قطبی ریچھ دنیا کا سب سے بڑا خونخوار جانور ہے لیکن اب اس
کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خطرہ ہے۔ یہ پیشن گوئی قدرت کے تحفظ کی بین
الاقوامی یونین کے قطبی ریچوں سے متعلق ورکنگ گروپ کے رکن، آرکٹک میں واقع
روسی نیشنل پارک "ورانگیل جزیرہ" کے نائب سربراہ Nikita Ovsiannikov نے کی
ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سن دو ہزار تیس تک آرکٹک میں قطبی ریچھ نہیں رہیں گے۔
|
|
آج روس میں پانچ سے سات ہزار قطبی ریچھ پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں ان کی کل
تعداد تقریبا" بیس ہزار ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق قطبی ریچوں کی تعداد میں
کمی ہو رہی ہے کیونکہ ان کی شرح پیدائش زیادہ نہیں جبکہ ان کے بچے بڑی
تعداد میں مر جاتے ہیں۔ قطبی ریچوں کو عالمی حدت میں اضافے سے سنگین خطرے
کا سامنا ہے۔ آرکٹک میں جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے اس لیے ان علاقوں کا رقبہ
کم ہو رہا ہے جہاں قطبی ریچھ صدیوں سے رہتے ہیں، نیکیتا اوسیانیکوو نے "صدائے
روس" سے گفتگو کرتے ہوئے کہ۔
موصوف نے کہا: "فرض کریں کہ بہترین زرخیز زمین ہر سال سیلاب کے نتیجے میں
زیر آب آ جائے اور انسانوں کو ہر سال پہاڑوں پر سیلاب سے پناہ لینی پڑے اور
پھر واپس آ کر دوبارہ کاشت کاری کرنی پڑے۔ آج قطبی ریچھ اپنی آبائی برفانی
علاقوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سو سالوں کے دوران آرکٹک میں جمی
ہوئی برف کے رقبے میں تیس فی صد کمی ہو چکی ہے"۔
|
|
تاہم قدرتی اعمال کے علاوہ قطبی ریچھ کو انسانوں یعنی لائسنس کے مطابق شکار
کرنے والے افراد اور ناجائز شکاریوں سے بھی خطرہ ہے۔ روس میں قطبی ریچھ کے
شکار پر پابندی عائد ہے جبکہ امریکہ، کینیڈا کے شمالی علاقوں اور گرین لینڈ
میں آباد مقامی قوموں کے لوگ روایتا" قطبی ریچھ کا شکار کرتے ہیں تاکہ اس
کی کھال حاصل کریں۔ انٹرنیٹ میں ایک کھال کی قیمت تین سے پچاس ہزار ڈالر ہے۔
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ قطبی ریچھوں کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کئے
جانے کی ضرورت ہے لیکن ایسا کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ قطبی ریچھوں کے کمرشل
استعمال میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں اور شخصیات کی تعداد کم نہیں۔
|
|
حال ہی میں کینیڈا اور ڈنمارک نے یورپی یونین کی حمایت سے قطبی ریچھ کو
صفحہ ہستی سے مٹنے والے جانوروں اور پودوں کی تجارت سے متعلق بین الاقوامی
کنوینشن میں شامل کئے جانے کے خلاف آواز بلند کر دی ہے جبکہ اس تجویز کا
مقصد قطبی ریچھ کی کھالوں کی اسمگلنگ روکنا تھا۔ خیال رہے کہ کینیڈا آرکٹک
سے ملحقہ واحد ملک ہے جہاں قطبی ریچھ کا شکار کئے جانے کی اجازت ہے حتی کہ
اس کے کوٹوں کی فروخت ہوتی ہے۔ اس سے قطبی ریچھوں کی کھالوں کی مانگ میں
اضافہ ہوتا ہے اور ریچھوں کو درپیش خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو کر قطبی ریچھوں نے ساحلی علاقوں میں
منتقل ہونا اور انسان کے نزدیک آنا شروع کر دیا ہے۔ یوں شکاریوں کو آسانی
مل گئی ہے۔ نیکیتا اوسیانیکوو کا خیال ہے کہ مصیبت میں پھنسے ہوئے جانور کو
مارنا جرم ہے۔ موصوف کو یقین ہے کہ اگر سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو آج سے
ایک سو سال بعد قطبی ریچھ صرف چڑیا گھروں میں ہوں گے۔
|
|
آرکٹک میں واقع روس کے ورانگیل جزیرے میں قطبی ریچھوں سے متعلق صورت حال
اتنی تشویش ناک نہیں۔ یہاں بہت زیادہ ریچھ پائے جاتے ہیں کیونکہ روس میں
قطبی ریچوں کی حفاظت کے لیے تدابیر گزشتہ ساٹھ سال سے اختیار کی جا رہی ہیں۔
روس قطبی ریچھوں کے شکار پر پابندی عائد کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔
تاہم قطبی ریچھوں کے تحفظ کے لیے شکار پر پابندی لگانے کے علاوہ آرکٹک کے
ماحولیاتی حالات کا بھی خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ آرکٹک میں صنعتوں کو فروغ
دیتے ہوئے ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی جانی چاہئے جس سے ماحول آلودہ نہ ہو
اور دنیائے حیوانات و نباتات کو نقصان نہ ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح
پر قطبی ریچھوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
|