واقعاتِ تعظیم
۵ ھ میں غزوہ بنی المصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ قریب مدینہ ایک پڑاؤ
پر ٹھہرا تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہرضی اﷲ تعالیٰ عنہا ضرورت کے
لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں، وہاں آپ کا ہار ٹوٹ گیا اسکی تلاش میں
مشغول ہوگئیں ادھر قافلہ نے کوچ کیااور آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا محمل
شریف اونٹ پر کس دیا اور انھیں یہی خیال رہا کہ ام المومنین رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا اس میں ہیں اور قافلہ چل دیا ۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا آکر
قافلہ کی جگہ بیٹھ گئیں اور آپ نے خیال کیا کہ میری تلاش میں قافلہ
ضرور واپس ہوگا۔
قافلے کے پیچھے گری پڑی چیز اٹھانے کے لئے ایک صاحب رہا کرتے تھے۔ اس
موقع پر حضرت صفوان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کام پر تھے جب وہ آئے اور
انھوں نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دیکھا تو بلند آواز سے ’’
اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ‘‘ پکارا۔ آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا نے کپڑے سے پردہ کرلیا انھوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی، آپ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اس پر سوارہو کر لشکر میں پہنچیں ۔ منافقین سیاہ
باطن نے اوہامِ فاسدہ پھیلائے اور آپ رضی اﷲ عنہا کی شان میں بدگوئی
شروع کی بعض مسلمان بھی اُن کے فریب میں آگئے اور انکی زبان سے بھی
کوئی کلمۂ بے جا سرزد ہوا۔ ام المومنین رضی اﷲ عنھا بیمار ہوگئیں اور
ایک ماہ تک بیمار رہیں، اس زمانہ میں انھیں اطلاع نہ ہوئی کہ منافقین
ان کی نسبت کیا بک رہے ہیں۔
ایک روز ام مسطح سے انھیں یہ خبر معلوم ہوئی اس سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا کا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمہ میں اس قدرروئیں کہ آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا کے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ ایک لمحہ کیلئے نیند آتی تھی۔
اس حال میں سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر وحی نازل ہوئی
اور حضرت ام المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی طہارت میں آیات قرآنی نازل
ہوئیں جن سے آپ کاشرف و مرتبہ بڑھایا گیا اور آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی
طہارت و فضیلت ازحد بیان ہوئی۔
سیدِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے برسرِمنبر بقسم فرمادیا
تھاکہ مجھے اپنے اہل کی پاکی و خوبی بالیقین معلوم ہے، تو جس شخص نے ان
کے حق میں بد گوئی کی ہے، اس کی طرف سے میرے پاس کون معذرت پیش کرسکتا
ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: منافقین بالیقین جھوٹے ہیں،ام
المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بالیقین پاک ہیں، اﷲ تعالیٰ نے سید عالم
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جسم پاک کو مکھی کے بیٹھنے سے محفوظ
رکھا کہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے، کیسے ہوسکتاہے کہ وہ آپ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بدعورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی طرح آپ رضی اﷲ عنہا کی
طہارت بیان کی اور عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑنے دیا، تاکہ ا س سایہ پر کسی کا قدم
نہ پڑے، تو جو پروردگارعزوجل آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
سایہ کو محفوظ رکھتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے اہل کو محفوظ نہ فرمائے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے عرض کیا: کہ ایک جوں کا خون لگنے سے پروردگارِ
عالم عزوجل نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نعلین اتاردینے کا
حکم دیا، جو پروردگارعزوجل آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکے نعلین
کی اتنی سی بات روا نہ فرمائے، ممکن نہیں کہ وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے اہل کی آلودگی گوارا کرے۔ اسی طرح بہت سے صحابہ علیھم
الرضوان اور صحابیات رضی اﷲ عنھن نے قسمیں کھائیں۔
(مدارج النبوت،قسم سوئم،باب پنجم،ازہجرت آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم،ج۲،ص۱۵۹)
حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب نبی کریم
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر آپ رضی اﷲ عنہ کو
قریش کے پاس بھیجا توقریش نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کو طواف کعبہ
کی اجازت دے دی لیکن حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کر انکار
کردیا کہ : مَاکُنْتُ لِاَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوْفَ بِہِ رَسُوْلُ
اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں اس وقت تک طواف نہیں
کرسکتا جب تک کہ رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم طواف
نہیں کرتے۔ (الشفاء ،الباب الثالث،ج۲،ص۷۰)
بے نظیر ضیافت
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی ضیافت کی اور عرض کیا: یا رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے غریب خانہ پر اپنے دوستوں سمیت تشریف لائیں اور
ماحضر تناول فرمائیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ دعوت
قبول فرمالی اور وقت پر مع صحابہ کرام علیہم الرضوان کے حضرت عثمان غنی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے چلے، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیچھے چلنے لگے اور حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک ایک قدم مبارک جو ان کے گھر کی طرف
چلتے ہوئے زمین پر پڑرہا تھا گننے لگے، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے دریافت فرمایا:اے عثمان! یہ میرے قدم کیوں گن رہے ہو؟ حضرت
عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲعزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں چاہتا ہوں کہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک ایک قدم کے عوض میں آپ صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و توقیر کی خاطرایک ایک غلام آزاد
کروں چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے گھر تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے جس قدر قدم پڑے اسی قدر غلام حضرت عثمان رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے آزاد کئے۔ (جامع المجزات،ص۲۵۷)
شاہکار تعظیم
غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے زانو
پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا: مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریمنے نماز
عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے
کہ زانو سرکاؤں تو شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک
کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریمنے
اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا
کی ،ڈوبا ہواسورج پلٹ آیا، مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریمنے نمازعصر ادا
کی،پھر ڈوب گیا اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز،وہ بھی نماز
وسطیٰ یعنی عصرمولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریمنے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے صدقہ میں ملیں۔
(الشفاء،ج۱،ص۵۹۴۔شواہدالنبوۃ،رکن سادس،ص۲۲۰)
بوقت ہجرت غارثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ گئے اپنے کپڑے
پھاڑپھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا
انگو ٹھا رکھ دیا،پھر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو
بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس
غار میں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اس نے اپنا سر صدیق اکبررضی
اﷲ عنہ کے پاؤں پر ملا انھوں نے اس خیال سے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں
کاٹ لیا جب صدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے آنسو چہرہ انور پر گرے چشم مبارک
کھلی ،عرض حال کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لعاب دہن
لگادیافوراََ آرام ہوگیا۔ ہر سال وہ زہر عود کرتا، بارہ برس بعد اسی سے
شہادت پائی۔ صدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے جان بھی سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی نیند پر قربان کی۔ (مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸)
ان ہی نکات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے اپنے ان
اشعار میں بیان فرمایا ہے:
مولا علی نے واری تری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے
اور حفظ جاں توجان فروض غررکی ہے
ہاں تونے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہو ا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
(حدائق بخشش)
ادب ِسرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
صحیح بخاری میں سہل بن سعد ساعدی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح
کرانے کے واسطے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہو ا مؤذن نے حضرت
ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں
گے تاکہ میں اقامت کہوں ،فرمایا: ہاں!اور انھوں نے امامت کی، اس عرصہ
میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صف میں
قیام فرمایا، جب نمازیوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو
دیکھا تو تصفیق کی(بائیں ہاتھ کی پشت پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس طرح
مارنا کہ آواز پیداہو،تصفیق کہلاتا ہے۔)اس غرض سے کہ صدیق اکبر رضی اﷲ
عنہ خبردار ہو جائیں کیونکہ ان کی عادت تھی کہ نماز میں کسی طرف توجہ
نہ کرتے تھے جب صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تصفیق کی آواز سنی تو
گو شۂ چشم سے دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما
ہیں، لہذا پیچھے ہٹنے کا قصد کیا اس پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ پر قائم رہو، صدیق اکبر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اس نوازش پر کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے امامت کا حکم فرمایا، اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا
کیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم آگے بڑھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ
ابو بکر! جب میں خود تمھیں حکم کر چکا تھاتو تم کو اپنی جگہ پر کھڑے
رہنے سے کون سی چیز مانع تھی عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم !ابو قحافہ کا بیٹا اس لائق نہیں کہ رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے آگے بڑھ کر نماز پڑھا ئے۔
(صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من دخل لیؤم الناس....الخ، الحدیث۶۸۴،
ج۱، ص۲۴۴) (ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |