نامۂ مبارک

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
محمد ﷺ کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور رسول ہے ۔ یہ خط ہِرَقَل کے نام ہے جو روم کا رئیس اعظم ہے۔ ۔۔ اس کو سلامتی ہو جو ہدایت کا پیروکار ہے۔۔۔ اس کے بعد میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ تم اسلام لاؤ، سلامت رہو گے۔ اللہ تمہیں دگنا اجر دے گا ۔ اگر تم نے نہ مانا تو اہل ملک کا گناہ تمہارے سر ہو گا ۔ اے اہل کتاب ! کسی ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے ۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اور ہم میں سے کوئی ( اس کے سوا) کسی کو خدا نہ بنائے۔ اور اگر تم نہیں مانتے تو گواہ رہو کہ ہم مانتے ہیں۔ “

ہِرَقَل کو رسالتم آب ﷺ کا یہ خط اس وقت موصول ہوا جبکہ وہ نینوا کے میدان میں اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت یعنی کسریٰ کو پامال کر چکا تھا ۔ اس نے بازنطینی سلطنت کو شام ، فلسطین ، آرمینیا اور ایشیائے کوچک میں عیسائیوں کے وہ لاتعداد گرجے دوبارہ کلیسا کو دلوائے تھے، جنہیں مجوسیوں نے آتشکدوں میں تبدیل کر دیا تھا ۔ ان عظیم کامیابیوں کے بعد اس کی شان و شوکت کا نظارہ دیکھنے والے اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ صحرائے عرب سے نبوت کا ایک دعویدار دنیا کے اس عظیم فرمانروا سے ہم کلام ہونے کی جرأت کرے گا ، جس نے انسانی تاریخ کا رخ بدل دیا تھا۔قیصر کو سرکار مدینہ ﷺ کا خط موصول ہو ا تو اس نے حکم دیا کہ اگر عرب کا کوئی باشندہ یہاں موجود ہو تو اسے ہمارے سامنے پیش کیا جائے ۔
اتفاق سے عرب تاجروں کا ایک قافلہ غزہ میں مقیم تھا ، اور مکہ سے ابوسفیان اس کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ قیصر کے آدمی انہیں تلاش کر کے یروشلم لے آئے ۔ ہرقل نے دربار منعقد کیا جس میں حکومت کے عمال اور کلیسا کے اکابر بھی موجود تھے ۔ پھر اس نے مترجم کی وساطت سے ابو سفیان سے چند سوال و جواب کئے اور پھر ان کا حکیمانہ تجزیہ کرتے ہوئے ابوسفیان سے کہا :
” تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ شریف النسب ہے ۔ پیغمبر ہمیشہ اچھے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ تم یہ کہتے ہو کہ اس خاندان سے کبھی کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ یہ خاندانی اثرات کا نتیجہ ہے۔ تم یہ مانتے ہو کہ اس خاندان میں کوئی بادشاہ نہ تھا ۔ اگر ایسا ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ اسے بھی بادشاہت کی خواہش ہے۔ تم یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اب جو شخص انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا ، وہ خدا پر کیونکر جھوٹ باندھ سکتا ہے ۔ تم کہتے ہو کہ اس کے پیرو کمزور اور غریب ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ پیغمبروں کے ابتدائی پیرو ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ تم نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اسے ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہمارے نزدیک یہ بھی اس کے دین کی سچائی کی علامت ہے۔ تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ اس نے کبھی فریب نہیں کیا ۔ پیغمبر یقیناً کبھی فریب نہیں کرتے ۔ تم یہ کہتے ہو کہ وہ نماز ، تقویٰ اور عفو کی ہدایت کرتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو میری قیام گاہ تک اس کا قبضہ ہو جائے گا ۔ مجھے اس بات کا احساس ضرور تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ عرب میں پیدا ہو گا۔ اگر میں وہاں پہنچ سکتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ “

سلطنت کے اکابر اور کلیسا کے پیشواؤں کی موجودگی میں یہ الفاظ اس شخص کی زبان سے نکلے تھے ، جنہیں وہ دین مسیح کا سب سے بڑا حامی و ناصر سمجھتے تھے۔ ان کے سینوں میں غصے کی آگ سلگ رہی تھی لیکن قیصر کے احترام کے باعث ان کی زبانیں گنگ ہو چکی تھیں ۔ لیکن جب ہرقل کے حکم سے بھرے دربا ر میں یہ خط پڑھ کر سنایا گیا تو ان کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ خاموش نگاہوں کا احتجاج زبانوں پر آ گیا اور پادریوں اور راہبوں کی دبی ہوئی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔ روم کے شہنشاہ نے ہدایت کے جس نور کو اپنے سینے میں جگہ دینے کی جسارت کی تھی ، اس کے راستے میں دنیاوی جاہ وہ حشمت اور تخت و تاج کی محبت کے پردے حائل ہو گئے ۔ وہ ہاتھ جو اچانک حسین پھولوں کی طرف بڑھے تھے، کانٹوں کے خوف سے پیچھے ہٹ گئے ۔ اور وہ ہمت جو کبھی ہرقل کو مایوسی کی دلدل سے نکال کر نینوا اور دست گرد کے میدانوں کی طرف لے گئی تھی ، اچانک جواب دے گئی۔ ہرقل نے اپنی رعایا کا اضطراب دور کرنے کے لئے عربوں کو اپنے دربار سے نکل جانے کا حکم دیا ۔ اور کلیسا کی عظمت اور تقدیس کے محافظ اسے مبارکباد دینے لگے ۔ وہ خوش تھے ، وہ اس بات پر خوش تھے کہ انہوں نے ایک پیاسے مسافر کو ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے کی طرف بھاگنے سے روک لیا ہے ۔ ” (قیصر و کسریٰ ۔۔۔ از نسیم حجازی)

اردو کے معروف ناول نگار نسیم حجازی کے ناول “قیصر و کسریٰ ” کے مطالعہ کے دوران جب یہ واقعہ نظر سے گزرا ، تو قیصر روم کے اقدام پر سخت تاسف ہوا کہ قیصر ایک درست نتیجہ پر پہنچ جانے کے باوجود اپنے حواریوں درباریوں کے دباؤ کے باعث ایک درست قدم اٹھانے سے محروم رہ گیا ۔اور ان حواریوں درباریوں پر بھی سخت افسوس ہوا کہ ان کی بھی کیسی مت ماری گئی تھی ۔ انہی خیالات میں گم تھا کہ اچانک ایک نکتہ سامنے آیا ۔ ۔۔!

بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قرآن پاک کی آیات اور جناب رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کل بھی تر و تازہ تھیں اور آج بھی ۔۔۔ اور آئندہ قیامت تک کے لئے زندہ و جاوید ہیں۔ تو آج جب میرے سامنے رسول اکرم ﷺ کا کوئی حکم پیش کیا جاتا ہے کہ قال رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ تو کیا مجھے یوں نہیں سمجھنا چاہئے ۔۔۔کہ رسول اکرم ﷺ کا نامہ مبارک مجھ تک پہنچ گیا ہے ۔۔۔ جس کے ذریعے گویا مجھ کو اسلام کی مبارک تعلیمات پر عمل کی جانب توجہ دلائی جا رہی ہے۔ پیغام رساں یا قاصد کوئی عالم دین بھی ہو سکتا ہے اور کوئی عام مسلمان بھی ۔ پیغام تحریر کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور تقریر کی صورت میں بھی ۔ بڑے دعوے کرتا ہوں میں ایمان کے ، اسلام کے ۔۔۔ لیکن ”نامہ مبارک ” موصول ہونے پر میرا ردعمل کیا ہوا کرتا ہے۔۔۔؟ ساتھ ہی ایک خیال یہ بھی آیا کہ جب میرے کسی عزیز کو ” نامہ مبارک ” پہنچتا ہے ، تو اس وقت میری ذمہ داری کیا بنتی ہے اور میرا طرز عمل کیا ہوتا ہے ؟

غور کیجئے ! کیا دن بھر میں ہمیں کئی “نامہ مبارک” یا ارشاد گرامی موصول نہیں ہوتے؟ مثلاً داڑھی رکھو ۔۔۔ پانی ٹھہر ٹھہر کر پیو۔۔۔ نظریں نیچی رکھو۔۔۔ آپس میں گالی گفتاری نہ کرو۔۔۔ اب ہر مسلمان کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ ایسے میں اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے ؟ ایک صورت یہ ہے کہ بات کو سنا ، سینے سے لگا یا ، اور عمل بھی شروع کر دیا ۔ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والی کیفیت ہے ۔۔۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ بات کو عقیدت سے سنا ، یہ بھی سمجھا کہ ہاں بات تو حق ہے ، لیکن معاشرتی دباؤ کے باعث عمل نہ کیا ،جیسا کہ قیصر روم نے کیا ۔۔۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ بیزاری کے ساتھ ایک کان سے سنا، دوسرے کان سے نکال دیا ۔۔۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ سرے سے کان ہی نہ دھرا۔۔۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ حقارت سے کوڑے دان میں پھینک دیا ۔ ۔۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ قاصد کو بھی لائق ملامت اور قابل گردن زدنی قرار دے دیا ۔

یقیناً ایک مومن کی شان سے یہ بات بہت بعید ہے کہ جب اسے “نامہ مبارک ” موصول ہو تو وہ اس پیغام پر توجہ نہ دے ۔۔۔ یا جب اس کے کسی عزیز کو ” نامہ مبارک” پہنچایا جائے تو وہ قیصر روم کے درباریوں سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر یہ کہتا نظر آئے کہ قاصد نے پیغام پہنچا کر غلط کیا ، اس کو ایسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔

آئیے ! ہم سب انفرادی طور پر اپنا محاسبہ کریں کہ مذکورہ ہر دو صورتوں میں ہمارا ردعمل کیا ہوتا ہے ؟

https://abushaheer.wordpress.com/2013/03/31/nama-e-mubarak/

Abu Shaheer
About the Author: Abu Shaheer Read More Articles by Abu Shaheer: 5 Articles with 3135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.