مولانامحمد اسلم رضا قادری
سلطان الہند ،عطائے رسول حضرت خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری قدس سرہ السامی
(۵۳۴/۶۳۳ھ)کی بارگاہ الٰہی میں مقبولیت ومحبوبیت کا اندازہ اس سے لگایا
جاسکتا ہے کہ جب آپ کے پیرومرشد ،شیخ طریقت ،سلطان العارفین حضرت خواجہ
عثمان ہارونی نے کعبۃ اللہ میں میزاب رحمت کے نیچے اپنے چہیتے مرید کے لئے
دعاکی تھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر خداوندقدوس کے سپرد کیا تھا،غیب سے آواز
آئی ’’میں نے معین الدین کو قبول کیا ‘‘۔یہ وہ شرف وفضیلت ہے جو ہمارے
خواجۂ ہند کو اللہ تعالیٰ نے عطافرمائی ۔اسی عطا وبخشش نے سلطان الہند کو
وہ عزت وعظمت اور رفعت وبلندی سے سرفراز کیا کہ اہل تاریخ وسیر کی تو بات
دیگر ہے اربابِ سیاست وحکومت بھی غریب نواز کی حکومت وسلطنت کو اب بھی
تسلیم کرتے ہیں۔
حضور خواجہ غریب نواز ہندوستان کیاآئے بہار آگئی ،اسلام کی رونق وروشنی نے
کفروضلالت،اورنفاق وجہالت سے لوگوں کے قلوب کو مجلیٰ ومصفیٰ کیا۔آج دین کی
جو باغ وبہار نظر آرہی ہے وہ حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ کی ہی تبلیغی
کاوشوں اور بے پناہ دینی مشقتوں کا ثمرہ ہے ،کیوں نہ ہوکہ خود ہمارے
آقاحضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دربار اقدس میں حاضری
کے وقت یہ بشارت سنائی ’’اے معین الدین !تو میرے دین کا معین ہے ،میں نے
تجھے ہندوستان کی ولایت عطاکی،وہاں کفروظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیرجا ،تیرے
وجود سے ظلمت وکفر دور ہوگی اور اسلام کی رونق بڑھ جائے گی ‘‘۔ (سیرا
لاقطاب ،ص:۱۲۴)
اسی طرح حج کے دوران کعبہ میں حضرت خواجہ یا د الٰہی میں مشغول تھے تو آپ
نے ایک غیبی آواز سنی ’’اے معین الدین !ہم تجھ سے خوش ہیں ،ہم نے تجھے بخش
دیا جو کچھ چاہے مانگ عطاکروں ۔ (اہل سنت کی آواز،مارہرہ شریف ،ص:۱۵۸)
یہ تمام بشارتیں اور خوشخبریا ں حضور غریب نواز کی بارگاہ الٰہی میں
مقبولیت کی واضح اور روشن دلیلیں ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ
کا ہوجاتا ہے ساری کائنات اس کے تابع ہوجاتی ہے۔خود خالق کائنات اس بندہ کی
مددواعانت فرماتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے : اگر تم دین خداکی مددکروگے
اللہ تمہاری مددکرے گا ۔(سورہ محمد ،۴۷ /۷،کنزالایمان)
حقیقت یہ ہے کہ اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے اللہ تعالیٰ کے دین کی
تبلیغ واشاعت ،اس کی عبادت وریاضت اور تقوی وطہارت کو اپنا اوڑھنا اور
بچھونا بنالیاتو خداواندقدوس نے انہیں وہ عزت وعظمت عطافرمائی جو ہماری
نگاہوں کے سامنے ہے۔
آج ہر ایک دکھ درد کا مارااولیائے کرام کے مزارات پر حاضر ہو کر سلام
نیازپیش کرتا ہے اور اپنے من کی مراد پاتا ہے ۔مگر کچھ لوگ اس بات کے منکر
ہیں۔ دراصل ایسے لوگ ہمیں اولیائے کرام کی بارگاہوں سے دور کرنا چاہتے ہیں
اور ہمارے دلوں میں ان کے متعلق نفرت کی بیج بونا چاہتے ہیں۔ایسے نام نہاد
مسلمانوں سے سے ہمیں بچنا اور دوررہنا ضروری ہے ،اسی میں ہمارے ایمان
وعقیدہ کی حفاظت ہے ۔اولیائے کرام ہی دین کے سچے پاسبان وعلم بردار ہیں
،یہی گروہ فرمان باری تعالیٰ ’’وکونو امع الصدقین ‘‘کی سچی تفسیر ہے۔لہٰذا
ان نفوس قدسیہ کی طرف ہمارا قلبی لگا ئو ہونا اس پر فتن دور میں نہایت
ضروری ہے۔
بات طویل ہوگئی ،میں بتارہا تھا کہ حضرت خواجہ غریب نواز نے ہندوستان میں
آکر اسلام کو خوب پھیلایا ،اسلامی شریعت سے لوگوں کو آشنا کیا ،ظلمت کدہ
ٔہند کو دین مصطفے کے نور سے روشن کیا ،آپ نے اس تبلیغی مشن کو ۴۵سالوں تک
جاری رکھا ۔آپ کے دم قدم سے اسلامیات ودینیات کا خوب فروغ ہوا،جسے تاریخ
میں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔
اس تفصیل کے بعد میں آپ کو حضرت خواجہ کے ایک ایسے عاشق وعقیدت مند کی
بارگاہ کا سیر کراتا ہوں جس کی حیات کا ایک ایک لمحہ خدمت دین اور عشق رسول
کا آئینہ ،غلامان رسول کے واسطے خزینہ اور دشمنان رسول کے لئے شمسیر برہنہ
ہے۔اس عاشق کو دنیا اعلی حضرت ،مجدداعظم ،الشاہ امام احمد رضاخاں قادری قدس
سرہ کے نام سے جانتی پہچانتی ہے۔
آپ جمیع سلاسل طریقت کے مشائخ کرام کی عقیدت مندہونے کے ساتھ تمام مستند
سلاسل کو برحق جانتے تھے۔وہ کیوں نہ مانیں کہ ان کا سب کچھ انہی مقدس
بارگاہوں خصوصا قادری بارگاہ کے صدقہ وطفیل ہی تھا۔ایک طرف آپ فنافی الرسول
تھے تو دوسر ی جانب آپ فنا فی الغوث بھی تھے۔
آج کچھ حضرات یہ کہہ رہے ہیں کہ امام احمد رضاقادری بریلوی نے صرف حضور غوث
الاعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی لکھا اور حضرت خواجہ غریب نواز کا کہیں
ذکر نہیں کیا ۔ذیل کی سطور میں آپ ملاحظہ کریں گے کہ امام احمدرضا نے عطائے
رسول سلطان الہند کو کیسے کیسے القابات و خطابات سے یاد کرتے ہوئے ان کی
بارگاہ کے گستاخ کو عدواللہ وعدوالرسول گردانا ہے اور آپ کے تصرفات
واختیارات اور کرامات کے منکر کو گمراہ اور بدمذہب تحریر فرمایا ہے۔اجمیر
کو اجمیر شریف نہ لکھنے والوں کے حق میں امام احمدرضامحدث بریلوی کا
تیورعشق بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔
مفکر اسلام حضرت علامہ یسین اختر مصباحی مدظلہ النورانی کا یہ فکری اقتباس
نقل کرنا ضروری ومناسب سمجھتا ہوں۔موصوف لکھتے ہیں:
’’امام احمدرضا حنفی قادری برکاتی بریلوی جملہ صحیح ومستند سلاسل طریقت مثل
چشتیہ ونقش بندیہ وسہروردیہ ورفاعیہ وشاذلیہ وغیرہ اور ان کے صحیح الاعتقاد
سنی مشائخ کرام کو برحق سمجھنے کے ساتھ ان کے عقیدت مندبھی تھے اور جہاں
کہیں ان کا ذکر اور ان کا نام آپ کی تحریروں میں ملتا ہے حسن ادب واحترام
کے ساتھ ہی ملتا ہے۔اس کے ساتھ ہی آپ سلسلہ عالیہ قادریہ کو افضل السلاسل
قراردیتے تھے۔(اہل سنت کی آواز ص:۵۶۲)
یہ ایک تایخی اورزمینی حقیقت ہے کہ امام احمدرضا قادری بریلوی انہیں
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نیزتمام سلاسل مستند راہ طریقت کے پاسبان
اور محافظ کا نام ہے ،آپ کی تحریرات وفتاوے اس بات کا بین ثبوت ہیں ،آپ صرف
حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی دستگیری پر جان ودل سے قربان نہ تھے
بلکہ عطائے رسول سلطان الہند حضور سیدنا معین الملۃو الدین خواجہ غریب نواز
چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان غریب نوازی وفیض رسانی کا بھی آپ
اپنی مجلسوں اور تحریروں میں چرچہ کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو ان مقربان
بارگاہ الٰہی سے اپنے رشتے کو مضبوط سے مضبوط ترکرنے کی تعلیم وتاکید
فرماتے۔ جب کہ سلطان الہند ،غریب نواز کی دستگیری اور غریب نواز کا ذکر ایک
سوال کے جواب میں کس قدر والہانہ عقیدت وعشق کے ساتھ کرتے ہیں۔فرماتے
ہیں:حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرور دست گیر ہیں اور حضرت
سلطان الہند معین الحق والدین ضرور غریب نواز ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ
،۱۱/۴۳،رضااکیڈمی ممبئی)
امام احمدرضا قادری بریلوی حضور خواجہ غریب نوا زچشتی اجمیری کے سچے عاشق
تھے ۔اگر کوئی شخص ’’اجمیر ‘‘کے ساتھ ’’شریف ‘‘نہ لکھتا تو آپ اسے برا
جانتے اور غلام معین الدین نہ لکھنے والے کے خلاف بھی صدائے حق وصداقت بلند
فرماتے ۔جیساکہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’اجمیر شریف کے نام پاک کے ساتھ لفظ ’’شریف‘‘نہ لکھنا اور ان تمام مواقع
میں اس کا التزام نہ کرنا اگر اس بناپر ہے کہ حضور سیدنا خواجہ غریب نواز
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلوہ افروزی حیات ظاہری ومزار پر انوار کو (جس کے
سبب مسلمان اجمیر شریف کہتے ہیں )وجہِ شرافت نہیں جانتا تو وہ گمراہ بلکہ
عدواللہ ہے۔
صحیح بخاری شریف میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے
ہیں کہ اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہیــ’’من عاد لی ولیافقد آذنتہ للحرب‘‘جس نے
میرے ولی سے دشمنی مول لی میری جانب سے اس کے لئے اعلان جنگ ہے اور اگر یہ
ناپاک التزام بر بنائے کسل وکوتاہ ِقلبی ہے تو سخت بے برکتی وفضل عظیم وخیر
جسیم سے محرومی ہے ۔کماافادہ المحقق محی الدین ابوزکریا قدس سرہ فی الترضی
۔اور اگر اس کا مبنیٰ وہابیت ہے تو وہابیت کفر ہے ،اس کے بعد ایسی باتو ں
کی کیاشکایت ؟ماعلیٰ مثلہ یعدالخطا۔
اپنے نام سے غلام کا حذف اگر اس بنا پر ہے کہ حضور خواجہ خواجگان رضی اللہ
عنہ وعنہم کا غلام بننے سے انکارواستکبار رکھتا ہے تو بدستور گمراہ اور
بحکم حدیث مذکور عدواللہ ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔قال تعالیٰ ’’الیس
فی جھنم مثوی للمتکبرین‘‘کیا مغرور کا ٹھکانہ جہنم نہیں ۔اور اگر بر بنائے
وہابیت ہے کہ غلام اولیائے کرام بننے والوں کو مشرک اور غلام محی الدین اور
غلام معین الدین کو شرک جانتا ہے تو وہابیہ خود زندیق بے دین ،کفارومرتدین
ہیں۔’’وللکفرین عذاب مھین‘‘اور کافروں کے لئے خواری کا عذاب ہے ۔(فتاوی
رضویہ ۶/۱۸۷،۱۸۸)
مزید حضرت علامہ مولانا یٰسین اختر مصباحی قبلہ لکھتے ہیں: ’’حضرت سیدنا
معین الملۃ والدین خواجہ غریب نواز اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیوض
وبرکات اور منکرین فیضان خواجہ غریب نواز کا ذکر کرتے ہوئے ایک مجلس میں
امام احمد رضا بریلوی ارشاد فرماتے ہیں:حضرت خواجہ کے مزار سے بہت کچھ فیوض
وبرکات حاصل ہوتے ہیں۔
مولانا برکات احمد صاحب مرحوم جو میرے پیر بھائی اور میرے والد ماجد رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد تھے انہوںنے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا کہ ایک ہندو جس کے سر سے پیر تک پھوڑے تھے۔ اللہ ہی جانتا
ہے کہ کس قدر تھے۔ ٹھیک دوپہرکو آتااور درگاہ شریف کے سامنے گرم کنکروں اور
پتھروں پر لوٹتا اور کہتا ہے کہ خواجہ اگن لگی ہے (یعنی آگ لگ رہی ہے)
تیسرے روز میں نے دیکھا کہ بالکل اچھا ہوگیا۔
(۲) بھاگل پور سے ایک صاحب ہر سال اجمیر شریف جاتے تھے۔ ایک وہابی رئیس سے
ملاقات تھی۔ اس نے کہا، میاں ہرسال کہاں جایا کرتے ہو؟ بے کار اتنا روپیہ
صرف کرتے ہو انہوںنے کہا چلو اور انصاف کی آنکھ سے دیکھو۔ پھر تم کو اختیار
ہے۔ خیر! ایک سال وہ ساتھ میں آیا دیکھا کہ ایک فقیر سونٹا لیے روضہ شریف
کا طواف کررہاہے اور یہ صدا لگا رہاہے۔ خواجہ پانچ روپئے لوں گا۔ اور ایک
گھنٹہ کے اندر لوں گا اور ایک ہی شخص سے لوں گا۔
جب اس وہابی کو خیال ہوا کہ اب بہت وقت گزر گیا۔ ایک گھنٹہ ہوگیا ہوگا اور
اب تک اسے کسی نے کچھ نہ دیا، جیب سے پانچ روپئے نکال کر اس کے ہاتھ پر
رکھے اور کہا لو میاں! تم خواجہ سے مانگ رہے تھے۔ بھلا خواجہ کیا دیں گے؟
لو ہم دیتے ہیں۔ فقیر نے وہ روپئے تو جیب میں رکھے اور ایک چکر لگا کر زور
سے کہا: ’’خواجہ! تورے بلیاری جاؤں۔ دلوائے بھی تو کس خبیث منکر
سے‘‘۔(الملفوظ حصہ سوم ص:۴۴، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی، اہلسنت کی آواز ص:
۵۶۸، ۵۶۹)
قارئین کرام! یہ چند ارشادات واشارات ہیں جو حضور خواجہ غریب نواز سے امام
احمد رضا قادریؔ محدث بریلوی کی سچی عقیدت ومحبت اور والہانہ عشق ومحبت کی
روشن دلیلیں ہیں۔ جنہیں پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگانا بہت آسان ہوجاتاہے
کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادریؔ محدث بریلوی قدس سرہ السامی نے سلطان
الہند علیہ الرحمہ کو اپنے فتاویٰ میں بہت محبت سے یاد کیا ہے اور ان کی
محبت وعقیدت کی تعلیم بھی دی ہے۔ اور جو لوگ ان سے نفرت وبغض رکھتے ہیں
انہیں عدو اللہ سے تعبیر کیا ہے۔ ان روشن تحریروں کے بعد بھی اگر کوئی یہ د
عویٰ کرے کہ امام احمد رضا قادریؔ بریلوی نے خواجہ ہند کے متعلق کچھ نہیں
لکھا تو وہ بدگمانی اور حسد کا شکار ہے جو ہر ایک کے حق میں مضر اور نقصان
کا باعث ہے۔ ایسی بدگمانی سے اللہ تعالیٰ ہر شخص کو محفوظ ومامون رکھے۔
دیکھئے یہ شعر بھی سلطان الہند کی محبت سے لبریز ہے:
مزرع چشت ووبخارا وعراق واجمیر
کون سی کشت پر برسا نہیں جھالا تیرا
اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کرام سے خصوصاً خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری سے
سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین |