پی ٹی وی کلاسک سیریل ’’آخری چٹان‘‘ میں چنگیز خان کے
بیٹے ’’جوجی‘‘ کا تاریخی کردار ادا کرنے والے
سینئر اداکار
وکیل فاروقی سے مکالمہ
انٹرویو: عمر خطاب خان
فوٹو گرافی: عابد راہی
اگر آپ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ VHSکیسٹ، وی سی آر، روس افغانستان جنگ،
اور شارجہ میں جاوید میاں داد کا تاریخی چھکا دیکھ چکے ہیں تو آپ کو یقیناً
پی ٹی وی کا کلاسک دور اور کئی یادگار ڈراموں میں سے ایک ’’آخری چٹان‘‘ بھی
یاد ہوگا جس کا ایک کردار’’جو جی‘‘ بے حد مقبول ہوا تھا۔ چنگیز خان کے بیٹے
کا یہ دبنگ کردار ادا کرنے والے ایکٹر کا نام ہے وکیل فاروقی۔ زندگی بھر فن
کار کو اس کا جائز مقام دینے کی وکالت کرنے والے اس صاحب طرز اداکار کی
آواز، ان کی پہچان بنی اور اپنے منفرد لب و لہجے کی بدولت ہی پی ٹی وی کے
اس دور میں اے کلاس کیٹیگری میں جگہ بنائی جبکہ بڑے بڑے قد آور نام اس
ادارے سے وابستہ تھے۔ وکیل فاروقی نے طویل جدوجہد اور انتھک محنت کے بعد یہ
مقام حاصل کیاکہ آج کے سپر اسٹارز ہمایوں سعید،فیصل قریشی اور عدنان صدیقی
وغیرہ انہیں دیکھ کر احتراماً جھک جاتے ہیں جبکہ بے شمار ایسے بھی ہیں جو
انہیں اپنا گروہ یا استاد تسلیم کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آرٹس کونسل
کی ’’گل رنگ‘‘ میں ان کی شوخیاں اور شرارتیں سب کو متوجہ کرتی ہیں اور
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ ان کو پسند نہیں کرتے انہیں بھی اپنا کرلینے کا
ہنر خوب جانتے ہیں۔ اسی گل رنگ، میں جوان کے سنگی ساتھیوں کا ڈیرا اور مسکن
ہے، وکیل فاروقی سے ہوئی اس دلچسپ ملاقات کا احوال نذر قارئین ہے۔
|
|
٭ کچھ ابتدائی دور کے بارے میں بتائیں؟ کب اور کیسے اس رنگ و نور کی دنیا
کے باسی ہوئے؟
٭ یہ 1966 کا زمانہ تھا جب میں اپنے تعلیمی ادارے علامہ اقبال کالج کی طرف
سے بزم طلباء میں شرکت کے لئے ریڈیو پاکستان گیاتھا، حسنین کاظمی صاحب
ہمارے پرنسپل تھے۔ وہاں آڈیشن دیا اور گلوکار بن گیا۔ یہ میری ابتداء تھی،
ریڈیو پر مجھے جنرل آرٹسٹ سلیکٹ کرلیاگیا۔ 5 منٹ کے 35روپے ملتے تھے۔
موسیقی کا ایک پروگرام ’’نوائے شوق‘‘ کیا جس میں دیبو بھٹا چاریہ، نہال
عبداﷲ، امراؤ بندوخان، لعل محمد اقبال جیسے موسیقاروں کی دھنوں پر گانے کا
موقع ملا۔ گانے کا شوق تو پورا ہورہاتھا لیکن مجھے برالگتا تھا جب کوئی یہ
کہتاتھا کہ یہ کیا میراثیوں والا کام شروع کردیا ہے۔ ہمارا معاشرہ تضادات
کا شکار ہے، فن کار کو میراثی کہتے ہوئے لوگ ذرا نہیں ہچکچاتے حالانکہ یہ
فن تو ایک میراث ہے جو کہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے۔ کسی
شوقیہ گانے والے کو میراثی کہنا فن اور اس کی میراث رکھنے والے دونوں کی
توہین ہے، بس اس بات پر میں نے گانا چھوڑدیا اور اناؤنسر کے لئے آدیشن دینے
چلاگیا۔ صدا کاری بھی کی اور اناؤنسمنٹ بھی، اس دور میں عبدالحکیم، رفعت
کریم ندوی، ایس ایم سلیم جیسے نام ریڈیو سے وابستہ تھے۔ یہ لوگ آواز کی
دنیا کے بے تاج بادشاہ ہواکرتے تھے۔ اسی دوران امیر امام صاحب سے ملاقات
ہوئی، وہ مجھے پی ٹی وی لے گئے۔ انہی کا ایک پلے ’’چور‘‘ میرا پی ٹی وی پر
پہلا ڈرامہ تھا۔ یہ ایک سیریز تھی جو کہ میری پسندیدہ کہانی‘ کے عنوان سے
دکھائی جاتی تھی۔ ایڈیٹنگ وغیرہ کا تصور نہیں تھا، ایک ری ٹیک ہوتی تو پورا
سین دوبارہ لیاجاتا تھا۔ کچھ ڈرامے تو براہ راست بھی دکھائے جاتے تھے،
ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ میں نے بھی مرغوب احمد صدیقی کا ایک LIVEپلے
کیاتھا، یہ غالباً 1968ء کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد تو میں پی ٹی وی کا ہی
ہوکر رہ گیا، کئی یادگار پلے کئے، اب تو یادداشت بھی ساتھ نہیں دیتی، نام
بھول گیا ہوں لیکن کچھ ڈرامے یاد ہیں جیسے حیدرامام رضوی کا سہارے‘ جو کہ
توقیر ناصر کا پہلا سیریل تھا۔ خدا کی بستی‘ 1969ء میں ایس ایچ او کا کردار
کیا۔ رشید عمر تھانوی پروڈیوسر تھے۔ پھر جب یہ ڈراما دوسری بار 1975ء میں
ریکارڈکیاگیا تب بھی میں نے کام کیا۔ بختیار احمد اور قاسم جلالی پروڈیوسر
تھے۔ 73ء میں کنور آفتاب کی سیریز ’’منٹوراما‘‘ کے دوکھیلوں ممد بھائی‘ اور
لائسنس (افسانہ نیاقانون)‘ میں کام کیا۔ اقبال انصاری کے کارواں، میں سب
ایڈیٹر کا رول کیا۔ سائرہ کاظمی کا سیرریل خلیج‘ کاظم پاشا کامنڈی، محسن
علی کے ساتھ شہ روزی‘ اور تعبیر‘ وغیرہ بھی میرے چند یادگار ڈارمے ہیں۔
٭ پہلا سیریل کون ساتھا جس سے آپ کو شناخت ملی؟
٭ ایک تو ’’بہادر علی‘‘ تھا جس میں میرا پہلوان کا کردار تھا، غلام محی
الدین کے بھانجے نے بہادرعلی کا کردار کیاتھا۔ اس کے علاوہ آخری چٹان میں
’’جوجی‘‘ کا کردار ہے جس نے مجھے ملک گیر شہرت سے نوازا۔ چنگیز خان کے ظالم
اور جابر بیٹے کا یہ کردار اتنا مقبول ہواتھا کہ اس کے نام سے بچوں کے
اسٹیکرز، چھالیہ، اور گولڈ فش والوں کی پینسل تک مارکیٹ میں آگئی تھی۔ میں
سمجھتا ہوں کہ بہادرعلی‘ اور آخری چٹان‘ میں میرے کردار یقینی طور پر
ایوارڈ کے مستحق تھے لیکن پی ٹی وی انتظامیہ نے مجھے نظر انداز کیا اور میں
محلاتی سازشوں کا شکار ہونے کی وجہ سے نامزد نہ ہوسکا۔ میرا ایک سنگل پلے
’’نیا آدم‘‘ بھی ایوارڈ کا مستحق تھا، اس میں ایٹمی جنگ اور اس کے نتیجے
میں تابکاری اثرات سے ممکنہ معاشرتی اور سماجی مسائل کااحاطہ کیاگیاتھا
لیکن مجھے ایوارڈ نہیں دیاگیا،میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذمے دار جو بھی
پروڈیوسر یا پی ٹی وی انتظامیہ کے لوگ تھے جو اس وقت فرعون بنے ہوئے تھے،
آج ان کا نام و نشان نہیں ہے۔ اگر میں ان سازشی عناصر کی موجودگی میں اپنی
جگہ بنانے میں کامیاب ہوا تو اس کا کریڈٹ میرے محسنوں دادا قاسم جلالی،
اقبال انصاری، علی رضوی اور سائرہ کاظمی کو جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ میری
حوصلہ افزائی کی اور آگے بڑھایا۔
|
|
٭ ریڈیو پر آپ کا قابل ذکر کام کیا ہے؟
٭ ریڈیو کے حوالے سے میرا ایک ڈرامہ ’’زنجیریں‘‘ بے حد مقبول ہوا، رضی اختر
شوق اس کے پروڈیوسر اور فاطمہ ثریا بجیا لکھاری تھیں، اس کے علاوہ مزاحیہ
خاکوں پر مبنی پروگرام’’ کہکشاں‘‘ جس کے پروڈیوسر نجم الحسنین تھے ۔
٭ آپ نے تھیٹر بھی کیا؟
٭ بہت کیا۔ زندگی اس کام کو دے دی، مجھے تھیٹر کے بڑے ناموں کے ساتھ کام
کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ 1979ء میں کمال احمد رضوی کے ساتھ ایک تھیٹر پلے
’’ایک بیوی کا سوال ہے بابا‘‘ کیا جس کے رائٹر کمال صاحب اور ڈائریکٹر میں
تھا۔ اس میں ہمارے علاوہ لطیف کپاڈیا، پروین اکبر، محمد ایوب، معظم علی
وغیرہ تھے۔یہ تحریر دراصل کمال احمدرضوی نے مجھے گفٹ کی تھی، میں ان کو
اسسٹ کیا کرتا تھا، انہوں نے کہا کہ یہ ڈرامہ تم کروگے، یہ ان کا احسان تھا
کہ میرا ڈرامہ کرنے کے لئے اپنا کرایہ خرچ کرکے لاہور سے کراچی آئے۔ ان
دنوں پی آئی اے کا یک طرفہ کرایہ 300روپے ہوتا تھا، یہ ان کی محبت تھی۔ میں
نے تھیٹر کے لئے بے شمار ڈرامے لکھے اور ڈائریک بھی کئے۔ حال ہی میں حیدر
بخش حیدری کی تحریر اور فاطمہ ثریا بجیا کی ڈرامائی تشکیل ’’ کاٹھ کی گڑیا‘‘
کراچی آرٹس کونسل میں اسٹیج کیا جس میں مہتاب شاہ ، ایم وراثی، اطہر رضا
اجنبی وغیرہ نے پرفارم کیا۔ کراچی کے بعد یہ پلے لے کر میں ملتان گیا جہاں
ملتان آرٹس کونسل میں تین دن اسٹیج کیاگیا۔ دونوں جگہ خدا کے فضل و کرم سے
بہت اچھا ریسپانس ملا خصوصاً ملتان میں بے حد عزت اور لوگوں کا پیار ملا۔
٭ آپ نے ٹی وی کے لئے ڈرامے بھی تحریر کئے ؟
٭ جی ، رائٹر کے طور پر حمید ہالیپوتہ کی ایک سیریز معاف کیجئے‘ تحریر کی
جس میں آغا سجاد، ثمن آغا اور انورسولنگی وغیرہ نے ایکٹ کیا۔ پی ٹی وی کی
ایک مقبول کامیڈی سیریز ’’دمڑی نہ جائے‘‘ کے پانچ ڈرامے لکھے۔ چند اور
ڈرامے بھی ہیں جن میں ایک قابل ذکر لانگ پلے قرض‘ ہے۔جسے لیلیٰ لغاری نے
ڈائریکٹ کیا۔اس سے مجھے بہت کام ملا۔
٭ آپ نے زندگی کی چاردہائیاں اس فیلڈ کی نظر کردیں، ذریعہ معاش کیاتھا؟
ڈراموں سے کتنی آمدنی ہوجاتی تھی؟
٭ میں نے زندگی بھر کوئی دوسرا کام نہی کیا، صرف اداکاری پر ہی انحصار کیا۔
معاشی اعتبار سے بڑے بھائی نے بہت سپورٹ کیا۔ ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر کی
آمدنی اگرچہ محدود تھی لیکن اچھے وقتوں میں اس آمدنی سے بہتر گزربسر ہوجاتی
تھی۔ اب تو مہنگائی نے سبھی کی کمر توڑکر رکھ دی ہے۔ لاکھوں روپے ماہانہ
آمدن والے بھی پریشان ہیں۔
٭ شادی کیوں نہیں کی؟
٭ شاید تقدیر کو ہی منظور نہ تھا، شادی کی عمر ہوئی تو یکے بعد دیگرے تین
سانحات نے مجھے دہلاکر رکھ دیا۔بڑے بھائی ، والد اور والدہ کے اچانک
بچھڑجانے سے میں کہیں کا نہ رہا، ان تین بڑے صدمات نے زندگی میں ہلچل مچادی،
حالات کے بھنور میں پھنس کر رہ گیا۔ اور جب سنبھلا تو وقت ہاتھ سے نکل چکا
تھا۔
٭ کبھی محبت وغیرہ سے دوچار ہوئے؟
٭ ہلکی پھلکی دل لگی تو کئی بار ہوئی لیکن پہلی بار ڈراما سیریل ’’اماؤس‘‘
کی ہیروئن سے سنجیدہ عشق ہوا جو کہ اسٹیل ٹاؤن میں رہاکرتی تھی۔ میں نے
باقاعدہ رشتے کا پیغام بھیجا لیکن اس کے والدین کو جب یہ پتہ چلا کہ لڑکا،
ایکٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تو صاف انکار کردیا۔ اس کے بعد میں نے شادی
یا محبت وغیرہ کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا۔
٭محبت کا خلا تو اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہوں گے؟
٭ یہ محبت وغیرہ صرف ڈھکوسلے ہیں اور کچھ نہیں۔ میری زندگی اس مصنوعی پن سے
عاری ہے۔ یہ سب کتابی باتیں ہیں، کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔
٭ آپ خود اچھے رائٹر ہیں، ڈائریکٹر اور ایکٹر ہیں۔ جب محبت سے دوچار نہیں
ہوئے تو پھر اپنے ڈراموں میں محبت کو پورٹرے کس طرح کرتے ہیں ؟ ابھی حال ہی
میں آپ نے ’’کاٹھ کی گڑیا‘‘ میں ان احساسات کو اسٹیج کیا؟
٭ ضروری نہیں کہ موت کا کرب فلمانے کے لئے ڈائریکٹر یا ایکٹر خود موت کے
منہ میں جاکر دیکھ کر آئے کہ مرتے ہوئے انسان کے کیاجذبات اور احساسات ہوتے
ہیں، محبت اگر نہیں کی ہے تو اس کا مشاہدہ اور مطالعہ تو کیا ہے۔ تمام بڑے
رائٹرز کو پڑھا ہے، فلمیں دیکھی ہیں، ڈرامے دیکھ رکھے ہیں۔ کاٹھ کی گڑیا‘
میں بھی جو کچھ بجیا نے لکھا‘ اس سے بے حد مدد ملی۔ احساسات کے حوالے سے آپ
کو اس پلے میں کسی چیز کی کمی یا خلا محسوس نہیں ہوتا۔
|
|
٭ آپ نے زیادہ تر ٹی وی پر منفی رول ہی کیوں پلے کیے؟
٭ حالانکہ میں خود ایسا نہیں ہوں، یہ محض اتفاق ہے کہ میں زیادہ تر ایسے
کرداروں میں کاسٹ کیاگیا جن میں سخت مزاج یا کرخت آدمی کو دکھایاگیا، شاید
میری باڈی لینگویج ایسی ہے۔
٭ گزشتہ سال 2012ء میں آپ کا نام پرائیڈ آف پرفارمنس کے لئے چناگیامگر پھر
فائنل لسٹ میں نہیں آیا، اس ذیادتی پر کوئی دکھ یارنج؟
٭ یہ میرے لئے کیا کم اعزاز ہے کہ گورنر سندھ نے مجھے اس قومی اعزاز کے لئے
نامزد کیا۔ ہوسکتا ہے کہ مجھ سے زیادہ اہل شخص کو یہ ایوارڈ مل گیا ہو،
میرے لئے یہی کافی ہے کہ کم از کم میری خدمات کو قومی سطح پر کنسیڈر تو
کیاگیا ، ایوارڈ تو پھر مل جائیگا۔
٭ پی ٹی وی ہو یا آرٹس کونسل ، ثقافتی اداروں میں آپ کا منفی امیج اور تاثر
کیوں قائم ہے؟ لوگ آپ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
٭ شاید اس لئے کہ میں منہ پھٹ ہوں۔ مجھ سے چاپلوسی اور خدمت گزاری نہیں
ہوتی۔ میں منافق نہیں ہوں۔ جو بات سچ ہوتی ہے سب کے سامنے منہ پر کہہ دیتا
ہوں، اس لئے لوگ مجھے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ میری ان
سچائیوں کی وجہ سے مجھے پسند بھی کرتے ہیں۔ خوشامدی لوگ مجھے ویسے بھی
ناپسند ہیں۔
٭ آج کل آپ ٹی وی اسکرین سے دور کیوں ہیں؟
٭ ٹی وی چینلز پر زیادہ تر گروپ بندی اور لابنگ چل رہی ہے۔ میرا مزاج نہیں
ہے کہ کام کے لئے اپنے جونیئرز کے ارگرد منڈلاؤں۔ آج کے ٹی وی پروڈیوسرز
اور ڈائریکٹرز فرعون بنے ہوئے ہیں، اگر یہ اپنے کام میں پرفیکٹ اور
پروفیشنل ہوتے تو ترکی وغیرہ کے ڈب ڈراموں سے اتنے پریشان کیوں ہوجاتے ؟
بات یہ ہے کہ ان کو کام نہیں آتا۔ کبھی کہتے ہیں کہ ترکی کے ڈرامے دکھانا
بند کردو، کبھی انڈین ڈراموں اور پروگراموں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ بھئی
اپنا ڈرامہ اتنا مضبوط کرو کہ لوگ دیکھیں۔ ہمارے دور میں پی ٹی وی سرکاری
وسائل پر چلتا تھا، محدود بجٹ ہوتا تھا۔ پھر بھی ہمارا ڈرامہ بھارتی فلم
سازوں کے لئے مشعل راہ ہوتا تھا۔ دور درشن تک پی ٹی وی کے ڈراموں اور
پروگراموں سے گھبراتاتھا۔ میں آج کل کے کم زور پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے
ساتھ کیا کام کروں؟؟ جن کو کام کرنا ہی نہیں آتا ہے۔ ساجد حسن میرا
پراناساتھی ہے، کئی سالوں بعد اس نے ایک سیریل کے لئے خود فون کرکے مجھے
بلایا اور میں نے وہ کیا۔ ’’مس ایکس‘‘ کے نام سے بننے والی اس سیریل کی دو
اقساط میں میرا بھرپور کام ہے۔
٭ اگر دوبارہ زندگی کی شروعات کا موقع ملے اور آپ 1966ء میں واپس جائیں تو
کیا اس پروفیشن کو اپنائیں گے؟
٭ دوبارہ بھی یہی کروں گا۔ میں اپنی زندگی اور کئے گئے فیصلوں سے بالکل
مطمئن ہوں مجھے زندگی یا تقدیر سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
٭ آپ کا ایک اور شوق سیاحت بھی ہے۔ کون کون سے ممالک دیکھ چکے ہیں؟
٭ احمد داؤد کا بیٹا دنیا گھوم کر آیا تو مجھے بھی شوق چڑھا کہ دنیا دیکھی
جائے۔ بڑے بھائی کی سپورٹ تھی، سستا زمانہ تھا لہٰذا ابن بطوطہ بن کر نکل
کھڑے ہوئے۔ 70ء کی دہائی میں پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بھی تھی۔کوئی 45ممالک
گھوم کر آیا۔ افغانستان، بلغاریہ اور پھر گریک، نکل گیا۔ ویزہ بھی آسانی سے
لگ جاتا تھا۔ 6روپے کا ڈالر تھا۔ 500ڈالر لے کر نکلا اور 45ملک دیکھ لئے۔
پورا یورپ دیکھا، لاطینی امریکہ گیا، وہاں اخبار کے اسٹال پر کام کیا، بہت
انجوائے کیا۔ دل تو چاہتا تھا کہ اس سفر کی یادوں کو محفوظ کرسکوں لیکن ہمت
نہیں کرپاتا۔ سیاحت کے دوران مختلف ممالک کے کلچر اور زبانیں جاننے کا موقع
ملا۔ اسپینش مجھے پوری آتی ہے۔ زندگی نے وفا کی تو اپنی یادداشتیں ضرور
لکھوں گا۔
٭ اگر دوبارہ زندگی کی شروعات کا موقع ملے اور آپ 1966ء میں واپس جائیں تو
کیا اس پروفیشن کو اپنائیں گے؟
٭ دوبارہ بھی یہی کروں گا۔ میں اپنی زندگی اور کئے گئے فیصلوں سے بالکل
مطمئن ہوں مجھے زندگی یا تقدیر سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ |