ماہرين نفسيات کا کہنا ہے کہ خوداعتمادی اصل ميں آدھی کاميابی ہوتی ہے-
ليکن بدقسمتی سے ملکی معاشرہ ميں بچوں کو شروع ہی سے دانستآ يا نادانستآ 'جی
حضوری' کرنا سکھايا جاتا ہے، دوسروں کی، بڑوں کی منظوری حاصل کر کے، انکی 'توقعات'
پر جب بچہ پورا اترتا ہے تو ان کے نزديک ايسا بچہ بہت شريف، نيک، بھلہ مانس،
تابعدار اور اچھے خاندان کا چراغ کہلاتا ہے۔ اس عمل سے بچہ بھی اپنی
تعريفيں سن کر پھولا نہيں سماتا اور بڑوں کی خوشنودی حاصل کرنے کيلیے مزيد
'جی حضوری' کرنا شروع کرديتا ہے جسکے نتیجہ میں بچے ميں خود اعتمادی کی
پيدائش رک جاتی ہے- باالفاظ ديگر بچہ اپنی نہيں بلکہ دوسروں کی زندگی جينا
شروع کر ديتا ہے- حالانکہ دیکھا جائے تو یہ لفظ ‘میں‘ ہی ہے جو ہمیں دوسروں
سے الگ اور ممتاز مقام دیتا ہے، اس ‘میں‘ کی عدم موجودگی میں انسان محض
زندہ لاش ہی کہلائے گا۔
جب بچہ گھر سے سکول پہنچتا ہے تو وہ باقاعدہ دوسروں کی منظوری و خوشنودی
حاصل کرنے کی تربيت کا آغاز کرتا ہے- تعليمی اداروں خصوصاً سرکاری سکولوں
ميں، امتحانی نظام ميں، اور نصابی کتابوں ميں موجود اسباق و کہانيوں پر
اچٹتی سی نظر ڈالنے سے ہی نظر آ جاتا ہے کہ بچے کی خوداعتمادی، اسکی سيلف،
اسکے خيالات پر پہرہ بٹھانا ہی ان درسگاہوں کا بنيادی 'ٹارگٹ' ہے تاکہ
سرمايہ داروں اور تاجروں کے انگريزی ميڈيم سکولوں ميں پڑھنے والے بچوں کو
مستقبل ميں نوکرشاہی اور اہم پوسٹوں پر پہنچنے کيلیے زيادہ 'مقابلہ بازی'
نہ کرنی پڑے اور اسی دوران انکی خدمات کيلیے سرکاری سکولوں سے مشرف بہ
تعليم مخلوق تيار ہوجائے۔
سکولوں ميں يہ سکھايا جا رہا ہے کہ کسی معاملے پر اپنے آپ پر اعتماد نہ
کريں- ہر بات کيلیے اجازت طلب کريں- کس ڈيسک پر بيٹھا جائے۔ سر ميں اندر
آجاؤں، مس ميں پانی پی آؤں، ميڈم مجھے بخار ہے ميں گھر چلا جاؤں! وغيرہ-
يہاں تک کہ نہايت معمولی نوعیت کی باتيں بھی استاد کی مرضی کے مطابق کی
جائيں- ہماری درسگاہیں يہ نہيں سکھاتیں کہ بچے خود غوروفکر سے کام ليں-
وہاں تو صرف ہدايات جاری ہوتی ہيں اور بچوں کو ان پر آنکھيں بند کرکے عمل
کرنا پڑتا ہے- اور اگر کوئی بچہ اللہ کا نام لے کر کوئی سوال پوچھ بیٹھے تو
اسکو ایسے لہجہ و طرزِ تخاطب میں جواب دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ سوال کرنے
سے خوف محسوس کرنے لگتا ہے۔
بحثیتِ مجموعی ہمارے نظامِ تعلیم میں وضاحت طلب کرنے کو گستاخی اور بےادبی
تصور کيا جاتا ہے- استاد بچوں کو اطاعت شعار بناتے ہيں- طلبہ کا رپورٹ کارڈ
بھی اصل ميں انکے والدين کو یہ مطلع کرنے کيلیے ہوتا ہے کہ بچوں نے کس قدر
خوداعتمادی کھو دی ہے اور وہ کس قدر تابعدار وفرماں بردار ہوگئے ہيں- ياد
رہے ہمارے نظام تعليم ميں تابعداری نماياں ترين خصوصيت اور خوبی کا درجہ
رکھتی ہے- ہمارے تعلیمی پاليسی ساز دعویٰ تو يہ کرتے ہيں کہ وہ تعليم کے
ذريعے نئی نسل ميں خوداعتمادی پيدا کرنا چاہتے ہيں، ان کی شخصيت کی نشوونما
مطلوب ہے- ليکن ہوتا اسکے بالکل برعکس ہے- جو بچے بلا چون وچرا اپنی
خودمختاری سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوں انہيں بدتميز، بےادب، جھگڑالو،
لڑاکو، خَر دماغ، پنگو، اور الجھنوں کی جڑ بتايا جاتا ہے، اور ايسے بچوں کی
حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ تابعدار اور 'يس سر يس سر' کہنے والوں کی تعريف
کی جاتی ہے اور انہيں مثالی طالبعلم قرار ديا جاتا ہے-
کالج ميں داخلہ لينے والوں کو ديکھيں، مضامين کے انتخاب کيلیے بھی وہ
دوسروں کی رائے اور فيصلے کے منتظر رہتے ہيں، وہ خود فيصلہ کرنے سے گريز
کرتے ہيں کہ ان ميں انکی اہليت سکول نے باقی ہی نہيں رہنے دی ہوتی- سياسی
نقطہ نظر سے ديکھا جائے۔تو لوگوں کو تابعدار رکھنا حکومت کے مفاد کا تقاضا
ہے- لوگ حکومت کی ہر بات کو خلوص دل کے ساتھ قبول کريں، ہر ہدايت پر، ہر
کال پر بلا سوچے سمجھے عمل کريں- فی زمانہ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ
عوام کيلیے سوچنے اور سمجھنے کی تمام راہيں بند کر دی جائيں، اچھے، وفادار
اور محب وطن شہری پيدا کرنے کے بہانے حکومتيں عوام کی تمام صلاحيتيں سلب
کرنے کی کوشش ميں رہتی ہيں يہاں تک کہ وہ ‘ہاں‘ کہنے اور سرجھکانے والی
‘مخلوق‘ بن کر رہ جاتے ہيں- دوسری طرف سرمايہ دار کا اشتہار بازی کا فلسفہ
بھی يہی کہتا ہے کہ آپ خود کوئی اچھا انتخاب کرنے کے ‘نااہل‘ ہيں لہذا
دوسروں کی رائے۔کو قبول کريں، انفرادی فيصلے ناپسنديدہ ہيں، دوسرے لوگوں کی
پسند کا خيال رکھنا آپ پر لازم ہے لہذا انکی دلجوئی کيلیے فلاں فلاں شے
استعمال کريں-
جان ڈیوی کے نزدیک تعلیمی عمل میں استاد کا کردار صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ
ایسا ماحول فراہم کریں، ایسے نکات بیان کریں کہ جو بچے کے نصاب کو ڈائریکٹ
کرتے ہوئے جوابی اقدام کی تحریک اُبھارے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا
نہیں ہوتا۔ ہمارے نصاب تعلیم میں کسی موضوع پر باہم متصادم نظریے ملتے ہی
نہیں ہیں، اگر ملتے ہیں تو ان کو ‘مذہب‘ کی آڑ میں منطقی طور پر سوچنا
ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے کہ اس سے ہمارے ‘کُفر‘ کے مرتکب ہونے کا خدشہ
پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈارون تھیوری اسکی ایک مثال ہے۔ اسی طرح بچوں کو ہر بات
بحثیت ‘سَند‘ کے بتائی جاتی ہے کہ اب اس پر غور و فکر کرنے کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر فلاں تاریخی یا مذہبی یا سیاسی شخصیت نے یہ کہا
ہے کہ۔۔۔۔۔،- نصاب میں سرسید کو ‘دو قومی نظریہ‘ کے تحت ‘ہیرو‘ کا درجہ دیا
جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ اپنی دانست میں، اپنی تشفی کے لیئے، تشنگی کو دور
کرنے کے لیئے اس ‘ہیروازم‘ پر یہ کہہ کر اوبجیکشن لگا دے کہ ہندوستان پر
قابض غیر ملکی انگریزوں کی موجودگی میں دو قومی نظریہ یعنی ہندو اور مسلمان
دو الگ قومیں ہیں وغیرہ وغیرہ، کا کیا جواز بنتا تھا؟ ہندو اور مسلمان تو
صدیوں سے ہی اکٹھے رہتےآرہے ہیں، انکی بودوباش و ثقافت میں بھی کوئی خاص
فرق نہیں ہے، شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے تاریخ ساز دور میں تو ہندو،
مسلم، سکھ، عیسائی ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہے ہیں تو پھر اپنے ہی ہم وطن
ہندووں سے آزادی لینے والا نظریہ دریافت کرنا چاہئے تھا یا غیرملکی
انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کےلئے ‘دو جسم مگر اک جان ہیں ہم، اک دل کے دو
ارمان ہیں ہم‘ کے مصداق ہندو اور مسلم دونوں کو ‘یک جان‘ ہو کر انگریزوں کو
جن کا اس خطہ سے کوئی معاشرتی، سیاسی، روایتی، مذہبی، ثقافتی، معاشی،
خانقاہی، اور تاریخی تعلق ہی نہیں، کو نکال باہر کرنے کے لیئے کوئی نظریہ
دریافت کرنا چاہئے تھا؟ بغور دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ ہی کی بدولت
انگریز یہاں پر پون صدی حکومت کر گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ نظریہ انہی کا
متعارف کردہ تھا کہ ‘لڑاو اور حکومت کرو‘۔ بصورت دیگر ہندوستان کب کا آزاد
ہو چکا ہوتا ہو اور پاکستان بھی بہت پہلے ہی معرضِ وجود میں آ چکا ہوتا۔ تو
اس بچے کو، ایسی ‘تخلیقی‘ سوال و جواب کرنے والے بچوں کی آواز کو یہ کہہ کر
دبا دیا جاتا ہے کہ جو قوم اپنے قومی ہیرووز کی قدر نہیں کرتی وہ کبھی پھل
پھول نہیں سکتی۔ بندہ پوچھے ہمارے قومی ہیرو بھی تو ہماری طرح انسان ہی تھے،
ہماری ہی طرح دو کان، دو آنکھیں، دو ہاتھ، دو پیر، ایک ناک، دو ٹانگیں
رکھتے تھے، وہ کوئی آسمان سے تو نہیں اترے تھے یا کوئی فرشتہ تو نہیں تھے
کہ ان پر تنقید نہیں کی جاسکتی، یا وہ غلطی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔
مُکدی گل، رسمی اور غیر رسمی تعلیم موجودہ استحصالی، ظالمانہ نظام اور
سرمایہ دارانہ سسٹم کو بحال رکھنے کے لیئے محض تعصبات ذہن نشین کرنے کا
ذریعہ ہے۔ ابتدا ہی سے ہمارے تعلیمی نظام، سیاسی نظام اور میڈیا پر ایک
مخصوص ٹولہ براجمان ہے جسکا پاک وطن کی دھرتی سے کوئی خاطر خواہ زمینی و
معاشرتی و ثقافتی و لسانی و مادری رشتہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ زیادہ تر
‘یوپیائی‘ طرز بود و باش کا مالک ہے اور اسی کی ثقافت و بودوباش کو یہاں
پروان چڑھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اپنی حکومت (اسٹیبلیشمنٹ)
کی برقراری و نشوونما و پائیداری و ترقی کے لیے نونہالوں کے اذہان میں
دانستاً تخلیقی صلاحیتیں بیدار نہیں ہونے دیتا۔ جب تک اس ٹولہ سے نجات حاصل
نہیں کی جائے گی، جب تک اسکی سازش کو سمجھا نہیں جائے گا، تب تک پاکستان،
پاکستانیوں کو واپس نہیں مل سکتا۔ نیز ان حالات میں ملک میں معجزاتی لیڈروں
کے پیدا ہونے یا کسی قائداعظم جیسے ‘مسیحا‘ کے پیدا ہونے کی امید رکھنا بھی
ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی سورج سے بارش برسنے کی امید رکھتا ہو۔
‘سب کمالات ہیں تخیل کے
ورنہ کچھ بھی نہیں حقیقت میں‘ |