ٹی وی ڈرامے اور زندگی کے ہنگامے

زندگی میں کام کرتے کرتے آپ اکثر تھک جا تے ہیں۔ تھکن اُتارنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثلاً آپ سوتے
ہیں،کھاتےہیں،لڑتےہیں،فیس بک یوز کرتے ہیں، گاتے ہیں،ٹیکسٹنگ کرتےہیں،کوئی بک بھی پڑھ سکتے ہیں۔ مقصد یہ کی ایک لمبی لسٹ ھو تی ھے اُن کاموں کی جو کر کے آپ خود کو فریش کر سکتے ہیں۔ایک کام ایسا ہےجو عمر کی قید سے آزاد ہو کر ہر ایک کر لیتا ہے اور وہ ہے "ٹی-وی دیکھنا"۔ ویسے اس کو دیکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ تھکے ہوں یا فارغ ھوں ۔ بس ٹی-وی ہونا ضروری ہے۔

ٹی-وی کو دیکھنا آ ج کل اکژ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب آپ کے فیورٹ پروگرام کا ٹا ئم ہو اور ریموٹ آپ کی پہنچ سے دور ہو۔ پھر تو بہن بھایئوں کے درمیان نوبت اکثر لڑائی کی آجاتی ہے۔ ریموٹ کا حصول جان کا وبال بن جاتا ہے۔ مگر ریموٹ چھین لینا بھی ایک گُر ھے جو ہر ایک کو نہیں آتا۔ میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ جب ریموٹ نہیں تھا تو لوگ ٹی وی کیسے دیکھتے تھے؟؟؟؟ ریموٹ کے لیے لڑے، جھپٹے،چھینے، پیٹے بغیر بھی دیکھنے کا کیا مزہ آتا ہوگا۔ اب تو ٹی وی اتنا ٹاءیم نہیں دیکھا جاتا جتنی ریموٹ پہ اُنگلیاں چلا ئی جاتی ہیں۔

جو لوگ ڈرامے بہت شوق سے دیکھتے ہیں وہ ڈراموں کے کرداروں میں اداکاروں کے ساتھ ساتھ خود بھی ڈوب جاتے ہیں۔ خاص طور پر پھر اُن اداکاروں کے ساتھ روتے ہیں ہنستے ہیں اگر کوِئی مر جائے تو جانے والے کا غم اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اگر کسی کی شادی ہو جائے تو اُس کی خو شی میں خود بھی خوش ہوتے ہیں۔ ڈراموں کا میڈیم خواتین کے لئے مختص سمجھا جاتا ہے۔اور ان کو کسی بھی کردار سے ہمدردی کروانے کے لئے اُس کردار کے ھا تھوں زیادہ سے زیادہ جذباتی بلیک میل کرا لیا جائے یعنی کردار کو بھیوہی غم لا حق ہو ں جو کہ آ ڈینسس کو در پیش ھو سکتے ہیں۔ مثلاً ساس کے ظلم ، شوہر کے ظلم، بچوں کے مسا ئل، خاندانی مسا ئل ، ما لئ مسا ئل، معا شرتی مسائل وغیرہ وغیرہ ایک لمبی لسٹ ہے کمبخت مسائل کی۔

یہ بھی کہا جاتا ھے کہ عورتوں کو "بگاڑنے " میں ان ڈراموں کا خاص طور پر بڑا ہاتھ ہے۔اب وہ کیسے؟؟؟ (ان مسائل کی شکایت مرد طبقے کو ہے) سب سے پہلے تو اچھے اچھے ڈزائنر کپڑے دیکھ کر خواہ پہننے والی کتنی غریب ہی کیوں نہ ہو۔رول میں مگر عورتیں پھر بھی ان کے کپڑوں سے امپریس ھو ھو کر مردوں کو ڈپریس ضرور کرتی ہیں۔ پھر آج کل جس قسم کے ڈرامے بن رہےہیں وھ بھی عورتوں کو" احساس تحفظ مرد" کا بھی شکار کر رہے ھیں۔ ھر عورت کو اپنے انہوں "بر یڈ پٹ" لگنے لگے ھیں اور ھر عورت جو تھوڑی سی بھی مشکوک دکھائ دے وھ"انجلینا جولی " لگنے لگی ھے۔ خواہ حقیقت میں اب اپنے انہوں ہی" ہمایوں سعید" والی حرکتیں کرتے پھر رھے ھوں۔ ویسے ڈراموں میں ایک عام سے تنخواہ دار بندے کو جتنی آسانی سے دو کشتیوں کا سوار دکھایا جاتا ہے۔ عملی طور پر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اب دو گھر کون افورڈ کرے جبکہ آج کے دور میں تو ایک گھر چلانا مشکل ہوتا جا رھا ھے-

اسی طرح آج کل تمام چینلز کے درمیان "مقابلہ" بازی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہر چینل یہی چاہتا ہے کہ اس کے ڈراموں کو ہی سب سے زیادہ پزیرایی ملے اور اس ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جس "طرح" کے ڈرامے اکثر چینلز نے دکھانے شروع کر دیے ہیں کہ تعریف کے لیے الفاظ نہیں ڈھونڈ سکتے آپ ۔ بعض مز ا حیہ ڈرامے دیکھ کر تو انسان کا دل چاہتا ہے کہ رونے لگے اور بعض سنجیدہ ڈرامے دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ رونا ہے یا ہنسنا۔ کچھ کرداروں کوویور ظالم کرداروں کی مار پیٹ سے بچانے کا سوچنے لگتا ہے تاکہ مظلوم کردار سکھ کا سانس لے سکے۔ کچھ ڈرامے دیکھتے ہوئے دیکھنے والے کا دل اتنا بھر آتا ہے کہ بس نہیں چلتا اندر جا کر اس غریب کے آنسو صاف کر دیے جائیں۔ کچھ کرداروں کو کچھ ڈرامائی کر داروں کی مالی بے بسی دیکھتے ہو ئے بس نہیں چلتا کہ انسان انکی مالی ا مداد کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دے۔ کچھ کرداروں کی آپسی غلط فہمیاں دیکھتے ہو ئے بس نہیں چلتا کہ "کال" مار کے ان کی مس انڈر سٹینڈنگ دور کر دی جا ئے۔

پھر یہ ایشو بھی بہت زیادہ بڑھتے جا رھے ھیں کہ انہوں سچا پیار نہیں کرتے۔ اب انھوں آپ کی خاطر ہی تو سارا دن گھر سے باہر مغز ماری کر کے آتے ہیں۔ اگر سارا دن آپ کی تعریفیں کرنے میں لگے رھے گے تو گھر کا خرچا کون اٹھائے گا؟؟؟ ڈراموں میں تو پروڈیوسر صا حب اٹھاتے ہیں اس لیے ھیرو تسلی سےپیار جتا اور بڑھا لیتا ہے اب حقیقی زندگی میں تو سب کچھ خود ہی کرنا ہوتا ھے۔ اوپر سے ڈرامہ نما خبریں دیکھ دیکھ کر ھر کوئ اپنے ھمسایوں کے بارے میں بھی بھت مشکوک رھنے لگا ھے۔ اس لیے اب تفریح اور دل لگی کا سامان بس ٹی وِی سے ہی دستیاب ھوگا۔ اسی لیے انسانی دماغ پر اس کا منفی اثر بھی بڑِہ رھا ھے۔

اگر صرف ڈراموں میں ڈرامے کرنے والے افراداورحقیقی لوگوں کی پرسنیلٹیز کا ایک دوسرے پر اثر دیکھا جائے تو ھر لڑکی صبا قمریا ماہرہ جیسی خوبصورت ، خوب سیرت اور اللہ میاں کی گایے بننا چاہتی ہے۔
ہر لڑکی سکرین پر نظر آنے والی ماہ نور بلوچ یا ثروت گیلانی جیسی معصومیت کا پیکر بننا چاہتی ہے۔
ہر لڑکی ثناء عسکری یا نیلم منیر جتنی سمارٹ نظر آنا چاہتی ہے۔
ہر آنٹی حنا بیات جیسی "ایور گرین" بننا چاہتی ہے۔
ہر دادی ماں آپا جہاں آراء جتنی "ینگ" نظر آنا چاہتی ہے۔
ہر ہاوس وایف آپا زبیدہ کی طرح "سگھڑ" بننا چاہتی ہے۔

ایک حد تک تو ان کرداروں کو ٹی وی پر دیکھنا اور ریلیکس ہونا جائز ہے۔ مگر ان کرداروں کے اندر ضرورت سے زیادہ ڈوب جانا، ہر ہر انداز اپنانے کی کوشش کرنا خود کو بالکل ان کے جیسا بنانے کی کوشش کرنا کچھ ٹھیک نہیں۔ ہر انسان کے پاس ایک انفرادی صلاحیت ہوتی ہے اور انسان اس سے ہی پہچانا جاتا ہے۔اسی لیے ایک سکرین پر نظر آنے والے لوگوں کو سکرین تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔سکرین سے نکال کر اپنے آئینے میں لانے کی کوشش کرنا مضر صحت ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293102 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More