ہندو ستان کی سرزمین پر بادشاہ
آئے، سیاح آئے ، سوداگر بھی آئے لیکن سب کی تمنائیںاور خواہشیں مختلف تھیں۔
کوئی ملک گیری کا جذبہ لے کر آیا۔ کوئی سامان تجارت فروخت کرکے نفع حاصل
کرنے کے لیے آیا لیکن اسی سرزمین پر میرے خواجہ سلطان الہند عطائے رسول
تشریف لائے تو نہ فوج لائے نہ سامان تجارت لائے بلکہ بے قرار انسانوں کے
لیے قرار کی ابدی دولت لے کر آئے ۔ امن و شانتی کا پیغام لائے۔ انسانوں سے
کچھ لینے نہیں بلکہ انسانوں کی زندگیوں کو دارین کے سکون سے بہرہ ور کرنے
کے لیے تشریف لائے۔ آپ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ غموں کا علاج نہایت
ہی مخلصانہ انداز میں کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کی فضاصدائے اللہ
اکبر سے گونج اٹھی۔ اور کفر و ضلالت کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کو محسوس
ہونے لگا کہ اس درویش کے اخلاق وعادات اور جذبۂ خیر خواہی بتارہی ہے کہ یہ
سچا ہے، اس کا پیغام سچا ہے ۔ چنانچہ قلیل مدت میں لاکھوں انسانوں نے اپنے
قلب وجگر کو توحید کی شمع سے منور کرکے اپنی آخرت کو سنوارا۔ آج سلطان
الہند کی بارگاہ سے ہمیں یہی پیغام مل رہا ہے کہ موجودہ دور کی بے قراری کا
علاج نہ مال وزر کی ذخیرہ اندوزی میں ہے ،نہ تخت وتاج کے حصول میں ہے ، نہ
عالیشان محلوں میں بے قراری و بے چینی کا علاج ہے بلکہ اسلام کے آفاقی
پیغام پر عمل اور اس کو عام کرنے میں ہے۔ اس لیے آئو ہم بھی اسلام کے
پیروکار بنیں اور اپنے وجود پر اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کے فرمان کو نافذ کریں اور حسنِ اسلام کو اپنے کردارو عمل سے
انسانوں کے سامنے اُجاگر کریں ۔ان شاء اللہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔
آج ضرورت ہے کہ لوگوں کے دکھ درد وغم میں شریک ہواجائے ۔ان کے لیے جذبۂ خیر
خواہی دل میں پیدا کریں اور نہایت ہی اخلاص کے ساتھ مخلوق خدا کی خدمت ان
سے بغیر کسی اجرکی امید رکھتے ہوئے کریں اور اجر کی امید صرف اورصرف اللہ
رب العزت سے رکھیں۔ ان شاء اللہ دارین کی سعادتیں میسر ہوں گی اور لوگوں کو
اصلی اسلام کا چہرہ دیکھنے کا موقع میسر بھی ہوگا پھر اسلام پر اعتراضات
کرنے والوں کو شکست ہوگی اوراہلِ دنیا اپنی بے قراری اور بے چینی کا علاج
اسلام میں تلاش کریں گے اور اسلام اسلام اسلام ہی ہر طرف نظر آئے گا ۔سلطان
الہند کے عرس کے موقع پر اس فقیر کا پیغام یہی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب
کو سلطان الہند کے نقوسِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ |