الحاد و بے دینی کے مقابل اسلام ہی مسائل کا واحد حل

اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی ذات کی پہچان اور اپنی ربوبیت کے اظہار کے لیے انبیاے کرام کو جلوہ گر فرمایا۔ انبیا کی مقدس جماعت نے اپنے اپنے علاقوں اور قوموں میں اللہ کے سچے دین کو پیش کیا، سبھی نے اسلام کی تبلیغ کی، سبھی نے اسلام کی طرف بُلایا۔ حضور پر نور علیہ الصلاة والسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں مبعوث ہو کرانبیاے کرام کے پیش کردہ مذہبِ اسلام کو جامع ترین انداز میں پیش کیا۔ ہر قوم اور ہر زمین کے لیے آپ کی نبوت ہے، ایسی کامل و اکمل نبوت کہ اب کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہ رہی اور نہ ہی کسی شریعت کی:
رُخ مصطفی ہے وہ آئینہ کی اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں

تمام انبیائے کرام نے جس دین کو پیش کیا وہ اسلام ہی تھا جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:”ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے“ (سورةآل عمران:67؛ترجمہ کنزالایمان)اور اپنے آخری نبی کو مبعوث فرما کر یہ اعلان بھی واضح کر دیا گیا:”بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے“ (سورة آل عمران:19؛ترجمہ کنزالایمان)

ختم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انسانیت کو فرقہ پرستی کی سطح سے اٹھایا اور الہامی دین عطا کر کے انسانیت کی آبرُو بچائی۔ جبیں اگر اپنے پیدا کرنے والے کی بجائے کسی اور در پر جھُک جائے تو یہی تعدی اور ظلم ہے، جبیں کا وقارِ معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں جھُکنے سے باقی و قائم ہے۔ سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انسانیت کو غیر فطری مذہبی رُجحانات سے نکال کر دینِ فطرت کی ٹھنڈی وگھنیری چھاو ¿ں عطا کی۔ آج کے دور کا اہم مسئلہ مذہب سے بے زاری ہے۔ وہ مذاہب جو آسمانی تھے،اپنے ماننے والوں کے ہاتھوں مسخ ہوگئے، پھر اس سے وابستہ افراد نے آخری کتاب اور خاتم الانبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ایمان نہ لا کر مذہبی اقدار سے دوری برتی؛ آج وہ سکون کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، مسخ شدہ مذاہب میں روح کی تسکیں کا سامان نہیں، فکری آوارگی ہے اور ذہنی عیاشی میسر ہے،آخر یہ منفی رجحان ایک دن مذہب سے بیزاری کا سبب بن جاتے ہےں، نتیجہ یہ ہے کہ اسلام سے دور رہنے والے اپنے باطل مذہب سے اوب کر دھریت کا شکار ہو رہے ہیں۔جس کی مثال موجودہ عیسائیت ہے، سائنسی موشگافی کرنے والے افراد نے ایجادات واختراعات پر ایسا تقیہ کیا کہ وہ خداے قدیر کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھے؛الحاد و بے دینی کی یہ مسموم فضا متعدد وجوہ سے پروان چڑھی،جس میں سائنسی وسیاسی و معاشی ترقیاں بھی خود فریبی کا سبب بنیں؛ وہ سائنس زحمت ہے جو معبودِ حقیقی کے وجودِ حقیقی سے انسان کو منحرف کر دے۔یہی کچھ المیہ آج کے دور میں اُبھر سامنے آیا۔

انسانیت کے سکوں کے لیے دھریت نے جس نظام کو متعارف کرایا اس میں معاذاللہ خدا کے وجود کا دخل نہیں، وہ کہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست جدا جدا ہیں، مملکت کے نظام میں خدائی انکار پرمبنی عقیدے نے دھریت کی جدید شکل کمیونزم کو رواج دیا، سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی قدروں کو کچلا تو دوسری طرف معبودِ حقیقی سے انکار کے رجحان نے روح کو گھائل کر کے رکھ دیا۔ آخرت کے انکار کا تصور اسی کے بطن سے اُبھرا جس نے مسائل ہی پیدا کیے اور انسانیت ظلم کا شکار ہوئی۔ جن لوگوں نے سماجی مساوات کا نعرہ بلند کیا ان کے نظام نے انصاف کا گلہ گھونٹ کر رکھ دیا۔اسلام نے منصفانہ اصول وضع کیے جن میں اصلاً فطری تصفیہ موجود ہے۔یہی وہ پہلو ہے جس سے صالح معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ اسلامی فطری تعلیمات نے جہاں یقینِ کامل کوتقویت دی وہیں اس میںجتنے نیک و صالح اعمال کا حکم ہے وہ بہ رضا و رغبت کیے جاتے ہیں، جب کہ عیسائیت بے یقینی کی راہ جا پڑنے کے نتیجے میں محض چند رسوم کا پلندہ بن گئی، ان کے یہاں جو مذہبی نوعیت کی رسومات انجام دی جاتی ہیںوہ دکھاوے کی غرض سے ہوتی ہیں۔ انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون (سابق پروفیسر کیمبرج یونی ورسٹی برطانیہ؛سابق چیئرمین رضا اکیڈمی اسٹاک پورٹ) اپنے تجربہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
”جو کچھ میں نے دیکھا وہ یہ ہے کہ چند افراد چرچ جاتے ہیں،اور ان افراد کی اکثریت اس پر یقین نہیں رکھتی تھی وہ جو سُنتے یا کرتے تھے لوگ سماجی رسم کے طور پر چرچ جاتے یا دکھلاوے کے لیے؛ یا پھر گپ شپ کرنے اور اس سے بھی بڑی چیز کہ وہ کاروبار کے لیے جاتے یا اپنے آجر کو خوش کرنے کے لیے جو دنیاوی معاملات سے با خبر ہوں........ڈرھام کے بشپ اور موجودہ ماہرینِ دینیات کے مطابق عقیدہ انکارِ خدا عیسائیت سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔(ان کے نزدیک)قیامت صرف ہڈیوں کا مداری تماشا ہے، اسکول میں مذہب کی تعلیم دینے والے ترقی پسند قسم کے استادوں کے ہاں جنابِ مسیح کے معجزات کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی، یورپ میں مذہبی عقیدہ مُردہ ہو چکا ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ایک انسان پرستانہ وابستگی ہے جس کے مطابق خدا محض نوعِ انسانی کی تجریدی صورت ہے، وہ برملا کہتے ہیں کہ ہم انسان کو اور انسانی اقدار کو پوجتے ہیں، یا کچھ ایسے ہی۔ یہ محض مبہم آزادپسندی اور بے ایمانی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔“(ص16،میں نے اسلام کیوں قبول کیا،طبع بریلی شریف)

مسلمانو! یہ ہے انگریز کی ناکامی و نامُرادی کی مثال کہ ان کے یہاں تصورِ الہ ہی مسخ ہو چکا ہے، جب اللہ کی ذات سے یقین اُٹھ جائے تو تباہی ہی مقدر ہوتی ہے، ان کی ترقیاں صرف دکھاوا ہے، جن میں حقیقتاً سکون و اطمینان نہیں، وہ عیاشیوں کے محل اسی لیے تعمیر کرتے ہیں کہ انھیں آخرت کا کوئی خوف نہیں، انھیں یومِ آخر پر یقیں نہیں اس لیے وہ اپنی دنیا کو عیش پسندیوں اور انجواے کی نذر کر دینا چاہتے ہیں، اس کے برعکس ہمارے یہاں آخرت پر یقینِ کامل ہے کہ ہمیں یہاں کیے اعمال کی جزا و سزا آخرت میں ملنی ہے،اس یقینی کیفیت کے باعث مسلمان پُر عزم اور پُر سکوں ہوتے ہیں۔ مغربی معاشرہ کی ناکامی کا سبب ذاتِ باری سے یقین کا ختم ہونا اور دہریت کا پروان چڑھنا ہے، ان حقائق کے باوجود مغربی تمدن کو للچائی نظروں سے دیکھنا اور ان کی پرووائڈ کی ہوئی عریانیت واباحیت کو قبول کرنا کیا ہماری تنزلی وپستی نہیں؟ خدارا! ہوش کے ناخن لو اور اسلام کے دامن میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ۔ ان طبقوں کو بھی اپنی اصلاح کر لینی چاہیے جو عیسائیت کی پیروی میں اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کو شرک قرار دے کر انھیں ایک معمولی بشر سمجھتے ہیںاس طرح مسلمانوں کے رشتے کو بارگاہِ نبوی سے کم زور کرتے ہیں۔ ہمیں فرسودہ اور ناسخ تہذیبوں کے اُجڑے آثار کی طرف دیکھنے کی بجائے عظیم اسلامی ورثے پر فخر کرنا چاہیے؛ اس سے جہاں ایک طرف اللہ کی ذات پاک پر ایمان کامل ہو گا وہیں مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.