حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مشہور اور بڑے
صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم میں سے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں بدر کی لڑائی میں
میدان میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور
بائیں جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ میں اگر قوی اور
مضبوط لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مد د
کرسکتے میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ کیا مد د کرسکیں گے۔اتنے میں ان دونوں
لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، چچا جان تم ابو جہل کو پہچانتے
ہو میں نے کہا ہاں پہچانتا ہوں تمہاری کیا غرض ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے معلوم
ہواہے کہ وہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شان میں
گالیاں بکتا ہے۔ اُس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں
اسکو دیکھ لوں تو میں اس سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ وہ مرجائے یا میں
مرجاؤں مجھے اس کے سوال اور جواب پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے نے یہی سوال
کیا اور جو پہلے نے کہا تھا وہی اس نے بھی کہا اتفاقاً ابوجہل میدان میں
مجھے دوڑتا ہوا نظر آگیامیں نے ان دونوں سے کہا کہ تمھار ا مطلوب جس کے
بارے میں تم مجھ سے سوال کررہے تھے وہ جارہا ہے۔ دونوں یہ سنکر تلواریں
ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دم بھاگے چلے گئے اور جا کر اس پر تلوار چلانی شروع
کردی یہاں تک کہ اس کوگرادیا۔
(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب ۱۰،الحدیث۳۹۸۸،ج۳،ص۱۴)
گستاخی کی سزا
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک بیٹی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنھا تھیں جو اپنی بہن حضرت ز ینب رضی اﷲ تعالیٰ عنھاسے تین برس بعد پید ا
ہوئیں جبکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عمر شریف ۳۳ بر س تھی۔
اور بعض نے حضرت رقیہ کو حضرت زینب سے بڑی بتایاہے رضی اﷲ تعالیٰ عنھما۔
لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنھاسے چھوٹی تھیں۔ حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چچا ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے نکاح ہو
اتھا۔ جب سورۂ تبت نازل ہوئی تو ابولہب نے اس سے اور اس کے دوسرے بھائی
عتیبہ، جس کے نکاح میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکی تیسری شہزادی
حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنھا تھیں،سے یہ کہاکہ میری ملاقات تم سے حرام
ہے اگر تم محمد ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کی بیٹیوں کو طلاق نہ
دیدو، اس پر دونوں نے طلاق دیدی۔ یہ دونوں نکاح بچپن میں ہوئے تھے رخصتی کی
نوبت بھی نہیں آئی تھی۔ اسکے بعد فتح مکہ پر حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
کے خاوند مسلمان ہوگئے تھے مگر بیوی کو پہلے ہی طلاق دے چکے تھے حضرت رقیہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے عرصہ ہوا
ہوچکا تھا اور حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا نے دونوں مرتبہ حبشہ کی ہجرت
کی۔
(المواہب اللدنیۃ،المقصد الثانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام،ج۲،ص۶۱)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تیسری شہزادی حضرت ام کلثوم
رضی اﷲ تعالیٰ عنھا تھیں اس میں اختلاف ہے کہ ان میں اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ
عنہما میں سے کون بڑی تھیں اکثر کی رائے یہ ہے ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
بڑی تھیں۔ اول عتیبہ بن ابی لہب سے نکاح ہو ا مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ
سورۂ تبت کے نازل ہونے پر طلاق کی نوبت آئی جیسا کہ حضرت رقیہرضی اﷲ تعالیٰ
عنھا کے بیان میں گزرا لیکن ان کے خاوند تو مسلمان ہوگئے تھے جیسا کہ
گزرچکا اور ان کے خاوند عتیبہ نے طلاق دی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں آکر نہایت گستاخی و بے ادبی سے پیش آیا اور
نا مناسب الفاظ بھی زبان سے نکالے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
دعائے ضرر دی کہ یا اﷲ عزوجل ! اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط فرما
،ابو طالب اس وقت موجود تھاباوجود مسلمان نہ ہونے کے سہم گیا اور کہا کہ ا
س دعائے ضرر سے تجھے خلاصی نہیں۔ چنانچہ عتیبہ ایک مرتبہ شام کے سفر میں
جارہا تھا اس کا باپ ابو لہب باوجود ساری عداوت اور دشمنی کے کہنے لگا کہ
محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعائے ضرر کی فکر ہے،قافلے کے سب
لوگ ہماری خبر رکھیں۔ایک منزل پر پہنچے وہاں شیر زیادہ تھے ،رات کو تمام
قافلے کا سامان ایک جگہ جمع کیا اور اس کا ٹیلا سا بنا کر اس پر عتیبہ کو
سلایا اور قافلے کے تما م آدمی چاروں طرف سوئے۔رات کو ایک شیر آیا اور سب
کے منہ سونگھے اسکے بعد ایک جست لگائی اور اس ٹیلے پر پہنچ کر عتیبہ کا سر
بدن سے جدا کر دیا، اس نے ایک آواز دی مگر ساتھ ہی کام تمام ہوچکا تھا۔ بعض
مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ مسلمان ہوچکا تھا اور یہ قصہ پہلے بھائی کے ساتھ
پیش آیا۔ بہر حال حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے پہلے
شوہروں میں سے ایک مسلمان ہوئے دوسرے کے ساتھ یہ عبرت کا واقعہ پیش آیا۔
(المرجع السابق،ص۶۲)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |