ہمارے ایک دوست شیر دل کا تعلق صوبہ پنجاب کے ایک گاؤں سے
ہے ۔ گزشتہ دنوں ہم سب دوستوں نے پروگرام بنایا کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ
شیر دل کے گاؤں میں کچھ وقت گزارا جائے۔ چنانچہ بروز ہفتہ صبح چھ بجے
شالیمار ایکسپریس سے روانہ ہوئے ۔ اور شام چار بجے دو گھنٹہ تاخیر سے رحیم
یار خان ریلوے اسٹیشن پر اترے ۔ جہاں سے گاؤں جانے کے لئے شیر دل نے فون پر
رابطہ کر کے پہلے ہی سے ایک ٹویوٹا ہائی ایس کا انتظام کروا لیا تھا ۔ جس
وقت شیر دل کے گھر پہنچے تو شام کے کوئی ساڑھ پانچ چھ بج رہے تھے ۔ شیر دل
کے گھر والوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔ مردوں کے قیام کے لئے گھر کے
بیرونی حصے میں انتظام کیا گیاتھا جبکہ خواتین کو پہلے تو گھر کے اندرونی
حصے میں لے جایا گیا اور بعد ازاں قریب ہی ایک دوسرے گھر میں ان کے قیام کا
انتظام کر دیا گیا۔
گاؤں کے دوسرے گھروں کی طرح شیر دل کا گھر بھی کچا پکا سا بنا ہوا تھا ۔
لال اینٹوں سے تعمیر شدہ چند کمرے تھے جبکہ چہار دیواری خالص دیہاتی طرز پر
مٹی گارے اور بھوسے کی لپائی سے تعمیر کی گئی تھی ۔ ہم مردوں کو گھر کے
بیرونی حصہ میں ٹھہرایا گیا تھا جس میں ایک درمیانے سائز کا کمرہ بنا ہوا
تھا جبکہ بقیہ حصہ صحن تھا ۔ صحن کے ایک کونے میں ایک عدد بیت الخلا تھا جس
کی چھت ندارد تھی اور دروازے کے نام پر بھی محض ایک ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا
تھا۔ لیکن بقول شیر دل یہ بھی ہماری ہی سہولت کی خاطر تعمیر کیا گیا تھا ۔
بیت الخلا کے باہر ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا ۔ دوسرے کونے میں ایندھن جمع کیا
ہوا تھا جس میں اپلے ، گھاس پھونس اور لکڑی شامل تھی ۔ ایک کونے میں چھپر
ڈال کر “کچن “نما ایک چیز بنی تھی جس میں مٹی کی لپائی سے چولہا بنایا گیا
تھا ۔ چند پلنگ تھے جو دن کے وقت کمرے کے اندر کر دیئے جاتے اور شام میں
باہر صحن میں بچھا لئے جاتے۔ پھر یہی ڈرائنگ روم بن جاتا اور بعد ازاں بیڈ
روم۔ اوپن ایئر ڈرائنگ روم اور بیڈ روم۔
موسم گرما کا آغاز ہو چکا تھا ۔ دن میں خاصی گرمی ہوتی تھی ۔ لیکن رات کے
وقت موسم کافی خوشگوار بلکہ درحقیقت خنک ہو جاتا تھا ۔ موٹی چادر اوڑھنی پڑ
جاتی تھی ۔ واپڈا والوں کی مہربانی سے بجلی چوبیس گھنٹوں میں سے بمشکل چند
گھنٹے ہی میسر ہوا کرتی تھی یعنی “آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
“والا معاملہ تھا۔ رات میں بجلی کی غیر موجودگی میں گاؤں میں تو بالکل گھپ
اندھیرا ہو جاتا تھا ۔ ایسے میں جب چارپائی پر لیٹتے تو تاروں بھرا آسمان
نہایت دل کش منظر پیش کر رہا ہوتا تھا جسے دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے
کہ کراچی میں تو اگر مطلع صاف بھی ہو ، تب بھی آسمان پر اتنے تارے کہاں نظر
آتے ہیں ۔ آہ! شہر کی روشنیوں نے تو آسمان کا حسن ہی دھندلا کر رکھ دیا ہے
۔
شہر کے تکلفات کو چھوڑ کر گاؤں میں زندگی کا کچھ وقت بسر کرنے کا تجربہ سب
کے لئے نیا لیکن خوشگوار اور یادگار رہا ۔ شہر میں ہمیں جو آسائشیں اور
سہولیات میسر ہیں ، گاؤں میں ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ سو اب
جو کچھ میسر تھا ، اسی میں گزارا کرنا تھا ۔کچی زمین ، بغیر پلستر کا کمرہ
۔ نہ کرسی نہ صوفہ نہ بیڈ نہ میٹرس ، سو چارپائی ہی کرسی صوفہ تھی اور
چارپائی ہی بیڈ ۔ میٹرس کے بجائے موٹی چادر بچھی ہوتی تھی لیکن نیند تو اس
پر بھی آ ہی جاتی تھی، اور وہ بھی پرسکون نیند۔ بجلی کی موجودگی میں مدھم
روشنی اور عدم موجودگی میں گھپ اندھیرا۔ کون سا یو پی ایس اور کہاں کا
جنریٹر ۔ تو اندھیرے سے بھی دوستی ہو گئی ۔ بہت ضرورت پڑتی تو موبائل فون
کی ٹارچ سے کام چل جاتا تھا ۔ نہ ٹی وی ، نہ کمپیوٹر ، نہ انٹر نیٹ نہ فیس
بک ۔ ٹیکنالوجی کے نام پر لے دے کے فقط ایک موبائل فون ہی تھا ۔
صبح فجر کی نماز کے بعد ہم سب تیار ہو کر باہر سیر کو نکل جاتے ۔ اطراف میں
گندم اور گنے کے کھیت بھی تھے اور آم کے باغات بھی ۔ تو کبھی ادھر کو نکل
جاتے کبھی ادھر کو ۔ اور جس وقت سورج کی سنہری کرنیں گندم کی سنہری بالیوں
پرپڑتیں تو یہ “طلائی منظر “قابل دید ہوتا تھا ۔ آم کے باغ میں جاتے تو
وہاں ماحول پر طاری گھمبیرتا ایک الگ ہی تاثر دے رہی ہوتی ۔ درختوں پر چڑھ
کر بچپن کی یادیں تازہ کرتے ۔ بہت دیر او ر بہت دور تک سیر کرنے کے بعد جب
گھر واپس پہنچتے تو یوں لگ رہا ہوتا تھا کہ جیسے دن کے بارہ ایک بج چکے ہوں
گے …. لیکن گھڑی پر نگاہ پڑتی تو حیرت ہوتی کہ ہائیں …. ابھی تو صرف نو
ساڑھے نو ہی بجے ہیں! کچھ ہی دیر میں شیر دل کے بھائی بھی آ کر بیٹھ جاتے۔
پتہ چلتا کہ صبح منہ اندھیرے کھیتوں میں جا کر اپنے روزمرہ کام کر آئے ہیں
اور اب پورا دن فراغت ہی فراغت ہے ۔ لو جی ! ہم شہر والوں کے تو کام ہی ختم
نہیں ہوتے کہ دن ختم ہو جاتا ہے ۔ معاملات و معمولات میں اک ذرا سی تبدیلی
سے وقت میں کتنی برکت آ جاتی ہے۔
پورے گھر میں نہ نلکا تھا نہ شاور نہ ٹونٹی نہ بیسن نہ کموڈ ۔ بیت الخلاء
جانا ہوتا تھا تو ہینڈ پمپ سے لوٹے میں پانی بھر لیا جاتا ۔ نہانے کا “فطری
“طریقہ یہ تھا کہ پاجامہ یا لنگی باندھ کر ہینڈ پمپ کے نیچے ہی بیٹھ جاتے ۔
پھر پہلے ایک ساتھی ہینڈ پمپ چلاتا اور دوسرا نہا لیتا ۔ بعد میں دوسرا
پہلے کی مدد کرتا ۔ خواتین گھر کے اندرونی حصے میں بنے بیت الخلاء میں ہی
اپنی ضروریات پوری کر لیا کرتی تھیں ، خوش قسمتی سے جس کی چھت بھی تھی اور
دروازہ بھی۔ پینے کے لئے بھی یہی ہینڈ پمپ کا پانی استعمال ہوتا تھاکہ منرل
واٹر کہاں سے لاتے اور کتنا لاتے ! بچوں نے بھی یہی پانی پیا اور اللہ کے
فضل سے سب صحتمند ہی رہے ۔
گھرمیں چولہا تھا نہ علاقے میں گیس دستیاب تھی ۔ سو کھانا مٹی یا اینٹوں سے
بنے چولہے پر پکایا جاتا اور ایندھن کے طور پر اپلے اور لکڑی کا استعمال
کیا جاتا۔ کھانا مقامی خواتین ہی بناتی تھیں تاہم ہماری خواتین نے بھی ایک
وقت کا کھانا ان ہی حالات میں بنایا ۔ اور ما شا اللہ خوب بنایا ۔ اور یہ
بتانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں کہ کھانے پکانے اور برتن دھونے کے لئے بھی
ہینڈ پمپ کا پانی ہی استعمال ہوتا ۔ سواری بھی کوئی پاس نہ تھی …. لیکن
جانا بھی تو کہیں نہیں ہوتا تھا ۔ بس گاؤں کی حدود تک ہی محدود تھے ۔ تاہم
یہ حدود اتنی محدود بھی نہ تھیں ۔ اور “گیارہ نمبر ” کی سواری یعنی دو
ٹانگوں پر کہاں کہاں نہ پھرے ۔
واپس آ کر خیال آیا کہ بجلی ، گیس ، منرل واٹر ، ٹی وی ، کمپیوٹر ، انٹر
نیٹ ، وائی فائی ، فیس بک ، ای میل ،اسکائپ، صوفہ ، کرسی ، ٹیبل ، بیڈ ،
میٹرس ، اے سی، مائیکرو ویو، استری، پانی کی موٹر، گیزر ، کار ، موٹر
سائیکل ، نلکے ، شاور ، کموڈ ، امریکن کچن … غرض بے شمار سہولیات کے بغیر
بھی وقت گزر ہی گیا …اور خوب گزرا ۔
سوچنا شروع کیا کہ کیسے ؟ آخر کیسے گزر بسر ہو گئی ؟ بہت سوچا ۔ بہت سوچا ۔
بالآخر وجہ سمجھ آئی …. کہ چونکہ دل کو یہ اطمینان تھا …. یہ ڈھارس تھی …
یہ یقین تھا کہ بس دو ہی دن کی تو بات ہے ، پھر گھر جا کر سارے مزے کریں
گے…. تو بس گزارا ہو گیا ۔
قرآن بھی تو یہی یاد دہانی کرا رہا ہے :
قَـٰلَ كَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِى ٱلۡأَرۡضِ عَدَدَ سِنِينَ O قَالُواْ لَبِثۡنَا
يَوۡمًا أَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ۬ فَسۡـَٔلِ ٱلۡعَآدِّينَ O قَـٰلَ إِن
لَّبِثۡتُمۡ إِلَّا قَلِيلاً۬ۖ لَّوۡ أَنَّكُمۡ كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ O
(خدا) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟ وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا
ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیئے ۔ (خدا) فرمائے
گا کہ (وہاں) تم (بہت ہی) کم رہے۔ کاش تم جانتے ہوتے ۔ ( سورۃ المؤمنون ۔
۱۱۲۔۱۱۴ )
آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کتنی مختصر ہے !قرآن تو گویا ایسے بتا رہا
ہے جیسے کوئی شخص صبح دفتر یا دوکان جانے کے لئے نکلتا ہے … اور شام کو گھر
واپس آ جاتا ہے۔ کیوں نہ یہ مختصر سا وقت اللہ رب العزت کی اطاعت و
فرمانبرداری میں گزار لیا جائے …. خواہشات کی تکمیل اور سہولیات کی تگ و دو
میں حرام کاریاں کرنے کی بجائے دل کو یہ تسلی اور نفس کو یہ تھپکی دے دی
جائے کہ بس چند گھنٹوں ہی کی تو بات ہے…. پھر ان شآء اللہ جنت میں جا کر
مزے کریں گے۔
آپ چاہیں تو ہماری یہ گاؤں کے سفر کی روداد ایک بار پھر پڑھ لیجئے … یا
اپنا کوئی ایسا سفر یاد کر لیجئے ۔ خلاصہ یہی نکلے گا کہ ….
“جو کچھ ہمیں دستیاب ہے ، زندگی اس سے بہت کم میں بھی بسر ہو سکتی ہے ….
اگر یہ یقین ہو جائے کہ ….
فقط چند ہی دن کی تو بات ہے ۔ “
https://abushaheer.wordpress.com/2013/04/24/just-for-a-few-days/ |