بین الاقوامی زبان ……عربی
عام مسلمانوں کے توجہ کی مستحق
کائنات میں لاتعداد بولیاں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر مخلوق
کے لئے الگ بولی اپنی حکیمانہ قدرت سے وضع کی ہے۔ پھر مخلوقات میں کئی
انواع و اجناس ہیں۔ ان انواع و اجناس میں ایک ایک نوع کی کئی بولیاں اور
زبانیں مروج ہیں جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کے سامنے اظہار مافی الضمیر
کرتے ہیں لیکن بعض زبانیں علاقائی ، بعض صوبائی، بعض قومی، بعض مذہبی اور
بعض ہمہ گیر ہوتی ہیں۔ اسی آخری قسم میں عربی زبان بھی ہے۔ اس سے تو مسلموں
اور غیر مسلموں، عربوں اور غیر عربوں کا تعلق اور ربط یکساں ہے۔ کیونکہ یہ
ایسی زبان ہے جو دنیا کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ البتہ
مسلمانوں کا تعلق عربی زبان سے دین کے رشتہ سے ہے محض ایک زبان کے اعتبار
سے نہیں۔ عربی زبان فصاحت و بلاغت، اعجاز و ایجاد میں اپنی مثال آپ ہے۔
لیکن اس سے ہماری محبت فقط اس کی فصاحت وبلاغت یا دیگر خوبیوں کی وجہ سے
نہیں۔ ہمارا تعلق تو اس اعتبار سے ہے کہ یہ اﷲ جل شانہ کے آخری کلام قرآن
کریم کی زبان ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان ہے، اﷲ
تعالیٰ کے پیارے بندوں اور جنتیوں کی زبان ہے، یعنی عربی زبان صرف دنیا کی
نہیں بلکہ اس سے آگے دائمی حیات اور رب العزت کے ساتھ راز و نیاز کی زبان
ہے۔ جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عربی زبان ہماری دینی و مذہبی زبان ہے تو اس سے
ہمارا مدعا یہ نہیں ہوتا کہ دوسری تمام زبانیں غیر اسلامی اور غیر مذہبی
ہیں۔ نہیں نہیں۔ بلکہ عربی کو ہم مذہبی یا اسلامی زبان اس اعتبار سے کہتے
ہیں کہ یہ اسلام کی ترجمان ہے۔ اسلام کو سمجھنے کا آلہ ہے وحی الٰہی کی
سمجھ کا ذریعہ ہے۔ کلام اﷲ واحادیث شریفہ، فقہ، اسماء الرجال، تاریخ اسلام
اور علم العقائد کے علوم وفنون، دقائق و رموز کا خزینہ ہے اور اسلام سے
متعلق دوسرے تمام علوم کی امین ہے۔ اسلامی تہذیب وثقافت کا گنجینہ ہے۔
لہٰذا اس زبان کے مقدس اور بابرکت ہونے میں شک و تردد کا کوئی مقام نہیں۔
عربی زبان کو اگر مسلمانوں نے ، مسلم ممالک نے اور مسلم سرکردہ شخصیات
واداروں نے اہمیت نہ دی تو ڈر ہے کہ یہ قوم اسلام کے ورثہ، اسلام کی روح
اور اسلامی علوم و فنون کے ذخائر سے یکسر محروم ہوجائے۔
قرآن مجید عربی زبان میں صرف نازل نہیں ہوا بلکہ عربی کی طرف دعوت بھی دے
رہا ہے اور اس کی فصاحت وبلاغت کا عَلم بردار بھی ہے۔ اﷲ جل شانہ اس حقیقت
باہرہ کو بڑے اہتمام کے ساتھ کئی مختلف آیات میں مختلف طریقوں سے دہرایا ہے
اور بار بار ارشاد فرمایا کہ عربی ایک فصیح و بلیغ واضح اور روشن زبان ہے۔
اس میں کجی یا اونچ نیچ نہیں۔ اس کا انداز بیان غیر مبہم اور صاف ہے اور اس
سے معانی کی طرف رسد و وصول بہت ہی سہل ہے۔ عربی زبان کی فصاحت وبلاغت اور
اس کی وسعت وسہولت پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زبان کا
انتخاب ہی اس لئے اپنے کلام کے لئے فرمایا تھا کہ یہ دنیا کی کل زبانوں کے
مقابلے میں ہر حیثیت سے بہت افضل ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے عربی زبان کو
انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے بلکہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے پیدا فرمایا
تھا۔ دوسری زبانیں تو طوفان نوح علیہ السلام کے بعد رائج ہوئی تھیں مگر اﷲ
تعالیٰ کے کلام ازلی قرآن مجید کا عربی میں ہونا اس بات کی سب سے بڑی دلیل
ہے کہ تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام عربی زبان جانتے تھے۔ جبرئیل علیہ
السلام وحی عربی میں لایا کرتے تھے اور انبیاء کرام پھر اس کی ترجمانی اس
قوم کی زبان میں کیا کرتے تھے۔ اس قسم کی ایک روایت مستدرک وبیہقی میں
مذکورہے۔
امام شافعی جو بے مثال عالم و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست ادیب بھی تھے،
فرماتے ہیں کہ عربی زبان وسیع زبان ہے اوراس کے تمام لغات کا احاطہ نبی کے
سوا کسی عام انسان کے بس کا کام نہیں۔ ابن درید جمھرہ میں اور خلیل کتاب
العین میں اپنی معلومات کی بناء پر کہتے ہیں کہ عربی زبان کے کل لغات پانچ
کروڑ چھ لاکھ انسٹھ ہزار چار سو ہیں۔ ان میں تقریباً انتالیس ہزار چار سو
متروک ہیں، باقی سب مستعمل ہیں۔ پھر ان میں دو حرفی کلمات کی تعداد سات
سوپچاس اور تین حرفی کی تعداد انیس ہزار چھ سو پچاس ہے۔ چار حرفی تین لاکھ
تین ہزار چار سو اور پانچ حرفی چھ کروڑ تین لاکھ پچھتر ہزار ہیں۔ (المعجم)۔
عربی زبان کی فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (سورہ
یوسف: ۱۳)
بے شک ہم نے قرآن کو عربی میں بنایا تاکہ تم سمجھ لو۔ (زخرف:ـ ۴۳)
اور اس طرح ہم نے تمہاری طرف وحی کی، قرآن عربی میں۔ (شوریٰ: ۴۳
اور اس طرح ہم نے اس سے نازل کیا حکم، عربی زبان میں۔ (رعد: ۳۸)
اور یہ (قرآن کی) زبان ہے روشن عربی۔ (نحل: ۱۰۴)
ایک کتاب ہے جس کے آیتیں جدا جدا کی گئی ہیں، عربی زبان میں سمجھ والوں کے
لئے۔ (سجدہ: ۴۱)
اور یہ کتاب تصدیق کرنے والی ہے، (اپنے سے پہلی کتابوں کی) عربی میں ہے
تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور خوشخبری ہے نیکی کرنے والوں کے لئے۔ (احقاف: ۴۶)۔
قرآن عربی زبان میں ہے ہر کجی کے بغیر ہے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ (زمر:
۳۹)
قرآن کریم جو خالق کا کلام ہے، اس کے ان ارشادات کو پڑھ کر ہر شخص اس نتیجہ
پر پہنچ سکتا ہے کہ عربی زبان جانے بغیر قرآن فہمی وتفہیمی اور اسلام وقرآن
کی ترجمانی کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔ ایسے شخص کو یا تو آپ خوش فہمی میں
مبتلا یا (بے ادبی معاف) احمق ہی کہیں گے۔ کیونکہ جو شخص عربی کے قواعد،
محاورات، ضرب الامثال اور لغت سے ناواقف و ناآشنا ہے، وہ نہ کلام الٰہی کو
سمجھ سکتا ہے اور نہ اپنی زندگی کے لئے ہدایت ربانی حاصل کرسکتا ہے۔ چہ
جائیکہ وہ دوسروں کا پیرومرشد یا امام بنے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ پہلے
خود صحبتے با اہل دل سے مستفید ہوں پھر ان اﷲ والوں کی ہدایت کے مطابق کسی
بھی انداز میں بڑھ چڑھ کر اسلام کی خدمت کریں، اس میں اسلامی روح کارفرما
ہوگی۔ خود بھی ہدایت پائے گا، دوسروں کی بھی ہدایت کا سبب بنے گا اﷲ والوں
کی صحبت ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی عالم اور دیندار آدمی بھی مستغنی نہیں
ہوسکتا ورنہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔
صحبت صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالح تُرا طالح کند
جن لوگوں کا لادین معاشرہ سے تعلق ہو، یورپی سوسائٹی و افکار سے متاثر ہوں
اور اہل اﷲ کی صحبت سے لاتعلق ہوں، ایسے لوگوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کی
بحث و تمحیص میں نہیں الجھنا چاہیے۔ بلکہ پہلے اﷲ والوں کی صحبت سے مستفید
ہونا لازمی ہے اور اہل اﷲ تو چونکہ عربی زبان کے رموز سے واقفیت رکھتے ہیں
اس لئے وہ اس شخص کی استعداد کے اعتبار سے دینی خدمت لیں گے۔
اگر کوئی دیدہ دلیر عربی زبان میں مہارت رکھے بغیر کلام پاک کی تشریح
وتفسیر کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔
اور ایسی زیادتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ۔ ایسے لوگوں کو اہل اﷲ اور علماء
حق سے پہلے عربی زبان سے مہارت حاصل کرنا لازمی ہے۔ علمائے حق سے اس لئے کہ
معاملہ قرآن فہمی کا ہے، عربی انشاء پردازی کا نہیں۔
دنیا کی کوئی عدالت ایسے شخص کو وکالت کے فرائض انجام دینے کی اجازت نہیں
دیتی، جو قانون دانی میں ماہر نہ ہو۔ جس نے قانون پڑھا نہ ہو، اور کسی ماہر
قانون سے اس کی تصدیق وسند حاصل نہ کی ہو۔ لہٰذا لازم ہے کہ ہم کلام اﷲ کی
زبان سیکھیں تاکہ اس کے معارف کو پہچانیں اور اس کی حکمتوں، دقائق و حقائق
کو جانیں اور پھر اس کے بیان کے لئے کمر بستہ ہوجائیں اور اگر اس کے بغیر
ہم نے تفسیر بالرائے یا اردو، انگریزی کتب سے استفادہ کرکے بیان کرنا شروع
کی تو بخدا امت میں اختلاف و افتراق کے سوا ہم کچھ اور کارنامہ کبھی انجام
نہیں دے پائیں گے۔
عربی دنیا کی وہ منفرد زبان ہے جو اپنے قواعد کے اعتبار سے بھی اور لفظ اور
ہجے کے اعتبار سے بھی ایک کامل و مکمل زبان ہے اس کا کوئی لفظ بھی نہ خلاف
قاعدہ لکھا جاسکتا ہے اور نہ پڑھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی لفظ مقررہ قواعد کے
خلاف ہے تو اس کے استثناء کے بھی ضابطے موجودہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ
تقریر وتحریر میں غلطی کا امکان نہیں رہتا اور معانی کے تعین میں کوئی
ٹھوکر نہیں لگتی۔
عربی کے کمال کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ محض زبان کی درستی، اصلاح
اور حفاظت کے لئے ایک درجن سے زیادہ علوم موجود ہیں۔ مثلاً علم الصرف، علم
النحو، البیان، المعانی، البلاغۃ الإنشاء، التجوید والقراء ۃ وغیرہ۔ ان میں
ہر علم ایک بحر بیکراں ہے۔ ہر موضوع پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں اور ہر
علم کے ماہرین جدا جدا ہیں۔
عربی زبان کی وسعتوں کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اس زبان
کا ایک ایک لفظ بے شمار معانی کا حامل ہے۔ اور ایک ایک چیز کے لئے اس زبان
میں کئی کئی الفاظ مستعمل ہیں، اور ہر مفہوم کے تعین کے لئے قرائن و شرائط
موجود ہیں۔
عربی ایک بین الاقوامی زبان ہے، جو دجلہ سے بحراوقیانوس کے سواحل تک بولی
جاتی ہے۔ اس نے دنیا کی ہر زبان کو متاثر کیا ہے۔ اس کے الفاظ آپ کو دنیا
کی ہر زبان میں ملیں گے۔ اس نے ہر قوم کی ادبیات پر اپنا گہرا اثر ڈالا ہے۔
ایشیا کی زبانیں تو براہِ راست عربی کی بدولت پروان چڑھیں اور یہ سب زبانیں
اپنی ترقی کے لئے عربی زبان کی مرہون منت ہے۔ یہ کسی ایک آدھ ملک کی زبان
نہیں کہ اس سے کوئی یوں ہی نظر انداز کرسکے۔ یہ دنیا کے چھوٹے بڑے کم و بیش
بیس ملکوں کی قومی وسرکاری زبان ہے، جن میں سعودی عرب، مصر، شام، عراق،
اردن، یمن، بحرین، لیبیا، مراکش، کویت، سوڈان، تیونس، عمان، فلسطین اور
الجزائر سرفہرست ہیں۔ جب کہ تمام اسلامی دنیا کی مذہبی زبان بھی عربی ہے۔
ان ملکوں میں یہودی، عیسائی، قبطی اور دوسری غیر مسلم قومیں بھی ہیں جن کی
مادری زبان عربی ہے اور انہیں اس پر فخر بھی ہے۔
اس دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے جو آواز ہر مسلمان بچے کے کان میں
پہنچتی ہے وہ اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی صدائے دلنواز ہے اور اس دنیا سے رخصت ہونے
پر ہر مسلمان جو آخری آواز سنتاہے وہ تلقین شہادتین ہے اس کے باوجود بھی
اگر مسلمان عربی زبان سے ناآشنا رہیں تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ کیونکہ
پنجگانہ نمازوں میں بھی عربی مستعمل ہے، نہ کہ کوئی اور زبان۔
عربی زبان کی جامعیت اور اختصار کا یہ عالم ہے کہ بڑے سے بڑے مفاہیم کو چند
لفظوں میں نہیں بلکہ چند حروف میں ادا کیاجاسکتا ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت کے
لئے ہم صرف ایک مثال دیتے ہیں اس سے آپ خود اس کی جامعیت وایجاز کا اندازہ
لگاسکتے ہیں۔ آپ اردو میں کہیں گے ’’اس (ایک مرد) نے مجھے مارا‘‘۔ اس کو آپ
عربی میں کہیں گے: ضربنی فرق واضح ہے۔
غیر مسلموں نے عربی زبان میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ خود ہمیں اپنے آپ پر
شرم آتی ہے، انگلستان، امریکہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، ہندوستان اور کئی
دوسرے مغربی ممالک میں بطور خاص عربی زبان کی تدریس و تعلیم کا اہتمام
موجود ہے۔ ان ممالک میں متعدد ادارے عربی زبان میں تصنیف و تالیف اور تحقیق
وتدقیق کے لئے قائم ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ آج کے دور میں مسلم ممالک کے طلباء اور علمی تحقیق کے شغف
رکھنے والے فضلاء مجبور ہیں کہ وہ یورپ کی لائبریریوں کی طرف رجوع کریں۔
اور مغرب کے غیر مسلم اساتذہ کے تبحر علمی سے استفادہ کریں۔ افسوس کی بات
ہے کہ خالص اسلامی معلومات اور موضوعات پر کام کرنے کے لئے اس طرف رخ کرنا
پڑتا ہے۔ کیا مسلمان اب بھی موعظت وعبرت حاصل نہ کریں گے۔ کیا مسلمانوں میں
اتنی غیرت بھی نہیں؟ کیا مسلمان اتنے وسائل پیدا نہیں کرسکتے؟ مگر غالباً
اصل بات وسائل کی نہیں۔ بات ہے علمی شغف، شوق و ذوق کی اور اپنے دین سے
والہانہ محبت کی۔ اس پر مسلمانوں کو سوچنا چاہیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ
مسلمان خود اپنی اس بے مثال دینی زبان کے لئے کیا کررہے ہیں۔
ہم نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے دین کااجارہ دینی مدارس کو دیا ہوا ہے۔
ان کے وجود سے گویا ہمارا کفارہ ادا ہوجائے گا حالانکہ یہ مدارس بھی مالی
زبوں حالی، وسائل کی کمی، حکومت کی بے جا پابندیوں اور قوم کی بے توجہی کی
وجہ سے جن مسائل و مصائب کا شکار ہیں، وہ خود ایک بہت بڑاالمیہ ہے۔ ہمارے
ہاں وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحقہ مدارس عربیہ کی تعداد چند سال
بیشتر تقریباً چھوٹے بڑے ملا کر ۱۶۰۰ تھی جس میں کل طلباء کی تعداد زیادہ
سے زیادہ ۱۶۰۰۰سمجھ لیں۔ جب کہ ہائی اسکولوں میں صرف فیل ہونے والے طلبہ
اتنے ہوتے ہیں۔ جب کہ اسکولوں میں ابتدائی پانچ درجات میں تو عربی نام کی
کوئی چیز نہیں اور مڈل و میٹرک کے نصاب میں بھی ہے لیکن وہ بھی اختیاری۔
آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بار بار مختلف پیرایوں میں بیان
کیا ہے کہ ہم نے اپنے آخری کلام کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اسکی وجہ
واضح اور واشگاف الفاظ میں یہ بتلائی ہے کہ بندوں کو سمجھ میں آنے اور غور
وفکر میں آسانی ہو۔ مگر یہ بات قرآن سے تذکیر و نصیحت حاصل کرنے کے لئے ،
قرآن کی تشریح و تفسیر کے لئے نہیں۔ لیکن افسوس بعض ناسمجھوں نے قرآن سے
نصیحت حاصل کرنے کے لئے جس معمولی درجہ کی عربی سیکھنے کی ضرورت ہے، اس کے
متعلق بھی یہ پراپیگنڈہ کیا کہ یہ بہت مشکل زبان ہے اور اس کو اتنے شد و مد
سے بیان کیا کہ بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کو بھی غلط فہمی ہوگئی کہ واقعی
عربی زبان بہت دشوار ہے۔ اس بے بنیاد پراپیگنڈہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر
کیا کہ وہ سمجھ گئے کہ عربی زبان سیکھنا آسان نہیں۔ حالانکہ عربی بے حد
آسان ہے، حد درجہ قریب الفہم ہے۔ اور خصوصاً اردو جاننے والوں کے لئے تو وہ
انتہائی سہل الحصول زبان ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم اپنی بے خبری کے سبب
آسان کا نام مشکل ودشوار رکھ لیں۔ اﷲ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے
سمجھنے کے لئے قرآن کو آسان کردیا ہے۔ پس ہے کوئی سمجھنے والا (قمر: ۵۴) اس
اعلانِ خداوندی کے باوجود اگر کوئی شخص قرآن اور اس کی زبان کو مشکل کہے تو
یہ ایک بے بنیاد الزام کے سوا کچھ نہیں۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے نہ علمی مباحث میں الجھنے کی ضرورت ہے اور نہ
دور ازکار شواہد پیش کرنے کی حاجت ہے۔ بس قرآن مجید کی پہلی سورۃ الفاتحہ
پر ہی نظر ڈال لیجئے۔ اس سورۃ کی آیات سات ہیں جو پچیس لفظوں پر مشتمل ہیں،
ان میں سے ۱۲ الفاظ تو جوں کے توں ہم روز مرہ اپنی بول چال میں استعمال
کرتے ہیں۔ مثلاً الحمدﷲ رب العالمین میں حمد ، اﷲ ، رب اور عالم اور دوسری
آیت کے دونوں لفظ رحمن اور رحیم اور اسی طرح تیسری آیت کے تینوں لفظ مالک،
یوم اور دین آخری آیت میں ہدایت، صراط، مستقیم ایسے لفظ جو ہمارے روز مرہ
کا حصہ ہیں۔ یہ تو میں نے صرف ایک سورۃ کا تجزیہ کیا۔ آپ پورے کلام مجید کا
تجزیہ کریں تو یہی نتیجہ نکلے گا تو کیا پھر بھی عربی زبان مشکل ودشوار ہے۔
عربی زبان کی اہمیت اور اس ملک کے موجودہ حالات اور عربی کے ساتھ سلوک کو
سامنے رکھ کر اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ صرف
ایک عالمی زبان کا مسئلہ نہیں، دین کی فہم و تفہیم اور اسلام کی تعلیم کا
مسئلہ ہے۔ اس لئے جہاں ہم سرکاری نظام تعلیم میں بھی عربی زبان کی تدریس کے
لئے مناسب راہیں نکالیں، وہاں نجی طور پر بھی عربی کی تعلیم وترویج کے لئے
مخلصانہ سعی کرنی چاہیے، کیونکہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔
(ہفت روزہ ختم نبوت ،وماہنامہ عزمِ نو، کراچی) |