ صحافت کے کئی قصے انہیں ازبر تھے۔ ظفر علی خان کے ذیل میں دیئے گئے اشعار بھی ہم نے انہی سے سنے۔
بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں
اک ساورکر اک گاندھی ہے
اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے
اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے
لب پر ہے صدا آزادی کی
اور دل میں شوق غلامی کا
اکھڑی تھی ہوا انگریزوں کی
ان دونوں نے مل کر باندھی ہے

یا یوں کہیے کہ مسلم صحافت کے عناصر ثلاثہ جن میں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد شامل تھے ان کی پسندیدہ ترین صحافتی شخصیات میں سے تھے۔ صحافت کے شعبے سے ڈاکٹر مسکین حجازی کی رغبت میں شاید کچھ حصہ ان کے سسر جناب باری علیگ مرحوم کا بھی تھا کہ جو برصغیر کے ایک معتبر اور منجھے ہوئے صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح حسرت موہانی کے حوالے سے پڑھاتے ہوئے ان کے اشعار کا حوالہ دینا بھی ان کا اک خاصہ تھا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے شعر پڑھتے ہوئے اور بھی اچھے لگتے تھے۔ حسرت کے اس شعر کا تو وہ اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی

ان کی زبان سے سنے ہوئے صحافتی قصے اور چٹکلے آج ان کے نہ ہونے کے احساس کے ساتھ دل کو مخموم کرتے ہیں لیکن یادیں تو یادیں ہوا کرتی ہیں انہیں اس سے سروکار تو نہیں ہوتا کہ وہ کس پر کس انداز میں اثر پذیر ہو رہی ہیں۔

الہ آباد(بھارت) سے شائع ہونے والے اخبار”The Pioneer” سے متعلق اکبر آلہ آبادی کا تبصرہ جو انہوں نے سنایا آج بھی اتنے برس بیتنے کے بعد ذہنوں سے محو نہیں ہوا وہ کچھ یوں تھا۔
گھر سے خط آیا ہے کہ ہوگیا ان کا چہلم
پائنیر لکھتا ہے کہ بیمار کا حال اچھا ہے

گویا ادبی حلقوں کی جانب سے صحافتی ادارے سے متعلق اس سے بہتر انداز میں تنقید شاید نہیں ہوسکتی۔ اس شعر سے پائنیر کا’’کچا چٹھا‘‘ اور پالیسی سامنے آجاتی ہے۔

ڈاکٹر مسکین حجازی آرائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے ایک مضبوط آرائیں ہونے کے باوجود تمام ذاتوں کے طلباء کو ہر حوالے سے اکاموڈیٹ کیا ۔کسی کے داخلے کا معاملہ ہو یا کوئی اور پھڈا ڈاکٹر مسکین حجازی ایک شفیق باپ کی طرح ان کی مدد کے لیے موجود ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ انہوں نے مجھے اور میرے ایک کلاس فیلو ریاض الحق سندھو کو’’ الراعی انٹرنیشنل‘‘ جو آرائیں برادری کا ترجمان میگزین ہے کے ایڈیٹر چوہدری محمد حسین مرحوم کے پاس بھیجا اور کہا کہ انہیں نہ بتائیے گا کہ آپ آرائیں نہیں ہیں لہذا آپ لوگ اپنی پہلی جاب کے ساتھ ساتھ سیکنڈ ٹائم وہاں بھی کام کرتے رہیں یہ الگ بات ہے کہ چوہدری محمد حسین سے ہمارے مذاکرات کامیاب نہیں رہے لہذا ایک ہی نوکری پر اکتفا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر مسکین حجازی طلباء کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں چنداں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہی میں نے ایک میگزین میں’’ ایم اے اخباراں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون چھپوا دیا اور اس میں شعبہ صحافت میں ہونے والے داخلوں سے متعلق عدالت میں دائر رٹوں کا بھی ذکر کردیا۔ اسکی ایک کاپی کسی طرح ڈاکٹر مسکین حجازی جو چیئرمین شعبہ صحافت تھے تک پہنچ گئی ا نہوں نے نائب قاصد کو بھیجا کہ یوسف عالمگیرین نام کا ہمارا کوئی نیا اسٹوڈنٹ آیا ہے اسے بلوائیں۔ میں جانے لگا تو میرے کلاس فیلو ریاض الحق نے اپنے مخصوص سٹائل میں مجھے باور کرایا کہ تم نے یہ مضمون لکھ کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ ابھی تم نے دو سال اس ڈیپارٹمنٹ میں رہنا ہے اور شروع کے مہینوں میں یہ کارروائی ڈال دی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب تو شدید ناراض ہونگے۔ بہتر یہ ہے تم ادھر ادھر ہوجاؤ۔ ہم نے بلا سوچے سمجھے اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے ادھر ادھر ہونے میں عافیت جانی۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ کلاسز ختم ہوئیں تو مجھ سمیت ہماری کلاس کے کچھ لڑکے چیئرمین شعبہ صحافت کے دفتر کے باہر سے گزر رہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور ڈاکٹر مسکین حجازی باہر نکلے۔ لڑکے انہیں دیکھ کر رک گئے ڈاکٹر صاحب سیدھے ہماری جانب آئے اور آتے ہی پوچھا آپ میں سے ’’یوسف عالمگیرین‘‘ کون ہے میں نے تھوڑا تذبذب سے کام لیا تو سب لڑکوں نے بیک زبان ہو کر نشاندہی کی کہ سر یہ ’’یوسف عالمگیرین‘‘ ہے۔ میں بھی مؤدبانہ انداز میں دو قدم آگے بڑھا اور کہا سر میں ہی یوسف عالمگیرین ہوں۔ اس پر ڈاکٹر مسکین حجازی نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کی ایک تحریر دیکھی ہے مجھے بہت اچھی لگی۔ آپ بہت اچھا لکھنے لگو گے۔ یہ تعریف کلاس فیلوز کو شاید زیادہ مناسب نہ لگی تو انہوں نے اس بات کو طنز پر مبنی ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی جس پر ڈاکٹر مسکین حجازی نے کہا بھئی میں انتہائی سنجیدگی سے یہ بات کہہ رہا ہوں اور یہ بہت جلد کسی اخبار میں ’’کالم‘‘ لکھنا شروع کردے گا۔ اس کے لیے آپ کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

استاد گرامی کے منہ سے نکلی ہوئی بات یوں پوری ہوئی کہ طالب علمی کے دور ہی میں میرا کالم’’ دستک‘‘ کے نام سے روزنامہ جہاں نما اور ’’لاہور میں‘‘ کے نام سے ایک کالم روزنامہ پاکستان لاہور کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہونا شروع ہوگیا۔1993 ء میں کچھ کالم’’سچی بات‘‘ کے نام سے روزنامہ نوائے وقت لاہور میں بھی شائع ہوئے۔ ۔

ذکر ہورہا تھا ڈاکٹر مسکین حجازی کی شفقت اور سرپرستی کے وصف کی تو انہوں نے سینکڑوں سیلف میڈ طلباء کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں معاونت فراہم کی۔ بعض طلباء نے ڈاکٹر مسکین حجازی کے اوپر مقالے اور تھیسسز بھی لکھے۔ سینکڑوں لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ڈاکٹر مسکین حجازی کی ذات کو استعمال کر کے متعدد دنیاوی فوائد حاصل کیے اور پھر کام نکل جانے کے بعد کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

گزشتہ برس نومبر میں چونڈہ میں ایک کل پاکستان مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں اپنے کلاس فیلو اور دیرینہ دوست اویس باجوہ سے بھی ملاقات ہوئی اس نے بتایا کہ ڈاکٹر مسکین حجازی شدید علیل ہیں ان پر شاید فالج کا اٹیک ہوا ہے وہ ان دنوں اپنی بیٹی کے پاس کراچی میں مقیم ہیں۔ میں نے اویس سے ڈاکٹر صاحب کا نمبر لیکر چونڈہ ہی سے انہیں کال کی۔ ان سے بات ہوئی تو بہت خوش ہوئے ۔میں نے کہا کہ سر آج ہم جہاں کہیں بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ آپ جیسے اساتذہ کرام کی شفقت اور رہنمائی کی مرہون منت ہے۔ مجھے ان کی آواز میں کمزوری اور نقاہت کا احساس ضرور ہوا۔ لیکن یہ خیال نہیں آیا کہ ڈاکٹر صاحب یوں اچانک اس دار فانی سے رخصت ہوجائیں گے۔

ڈاکٹر مسکین حجازی صحافت کے میدان میں ایک برگد کے درخت کی مانند تھے جس کی چھاؤں تلے سینکڑوں افراد نے پڑاؤ کیا، چھاؤں سے مستفید ہوئے اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ ڈاکٹر مسکین حجازی کے شاگردوں میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت سینکڑوں نامور پاکستانی ملک و قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔جناب یوسف رضا گیلانی کی صحافیوں سے انتہائی نپی تلی اور صاف صاف گفتگو سے لگتا بھی ہے کہ انہوں نے صحافت پڑھی ہوئی ہے۔ بلاشبہ وہ’’ورکنگ جرنلسٹ‘‘ کبھی نہیں رہے ہوں گے لیکن صحافت کی شُدبُد رکھتے ہیں۔ بہرکیف ان کا ایک ’’پلس پوائنٹ‘‘ ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی تو ڈاکٹر صاحب کی رحلت پر ان کے گھر بھی گئے اور دعائے خیر کی۔ مختلف اخبارات و جرائد، ٹی وی چینلز اور تعلقات عامہ کے اداروں میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے والے سینکڑوں افراد نے ڈاکٹر مسکین حجازی سے کسبِ فیض حاصل کیا اور اب عزت و وقار سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اللہ ڈاکٹر مسکین حجازی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔(آمین)
ملکِ عدم توں ننگے پنڈے آوندا ایس جہانے
اک کفن دی خاطر بندہ کنا پینڈا کردا اے
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 94124 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.