غالب مارکیٹ میں تحریک انصاف کا جلسہ جاری تھا اور اسٹیج پر جانے کے لیے
عمران خان لفٹر پر سوار ہوئے لیکن اسٹیج پر پہنچنے سے پہلے ہی گر کر زخمی
ہوگئے۔ اس افسوس ناک واقعے کے مختلف پہلو میڈیا نے بھی اجاگر کیے اور عوام
بھی سوال اٹھا رہی ہے کہ اتنے بڑے جلسے میں طبی سہولیات کا فقدان اور
ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے انتظامات کیوں نہیں تھے۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کل کے جلسہ میں جو کچھ ہوا وہ ایک افسوس
ناک امر تھا۔ لیکن میں اس سلسلہ میں ایک مختلف بات کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ
کہ ہماری قوم کا مزاج بہت ہی محبت کرنے والا ہے کسی کو مصیبت میں دیکھ کو
خود تڑپ جاتی ہے ، کسی کے چوٹ لگے درد یہ اپنے بدن میں محسوس کرتی ہے۔
ہماری یہ محبت بلکہ حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت ہمیں لہروں کی طرح کسی بھی سمت
لے جاتی ہے۔ ممکن ہے کل تک جو لوگ عمران کے مخالف تھے آج عمران کو لگنے
والی چوٹ سے متاثر ہوکر تحریک انصاف کے حامی بن گئے ہوں۔ کل تک جو لوگ
عمران اور تحریک انصاف کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے آج وہ یہ کہتے ہوئے نظر
آرہے ہیں کہ "عمران نیا پاکستان" بنانے کے لیے اپنی جان پر کھیل گیا ہے۔
اسی قسم کی صورت حال میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی نظر آرہی ہے۔ خود تحریک
انصاف نے بھی اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے عمران خان صاحب کا
زخمی حالت میں ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹ کر انٹرویو نشر کردیا ہے جس میں وہ قوم
سے بہت اچھے انداز میں ووٹ مانگ رہے ہیں۔
یہ تمام صورت حال ہم پر یہ حقیقت واضح کررہی ہے کہ ہماری قوم کی ایک بڑی
اکثریت ووٹ دینے کے لیے کسی ٹھوس پالیسی پر نگاہ نہیں ڈالتی بلکہ کسی حادثے
کا انتظار کرتی ہے۔ کسی کے مظلوم بننےکا انتظار کرتی ہے اور جب کسی کی
مظلومیت کا یقین ہوجاتا ہے تو اسے اقتدار کے ایوان میں پہنچادیتی ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کا معاملہ تو ابھی تازہ ہے اور ہم نے بھی موقعہ
کو غنیمت جانتے ہوئے اسی واقعہ پر کالم لکھ مارا ہے لیکن قارئین سے گزارش
ہے کہ ذرا ٹھنڈے دل سے باقی سیاسی پارٹیوں پر بھی ایک نظر ڈالیے گا ! وہاں
بھی آپ کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنی مظلومیت رونا نظر آئے گا کہیں نون لیگ
اپنے اقتدار چھن جانے پر بین کررہی ہوگی تو کہیں پی پی اپنی مظلومیت پر
نوحہ کناں نظر آئے گی۔ کہیں اے این پی نے صف ماتم بچھائی ہوگی تو کہیں ایم
کیو ایم آہ و بکاء کررہی ہوگی ۔ اب تو اپنی مظلوموں میں جماعت اسلامی اور
مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ہر کوئی اپنے ہی
انداز میں اپنی مظلومیت سنارہا ہے۔
مظلوم کی حمایت کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ ایک اعلی انسانی فریضہ ہے لیکن
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں الیکشن مطلومیت کا مقابلہ نہیں
بلکہ ملک کو بہتر طور پر چلانے والوں کا انتخاب ہے لہذا اسی اصول کو مدنظر
رکھ کو الیکشن میں شرکت کریں۔ |