ڈاکٹر طاہر القادری کتابیں لکھتے لکھتے ہمارے لیے ایسی کتاب بن گئے ہیں جس کے
ایڈیشن آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں اُن کا تیسرا ایڈیشن منظر عام پر آیا جب وہ
کینیڈا سے پَلٹے۔ اِس ایڈیشن میں خاصے ضمیمے جُڑے ہوئے ہیں۔ تازہ ترین ضمیمہ اُن کا
لندن سے لاہور پہنچنا ہے تاکہ پولنگ کے دن مُلک بھر میں دھرنے دیکر انتخابی عمل کی
خرابیوں پر احتجاج کیا جاسکے۔
مرزا تنقید بیگ کا شُمار ڈاکٹر صاحب کے شدید ترین ”متاثرین“ میں ہوتا ہے یعنی اُن
پر فِدا ہیں، فریفتہ ہیں۔ ممدوح کا ذکر چھڑتے ہی مرزا میں جناتی قسم کا ولولہ پیدا
ہو جاتا ہے۔ اپنے ”ہیرو“ سے متعلق تحفظات سُن کر وہ ہم سے ایک بار ایسے خفا ہوئے کہ
پندرہ دن بات نہیں کی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اُس نے ہمیں مرزا سے بچنے کا
کارگر نُسخہ سُجھایا! خیر، مرزا بھی کم چالاک نہیں۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ معاملہ
طُول پکڑ رہا ہے تو از خود نوٹس کے تحت خود ہی مَن گئے اورایک دن ہم سے مِلنے
آدھمکے! کچھ دن بعد ہم نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں چند تحفظاتی ریمارکس دیکر مرزا کو
پھر ناراض کردیا۔ اُن کے رُوٹھے رہنے کا ایک اور پندرہ روزہ دور چلا۔ مگر ہماری کون
سی خوشی زیادہ دن رہی ہے جو یہ رہتی؟ ہمارے کِسی بدخواہ نے اُن کے کان بھرے کہ
باتوں میں نہ آیا کریں، آپ کو جان بوجھ کر ناراض کیا جارہا ہے! وہ دِن ہے اور آج کا
دِن، اپنے ممدوح سے متعلق ہمارے تحفظات سے مرزا نہ صرف یہ کہ پریشان نہیں ہوتے بلکہ
اپنی بات منوانے کے لیے ڈٹ جاتے ہیں!
دسمبر میں کینیڈا سے ”شیخ الاسلام“ کی آمد ایسی ہیبت ناک تھی کہ مخالفین پر سکتہ سا
طاری ہوگیا! بہت سے متعرضین تو اُن کی ایک آدھ تقریر ہی سے انٹا غفیل ہوگئے! ڈھائی
تین ماہ سے عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو الٹی میٹم سے شروع ہوکر الٹی میٹم پر
ختم ہوتی ہے۔ وہ جیسے ہی میدان میں آتے ہیں، قیاس آرائی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
جنوری میں لانگ مارچ کے ذریعے ڈاکٹر صاحب نے سیاسی تالاب میں خاصا بڑا پتھر پھینکا
تھا۔ سبھی کو بولنے اور لِکھنے کے لیے موضوع مل گیا۔ اُن کی تقاریر سے فلم اور ٹی
وی کے مکالمہ نگاروں کی تو چاندی ہوگئی! لانگ اور دھرنے کے دوران کئی ایسے منظر
نامے تخلیق ہوئے کہ شوبز والے استفادہ کریں تو ہٹ فلمیں اسکرین کی زینت ہوں!
اِتنا تو ہم بھی کہیں گے ڈاکٹر صاحب خاصی تیاری کے ساتھ میدان میں اُترتے ہیں۔ اِسی
بات کو ذرا کینیڈا اور امریکا تک گھماکر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اُنہیں اچھی طرح
تیار کرکے میدان میں اُتارا جاتا ہے! شُنید ہے کہ دسمبر کے آخر میں پاکستان واپسی
قبل اُنہوں نے تین ہفتے واشنگٹن میں گزارے۔ گورے بہت پَکّے ہیں، ایک آنچ کی بھی کسر
نہیں رہنے دیتے۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ معمولی وائرس پورے سوفٹ ویئر کا تیا پانچا
کردیتا ہے! گورے رات دن ہمارے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ سوچ کہیں کم نہ پڑ جائے
اِس خیال سے احتیاطاً اُنہوں نے چھوٹا موٹا پتیلا یا ڈرم نہیں بلکہ سوچ کے پورے
ٹینک بنا رکھے ہیں!
جب سبھی ہاتھ دھوئے بغیر ”شیخ الاسلام“ کے پیچھے پڑگئے تو مرزا بہت جُزبُز ہوئے۔
اپنے ”مرشد“ کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے اور تجزیے پڑھ کر اُن کا پارہ ایسا چڑھا
کہ ہفتوں نیچے نہ اُترا! ہم نے سبب پوچھا تو بولے۔ ”ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ روتے رہتے
ہیں کہ کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ اور اگر کوئی از خود نوٹس کے تحت راہ نمائی کے
لیے وارد ہو تو اُس میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔“
ہم نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب کو انقلاب ونقلاب کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ عِلمی
آدمی ہیں، عِلمی کام کریں۔ سیاست جیسی فضول مشق کے لیے اِتنے بہت سے لوگ ہیں تو
سہی۔ مرزا یہ سُن کر ہم پر برس پڑے۔ ”ڈاکٹر صاحب کے عِلمی تبحر کا سامنا کرنے کی
ہمت کِسی میں نہیں۔ غامدی صاحب نے کچھ مُنہ دینے کی کوشش مگر اپنا سا مُنہ لیکر رہ
گئے۔ تم اِس لیے ڈر رہے ہو کہ کہیں ڈاکٹر صاحب کے سامنے تمہارے پسندیدہ چراغ گل نہ
ہوجائیں!“
ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا جناب! قیادت کوئی ایسا منصب نہیں جو از خود نوٹس کے تحت
حاصل کیا جائے۔ قوم جسے مُنتخب کرتی ہے وہ قائد بنتا ہے۔ مرزا کا جواب تھا۔ ”تمہیں
کیا معلوم قیادت کیا ہوتی ہے۔ جو پیدائشی قائد ہو وہ کیا اِس بات کا محتاج ہوگا کہ
کوئی اُسے منتخب کرے؟“
ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ ڈاکٹر صاحب اِسی سسٹم کا حصہ رہ چکے ہیں پھر کیوں اِس
کے خلاف میدان میں آئے۔ جس انتخابی نظام کی خامیوں کا رونا رو رہے ہیں اُسی کے تحت
اُنہوں نے 2002 کا الیکشن لڑا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
مرزا نے خاصا بُرا منہ بناتے ہوئے کہا۔ ”ایک تو یہ بڑی مشکل ہے کہ تم بے دِماغ ہوتے
ہوئے بھی بڑی بڑی باتیں کرنے کی کوشش کرتے ہو! ڈاکٹر صاحب نے کوئی غلطی کی تھی تو
کیا لازم ہے کہ دُہرائیں؟ جب اِنسان میں شعور کی سطح بلند ہوتی ہے تو وہ اپنی
اِصلاح کرتا ہے، تمہاری طرح کالم نگاری نہیں کرتا رہتا!“
ہم نے مرزا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں سُوئے ظن رکھنے کی ہم
میں ہمت نہیں۔ ہم تو معاشرے اور میڈیا کی بات کر رہے ہیں۔ مرزا کا جواب تھا۔ ”میڈیا
والوں کو تو بُھوسے میں چنگاری ڈالنے کا موقع ملنا چاہیے۔ قربانی کا جانور نالے میں
گر جائے تو میڈیا والے لائیو کوریج کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔“
ہم نے یاد دلایا کہ قوم یہ گمان بھی کرتی رہی کہ نامعلوم ذرائع نے ڈاکٹر صاحب پر
خطیر رقوم خرچ کرکے ”کمپنی کی مشہوری“ کا اہتمام کیا۔ مرزا کا پھڑکتا ہوا جواب تھا۔
”جلنے والے ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں۔ ویسے اُنہوں نے کچھ خرچ ہی کیا ہے، لُوٹا
تو نہیں۔ کیڑے نکالنے والی قومیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ قیادت فریضہ ہے۔ کِسی کو فریضہ
ادا کرنے سے روکنے کے عذاب پر کبھی ہم نے غور کیا ہے؟“
ہم نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب کو قیادت کی دعوت ہم نے کب دی تھی، وہ تو خود چلے آئے۔
مرزا نے تقریباً پُھنکارتے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ ”اب کیا ڈاکٹر صاحب اِس بات کے
محتاج ہیں کہ کوئی اُنہیں مدعو کرے؟ وہ سمندر نہیں کہ اپنے ساحل پر کِسی کی آمد کا
انتظارکریں۔ قائدین تو دریا کی طرح ہوتے ہیں جس کا کام بہنا اور جہاں تہاں پہنچنا
ہے۔“
مرزا سانس لینے کو رُکے تو ہم نے موقع غنیمت جان کر عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے آتے
ہی عجیب و غریب بیانات داغنا شروع کردیا۔ اُنہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ قوم کیا
سُننا چاہتی ہے۔ مرزا نے فوراً ہمیں جھڑک دیا۔ ”قوم کیا چاہتی ہے؟ اِسے ہنگامہ
آرائی، احتجاج، جلسوں، جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنوں ہی سے تو محبت ہے نا۔ اگر
ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی لانگ مارچ کیا اور دھرنا دیا تو حیرت کیسی؟ اِس سے تو یہ ثابت
ہوتا ہے کہ کینیڈا میں پانچ چھ سال رہنے کے بعد بھی اُن میں ”کینیڈیت“ پیدا نہیں
ہوئی! اور کیا چاہیے؟ اب کیا اُن کی جان لوگے؟“
ہمیں چُپ سی لگ گئی۔ عوامی تھیٹر کی زبان میں کہیے تو بولتی بند ہوگئی! کہتے بھی
کیا؟ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے ہم ویسے بھی ڈرتے ہیں۔ پتہ نہیں کب،
کیسا فتویٰ جاری کردیں؟ ووٹ ڈالنے کو اُنہوں نے گناہِ کبیرہ قرار دے دیا ہے۔ ہم
اللہ کا شُکر ادا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ووٹ ڈالنے کی صورت میں نکاح فسخ ہونے کی
بات نہیں کہی! اگر وہ پولنگ کے خلاف اپنے دھرنوں میں شریک نہ ہونے والوں کو اسلام
کے دائرے سے خارج قرار دے دیتے تو ہم کیا بگاڑ لیتے!
ڈاکٹر صاحب وعدے کے پَکّے اور سَچّے ہیں۔ پولنگ کے دن دھرنے دینے کا اعلان کیا تھا
اِس لیے لندن سے آگئے۔ نئے نظام کا خاکہ اُنہوں نے بغل میں داب رکھا ہے۔ کہتے ہیں
کہ جب سڑے ہوئے، فرسودہ نظام کا بھیانک انجام قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی تب وہ
نیا نظام پیش کریں گے۔ ایک انوکھا نُکتہ یہ بیان کیا کہ اِس بار حکومت سازی ہی نہیں
بلکہ اپوزیشن کی تشکیل کے لیے بھی ہارس ٹریڈنگ ہوگی! مزید فرماتے ہیں کہ نظام کو
بغاوت کی قوت کے ساتھ تبدیل کرنا ہوگا۔ اُن کی باتیں ایک بار پھر بُھوسے کو چنگاری
دِکھاتی محسوس ہو رہی ہیں۔ اِس قوم کا بُھوسا کم ہوتا ہے نہ چنگاریاں! |