لوک ادب

یو ں تو لفظ ’’ لوک‘‘ سے مرا د انسان، آدمی، بشر، لوگ ،مرد، عالم ارواح، دنیا، عالم، جہان ہوتے ہیں،لیکن اردو ادب میں لوک ادب سے مراد نچلے طبقے کے ذریعہ خلق کیاگیا وہ ادب ہوتا ہے جس کا تعلق قدیم قبائلی نظام اور اس میں موجود رسم و رواج ، بولی ٹھولی، تیج تہوار اور مذہبی رسومات وغیرہ سے ہو۔

لوک ادب انسان کے ذہنی ار تقا کا علامیہ ہے ۔تو ہمات کو ذہنی ارتقا میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور ان توہمات سے ابھر نے والے احساس اور آزادی کی جستجو نے لوک ادب کو جنم دیا ۔لوک ادب سے موضوعات کا تعین ایک مشکل کام ہے، لیکن ہمارے دائرہ نظر میں جو موضوعات ہیں، ان میں کائنات کی تکوین، اس کے نظم و ضبط،دیوتاؤں کی پیدائش، انسان کی تخلیق ، دیوی دیوتاؤں کی محبت، نفرت،بے پناہ عشق رقابت، بغض،کینہ، عناد، سازشیں اور عذاب و عتاب وغیرہ شامل ہیں۔

لوک ادب کی ابتدا انسانی زندگی کے ارتقا کے ساتھ ہوئی ، لوک ادب انسانی وجو د کے طویل عرصے پر پھیلے ہوے احساسات اور تجرباتی سفر کی روداد ہے۔ ایک طویل عرصے تک یہ سب کچھ سینہ بہ سینہ چلتا رہا۔ تحریر کی صورت اس وقت ممکن ہوئی جب رسم الخط وجود میں آیا۔

لوک ادب کسی نہ کسی تاریخی، تہذیبی، سماجی اور لسانی پس منظر کا حامل ہوتا ہے ۔ سماجی پس منظرکے طورپرحیرت انگیز،محیرالعقول اور دلچسپ واقعات و حکایات کو اپنے اندر سمیٹے ہوتاہے جس کے سہارے ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر قدیم سماجی وتاریخی حقائق کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ انسانی معاشرے کے فکر ی واخلاقی ارتقا وزوال کا اندازہ بھی لوک ادب کے توسط سے لگایا جاسکتا ہے ۔لوک ِادب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کسی قسم کی بنیادی تبدیلی یا ترمیم واضافے کوشاذہی روارکھتا ہے اس لیے سیکڑوں ، بلکہ ہزاروں سال گزرجانے کے باوجود ان کی شکل وصورت اس حد تک کبھی نہیں بدلتی کہ اصل شناخت ناممکن ہوجائے ۔لوک ادب کی یہ خوبی قوموں کی تاریخی ،ثقافتی ، معاشرتی ،فکر ی ،فنی ،لسانی اور ادبی خصوصیات کی بقا میں معاون ہوتی ہیں ۔ کسی بھی زبان میں لوک ادب کے سرمایے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔لوک ادب انسان کا دہ سر مایہ ہے جو اس کی زندگی کو اس کے ادبی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے اظہار سے ملتاہے ۔ سماج کے نشیب و فراز ، اس کے نظام ترکیبی اور اس کی گنگا جمنی بو قلموں کیفیتوں کو جس طرح لوک ادب ظاہر کرتا ہے وہ اس کی اہمیت کا ثبوت ہے ۔

دیگر ہندوستانی زبانوں کی طرح اردو کی بھی عوامی جڑیں ہیں اور اس کا دامن عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والے لوک ادب کی روایت سے مالا مال ہے ۔ اردو زبان کی تشکیل ہی مختلف قوموں کے با ہمی میل جول اور اجتماعی ارتبا ط کا نتیجہ ہے ۔

اردو معاشرے میں بھی اپنی ماؤں سے لوریاں سنی جاتی رہیں ،ان کی ولادت پرگیت بھی گائے گئے۔ سردیوں کی کپکپاتی اور ٹھٹھرتی راتو ں میں ان کی دادیوں اور نانیوں نے کہانیاں بھی سنائیں ۔ ان کی گھر یلو تقریبات میں ڈھولک کی تھاپ پر کنوار یوں اور شادی شدہ عورتو ں نے گیت بھی الاپے ۔ ڈومنیوں نے انکی شادی بیاہ کے موقع پر شادیا نے بھی بجائے۔ البیلے موسموں نے ان کے دلوں میں ترنگ بھی پیدا کی ۔ انہوں نے ساون میں جھولا بھی جھولا ۔ صدیوں سے ہندوستانی معاشرے میں یہ سب ہوتا آیاہے ۔ شمالی ہند میں اردو اور ہندی کا علاقہ مشترک رہا ہے ۔ دونوں ایک زمین ، ایک جیسی تہذیب، مشترک آب وہوا کی پر ور دہ ہیں ۔ اردو اور ہندی بولنے والوں کی آبادی اکثر ملی جلی رہی ہے،اس لیے اردو اور ہندی کے لوک ادب ،لوک گیت ، لوک قصوں ،لوک کہانیوں اورلوک کہاوتوں کا بہت بڑا سرمایہ مشترک ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر علاقے کے لوک ادب کو اس علاقہ کی بولیوں اور تہذیبی و تاریخی حقائق نے متاثر کیا ہے ۔

1857ء میں جب انگریزوں کے خلاف با غیانہ جذبات کی آگ پھیلی تو عورتوں کے دلوں میں بھی وطن دوستی کے جذبات جاگ اٹھے اور انہوں نے اپنی جرأت اور شجاعت پر مبنی شاعر ی لوک ادب کے رنگ میں گائیں، جن میں ان کی بہادری اور طاقت و ہمت کی داستانیں بیان کی گئی ہیں ۔ تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے اجتماعی جوش و خروش کی ترجمانی کے لیے جو عوامی گیت لکھے گئے،وہ لاکھوں انسانوں کے دلو ں کی دھڑکن بن گئے ۔ ’’آب حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے بھی لوک گیتوں کا ذکر کیا ہے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک موقع پر لکھا ہے:
’’ ممکن ہے میرے آرٹ کی شاہکارنظمیں فراموش ہو جائیں، لیکن میرے گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ‘‘

ٹیگور کے گیتوں کی ہمہ گیر مقبولیت کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے بنگال کے عوام کی من موہنی دھنوں میں اپنے گیتوں کوڈھا لا ہے ۔ اردولوک ادب میں بھی ہر موقع کے گیت،ہر تقریب کے گیت ہمارے جذباتی رشتو ں اور تہذیبی قدروں کی آئینہ دار ہیں۔ ارد و اور ہندی لوک گیتوں کی بعض دوسری اصناف میں بھی بڑا وقیع سر مایہ موجود ہے ۔ مثال کے طور پر ’’بارہ ماسہ چکی کے گیت، ساون کے گیت، دو ہے،چہار بیت،د کھڑے اور زاریاں‘‘ وغیرہ سیکڑوں ایسی اصناف دیہی علاقوں میں مشہور و مقبول ہیں ۔ان کا مقصد کسی قریبی عزیزیا دوست کی موت پر بین کرنا ہوتا ہے ۔’’ زاریاں‘‘موت کے علاوہ دوسری طرح کی مصیبتوں اور دکھ درد کے موقعوں پر بھی عورتیں تنہا یا مل کر گاتی ہیں۔ ’’چہار بیت ‘‘پشتو علاقے کی دین ہے ،یہ ناخواندہ قبائلی افغانی پٹھان فوجیوں ، روہیلوں کے نغمے کی صورت میں پشتوزبان سے اٹھارہویں صدی میں اردو میں آئی تھی اور شمالی ہندوستان میں متعارف کرائی گئی تھی اس کا رواج یوپی کے علا قوں مثلاً رام پور ، شاہ جہاں پور، بچھرا یوں،سنبھل، امروہہ، مرادآباد، روہیلکھنڈ، راجپوتانہ،مدھیہ پردیش، بھوپال، آندھرا پردیش اور خاص طور سے راجستھان ٹونک وغیرہ میں رہا ہے اور مشرقی بہار کے اضلاع پورنیہ، ارریہ، کشن گنج، کے تعلیمی اداروں میں اس صنف کو جہاں ادبی مقام حاصل ہے وہیں دہقانی زندگی میں یہ ثقافت کا پیش خیمہ بھی ہے۔چہار بیت شعری محفلوں میں لوگ اجتماعی طور پر کورس کی شکل میں گاتے ہیں اور دف بجا تے ہیں اور جوش و خروش کے عالم میں اچھلتے ، کودتے اور ناچتے گاتے ہیں ۔

لوک ادب میں عوام کی زندگی، سوجھ بوجھ اور طرز فکر کا عکس صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس میں جہاں ایک طر ف پیروں،فقیروں، سوداگروں، کسان، مزدوروں اور شریف گھرانے کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہیں دوسری جانب’’ چورا چکے ، لچے ،لفنگے، چرسیے اور بھڑوے بدمعاش‘‘ بھی ملتے ہیں ۔ لوک ادب میں عام لوگوں کے خیالات کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ ہزاروں سال سے انسانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ بنی ہوئی ہے ۔ انسانی سماج کو ہر سطح پر اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے ۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ لوک ادب کو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے ۔یہ ایک طرح سے زندگی کے متعلق عوامی فلاسفی یا عوام کے تصورات کا مظہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ان میں تبصرہ یارائے زنی ہوتی ہے ۔لوک ادب میں عوامی کلچر اورعوامی طرز فکر کے سارے ہی پہلواس خوبی سے سمٹ آ تے ہیں کہ اگر کوئی پوری قوم فنا ہو جائے اور لوک ادب باقی رہ جائے تو اس گمشدہ تہذیب کے بیشتر عناصر کو اس کے توسط سے دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ ان کے وسیلے سے کی جانے والی بازیافت میں تہذیب کی زیریں سطح یعنی عوامی کلچر کو ہی نمایا ں حیثیت حاصل ہوگی ۔ کیونکہ لوک ادب نہ صرف عوامی کلچر کی بطن سے جنم لیتا ہے ، بلکہ اس کلچر کی تشکیل ، تعمیر اور اس کے انضباط واستحکام میں بھی اس کا رول بہت اہم ہو تا ہے ۔ یہ ادب عوامی اور اجتماعی ہو تا ہے ، اسے عوام اپنے مروجہ عقائد اور رسم ورواج ، تہذیبی تصورات اور اجتماعی نفسیات سے قریب پاتے ہیں ۔ اسی طرح لوک ادب مختلف ادوار کے عام انسانی سماج کے رسم ورواج ،عقائد وافکار اور تجربات ومشاہدات کا آئینہ دار ہے ۔ ہندوستانی سماج کے طبقاتی نظام ،نسلی امتیاز، امیری وغریبی کا فرق ، آپسی بھید بھاؤ اور ذات پات کی تفریق یاپابندی سے متعلق عوامی رد عمل کو بھی اس میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے لوک گیتو ں میں سادگی ،بر جستگی ،معصومیت ،بے لوث اپنائیت اور سچائی پنہاں ہوتی ہیں ۔یہ تصنّع سے دور خلوص وجذبات میں رچے بسے گیت، جب کسی کی سماعت سے ٹکراتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے عقائد ، نظریات ،زبان، ذات پات ، دولت ، غربت ،آسودگی وافسردگی کی بھی دیوار ڈھے جاتی ہے اور انسان ان تمام بندشوں سے آزاد خالص انسا نیت کے اعلی مقام کو چھونے لگتا ہے۔ قومی یکجہتی کی یہی روح ہے جو ان گیتوں میں سمائی ہوئی ہے ۔

لوک گیت لوگوں کے دلوں کی گہرائی سے نکلے وہ جذباتی بول ہیں جو شعری ولسانی ضابطوں اور پابندیوں سے آزاد ہیں ،لیکن پھربھی ان میں ایسالحن اور ُسرہوتا ہے جو سننے والے کو نہ صرف مسحور کرتا ہے بلکہ متاثر بھی کرتاہے۔

لوک ادب اپنے اندر سماجی ،معاشی ،معاشرتی اور تہذیبی قدروں کی ایک وسیع دنیاآبادکیے ہوئے ہے ۔یہ گیت ہماری تہذیب ،رسم ورواج،عقائد اور رشتوں کا جامع انسائیکلوپیڈ یاہیں ۔ان گیتوں کی زبان خواہ کتنی ہی کھردری کیوں نہ ہو، الفاظ اور لہجے میں خواہ کتنا ہی عامیانہ پن ِکیوں نہ جھلکتا ہو ،ادائیگی میں خواہ کتنی ہی بد سلیقگی کیوں نہ ہو ،لیکن ان میں جن جذبات کا اظہار ملتا ہے ،ان میں امنگ ،جوش ،ولولہ ،مثبت وتعمیری فکر اور سا لمیت و یکجہتی کی لہریں ملتی ہیں ۔

اردو میں لوک ادب کا اچھاخاصاذخیرہ موجود ہے۔ ضرورت ہے اس کی تلاش وتحقیق کی ۔لوک ادب کے بارے میں بر صغیر ہی نہیں، بلکہ یورپ کے ادیبوں اور نقادوں نے انیسویں صدی تک ہتک آمیزرویے کا مظاہرہ کیا اور اسے جاہل گنوار وں کی تک بندی اور خرافات کا نام دیا ۔حالانکہ مطالعہ اور مشاہدہ کی بنیادپرکہا جاسکتا ہے کہ لوک ادب میں مثالی زندگی گزارنے کے ساتھ معرفت حاصل کرنے کی باریکیاں بھی موجود ہیں موجودہ دور میں ضرورت ہے کہ اپنے لوک ادب پر خاص توجہ دی جائے ،اس کے سرمایے کو محفوظ کیا جائے تاکہ تصرف میں لا کر دوسری اصناف کے دامن کو معمور ومنور کرسکیں جس میں اردو کی ادبی تاریخ کی سرزمین اور زیادہ زر خیز اور وسیع ہو سکے۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 131871 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More