اللہ بڑا بادشاہ ہے۔ وہ چاہے تو
چھوٹی سی چیونٹی سے دیو قامت ہاتھی کو ہلاک کروادے۔ اگر وہ چاہے تو پتلی سی
کونپل سے سخت پہاڑ کے سینے کو شق کروادے ۔ اس کی طاقت کا کوئی شمار نہیں ۔وہ
صفات میں قوی ہے۔ قھار ہے۔ جبار ہے۔ اس نے قرآن میں یہ قانون بیان کردیا ہے
کہ ”کتنی ہی کمزور جماعتوں نے طاقتور جماعتوں کو کچل ڈالا فقط اللہ کی
توفیق سے۔“ (البقرة:249 ) اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر دنیا میں اللہ کا نام
لیوا کوئی نہ رہتا۔ آج سے تقریباََ 14 سو سال پہلے جب ابرہہ ہاتھیوں کے
لشکر کے ساتھ ہتھیاروں سے لیس ہو کر نکلا۔ ارادہ کیا تھا؟ اللہ کے گھر کو
گرانا ہے۔ اس کی سوچ بھی یہی تھی کہ مجھ سے کوئی طاقتور نہیں۔ اسے بھی طاقت
پر گھمنڈ تھا۔ وہ بڑا اتراتا اور تکبرانہ چال چل کر آیا۔ مگر کیا ہوا۔ اللہ
نے اپنے گھر کی حفاظت کرنا تھی۔ لہٰذا ابابیلوں کو باریک کنکریاں دے کر
بھیج دیا۔ وہ کنکریاں کیا تھیں؟ ”ایٹمی میزائل“ تھے۔ دنیا نے تو آج ایٹم بم
تیار کیا ہے۔ مگر میرے مولا نے چودہ صدیاں پہلے وہ ”ایٹم بم“ ابرہہ کے لشکر
پر برسا دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس شخص یا ہاتھی کو وہ ایٹمی کنکریاں
لگتی تھیں۔ اس کا گوشت جھڑنا شروع ہو جا تا۔ آخر کار وہ موت کے منہ میں چلا
جاتا ۔ تو اس طرح اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت وقت کے فرعون سے کمزور مخلوق
ابابیلوں سے کروائی۔
وہ رب تو بادشاہ ہے کہ جب کسی کے تکبر و گھمنڈ کو خاک میں ملانے پر آ جائے
تو پھر ہواؤں کے لشکر بھیج کر انہیں تباہ و برباد کردیتا ہے۔ قوم عاد کے
ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں۔ 20 سے 25 میٹر لمبے لوگ ، کھجور کے تنوں جیسے۔ آج
کے لوگ جن کی ران کا مقابلہ بڑی مشکل سے کریں۔ لیکن جب انہوں نے اللہ کے
غضب کو دعوت دی تو کیا ہوا؟ زبردست ہوائی طوفان چلا اور انہیں پتھر کے
گھروں سے باہر کھینچ کر زمین پر پٹخ ڈالا۔ میرا مولیٰ بڑا بادشاہ ہے۔ وہ
چاہے تو فرعون کے لشکر کو غرقِ آب کردے۔ وہ چاہے تو نمرود کو مچھر سے
مروائے۔ وہ چاہے تو قارون جیسے متکبر مالدار کو زمین میں دھنسادے۔ وہ چاہے
تو ابو جہل کو دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں ذلت کے ساتھ جہنم رسید کروائے۔
اس کی طاقت کے کیا کہنے۔
آج سے چند سال پہلے جس روس کے بڑے چرچے تھے۔ اس جیسی دفاعی ٹیکنالوجی کسی
کے پاس نہ تھی۔ وہ روس جس کے ہتھیاروں کی دنیا میں نظیر نہ ملتی تھی۔ جو
تکبر کی وجہ سے مست ہو گیا تھا۔ اسے بھی جب مروایا تو ان کمزور افغانیوں کے
ہاتھوں سے خشک پہاڑوں پر لاکر۔ جن کے پاس جدید اسلحہ تو درکنا ر عام ہتھیار
بھی سب کے پاس نہ تھے۔ مگر رب نے اپنے ضعیف بندوں کے ہاتھوں اس کا غرور خاک
میں ملادیا۔ پھر اس کے بعد امریکہ اسی تکبر کی کرسی پر براجمان ہوا۔ وہی
منصوبے کہ دنیا پر میرا نظام چلے۔ دنیا پر میری حکومت ہو۔ تمام وسائل میرے
قبضے میں ہوں۔ اسلام کا نام مٹ جائے۔ واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کا
نام و نشان مٹ جائے۔ وہ انہی منصوبہ کے ساتھ نکلا تھا۔
اللہ اللہ ! اکیلا بھی نہیں ” نیٹو“ کی صورت میں 52ممالک کا فوجی اتحاد بھی
ساتھ تھا۔ ہر طرح کی فوجی ٹیکنالوجی تمام ممالک کی افواج اسلحہ، گولہ
بارودسے لیس تھی۔ مگر ہاں ! میرے رب کے منصوبے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انہوں نے
زمین پر ایک چال چلی تو میرا رب آسمان پر اپنی تدبیر کرچکا تھا۔ میرے رب نے
فرعون کو برباد کرنا تھا تو اسے بھی عین دریائے نیل کے بیچ میں لایا۔
ہاں ہاں! مولا تیری شان بعینہ جب امریکہ کے تکبر کو خاک میں ملاتا تھا۔ تو
فرعونیوں کی طرح انہیں بھی ان کے محلات سے کھینچ باہر نکالا ۔ وہ خوبصورت
محلات، وہ دل کے ٹکڑے بیوی بچے ، خشیوں بھری دنیا وی چمک دھمک سے نکال کر
افغانستان کے پہاڑوں پر لے آیا ۔ وہ امریکہ جس کا نام سن کر ظاھری روشن
خیال کانپ جاتے تھے۔ وہ امریکہ جس کی پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکیوں
سے مرعوب ہوکر مشرف نے پاکستان کو حقیقت میں ذلت میں دھکیل دیا۔ اس امریکہ
کو اللہ نے برباد کیا تو ایسا ذلیل کرکے کہ جس ذلت پر ذلت بھی پناہ مانگے ۔
اب تو روزانہ اخبارات میں شکست خوردہ امریکہ کی واپسی کی خبریں جگمگا رہی
ہوتی ہیں۔ لیکن نام نہاد روشن خیال آج بھی امریکہ کے راگ الاپتے نظر آتے
ہیں۔ وہ آج بھی امریکا کی گود میں پنای لینے کو باعث مسرت گردانتے ہیں۔ وہ
آج بھی امریکہ کے اشاروں پر مٹنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ
امریکہ کے پاس تمام اختیارات ہیں وہ چاہے تو زمین میں زلزلہ برپا کردے ، وہ
چاہے تو سمندر میں طوفان برپا کردے، وہ چاہے تو ملکوں کو نیست و نابود
کردے۔ مگر ان نظریات نے کب جگہ پکڑی جب مسلمان ایمان سے کورے ہوگئے ۔
ہائے افسوس! اے مسلمان جانے تیری عقل خداداد کہاں کھو گئی کہ ذلت کے
گھروندوں میں تو عزت کی تلاش میں نکل پڑا ہے۔ مسلمانوں ! جان لو عزت و ذلت
کا مالک اللہ ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے ” وہ جسے چاہے عزتوں کے تاج پہنائے جسے
چاہے ذلتوں کی نشیب میں دھکیل دے۔“ (ال عمران :26) عزت مل سکتی ہے تو قرآن
پر عمل کرکے مل سکتی ہے۔ عزت کے متلاشی ہو تو نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو سینے
سے لگاﺅ۔ یہ ظاہری ترقی یافتہ ممالک ۔ حقیقت میں جن کی ترقی بقول شاعر
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
یہ عزتیں عارضی ہیں مگر اس میں رب کی ناراضگی مول لینا بہت بڑے خسارے کا
سودہ ہے۔آج بھی امریکا کو اپنا قبلہ سمجھنے والوں اپنا قبلہ درست کرلو۔
واپس پلٹ آﺅ ۔ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والو حقیقی مسلمان بن
جاﺅکیونکہ
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
حقیقی طور پر قرآن کی تعلیمات پر عمل پیراہو جاﺅ ۔ اسی کتاب سے عزتیں ملتی
ہیںاور اسی سے ذلتیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ” یقیناََ اللہ
تعالیٰ اس کتاب کے ذریے کچھ اقوام کو عزتیں عطا کرتا ہے اور اسی کتاب کے
ذریے بعض اقوام کو ذلیل کرتا ہے۔“ (رواہ مسلم)
ظاہر ہے جو اپنی زندگیاں قرٓن کے مطابق ڈھال لیتے ہیں وہ عزت و شرف کی
بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اور جو اس آسمانی کتاب کو پس پشت ڈالتے ہیں وہ
بربادی و ذلت کی اتھاہ گہرایوں میں گرجاتے ہیں۔ اے روشن خیال مسلمانوں ! آج
جیسے امریکا ذلیل و رسوا ہوکر افغانستان سے نکل رہا ہے کہی تمہیں بھی ذلت
کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنا نہ پڑجائے۔ لہٰذا سنبھل جاؤ
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن
قدم اٹھا! یہ مقام انتہائے راہ نہیں |