نیند تو آگئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے

25ویں سورة کی 47ویں آیت نظر کے سامنے ہے جس میں کہا گیا کہ: ” اے کرّہ عرض کے باشندو! اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے لباسِ لیل (کی نعمت بخشی) اور نیند کو (جسمانی و روحانی قوتوں کو مجتمع کرنے کے لئے) آرام و سکون کا ذریعہ بنایا اور دن کو (معاشی و دینی، فلاحی و سماجی ) سرگرمیوں میں مصروف رہنے کا ذریعہ۔“

تو ثابت ہو گیا کہ نیند لینا ہر ذی شعور نفس کے لئے ضروری ہے ۔اپنی آخری کتاب میں اللہ تعالیٰ نے رات اور دن، سونے اور جاگنے کے اس عمل کی وجہ بھی بیان فرمائی اور انسان کی عقلِ سلیم کو بھی اپیل کی کہ اس تمام پروسس پر غور کرو کہ کس طرح تمہارا رب تم پر اپنی نعمتیں نچھاور کر رہا ہے۔ان ہی نعمتوں کے درمیان، ان ہی کے تعاون سے تم ایک خاص مخلوق بن کر محوِ سفر ہو اور تمہیں یہ احساس ہوکہ نہ ہو کہ تم ایک مخصوص رفتار سے اپنی عمر اس دنیا میں پوری کر رہے ہو۔بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہوئے تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو۔ عمر کے اس سفر میں رات اور دن، سورج اور چاند، نیند اور بیداری کے مراحل آ رہے ہیں اور رفتہ رفتہ تم اپنی عمر کی آخری منزل پر پہنچ کر رہو گے۔جہاں ٹھہر کر تم سوچنے لگو گے کہ یہ سب کچھ کیا تھا،یہ سفر کیسا تھا،تب شاید تمہیں یہ احساس ہو جائے کہ یہ سارا سرکل دراصل تمہارا امتحان تھا اور اب تمہیں موت کے دروازے سے گزر کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوناہے۔اتنی ساری نعمتیں جو تم پر لٹائی گئیں،ان سے متمتع ہوکر دنیا میں گزارے گئے تمہارے شب و روز کا تمہیں اپنے مالک کو حساب دیناہے۔ہماری وارننگ کی خاطر اس پیکیج کا تذکرہ ہمارے خدا وند کریم نے چھٹی سورة کی ساٹھویں آیت میں پہلے ہی کر دیا ہے۔” اور وہی تو ہے جو بہ ساعت لیل ، تم پر (بہ شکل نیند گویا) وفات (کی کیفیت ) طاری کر دیتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ بہ ساعتِ دن،تم کن (مشقت طلب) مصروفیات میں سرگرمِ عمل رہے۔(اسی طرح اس عارضی موت کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے )پھر وہ دوبارہ اٹھاتاہے تاکہ (نیند اور بیداری کے اس سائیکل کے ذریعہ تمہاری عمر کا) مقررہ وقت پورا کرے۔پھر تم (اپنی عمر کے اختتام پر) اسی کی (بارگاہ کی ) طرف لوٹ جاﺅ گے جہاں پھر وہ تمہیں مطلع کرے گا کہ (دنیاوی زندگی میں) تمہاری مصروفیات کیا رہی تھیں۔“

کیا اب بھی وقت نہیں آیاکہ ہم ان وارننگوں سے درسِ عبرت حاصل کریں ، تاکہ حالتِ بیداری میں عمل ممکن ہو! ایک خواب کی شکل میں اس مدت کو گزارنے سے یا صرف تمنائیں کرتے رہنے سے ہماری ابدی زندگی خطرے میں پڑ سکتیں ہے، کہیں ہمیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے کہ:
نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے
کھل گئی آنکھ تو پھر نیند کے لمحے نہ ملے

آج یہ ساری باتیں نہ عوام سوچ رہی ہے اور نہ ہی حکمران۔جبکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ دنیا فانی ہے یہاں کی زندگی عارضی ہے اور زندگی ہمارے مرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔یہ سب کچھ نہ سمجھنے اوررب کائنات کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل نہ کرنے کے سبب ہی ہم سب عذابِ الٰہی میں بھی مبتلا ہیں۔اب یہ اور بات ہے کہ وہ عذاب کس کس طرح ہم پر آ رہے ہیں۔سب کچھ چھوڑیئے ، کیا یہ زلزلے کے جھٹکے قدرتی عذاب نہیں ہیں،کیا قتل و غارت گری کسی عذاب سے کم ہے۔آج وہ زمانہ آگیاہے کہ جب مرنے والے کو یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں مارا جا رہا ہے اور مارنے والے کو یہ نہیں پتہ کہ وہ اسے کیوں مار رہاہے۔اور یہ ماجرا بھی ہمارے نبی اکرم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے فرما دیا تھاکہ ” ایک زمانہ آئے گا کہ مرنے والے کو معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں مر رہا ہے اور مارنے والے کو بھی یہ پتہ نہیں ہوگا کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔“ خدا ہم سب کو نماز قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں دین و دنیا کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

آج جہاں دنیا اتنی آگے بڑھ گئی ہے اتنا ہی دین کو مسلمان پیچھے چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔آج کا ماحول دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کی پڑھائی ہر محلے میں عام ہونا چاہیئے کیونکہ آج کی تاریخ میں ماحول اتنا غلیظ اور گندہ ہو چکاہے کہ ہر جگہ برائی، برے کام،بے حیائی یا پھر قتل جیسے وارداتیں ہو رہی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے اصلی مقصد کی طرف سے ہٹ کر دنیا میں مصروف ہوگئے ہیں اور دنیا سے دل لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دین مذہب کو صرف مان رہے ہیں اور اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں لیکن آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل نہیں کرتے اگر وہ دین کو مقدم نہیں رکھیں گے تو دنیا مقدم ہو جائے گی۔تمام امتِ مسلمہ سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بچوں اور گھر کے ماحول کو بدلیں، دینی ماحول پیدا کریں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم اور دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کو حاصل کریںتاکہ انہیں پتہ چلے کہ دین کیاہے اور اس پرکیسے عمل کیا جاسکتاہے۔تاکہ وہ جان سکیں کے ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں، ہمارا مقصدکیاہے، ہمیں اس دنیا میں جو بھیجاگیاہے وہ صرف آخرت کی تیاری کے لئے بھیجا گیا ہے، ہمیں اس دنیا سے ایک دن فنا ہوناہے، اصل زندگی تو مرنے کے بعد کی ہے۔اگر ہم سنتوں پر عمل کرکے جائیں گے یا عبادت کرکے جائیں گے تو ہمیں جنت نصیب ہوگی وگرنہ جہنم کا دروازہ ہمارے لئے کھلا ہے جس میں سانپ، بچھو اور آگ ہمارے استقبال کے لئے منہ کھولے کھڑے ہیںجو ہمیں قیامت تک تکالیف دیتیں رہیں گی۔اس لئے ہمیں اپنے ارد گرد اور تمام ملک میں بھی ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک اہم کمزوری ان کا حد سے بڑھا ہوا ڈر اور خوف ہے اسے آپ غیر ضروری ڈر اور خوف بھی کہہ سکتے ہیں۔پچاس سے زیادہ مسلم حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی مخالفت یا اس کی حکم دولی ان کی حکمرانی ختم کروا دے گی۔پاکستان بھی انہیں ملکوں میں سے ایک ہے۔جبکہ مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارا سپر پاور تو خدائے بزرگ و برتر ہے۔جس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں زیر نہیں کر سکتی۔مگر سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ امریکہ کو ہی سپر پاور تصور کئے بیٹھے ہیں۔ڈر اور خوف کے علاوہ مسلمانوں میں احساسِ کمتری کا عنصر بھی بہت زیادہ پایا جاتاہے ۔ایک عام آدمی کی سوچ یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تعلیم یافتہ حکمران اور دانشور قسم کے لوگ جو خود کچھ نہیں کر تے ہیں لیکن کرنے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ امریکہ ہی سب کچھ ہے۔یہ خدشہ مصنوعی ہے ملک کا دستور بدلناآسان نہیں ہے بلکہ ملک کی سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر ناممکن ہے۔ پاکستان کے عوام کو عزت سے رہناہے تو ملک کی قیادت ہی نہیں بلکہ عام انسان کو بھی اپنی روش بدلنا ہوگا۔ڈر و خوف اور احساسِ کمتری سے آزاد ہوکر مسلمانوں کو پُر امن طریقہ سے منظم احتجاج کرنا ہوگا۔احتجاج کا مقصد سڑکوں پر آکر تشدد نہیں ہے۔بلکہ اسمبلی کی سطح پر بھی یہ احتجاج ریکارڈ کرایا جا سکتاہے۔اگر ترقی کرنا ہے تو ہمت و جرات اور قربانی کے جذبات سے کام لینا ہوگا۔ تاکہ جس نیند میں خواب کا تحفہ نہ مل سکا وہ جاگتے ہوئے حاصل کیا جا سکے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 367928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.