چودہ صدیاں قبل ارض مقد س کے ایک کچے چبوترے سے پروان چڑھنے والے یہ مدارس صدیوں
پرانے ورثے کے امین ہیں۔ دنیاکو ترقیوں کے مینارے عبور کرانے والے علوم سماویہ کے
نگہبان اورمحافظ ہیں۔انسان کوتسخیر کائنات کی راہ دکھانے والے یہ مکتب ‘اسرار ِبقاءعالم
اور اس کے معماروں کی حیات جاودانی کے سرکردہ رہبرورہنما ہیں۔درندوں او ر وحشی
نماجنگلی جانوروں کو اشرف المخلوقات کا حقیقی مطلب سمجھانے والے یہ مدارس ‘دنیامیں
کشت وخون ،ظلم وبربریت ،اورآتش کدوں ومے خانوں کی ظلمتوں میں شمع ِعلم سے چراغاں
کرکے آفتاب ومہتاب کو شرمندہ کرنے والے ہیں۔تہذیب انسانی، منصب امامت واقتدا کے
رازِپنہاں آشکارا کرنے والے یہ مدارس دینیہ ہر طرح کے آلام ومصائب میں انسانیت کے
غم گسار رہے اورانشاءاللہ تاقیامت رہیں گے ۔انبیاءکے ورثاءتخلیق کرنے والے یہ مدارس
اعلی واشرف مذہب اورسرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو نسل نو تک منتقل
کرنے والے ہیں۔انسانی حیات کے لیے آب حیات اور بقاءفساد ِکائنات کے لیے مثل
شمشیرہیں۔
اسلام کی آمد ہی سے ان مدارس ومکاتب کی فضاءہموار ہونا شروع ہوگئی تھی ۔وقت کے
سیلان کے ساتھ ساتھ ان کا بہاﺅ اور رفتار رواں ہوتی رہی ۔اوقات مختلفہ میں مقامات
مختلفہ ان کے وجود سے اپنی شان وشوکت دوچند کرتے رہے ۔کبھی بصرہ تو کبھی کوفہ ،کبھی
بخارا تو کبھی دار اوسمرقند،کبھی مدینہ،مصر وعراق توکبھی ہسپانیہ کو اپنے علوم سے
درخشاں کرتے رہے اور ،نعمان ؒواحمدؒ،شافعیؒ ومالکؒ ،بخاریؒ وترمذیؒ ،غزالیؒ ورازیؒ
،سیوطیؒ وقرطبیؒ،عسقلانیؒ وقاریؒ،جیلانیؒ وبغدادیؒ جیسی عظیم ہستیاںپیدا کرتے رہے ۔بارہویں
صدی ہجری میںمدارس کا یہ سلسلہ عرب وعجم سے ہوتا ہوا برصغیر تک دراز ہوگیا۔یہاں
سلطنت اسلامیہ اپنی آٹھ سو سالہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھی ،لیکن اسلام پسند
حکمرانوں کے وجود سے فضاءابھی معطر تھی ۔جس کے سبب مختصر عرصہ میں ان مدارس کے
سینوں میں پیوست وراثت علمی خلق خداکو ملتی رہے ۔شاہ ِعالمگیر کادور اس حوالے سے
ایک تاریخی دور ہے جس نے مدارس کی شان وشوکت بڑھانے کے لیے بے شمار علمی خدمات
سرانجام دیں،اس کی مثال کے لیے فتاوی عالمگیریہ کافی ہے ۔سقوطِ سلطنت اسلامی کے بعد
فرنگیوں نے جہاں اسلام اور اہل اسلام کے وجود پر وار کیے وہیں ان مدار س کو بھی
اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی اساس اور نظریات کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف
حربے آزمائے ۔1857ءکی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کو سہارا دینے کی خاطر
خلقِ خداکادرد دل رکھنے والے صاحب علم وعمل لوگ مدارس کی بقاءکے لیے کمربستہ ہوگئے
۔1866ءمیں مولنامحمدقاسم نانوتوی ؒ نے علو م اسلامیہ کے خزانوںکو محفوظ بنانے کے
لیے دارلعلوم دیوبند کے نام سے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھ کرمدارس کے اس سلسلہ کو
دراز کیا،جونامساعد حالات میں اپنی طاقت سے بڑھ کر ہندوستان کے محکوم عوام کے عقائد
و نظریات،عبادات ومعاملات ،سیاست ومعیشت کی نگہبانی اور ان کوتروتازہ کرتارہا۔ان
مدارس کے فیض یافتہ علماءنے آزادی ہند میں بنیادی کردار ادار کیا جن کے احسانات سے
آج بھی پاک وہند کے سر جھکے ہوئے ہیں۔
چودہ صدیاں گرزنے کے باوجود آج بھی صفہ کے چبوترے سے اپنی زندگی کاآغاز کرنے والے
یہ مدارس پور ی آب وتا ب کے ساتھ چمک دمک رہے ہیں اور امت مسلمہ کی راہنمائی کے لیے
ایسی فوجیں تیار کررہے ہیںجو خودآج کے پرفتن وپر شکن دور میں حالات کی نزاکتوں اور
خار دار راہوں پر چل کر اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگوں کے ہاتھ میں مشعلیں تھماتے
ہیں ۔یہ مدارس معاشرے کی روح ہیں ان کے بغیرمعاشرے ویرانے اور کھنڈرات لگتے ہیں۔ان
مدارس کی تیار کردہ فوج انسان کو ابتداءسے انتہاءتک سلیقہ سے زندگی گزارنے کا طرز
عمل سکھاتے ہیں۔دنیا کی فوجیں مملکتوں اور سرحدوں کی محافط ہوتیں ہیں ،ان کے بغیر
کسی بھی ملک اورکسی بھی قوم کی شناخت اور وجود کا تصور محال ہے ،یہ فوجیں ملک وقوم
کی بقاءکی اساس ہوتے ہیں۔مدارس اسلامیہ کی تیار کردہ فوجیں بھی انسانی حیات کو لاحق
خطرات سے بچاتی ہیں ،ان کے عقائد ونظریات کی نگہبانی کرتی ہیں ،ان پر ڈاکہ زنی کرنے
والے خون آشام بھیڑیوں کی نشاندہی کرکے نشانِ عبرت بناتی ہیں۔دنیاکی فوجوں کا ایک
دائرہ کا رہوتاہے ،ایک حد اور سرحد تک وہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاسکتی ہیں
،شجاعت وبہادری سے دشمن کو مرعوب کرسکتی ہیں مگر مدارس کی یہ فوجیں پوری انسانیت کے
لیے ہیں ،پوری دنیامیں اپنے سینوں میں محفوظ ہتھیاروں سے انسانیت کو کند کرسکتی
ہیں،ہرکسی کو اپنے اندر موجود علوم الہیہ کی حرارت سے گرماسکتی ہیں۔ان کے لیے رنگ
ونسل ،قو م وقبائل ،ملک وشہر کی کوئی قید نہیں ،کسی ملک کی آب وہوا ان کے مخالف
نہیںہرجگہ یہ خدائی علوم کی گرج پہنچانے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔ مدارس کی یہ فوجیں
پوری انسانیت کی بقاءکا راز ہیں ان کے بغیراسلامی معاشرہ کی شناخت و پہچان ہیچ اور
ناممکن ہے ۔یہ فوجیں انسانی عقائد ونظریات ،معاملات وعبادات ہی کی محافظ نہیں بلکہ”
العلماءورثةالانبیاء“کی رو سے انبیاءکرام ؑ کی میراث کی بھی نگہبان ہیں۔
اپریل اور مئی کے دومہینے مدارس کے موسم بہار کے مہینے کہلاتے ہیں ۔ ان میںمدارس کی
فصلیں پک کرتیار ہوجاتی ہیں اور مدارس کی فوجوں کی تیاری کا مرحلہ مکمل ہوجا
تاہے۔ان مہینوں میں مدارس کی فوجیں آٹھ سال تک اسلامی چھاﺅنیوںمیں تربیت مکمل کرنے
کے بعد سندفراغت حاصل کرکے اپنے مربیوں سے نمدیدہ آنکھوں کے ساتھ آخری درس لے کر
مختلف مقامات پر اپنی خدمات اور صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے لیے دستار فضیلت سرپر
سجائے رخصت لیتی ہیں۔ یہ مبارک ایام ان کی زندگی کے یاد گار لمحات ہوتے ہیں ،اس
موقع پر ان فوجوں کو غموم ومسرتوں کے دوہرے فلسفے سے پالا پڑتاہے اور آٹھ سالہ
مبارک زندگی میںوقتا فوقتا امتحانات کے نتیجے میں اپنے چمن سے فراق وصال کی گھڑیاں
یادآتی ہیں۔شاید ہے کوئی ایساسپاہی ہو جسے گلشن میں داخل ہونے کا پہلادن اور آٹھ
سال قبل کے اس یاد گار دن کے لمحات وکیفیات سے نسیان ہوا ہو ،ورنہ تو ہر فوجی وقت
رخصت کے یاد گار لمحات کویاد کرکے خداکے حضورسربسجود ہوجاتاہے ۔
مدارس کی موسم بہار کی آمد پرہر مدرسہ اپنے چمن کی کلیوں ور ان کی خوشبوﺅں سے
معطرہونے کے لیے ایک الوداعی تقریب منعقد کرتا ہے۔جس میںآٹھ سال تک مبارک گلشن کی
رونق کو دوبالا کرنے والے پھولوں کے والدین اوراعزہ اقارب کو دعوت دی جاتی ہے ،
مشائخ وعلماءکوخصوصی طور پر ان کے سروں پر دستار فضیلت سجانے ، اور وعظ نصیحت کرنے
کے لے بلایا جاتاہے ۔ یہ تقریب دو طرح کی ہوتی ہے ،آٹھ سالہ درس نظامی سے فراغت
پانے والے طلباءاور حفظ قرآن کریم کی تکمیل کرنے والے حفاظ کرام کے اعزاز میں دستار
فضیلت اور درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے والی طالبات کے اعزاز میں دوپٹی پوشی کے
عنوان سے منعقد ہوتی ہیں۔ امسال بھی مدارس دینیہ نے تقریبا58ہزار حفاظ کرام ، 8ہزار
علماءکرام ، 16ہزار طالبات کی ایک بہت بڑی فوج تیار کی ہے اور ان کے اعزاز
میںپاکستان کے مختلف مقامات پر، پرکیف تقاریب بھی منعقد ہورہی ہیں۔اس کے علاہ آئند
ہ سال مارچ کے مہینیے میں وفاق المدارس العربیہ اپنے قیام کے 50سال سے زئد مکمل
کرنے پر ایک گولڈن جوبلی تقریب منعقد کررہاہے،جس میں تقریباگزشتہ56سالوں میں مدارس
سے فراغت حاصل کرنے والے 9لاکھ کے قریب علماءکو دستار فضیلت پہنائی جائی گی ۔
ان حقائق کی روشنی میں مدارس کی کردار کشی ،مدارس کو دہشت گردی کے اڈے کہنے والوں
اور ان پر انگلیاں اٹھانے والوں کوتحمل اور صبر سے کام لیناچاہیئے اور بلاوجہ، بن
دیکھے اور سوچے سمجھے بغیرمدار س کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا
چاہیے ۔مدارس کی ان بابرکت تقریبات میں شرکت کرکے اپنے اس سفلی ذہن کی آبیاری کرنی
چاہئے ۔یہ مدارس اسلام کے قلعے اور مراکز ہیں،یہاں خالص اسلامی فوجیںتیار
ہوتیںہیںجو امت مسلمہ کے عقائد ونظریات ،عبادات اورمعاملات کی پاسبانی کرتیںہیں ۔یہ
فوجیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی وارث اور محافظ ہیں ۔ملک وقوم اور معاشرے کی
اصلاح کے لیے کارآمد ہتھیارہیں۔لہذا ضرور ت اس بات کی ہے ان ہتھیاروں کو کند رکھا
جائے اور مدارس کے ساتھ محبت وہمدردی والا تعلق قائم کیا جائے اور ان کی حفاظت
وترقی اور مضبوطی کے لیے کوششیں کی جائیں اور صلاحیتیں بروئے کار لائیںجائیں۔اس کی
ایک بہترین صورت یہ ہے کہ اپنی اولاد کو ان مدار س میں داخل کروایا جایااور ان
مدارس سے فراغت پانے والے علماءکرام کی ان فوجوں کی قدر اور ان کا احترام کیا جائے
۔ |