اخلا ق ومروت کے پیکر : اسلم پرویز

چند دنوں قبل صحافت کے میدان میں طالع آزمائی کرنے والے ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی ، گفت وشنید کے بعد پتہ چلاکہ وہ ذاکر دہلی کالج میں زیر تعلیم ہیں ۔ داخلہ کی کارروائی کے وقت اسے کئی ایک مسائل سے پنجہ آزمائی کرنا پڑی تھی ، تب کہیں جاکر اسے داخلہ مل سکا ، کالج کے پرنسپل نے بھی اس پر احسان مندی کی اور علم دوستی کا ثبوت دیا ،اس گفتگو کے بعد اس نے ایک آرٹیکل دیا ۔لہذا ذرا حذف وترمیم کے ساتھ ان کی زبانی ان کی کہانی سنیے !!

”کوئی تسلیم کرے یانہ کرے ، حقیقت تو یہی ہے کہ احسان کا بدلہ کوئی چکا ہی نہیں سکتا ہے ، مگر حتی المقدور انسان کو چاہئے کہ محسنین کے احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کرے ۔ رب کائنات نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ، اس مستزاد کہ مسلمان بنایا ، ہمارے اوپر اس کا یہ احسان عظیم ہے ، ظاہر بات ہے کہ اس احسان کا بدلہ کوئی چکانے کی سکت نہیں رکھتا ہے ، تاہم خداکے انوار وبرکات اور اس کی لاتعداد نعمتوں سے لطف اندوزی کے بعد اس کے احکامات کی بجاآوری کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے ، تاکہ اس عمل کی وجہ سے ہم شاکر بندوں کی فہرست میں مقام پاسکیں ، اس کے احسان کا عملی نمونہ پیش کرسکیں ۔ جب انسان ایک انسان کا بدلہ نہیں چکاسکتاہے تو یہ اٹل ہے کہ کوئی خدا کے احسان کا بدلہ کیا چکاپائے ۔ بہرصورت انسان کو اپنے محسنین کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ، ہمہ دم ایسے اعمال وافعال کرنا چاہئے ، جن سے محسنین کو لگے کہ وہ احسان کا بدلہ چکانے کے تئیں سرگرم عمل ہے ، یعنی اس کی آنکھ میں پانی ہے ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ہرفرد اپنے محسنین کو الگ الگ انداز سے خوش کرتا ہے ، مختلف طریقوں سے احسان مندی کو ثبوت دیتا ہے ۔ ایک طالب علم کا طریقہ تو انتہائی نرالا ہوگا ۔ صحافت کے ایک طفل مکتب بھی اپنے محسنین کے احسان کا بدلہ کچھ اس طرح چکائے گا کہ اس پر بے شمار افراد رائے زنی کریں گے ۔ راقم بھی صحافت کا طفل مکتب ہے اور اردو کا شیداں بھی ، مزید علم کا جویا بھی ۔ یہ بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ حصول علم کی راہ میں بسااوقات دشواز گزار مراحل آتے ہیں ، کبھی معاشی تنگی آڑے آتی ہے تو کبھی دیگر مسائل ۔ وقفہ وقفہ سے معاشی تنگی بھی راقم کے تحصیل علم میں حائل ہوتی رہی ہے ، مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیشہ ایسے محسنین اور کرم فرماﺅ ں سے ملاقات ہوئی ، جنہیں راقم کے دکھ درد کا احساس ہوا اورجانی ، مالی اور وقتی تعاون سے لزرتے قدم کو سہارا دیا ۔ راقم جب لکھنو سے گریجویشن کی تعلیم کی تکمیل کے بعد اعلی حصول تعلیم کی غرض سے راجدھانی دہلی کا رخت سفر باندھا تو بے شمار مسائل نے اپنے نرغے میں لے لیا ، آتے ہی زیادتی فیس کا مسئلہ بھی سامنے آیا ، مگر راقم حددرجہ احسان مند ہے ذاکر حسین دہلی کالج کے پرنسپل مخدومی ڈاکٹر اسلم پرویز کا ، جنہوں نے راقم کے احوال وکوائف سے واقفیت کے بعد حتی الوسع داخلہ فیس میں تخفیف کی ، کیونکہ داخلہ ان کے ہی کالج میں لینا تھا ، یہی وجہ ہے کہ آج راقم تحصیل علم میں مصروف ہے ۔ ورنہ آج ہم کہاں اور اعلی تعلیم کہاں ۔ خدایا تیرا احسان ہے لاکھ لاکھ احسان !!!

آئیے!ذرا ذاکر حسین کالج کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں :
یوں تو دہلی یونیورسٹی سے قبل ہی ذاکر حسین دہلی کالج کا قیام عمل میں آیا ہے ، یہ کوئی 300سالہ قدیم تعلیمی ادارہ ہے ، پہلے یہ مدرسہ زین الدین کے نام سے جانا جاتا تھا ،شاید شہنشاہ اورنگ زیب کے دکن میں مقیم معروف کمانڈر نے اس کے قیام میں سرگرمی دکھائی تھی ۔ ادب ، سائنس اور آرٹ کی تعلیم کےلئے اس ادارے کا شہرہ تھا ، مگر 1770مغل سلطنت کی کمزوری کی وجہ سے یہ مدرسہ مقفل ہو گیا ، مگر 1792میں امیر شہر کی پشت پناہی میں نثر ، منطق و فلسفہ اور سائنس و طبابت کی تعلیم کےلئے دوبارہ قائم کیا گیا ۔جب 1824میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی گئی تو فارسی ، عربی اور سنسکرت وغیرہ کی تعلیم کےلئے اس ادارے کا انتخاب ہوا ۔ اس وقت اس کا نام دہلی کالج ہو گیا ۔1829میں نواب اعتمادالدین وزیر اودھ نے 1لاکھ 70ہزار کا تعاون دیا ۔ اس طرح یہ ادارہ اعلیٰ تعلیم کیلئے مر کز بن گیا۔ تقسیم وطن کے بعد اس ادارے کو بر باد کر نے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی ،بلکہ آتش زنی کا بھی معاملہ پیش آیا ۔ الغرض 1975میں اس نام تبدیل ہوا اور ذاکر حسین میموریل کالج رکھا گیا ۔

آج بھی ذاکر حسین دہلی کالج کی تعلیمی سرگرمیاں قابل تعریف ہیں ۔ تعلیمی محاذ پر اپنی ایک پہچان رکھتا ہے ۔ بے شمار شعبہ جات ہیں ۔ بی اے آنر س میں کوئی بارہ مضامین کی تعلیم ہوتی ہے ۔ عربی ، بنگالی ، معاشیات ، ہندی ، فارسی ،اردو ، انگریزی ، پولیٹکل سائنس ، فلاسفی اورسنسکرت وغیرہ کی تعلیم کا اچھا نظم ہے ۔ اسی طرح بی کام ، بی ایس سی وغیرہ کی بھی معیاری تعلیم ہے ۔ اس کالج کے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب بھی علم دوست ہیں اور طلباءکے ہمدرد بھی ، اس پر مستزاد کہ غریب پروربھی ۔ ان کی علم دوستی اور غریب پروری کی مثال راقم کا ذاتی واقعہ بھی ہے ۔ میرے واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں ایم اے اردو کے لئے داخلہ فارم بھرا تھا ، فارم بھرتے وقت دوفارم بھروائے گئے ، ایک مین کیمپس کے لئے اور دوسرا ذاکر حسین کالج کے لئے ۔ اتفاق سے ذاکر حسین کالج میں ہی میرا نام آیا ۔داخلہ فیس کی زیادتی کی وجہ سے ایسا معلوم پڑتا تھا کہ ہونہ ہو یہ سال برباد ہوجائے ، مگر کسی نہ کسی طرح پرنسپل صاحب سے ملاقات کی اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا تو انہوں نے حتی الامکان فیس تخفیف کرکے تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا ۔ ایک طالب علم کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے محسنین کے احسان کا تذکرہ کرے، باربار کرے ، کیونکہ احسان فراموشی اسلام کا شیوہ نہیں ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92567 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More