ہر چند ہمارا معاشرہ مردانہ غلبے کا معاشرہ ہے لیکن اس کے
باوجود اس میں عورت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ عورت کے وجود کی اہمیت
تسلیم کئے بغیرسماج کی گاڑی کا توازن کسی طور برقرار رکھنا ممکن نہیں لیکن
اس وقت ہمارے ہاں دو رجحانات نے عورت کی حیثیت میں واضح فرق پیدا کر دیا
ہےایک حلقہ خاتون خانہ کو برتری دیتا ہے کہ وہ اسلام میں دی گئی ذمہ داریوں
کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ تو دوسری ملازمت پیشہ خواتین کو وکٹری
سٹینڈ پر کھڑا کرتا ہے۔ اس رویے نے گھریلو خواتین کو کنفیوژن میں ڈال دیا
ہے۔ اگر وہ ملازمت پیشہ خاتون نہیں ہے تو شوہر اکثر اسے سارا دن گھر میں بے
کار پڑی رہنے کا طعنہ دیتا ہے اور اگر اس کے بچے سکول میں ہونے والے
امتحانات میں اچھے نمبر حاصل نہ کر سکیں تو شوہر، بیوی کو ہی مورد الزام
ٹھراتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت بہت زیادہ بد دل ہو جاتی ہے اور اس کی ہمت
پست ہو جاتی ہے۔
بنیادی طور پر مرد اور عورت میں فرائض تقسیم شدہ ہیں۔ مردوں کا کام گھروں
سے باہر روزی کمانا ہے اور عورت بچوں کی پرورش کی ذمہ دار ہے لیکن فی زمانہ
خواتین مہنگائی،اقتصادی مسائل اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے
دفاتر،فیکٹریوں،کاروباری مراکز،بوتیکس،سکولوں، کالجوں،ہسپتالوں اور دیگر
جگہوں پر کام کرتی ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین نے ٹیوشن سینٹر کھول رکھے ہیں۔ جو
خواتین نا خواندہ ہیں وہ دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ یہ صاحب ثروت
افراد کے گھروں میں صفائی کرتی ہیں،برتن مانجھتی ہیں،کپڑے دھونے اور استری
جیسے بہت سے امور سرانجام دیتی ہیں۔
اس سلسلے میں جب خواتین کو شوہر اور سسرال کی جانب سے ناقدری کا رویہ ملتا
ہے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہے اس بات کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے۔
بعض گھرانوں میں تو شوہر سمیت تمام گھر والے نہ صرف گھریلو معاملات میں اس
کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ کوئی بھی شخص خواتین کے ساتھ روا رکھی
جانے والی اس نا انصافی کا اعتراف نہیں کرتا۔ اس قسم کا رویہ ذہنی انتشار
کا باعث بنتا ہے۔
اکثر شوہر اور سسرالی رشتہ داروں کا خیال ہوتا ہے کہ گھر کے معاشی حالات کو
بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرنا اب ہر پڑھی لکھی اور با ہنر خاتون کی
ذمہ داری ہے۔ رشتے ناطے طے کرتے وقت اب عورت کے پاس ہنرمندی کی تعلیم اور
اس کا برسر روزگار ہونا بھی اس کے رشتے کی موزونیت کا باعث بنتا ہے ۔ آج کل
ایسی لڑکیوں کو جیون ساتھی بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے جو اپنے شوہر کی طرح
بڑی بڑی تنخواہیں لیتی ہیں لیکن اس کے باوجود دیگر افراد خانہ یہ توقع
رکھتے ہیں کہ کچن کو بھی وہی چلائے گی اوربچون کی دیکھ بھا،پرورش،تعلیم اور
ین کے روشن مستقبل کی تمام کی تمام ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔تویقینی بات ہے
کہ یہ انداز فکر لائق تحسین نہیں ہوتا۔
اس قسم کے رویوں کے خلاف اس کے دل میں طوفان اٹھتے ہیں۔وہ باغی ہو جاتی ہے
اور اس بغاوت کے نتیجے کے طور پریا تو شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی ہو
جانے کا مرحلہ پیش آتا ہے یا پھر شوہر کو اسے ماں باپ۔نندوں اور دیوروں سے
الگ گھر میں رکھنے کی مجبوری پیش آتی ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس ملک سے تعلیم کے حصول کا قرض
چکانے کے لئے اپنے ہنر سے ملک و قوم کو کچھ بھی واپس نہ کریں تو یہ ملک کے
ساتھ زیادتی ہوگی۔ یہ خواتین معاشرے میں ایک متحرک اور ذمہ دار کردار ہے
اور ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ |