امیر المو منین فی الحدیث سیدنا محمد بن اسماعیل بخاری

13شوال 194ہجری جمعہ بعد نما ز جمعہ بخارا میں اسماعیل کے گھر بچہ پیدا ہوا ۔بچے کا نام ''محمد ''رکھا گیا ۔کسے اندازہ تھا کہ یہ بچہ اسلامی تاریخ کے گلشن کا وہ گل سر سبد بنے گا جس کی مہک صدیوں رہے گی اور جس کا آوازہ زمانہ کے دبیز پردے نہیں روک سکیں گے اور کسے معلوم تھا کہ صدیوں میں پید اہونے والا یہ ''دیدہ ور ''کائنات کی بہترین ہستی کے بکھرے اور نکھرے ہوئے ریحان و نسترن کی چمن بندی کی وہ لا فانی خدمت انجام دے گا جو ان کو ''لسان صدق فی العالمین ''اور حیات جاوداں بخشے گی۔شخصیا ت کی عبقریت اپنے خاندان اور وطن کے تذکروں کو بھی زندہ رکھتی ہے،بخارا کے تذکرہ میں اگرآج دلچسپی ہے تو اسی حوالہ سے کہ وہ امام بخاری کا وطن ہے ۔بخارا دریائے جیحون کی زیریں گزرگا ہ پر ایک بڑے نخلستان میں ان مرد م خیز علاقوں کا شہر ہے ،جن سے علم و فن کی تاریخی شخصیا ت کی عظمتیں وابستہ ہیں جو علم و دانش کے بڑے بڑے سور مائوں کا وطن رہا اور جہاں صحاح ستہ کے مصنفین پید ا ہوئے ۔اما م بخا ری کا بخارا ہو یا اما م مسلم کا نیشا پور ،امام ابو دائود کا سجستان ہو یا امام ترمذ ی کا ترمذ ،امام نسائی کا نسا ہو یا ابن ماجہ کا وطن قزوین ،یہ سب اسی ماواراء النہر اور اس کے ارد گرد علاقوں کے لالہ زار ہیں ۔امام نے جب آنکھ کھولی تو ہر طرف اسلامی علوم کا چرچا تھا ،دنیوی ترقیاں اسلامی علوم میں مہارت پر موقوف تھیں ،علم حدیث کا شاداب درخت بہاروں پر تھا ،نبی کریم ۖ کا عہد ساز دور ابھی ابھی گزرا تھا ،صحابہ کی یادیں تازہ اور ان کے تربیت یافتہ زندہ تھے ،عالم اسلام کے بڑے شہر محدثین کے مرکز اور دنیا کے چپہ چپہ سے آنے والے تشنگانِ علم حدیث کی آماجگاہ تھے ،خیر القرون کی اس مبارک فضا میں امام نے پرورش پائی ،پھر قدرت کی فیاضیوں نے بلا کا حافظہ دیا ،نہ ختم ہونے والے شوق سے نوازا ،جہد مسلسل کی توفیق ملی ،بلند ہمتی کا جوہر پایا اور سب سے بڑھ کر وہ عظیم اخلاص میسر ہوا جس کے بغیر سب کچھ بیکا ر ،ہر عمل نامکمل اور سراب کی نمود ہے ۔

امام بخا ری ابھی کم عمر ہی تھے کہ سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیااور آپ در یتیم بن کر والدہ کی آغوش عاطفت میں پرورش پاتے رہے ۔آپ کے وہ افعال وحرکات جو عالم طفولیت میں صادر ہوئے ان تمام ہم جولیوں سے بالکل جدا تھے جن میں آپ لہو و لعب کی غرض سے شرکت فرماتے تھے ۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ کی تربیت و نگرانی میں حاصل کی ۔احادیث یا دکرنے کا شو ق و شغف بچپن ہی سے تھا جب عمر کے نو درجے طے کر چکے اور دسویں سال میں قدم رکھا تو تحصیل علم کا شوق آپ کوکشاں کشاں علمی درسگاہوں میں لے گیا ۔امام نے سفر کی لاٹھی ہاتھ میں لی اور عالم اسلام کے اس وقت کے عظیم علمی شہروں حجاز ،کوفہ ،بغداد،بصرہ ،بلخ ،مرد ،مکہ ،مدینہ ،دمشق ،قیساریہ ،عسقلان ،حمص اورخراسان کا رخ کیا ،علوم کی بہتی سوتوں اور حدیث کے فرحت بخش ٹھنڈے چشموں سے تشنگی بجھا کر طلب علم کی حرارت کی تسکین کی ،جب آپ سولہ سال کے ہوئے تو عبدا للہ بن المبارک کی تمام کتابیں یاد کرلیں اور وکیع کے نسخے بھی ازبر کر لیے ۔ابھی عمر کا اٹھارواں سال تھا کہ صحابہ اور تابعین کے اقوال پر مشتمل ایک کتاب ''قضا یا الصحابة و التا بعین ''کے نام سے لکھی اور اسی عمر میں روضئہ اطہر کے پاس ،مدینہ کی منور فضاء اور حسین چاندنی راتوں میں اپنی شہرئہ آفاق کتاب''تاریخ کبیر ''لکھی ۔امام بخاری نے تحصیل حدیث اور زیارت علماء کے لیے دور دراز کے سفر کیے اور ہمیشہ سخت سے سخت مصیبتوں کو برداشت کرتے رہے لیکن آپ کی ہمت عالی نے راحت جسمانی کو علمی شوق پر غالب نہ ہونے دیا اور ایک روز ان مصائب کے معاوضہ میں انہیں آسمان علم وفضل کاروشن آفتاب بنا کر چھوڑا جس کی منور شعاعوں سے یہ دنیا قیامت تک روشن رہے گی۔ امام بخاری اٹھارہ سال کی عمر میں فاضل اجل ہو گئے تھے اور آپ کی علمی تجر کی شہرت ایسی عام ہو چکی تھی کہ مسافت بعیدہ سے لوگ بغرض سمع حدیث آپ کی خدمت میں حاضر ہونے گے ۔آپ سے براہ راست نوے ہزار آدمیوں نے جامع صحیح کو سنا تھا۔ حدیث کے ارکان ستہ کے جلیل القدر ارکان حافظ ابو عیسیٰ ترمذی ،ابو عبدا لرحمان نسائی اور مسلم بن حجاج آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔قضایا الصحابہ والتابعین( 212ہجری میں تاریخ کبیر سے پہلے لکھی) ،التاریخ الکبیر(8اجزاء مسجد نبویۖ میں چاند کی روشنی میں لکھے گئے)،التاریخ الاوسط(یہ کتاب اب تک نہیں چھپی ،شاید ا س کا قلمی نسخہ جرمنی میں موجو د ہے ۔عبدا للہ بن احمد بن عبد السلا م الحقاف اورزنجویہ بن محمد اللبا داس کے راوی ہیں)،التار یخ الصغیر،الجامع الکبیر ،خلق افعال العباد،المسند الکبیر ،اسامی الصحابہ،کتاب العلل،کتا ب الفوائد،کتاب الوحدان،الادب المفرد،کتاب الضعفاء الصغیر ،کتا ب المبسوط،الجا مع الصغیر ،کتاب الرقاق،بر الوالدین،کتاب الاشربہ،کتاب الٰہیہ،کتاب الکنی ،التفسیر الکبیر،جز ء القراء خلف الامام،جزء رفع الیدین،بدء المخلو قات اور ''الجامع الصحیح' اما م بخاری کی شاہکار تصنیفات ہیں ۔''الجامع اصحیح '' امام بخاری کی سب سے زیادہ مشہور ،مقبول ،مہتم باشان اور رفیع المنزلت تالیف ہے جس کا پورا نام ''المسند من حدیث رسو ل اللہ ۖ و سنت و ایا مہ ''ہے ۔امام بخا ری کو اس پر بہت ناز تھا فرمایا کرتے تھے کہ خدا کے یہاں بخاری کو میں نے نجات کا ذریعہ بنایا ہے ۔

امام نے اپنی زندگی کے طویل علمی رحلات میں ایک ہزار سے زائد محدثین سے احادیث کا سما ع کیا ،اللہ جل شانہ نے اس میدان میں ان سے کام لینا تھا ،اور جو کام لینا تھا اس کے تمام فطری اسباب ان میں پیدا فرما دیئے ،احادیث میں علل کی معرفت کا میدان ہو یا صحیح و سقیم میں امتیا ز کا مسئلہ ،ہزاروں راویوں کے احوال پر اطلاع کا کٹھن مرحلہ ہو یا اسما ء رجال او ر ان کی کنیتوں کے حفظ کا معاملہ ،امام بخاری کی عبقریت نے ان تمام میدانوں میں جولانیا ں کیں ۔

رجا ل کا فن امام کے زمانہ میں مدون نہ تھا ،آج کی طرح کسی راوی کے ضعف و صحت کے حتمی فیصلوں پر کتابیں ابھی وجود میں نہیں آئی تھیں ،سینکڑوں ثقہ و غیر ثقہ ہم نام راویوں میں فرق کرنے کا واحد ذریعہ حافظہ تھا اور ہزاروں کی تعداد میں رجال حدیث کے ضعف و صحت کا مدار بھی اسی پر تھا ،محدثین امتحان لیتے ،آپ کی قوت حفظ کے کرشمے دیکھتے اور ششدر و حیران ہوتے ۔سمر قند میں چا ر سو محدثین جمع ہو ئے ،احادیث کی اسانید میں تبدیلیاں کیں ،سات دن تک اما م بخاری کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔فرماتے تھے :''مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں اور دولاکھ غیر صحیح احادیث حفظ ہیں ''۔امام بخاری گلستانِ علم ِ حدیث کی بہا ر تھے،جہاں جاتے تشنگانِ علم ِ حدیث کی مجلسیں آباد ہو جاتیں ،ایک مرتبہ بلخ گئے ،اصحاب حدیث جمع ہوئے ،املا ء حدیث کی درخواست کی ،ہزاروں راویوں کی ہزار حدیثیں سب کو لکھو ا دیں ۔امام بخاری کے ہم درس حاشد بن اسماعیل کا بیا ن ہے کہ بخاری ہمارے ساتھ مشائخ بصرہ کے ہاں حدیث پڑھنے جاتے تھے ،ہم احادیث لکھتے بخا ری نہ لکھتے ،ان سے ہم کہتے تھے کہ آپ لکھتے کیوں نہیں ؟سولہ دن گزرنے کے بعد بعد بخاری ہم سے کہنے لگے ''لائو ،تم نے جو کچھ لکھا ہے ۔''ہم نے پندرہ ہزار احا دیث لکھی تھیں ۔وہ لے آئے تو بخاری وہ تمام احادیث زبانی سنا کر کہنے لگے ''بتائیں میں نے وقت ضائع کیا ''۔سلیم بن مجاہد ایک دن مشہور محدث محمد بن سلام بیکندی کی خدمت میں حاضر ہوئے ،بیکندی فرمانے لگے ،اگر کچھ دیر قبل آتے تو ستر ہزار حدیثیں حفظ کرنے والا بچہ دیکھ لیتے ،سلیم یہ سن کر بچہ کی طلب میں نکلے ،ملا قات کر کے پوچھا ۔''ستر ہزار احادیث کے حفظ کا آ پ کو دعویٰ ہے ؟''بخاری کہنے لگے ،''جی ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ ،مزید یہ کہ جس صحابی اور تابعی کی حدیث آپ کو سنا ئوں گا ان تمام کی ولادت ،وفات اور مساکن کا بھی علم رکھتا ہوں ۔''اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدرت آنے والے وقت میں اس بچہ سے حدیث رسول ۖ کی کتنی عظیم خدمت لینا چاہتی تھی ۔یہ آسمان ِ علم ِ حدیث کے بدرِ کامل کی اس وقت کی چند جھلکیاں ہیں جس کے ظہور کی ابھی ابتداء تھی جس قمر کے مرحلہ ''ہلال ''میں ضیا پاشیوں کا یہ عالم ہو ،ماہِ تاباں میں اس کے جلوئوں کا عالم کیا ہو گا؟امام نے حافظہ بلا کا پایا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ جس راہ کے آپ مسافر تھے اس میں غیر معمولی حافظہ کا قدرتی توشہ اگر پاس و معاون نہ ہوتا تو منزل کی ان بلندیوں پر جہاں آج آپ ہیں ،پہنچنا مشکل ہوجا تا ۔

امام بخاری نے علم کی محبت قدرت کے عطیہ کے طور پر پائی تھی ،اس لیے پوری زندگی اس کے لیے گشت کرتے رہے ،علم آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا ،علم آپ کے لیے سامانِ راحت تھا اس کے لیے زندگی کی ہر راحت کو قربان کیا ،علم آپ کی زندگی کا رونق تھا ،اس رونق پر دنیا کی تمام رونقیں لٹائیں ،پوری عمر حدیث پڑھی ،حدیث پڑھائی ،حدیث لکھی اور دوسروں کو لکھوائی ،غضب کے حافظہ کے باوجود طلب اور جدو جہد میں کمی نہ آئی ،طلب اور محنت کے پتھر پر گھسنے کے بعد زندگی کی ''حنا ''رنگ لائی اور خوب لائی ۔جامع بخاری کی صحت پر آج جو پوری دنیا متفق ہے کسے اندازہ ہے کہ محنت کے کن شدید مراحل سے گزرنے کے بعد اس درجہ تک پہنچی ۔آپ کے دن علم حدیث کے سدا بہار گلشن کی سیر میں گزرتے اور آپ کی راتیں عبادت اور ''آہ سحر گاہی ''سے معمور تھیں ،بندگی کا وہ درجہ آپ کو بھی نصیب تھا جہاں بیداری شب کی لذ ت اور آہ سحر گاہی کے سامنے دنیا کی تمام لذتیں انسان کو ہیچ محسوس ہوتی ہیں اور جس کی تعبیر اقبال کے الفاظ نے یوں کی ہے
واقف ہو اگر لذت ِ بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
اور
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

امام بخاری کا معمول تھا آخری شب سحر کے وقت اٹھتے اور تہجد کی نما ز ادا کرتے ۔ رمضان المبارک میں ہر روز ایک مرتبہ ختم قرآن اور تراویح کے بعد ہر تین راتوں میں ختم کا معمول تھا ۔الغرض !امام بخاری کی شخصیت کے ترکیبی عناصر میں ذہن کی بیداری بھی تھی اور علم کی پختگی بھی ،حافظہ کی غیر معمولی قوت بھی تھی اور سخت جانی و جانفشانی بھی ،طلب و جستجو بھی تھی اور ہمت کی بلندی بھی ،ذوق و شوق بھی تھا اور فقر و درویشی بھی ،معلومات کی وسعت بھی تھی اور نظر کی گہرائی بھی ،ملکہ کا رسوخ بھی تھا اور تجربہ کی گیرائی بھی ،اخلا ص و تقویٰ بھی تھا اور بیداری شب و آہِ سحر گاہی بھی ،علمی جلال بھی تھا اور اخلاق کی نرمی و خوش خرامی بھی ،دنیا سے بے رغبتی بھی تھی اور وصف سخاو دریا دلی بھی ۔۔۔۔۔یہ چیزیں ملیں تو علم کا چشمہ پھوٹا اور ایسا پھوٹا کہ جس نے بحث و تحقیق ،فقہ و حدیث اور روایت و درایت کے تما م گوشوں کو سیراب کیا ۔

امام بخاری گلشن حدیث کے چہچہا تے بلبل تھے ،جہاں جاتے اس چمن کی طرف اپنی نغمہ سرائی سے ایک دنیا کو متوجہ کر لیتے ،بخار امیں بھی امام کی مجلس حدیث کی رونق سے رونق ہوئی ،جس علم کے حامل تھے اس کی قدرو منزلت کا احساس بھی اللہ نے ا ن کو عطا کیا تھا ،علم کو فانی دنیا کے حصول کا ذریعہ کبھی نہیں بنا یا ،جہاں تذلیل علم کا شائبہ ہوتا ،وہاںمحتاط رہتے ،امراء اور دنیا والوں کے ہاں جانے سے گریزاں رہتے ،اکثر دنیا دار اس استغنا ء کے سبب ان سے نا لاں رہتے ۔

بوئے گل کا باغ سے اور گلچیں کا دنیا سے سفر اس عالمگیر قانون کا اثر ہے جس سے نہ کو ئی بچا ہے ،نہ بچے گا ۔ اب اما م بخاری کا اپنے رب کے پاس واپس جانے کا پروانہ آگیا تھا ۔جب یکم شوال 256ہجری کوسمر قند میں خوشیوں کا تحفہ لے کر ماہتا ب ِ عید نمو دار ہوا ،اسی رات حدیث نبوی ۖ کی لافانی خدمت کرنے والے اس عظیم انسا ن کی زندگی کا آفتابِ تاباں وہاں غروب ہوا جہاں زندگی کے ہر آفتاب کا مدفن ہے ۔دفن کرنے کے بعد قبر سے خوشبو پوٹھی ،قبر کی سید ھ میں آسمان کی جانب ایک روشن خط نظر آنے لگا لوگ قبر کی مٹی پر ٹوٹ پڑے ،بڑے سخت حفاظتی انتظامات کے بعد قبر سے لوگوں کو روکا گیا ۔عبد الواحد بن آدم کہتے ہیں کہ میں نے بنی کریم ۖ کو ایک جماعت سمیت خواب میں دیکھا کہ آپۖ کھڑے ہیں ،میں نے کھڑے ہونے کی وجہ دریافت کی ،فرمایا''میں بخا ری کا انتظا ر کر رہا ہوں ''بعد میں معلوم ہو اکہ جس وقت خواب دیکھا تھا اسی ساعت اما م بخاری کا انتقال ہو ا تھا ۔

امام بخاری کوزندگی میں محبتوں کے جھونکے بھی نصیب ہو ئے اور نفرتوں کے طوفانوں سے سابقہ پڑا ،عقیدت کے پھول بھی ملے اور حسد کے کانٹے بھی ہاتھ لگے ،امام گئے ، ،وہاں ،جہاں سب کو جانا ہے ،پر امام کا علم باقی رہا ،باقی رہے گا کہ یہ کائنات کی اس بہترین ہستی کے کلام کا علم تھا جس کے فیض عام نے صحرائے عرب کے بدو ئوں اور حبشہ کے گمنا م حبشیوں کو حیات جاوداں بخشی ،امام بخاری نے اپنی ''صحیح ''کے گلشن کو جن پھولوں سے آبا دکیا ،ترو زتازگی ان کے لیے فطرت کا انعا م ہے تاکہ
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان ورفعنا لک ذکرک دیکھے
اسی گلشن بندی کا صلہ ہے کہ صدیاں گزر گئیں ،امام بخا ریکی یادیں زندہ ہیں،زند ہ رہیں گی
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

Abdul Aziz Anjum
About the Author: Abdul Aziz Anjum Read More Articles by Abdul Aziz Anjum: 14 Articles with 18430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.