جہالت جتنی بھی بری شئے ہے اس کے
باوجودجہالت کی تاریکی دور ہوسکتی ہےمگرتعصب اور ضد کی دنیا میں کبھی اجالا
نہیں ہوتا۔باطل چونکہ جہالت سے زیادہ تعصب کا شکار ہوتاہے اس لئے جب ایک
طرف سے منہ کی کھاتاہے توبغیر سوچے سمجھے دوسری طرف کو منہ اٹھاکرچل
نکلتاہے۔
متعصب لوگ غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں سے عبرت حاصل کرنے کے
بجائے ان میں اضافہ ہی کرتے چلے جاتے ہیں۔ہمارے دور کے انتہائی بدبخت اور
بدقسمت لوگوں کے لئے اتناہی کافی تھاکہ وہ حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی
کےصحیح و سالم جسدِ مبارک کو دیکھ کر توبہ کرلیتے اور مزید کسی ظلم کا
ارتکاب نہ کرتے لیکن اس کے بعد متعدد مقدس مقامات کی توہین کرنا اس بات کی
دلیل ہے کہ دور کوئی ساہو اورزمانہ کوئی سا ہو اگر انسان گمراہی پر ڈٹ جائے
تو کوئی دلیل اسے راہِ راست پر نہیں لاسکتی،کوئی معجزہ اس پر اثر انداز
نہیں ہوسکتا اور کوئی کرامت اس کے دِل کو نرم نہیں کرسکتی۔
ابولہب اور ابو جہل سے سرکارِ دوعالمﷺ کی کو نسی بات پوشیدہ تھی اور سرکار
کے کرادر کا کونسا گوشہ ان سے مخفی تھا لیکن اس کے باوجود ان پر قرآن مجید
سے لے کر شق القمر تک کسی معجزے کا اثر نہیں ہوا۔
اس وقت حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی کی قبر کشائی کے بعد پوری دنیامیں
گمراہوں کے چہرے سے نقاب اتراہے اور وہ اب اپنی ذلت و رسوائی میں میں اضافے
کے لئے حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی کی کردار کشی پر اتر آئے ہیں۔حضرت
حجرابن عدی رضی اللہ تعالی کی قبر کشائی کے بعد گمراہوں کے ہم فکر ٹولے نے
انتہائی منظم اور غیر محسوس طریقے سے ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ شروع
کردیاہے۔وہ میڈیا کے مختلف حلقوں میں انتہائی میٹھے اور بھولے بھالے انداز
میں کبھی سوال و جواب کے پیرائے میں اور کبھی اپنی جیب سے حوالے دے کر
مندرجہ زیل نکات کی تیزی سےتبلیغ کررہے ہیں:۔
1۔حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں اورتاریخ
اسلام میں ان کا کوئی خاص مقام یا کردار نہیں ہے۔
2۔نعوزباللہ حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی ایک فتنہ پرور قسم کے آدمی تھے
اور آپ حضرت امام حسنؑ کو معاویہ ابن ابوسفیان سے لڑائی پر اکساتے رہتے تھے۔
ان دو باتوں کی تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یہ باور کرایاجائے کہ حضرت
حجرابن عدی رضی اللہ تعالی کی تاریخ اسلام میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور
اس طرح ان کی قبر کشائی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔
مذکورہ دونوں نکات کے حوالے سے ہم بھی دو باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔ان میں
سے پہلی بات یہ ہے کہ حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی تابعی ہی سہی، کیا
تابعی ہونا اہمیت و فضیلت سے خالی ہے۔تابعی تو دور کی بات عام سیدھا سادھا
مسلمان ہی لے لیں بلکہ ایک عام انسان ہی لے لیں اللہ کے دین میں اس کی اتنی
اہمیت ہے کہ اس کی جان کی قیمت پورے عالم بشریت کے مساوی ہے۔
دوسری بات یہ کہ حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی کے زہد و تقویٰ پر فریقین
”اہل سنت والجماعت اور شیعہ حضرات" کا اجماع ہے۔کیا وہ انسان جو فتنہ پرور
ہو وہ فریقین کی نظرمیں بالاتفاق متقی اور زاہد شمار ہوسکتاہے۔
باقی جہاں تک بات ہے حضرت حجرابن عدی رضی اللہ تعالی کے صحابی رسولﷺ ہونے
کی تواس موضوع پر اتنے زیادہ تاریخی شواہد ہیں کہ مستقل کتاب لکھی جاسکتی
ہے البتہ ہم اپنے ایمان کو جلا بخشنے کے لئے صرف چند ایک کا ذکر کر دیتے
ہیں۔
امام ِاہل ِسنت ابن اثیر جزری نے حضرت حجر بن عدی (رض) کو صحابی شمار کیاہے
اور لکھاہے کہ كان من فضلاء الصحابة وہ فاضل صحابہ میں سے ایک تھے ۔اس کے
علاوہ ابنِ کثیر، امام ِاہلِسنت کمال الدین عمر بن العدیم،امام ابن قتیبہ ،
ابن عبد البر اور امام زھبی سمیت دنیائے اسلام کے ان گنت محقیقین نے انہیں
صحابی رسول لکھاہے۔ صاحبانِ تحقیق خود سے لائبریریوں اور کتابوں کی طرف
رجوع کر کے مزید تحقیق کر سکتے ہیں۔
بہر حال پورے عالمِ اسلام کو اس گمراہ ٹولے کی سازشوں سے باخبر رہنے کی اور
اسے ٹھوس علمی جواب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دور کوئی
ساہو اورزمانہ کوئی سا ہو اگر انسان گمراہی پر ڈٹ جائے تو کوئی دلیل اسے
راہِ راست پر نہیں لاسکتی،کوئی معجزہ اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اور کوئی
کرامت اس کے دِل کو نرم نہیں کرسکتی۔
اگرچہ تعصب اور ضد کی دنیا میں کبھی اجالا نہیں ہوتا لیکن حق کا دفاع اہلِ
حق کی ذمہ داری ہے- |