حضرت خواجہ خان محمد

گلشن دیں کے باغباں ،حریم نبوتۖ کے پاسباں ،سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے میر کارواں
اما م پاکبازاں ،نور عرفاں ،ہادی دوراں
جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جا م و پیمانہ مجھے

1920میں موضع ڈنگ ضلع میانوالی میں حضرت خواجہ عمر کے آنگن میں طلو ع ہو نے والا آفتاب علم و عرفاںجس نے فلک رشد و ہدایت پر طلوع ہو کرچون سال تک عالم ہست و بود کو اپنی ضیا پاش شعاعوں سے منور کیا تھا عمر کی نوے منزلیں طے کر کے پانچ مئی2010 کی المناک شام کو غروب ہو گیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
دلوں میں دردکی شمعیں جلا کے چھوڑ گیا
وہ اک جہاں کو اپنا بنا کے چھوڑ گیا

جب یہ خبر کانوں میں پڑی تو حواس ختم ،عقل گم ،زباں گنگ اور شعور معطل ہو گیا آنکھوں سے آنسو اور زبان سے آہیں جا ری ہو گئیں ۔ہر شخص اپنی جگہ مجسمہ حیرت اور سراپا غم و الم بنا ہوا تھاوا قعی اگر خدا کی طرف سے صبر نہ ملتا تو نہ معلو م کتنے دھڑکتے دل بند ہو جاتے ،کتنے ہی مسکراتے چہرے ماند پڑ جاتے ۔
آخر کہا ں چلا گیا سالا رِ کارواں ؟
کس سے کہیں حشر کا ساماں ہے دوستو !
شفیق و مہربان شیخ ومربی کے بچھڑ جانے پر دل مضطرب آج بھی بے ساختہ کہتا ہے
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر وقرار
بے قرار ی تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

آج اگربھٹکتی ،سسکتی اور تڑپتی دنیا میں کسی کا رہنا ضروری تھا تو واللہ وہ حضرت خواجہ خان محمد کی ذات تھی وہ کیا تھے ؟زبان کی فصاحت ،قلم کی روانی ،لفظوں کے بندھن اور تحریر و تقریر کی رسمیں ان کی ذات گرامی کو خراج تحسین پیش کرنے سے عاجز رہیں گی ۔آپ کا وجود مسعود طالبان راہ حق کیلئے کبریت احمرتھا، سراپاحلم ا ور بے پناہ بردباری جس طرح سینہ بحر میں کوئی چٹان ہو متلاطم موجیں بڑھ کر اس سے ٹکرائیں اور خود ہی پاش پاش ہوکررہ جائیں طاغوتی قوتوں کے مقابل ہر آن سینہ سپر اہل ایمان کی زبوں حالی کا چارہ گر اتباع سرور کائنات ۖ کا پیکر، نورِ باطن سے آراستہ اوراخلاص و تقویٰ سے پیراستہ تھے ۔
حضرت صاحب برہان حق تھے ،انکا وجود اہل حق کے لیے باعث رحمت اور امت مسلمہ کے لیے سعاد ت تھا ۔اب کون ہمارا پرسانِ حال ہے ؟یہ وہ سوال ہے جو اہلِ حق کے سامنے کھڑا ہے اوروہ محروم ہو جانے والی ترستی نگاہوں سے اس کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم یتیم ہو گئے ہیں ،ہمارا اثا ثہ چھن گیا ہے، یقینا اس محرومی کا ازالہ بہت مشکل ہے ۔
ہمارے بعد کہاں وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا

خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد 1920میں موضع ڈنگ میں حضرت خواجہ عمر کے آنگن میںجلوہ گر ہوئے ۔آپ کے والد ماجد حضرت اعلیٰ مولانا ابو السعد احمد خان کے چچا زاد بھائی تھے اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں اما م الاولیاء حضرت خواجہ حاجی محمد سراج الدین سے بیعت تھے ۔حضرت خواجہ عمر بہت ہی متقی،پرہیز گار، خداترس ،بہت بڑے زمیندار اور معزز انسان تھے۔جب حضرت خواجہ خان محمد سن شعو ر کو پہنچے تو عصری تعلیم کے لیے مڈل سکول کھولہ میں بٹھا دیے گئے چھٹی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت اعلیٰ ابو السعد احمد خان کی نگا ہ حقیقت شناس نے ان کے گلشن باطنی کی علمی صلاحیت کے برگ و بار کی مہک محسوس کرتے ہوئے آپکو سلسلہ عالیہ کی ترویج و اشاعت اور خلق خدا کی ہدایت اور طلبگا رانِ معرفت کے نفوس کے لیے منتخب فرما لیا ۔اس وجہ سے سکول کو خیر باد کہنا پڑا ۔خانقاہ سراجیہ میں مولانا سید عبدا للطیف شاہ سے قرآن عزیز پڑھنے کی سعادت حاصل کی فارسی نظم و نثر اور علم صرف و نحو کی کتابیں حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ سے پڑھیں ،متوسطات عربیہ کی تحصیل دارالعلوم عزیز یہ بھیر ہ سے کی ،مزید علمی مدارج طے کرنے کے لیے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ضلع سورت انڈیا تشریف لے گئے وہاں آپ نے مشکوٰةشریف ،جلالین ،ہدایہ ،مقامات حریری و دیگر کتب پڑھیں ۔حدیث و تفسیر کی تکمیل کے لیے 1362ہجری میں دا رالعلوم دیو بند تشریف لے گئے جہا ں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور مولانا اعزازعلی و دیگر اساتذہ کرام سے دورہ حدیث میں تلمذ کیا۔علوم دینیہ کی تکمیل کے بعدجب واپس خانقاہ شریفت تشریف لائے تو معقول ومنقول کے جامع اور علم و ادب میں کامل تھے علوم دینیہ سے سیراب ہونے کے بعد اب زمین قلب تزکیہ باطن کیلئے ہموار تھی ہر چند کہ عرفان الٰہی کی منزل قریب ترنظر آرہی تھی تاہم ہنوز سفر باقی تھا ۔لہٰذا حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کے ارشاد کے مطابق ''ظاہر بے باطن ناتمام است وباطن بے ظاہر نافرجام'' آپ کو باطنی علوم اورمقامات قرب کی تحصیل کا شوق دامن گیر ہوا اعلیٰ حضرت نے اپنے تربیت یافتہ رفیق خاص اور جانشین حضرت ثانی کے سپرد فرمایا تا کہ ظاہری تربیت کے بعد باطنی تربیت بھی احسن طریقے سے ہو جائے ۔ آپ نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ سے کنز الہدایات،مکاتیب حضرت شاہ غلام علی دہلوی ،مکتوبات معصومیہ اور ہدایة الطالبین سبقاًسبقاً پڑھیں ،مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی تین بار پڑھے ۔اس طرح آپ نے حضرت ثانی سے مجددی نصاب سلوک کی تعلیم مکمل کی اور پھر خانقاہ شریف کی فضا نے جو اتباع سنت خیرالوریٰ ۖسے معمور تھی آپ کے فکر و نظر کی نشوونما کی۔ معرفت الہی کا یہ گل سرسبز بہار آفرین ثابت ہوا۔ جس کی عطر آمیزی سے طالبان حق اپنے دامن مراد کو ہمیشہ ہمیشہ بھرتے رہیں گے ۔جب آپ سن ِ بلوغت کو پہنچے تو حضرت اعلیٰ نے فیضان باطن کے ساتھ ساتھ ظاہری انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے اپنی صاحبزادی کی شادی آپ سے کر دی اس اہلیہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین صاحبزادے عزیز احمد ،خلیل احمد ،رشید احمد اور ایک صاحبزادی کلثوم بی بی عطا فرمائی ۔اہلیہ محترمہ کے وصال کے بعد تجرد کا ارادہ فرما لیا مگر ارادت مندوں کے اصرار پر نکاح ثانی فرمایا ،دوسری اہلیہ محترمہ سے اللہ تعالیٰ نے دو صاحبزادے سعید احمد اور نجیب احمد عطا فرمائے ۔آپ سالہا سال حضرت اعلیٰ خواجہ ابو السعد احمد خان کی خدمت میں رہے ،حضرت اعلیٰ کے وصال کے بعدمسلسل پندرہ سال حضرت اقدس مولانا محمد عبد اللہ کی خدمت میں رہے ،آپ نے تکمیل مقاما ت دعوت وارشاد سیر و سلوک نائب قیوم زماں حضرت اقدس مولانا محمد عبدا للہ سے پایہ تکمیل کو پہنچا یا اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے بعد ازاں سلاسل اربعہ نقشبندیہ مجددیہ، قادریہ، چشتیہ اورسہروردیہ کی خلافت و اجازت حضرت میاں جان محمد سے حاصل ہوئی جو کہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں اعلیٰ حضرت سے مجاز تھے ۔از سر نو تفصیلی سلوک حضرت اقدس مولانا محمد عبد اللہ کی خدمت میں رہ کر طے فرمائے اورسلا سل اربعہ میں حضرت اقدس سے اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے ۔ہفت سلاسل نقشبندیہ مجددیہ ،قادریہ ،چشتیہ ،سہروردیہ ،قلندریہ ،ملاریہ ،اور کبرویہ کی اجازت وخلافت حضرت پیر سید عبدالطیف شاہ احمد پور سیال ضلع جھنگ سے عطا ہوئی ۔حضرت ثانی حضر ت مولانا محمد عبدا للہ 7جون 1956کو خالق حقیقی سے جاملے ۔حضرت ثانی کے وصال کے بعد حضرت خواجہ خان محمد خانقاہ سراجیہ کے سجادہ نشین مقرر ہوئے اورتادم آخر طلبگا ران ِ حق کے دلوں کو منور فرماتے رہے ۔ آپ نے تمام زندگی ایک سچے عاشق رسول ۖکی طرح والہانہ عشق و محبت رسول سے لبریز ہو کر تحفظ ختم نبوت کی کوششوں میں گزاری۔ دنیا بھر میں قادیانی فتنے کے خلاف اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جدو جہد کی دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہ تھا جہاں آپ قادیانیت کے تعاقب میں نہ گئے ہوں ۔آخری دنوں میں بھی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے فکر مندتھے، 1953کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا اس طرح آپ کو سیفٹی ایکٹ کے تحت میانو الی جیل کے بعد سنٹر ل جیل لاہور اور پھر بورسٹل جیل منتقل کر دیا گیا ۔1974سے 1977تک مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر رہے حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کے انتقال کے بعد 1977میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے چھٹے امیر بنے،ناموس رسالت ۖ کے لیے امت محمدیہ کے تما م طبقات کو ایک لڑ ی میں پرو دیا اور چا ر دانگ عالم میں رسول اکرم ۖ و صحا بہ کرام کی عزت و ناموس کا پھریرہ بلند کرنے کی سعادت حاصل کی ۔آپ کے دور ِ امارت میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے عقیدہ تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں شا ندا ر کامیا بیاں حاصل کیں جو کہ اسلامی تاریخ کا ایک گرانقدر سرمایہ ہیں اور جنہیں تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا ۔آپ کے دور امارت میں پہلی مرتبہ چناب نگر میں ختم نبو ت کانفرنس6-7ستمبر 1982کو منعقد ہوئی ،جس میں تما م مکاتب فکر کے راہنمائوں نے شرکت کی یہ کانفرنس آغاز سے لے کر اب تک نہا یت تز ک و احتشام سے منعقد ہوتی ہے ،چناب نگر میں ہونے والے مرزائیوں کے سالانہ اجتماع پر 1984میںپابندی لگا دی گئی ۔ 1408ہجری میںآپ نے روئداد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا مقدمہ لکھ کر گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ۔جس میں مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے حالا ت اور ابتدائے تحریک تحفظ ختم نبوت کے حالات بیان کیے گئے ہیں ،اس سے آپ کے عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ عشق و محبت اور والہانہ لگائو کا پتا چلتا ہے ۔انہی عظیم المرتبت ہستیوں کی کوششوں سے 7ستمبر 1974کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔ اس عظیم کارنا مے میں تما م مکاتب فکرکی برگزیدہ شخصیات کی کوششیں اور کاوشیںبھی شا مل تھیں ۔ان میں مفکر اسلام مفتی محمود ،مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا شاہ احمد نورانی ،مولانا عبد الحق،پروفیسر غفور احمد،مولانا عبدا المصطفیٰ الازہری ،مولانا عبد الحکیم ، مولانا سید محمد یوسف بنوری ،نوابزادہ نصرا للہ خان ،آغا شورش کاشمیری ،علامہ احسان الٰہی ظہیر ،مولانا عبدا لقادر روپڑی ،مفتی زین العابدین ،مولانا تا ج محمود ،مولانا محمد شریف جالندھری ،مولانا عبدا لستا رخان نیازی ،سید مظفر علی شمسی اورمولا ناعلی غضنفر کراروی شامل تھے ۔ 1984اکی تحریک امتناع قادیانیت آرڈینینس میں آپ نے بنفس نفیس شرکت کی اور اپنے بوڑھے بدن پر لاٹھیاں کھائیں ،آپ کی کوششیں اور جدو جہد رنگ لائی اور 26اپریل 1984کو امتناع قادیانیت آرڈی ننیس جاری ہو ا ،جس کی رو سے ں قادیانیوں کو مسلمان کہلا نے ،اذان دینے ،اپنی عباد ت گاہوں کو مسجد کہنے اوراسلامی شعائر کے استعمال سے روک دیا گیا نیز ان کی تبلیغی اور ارتدادی سرگرمیوں پر پابند ی لگا دی گئی ۔لند ن میںبارہ ہزار مربع فٹ پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے عالمی دفتر کا قیام اور سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کا آغاز،چناب نگر مسلم کالونی میں عظیم الشان جامع مسجد ختم نبوت،مدرسہ اوسر ختم نبوت دفترکا قیام اور مشرف دور میں پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی بحالی جیسے عظیم کارنامے حضرت والا کی وجہ سے ہی ممکن ہوئے۔ حضرت کے بارے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ان جیسی عظیم ہستی پر تحریر و تقریر کی تما م رسمیں دم توڑ جائیں گی ۔اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہم جیساپر تقصیر اور ناکا رہ انسان حضرت جی کے بارے میں کیا کچھ لکھ سکتا ہے ،اولیاء اللہ کے احوال و معارف تحریر کرتے ہوئے جو کیفیات لکھنے والے کے دل و دماغ پر طاری ہوتی ہیں قلم انہیں سپرد قرطاس نہیں کرسکتا اور پھر فکر میں بھی یہ رفعت کہاں کہ کسی بااحوال ہستی کے صحیح مقام تک رسائی حاصل کرپائے ۔بہر حا ل جو کچھ لکھا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دربار میں قبول فرمائیں اور بخشش کا ذریعہ بنائیں ۔حضرت جی کاجمعیت علمائے اسلام سے تعلق اور خدمات کو مولانا محمد عبدا للہ صاحب نے اپنی تحریرمیں احسن اور جامع انداز سے بیان کر دیا ہے ۔جس کے بعد میں اس موضوع پراس وقت مزید کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حضرت وفات سے تین ماہ قبل سخت علیل تھے حالت بگڑنے پروفات سے کم و بیش ایک ہفتہ قبل ملتان کے سیا ل کلینک لائے گئے ،یرقان کے مرض میں شد ت کے باعث حضرت بد ھ کی شام آٹھ بجے کے لگ بھگ صاحبزادہ نجیب احمد کی گود میں سر مبار ک رکھے اللہ ،اللہ کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ جسد خاکی خانقاہ سراجیہ لایا گیا اوراگلے دن چھ مئی کو خانقاہ سراجیہ میںہی نمازجنازہ ادا کیا گیا ۔ایک جم غفیر تھا جو امڈ آیا تھا ،تا حد نظر انسا ن ہی انسا ن تھے ،نماز جنا زہ حضرت کے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں حضرت خواجہ خلیل احمد مد ظلہ العالی نے پڑھایا ۔بعد ازاں مریدین و متعلقین نے بصد حسرت و یاس اپنے ہادی و محبوب،عزیز شیخ اور پیشوائے کامل کو مشیت الٰہی پر راضی رہتے ہوئے آغوش لحد میں رکھ دیا ۔بلا شبہ حضرت خواجہ خواجگان کی رحلت ایک ناقابل فراموش صدمہ ہے لیکن ان کا فیض آج بھی چہا ر سو موجود ہے جہاں سے ان کے فکر کی خوشبو اور نقوش پا ملتے ہیں ۔
تو میرے سامنے نہیں ہے میرے رہبر ِ حیات
لیکن تیری بتائی ہوئی رہ گز ر تو ہے

بلا شبہ پا نچ مئی کا دن پا کستان کی روحانی اور دینی تاریخ میں ایک المنا ک سانحہ اور جا نگداز المیہ کی حیثیت سے یا د رہے گا ۔جس دن گلشن ِ دیں کا باغباں ،حریم نبوت کا پاسباں اور علم و معرفت کا بحرِ مواج اس دنیاسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا ۔اللہ تعالیٰ ان جیسی عظیم ہستیوں جن سے ہماری تاریخ کی عظمتیں وابستہ ہیں اورجن کا روحانی فیض آج بھی بھٹکے ہو ئے مسافروں کے لیے روشنی کا مینا ر ہے
کے مرقد مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبز ہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
 

Abdul Aziz Anjum
About the Author: Abdul Aziz Anjum Read More Articles by Abdul Aziz Anjum: 14 Articles with 16476 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.