تبریز ی صاحب کی دعوت پر ان کے دولت کدے جانا ہوا ، ایک
چھوٹی سی میز پر قد آدم کتابوں کے انبار ، چاروں طرف اوپر تلے مختلف کھلی
ہوئی کتابیں ،جابجا تراشے ، ضخیم مجلدات سے جھکی ہوئی الماریاں اور خود
ڈاکٹر صاحب کی اس وقت کی ہیئت کذائی دیکھ کر ہارون الرشید اور ان کے وزراء
کا ایک واقعہ آیا، خلیفہ نے ایک دن اپنے وزراء ومعاونین سے کہا، میری ایک
تمنا تھی جو پوری نہ ہوسکی ،عرض کیا گیا ،وہ کیا ،کہنے لگے میں چاہتاتھا کہ
ایک لاجواب مدرّس بنوں ، تشنگان علم کی فکری ، علمی اور نظریاتی سیرابی کا
فریضہ انجام دوں، لیکن اے بساآرزو کہ خاک شد ،کچھ وزراء نے سرگوشی اور
اشارات میں لمحہ بھر میں مشاروت کی اور تھوڑی ہی دیر میں تمام کے تمام
حضرات کتابیں لیئے طالب علم بن کر حضرت الاستاذ کے سامنے زرق برق پوشاک میں
ملبوس زانوئے تلمذ تہِ کرگئے ، خلیفہ نے ان پر نگاہ ڈالی اورکہا،’’ لستم
بھم ‘‘ ،نہیں بھائی تم وہ لوگ نہیں ، شاگرد بنے وزراء نے کہا،کیوں ؟کیاہم
میں وہ صلاحیت نہیں؟ ایک طالب علم کے بھی برابر نہیں ،خلیفہ نے کہا،نہیں وہ
تم نہیں ،ان کے کپڑے واجبی سے ، ناخن لمبے لمبے، بدن میلے میلے ، بال
پراگندہ ، ان کی نظر معنویت پرہوتی ہے اور تمہاری نظرمادّیت پر ہے۔
’’ عہد نبویﷺکی نعتیہ شاعری ‘‘ سے معنون تبریزی صاحب نے کراچی یو نیورسٹی
سے پی ایچ ڈی کے لئے ایک ہزار صفحات پر مشتمل عظیم الشان تاریخی، تحقیقی
اور ادبی ایک ایسا مقالہ لکھاہے، جس کے ذریعے انہوں نے اپنی زندگی کی قیمت
چکادی ہے ، ایک عجیب نسبت دیکھئے کہ عہد نبوی ﷺ کی نعتیہ شاعری پر کام کے
لئے ان کو عمر نبویﷺ ۲۳ سال کاعرصہ لگا ہے۔
یہ علمی وتحقیقی جائزہ، سات ابواب پر مشتمل ہے، اس میں ڈیڑھ سو سے زائد
صحابہ کرام ؓ وصحابیات ؓ کا نعتیہ کلام یکجا کیاگیاہے۔
باب اوّل پانچ فصول پر مشتمل ہے، اس میں شاعری کے حوالے سے اسلام کانقطۂ
نظر ،قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کیا گیاہے، جس میں یہ بتایا گیاہے کہ
شاعری ،قرآن کی نظر میں معیوب نہیں ،اس باب میں شعر کی حکمت وعظمت ،احادیث
کی روشنی میں ، حضورؑ کا ذوق شاعری اور آپ ؑکی شعر فہمی پر بھی روشنی ڈالی
گئی ہے، اس باب کا اہم موضوع ’’شعرائے خاندان رسالت کی نعتیہ شاعری‘‘ ہے ،اس
میں خاندان رسالتؑ کے اڑتیس شعراء وشاعرات کا کلام دیاگیاہے، اس باب کا ایک
عنوان جہادی اشعاربھی ہیں ، یہ باب ِاول آٹھ سو اٹھاسی حوالہ جا ت پر مشتمل
ہے ۔
باب دوم تین فصلوں پر مشتمل ہے ،اس میں صحف قدیمہ ،تورات ،زبور واناجیل میں
مذکور نعتیں شامل ہیں اور ’’ کتب سماویہ میں نعوت محمدیؑ ‘‘ کے عنوان سے
انبیائے سابقین کی بشارتیں اور احبارورہبان وکہّان کی پیش گوئیاں یکجا کی
گئی ہیں ،اس باب کا بڑا حصہ عبرانی زبان پر مشتمل ہے، ان نعوت وبشارات
عبرانیہ کا عربی ،انگریزی اور اردو تر جمہ بھی دیاگیاہے ۔
باب سوم چھ فصول پر مشتمل ہے، ا س میں ولادت وبعثت نبوی ؑ سے قبل کی نعتیہ
کلام کا جائزہ پیش کیاگیا ہے ، جس میں بالخصوص شاہ یمن تبّع ثانی کی آج سے
ڈھائی ہزار سال اور آپ ؑکی ولادت سے ایک ہزار سال قبل کہی گئی وہ نعت شامل
ہے، جس میں اس نے اپنے اسلام لانے کا تذکرہ کیاہے ،اس باب کی ایک فصل جنات
کی نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے، نیزیہ کہ عربی زبان کا پہلا باقاعدہ نعتیہ
قصیدہ کس نے اور کب کہا؟ اس باب میں ’’ قرآن کریم اور نعوت محمدیؑ‘‘ بھی
ایک اہم عنوان ہے۔
باب چہارم میں چھ فصلیں ہیں، اس میں عہد نبویﷺ کی نعتیہ شاعری کے عنوان سے
بعد از ولادت وبعثت بشارات مصطفی کو یکجا کیاگیاہے ، جس میں جنات وغیرہ کی
بشارات شامل ہیں، اس کی فصل سوم اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں صحابہ کرام ؑ
اور صحابیات کی نعوت کو مع تذکرہ یکجاکیاگیاہے ،نیزاس میں سر زمین حبشہ
،مکہ اور مدینہ میں کہی گئی نعتیں شامل ہیں اور اس میں مدینہ میں کہی گئی
اولین استقبالی نعت ’’طلع البدرعلینا․․․․․‘‘بھی شامل ہے ، اس باب میں
خلفائے راشدین کی نعتیہ شاعری اور ’’ خواتین کی نعتیہ شاعری ــ‘‘ بھی ہے۔
باب پنچم تین فصلوں پر مشتمل ہے ، اس باب میں حضورؑ کی دفاع میں ،میدان کا
رراز میں کہے گئے نعتیہ اشعار یکجاکیے گئے ہیں ،اس کی فصل اول میں
درباررسالت ؑ کے چار شعراء کا مفصل تاریخی نعتیہ جائزہ پیش کیاگیا ہے اور
فصل دوم میں جہادی نعتیہ اشعار درج کیے گئے ہیں ، جو دفاع رسولؑ میں کہے
گئے ۔
باب ششم تین فصلوں پر مشتمل ہے ،اس میں عہد نبویؑ میں صحابہ کرام ؑ
وصحابیات کی نثری نعوت کے نمونے ہیں ۔
دنیائے نعت میں کہے گئے تمام نثری نعتیہ کلام میں خوب صورت ترین ،طویل ترین
اور بے مثل وبے نظیر نمونے، حضرت ام معبد الخزاعی ؓ کی نثری نعت بھی ہے ،آپ
تاریخ اسلام کی اولین وآخرین خاتون صحابیہ ؓ ہیں، جنہوں نے حضورؑ کی طویل
ترین نثری نعت بیان فرمائی ہے ،اس باب کی فصل دوم میں نعتیہ شاعری میں ’’
سوانحی ،حیاتی اور تاریخی عناصر کا ارتقائــ‘‘ بیان کیا گیاہے ، جوکہ نبی
کریم ؑ کے عہد میں وقوع پذیر ہوا اور عہد نبویؑ ہی میں اس صنف کو عروج حاصل
ہوا، عہد نبویؑ کی نعوت میں آپؑ کی مکمل سوانح حیات اور آپ ؑ کی سیرت و
حیات کا مکمل نقشہ موجود ہے، جسے آپ ؑکے عہد کے شعرائے اسلام نے منظوم
ومنعوت کیاہے، اس باب کا ایک اہم عنوان ’’ عہد نبوی ؑ میں نعتیہ قصائد کا
ارتقاء ‘‘ اور ’’ عہد نبویؑ میں نعتیہ مراثی کا ارتقاء ‘‘ بھی ہے ،اس باب
میں خواتین کے نعتیہ مراثی بھی وافر مقدار میں ہیں۔
ساتواں باب چار فصول پر مشتمل ہے جس میں عہد نبوی ؑ میں نعتیہ شاعری بحوالہ
شمائل رسول ؑ ، سیرت رسولؑ ، حدیث رسول ؑ اور بحوالہ عشق رسول ؑ شامل
کیاگیا ہے ، اس باب کا ایک اہم موضوع ’’ عہد نبوی ؑ کی نعتیہ شاعری کے مآخذ
’’ اور نعت صحابہؓ کے مضامین و موضوعات ‘‘ہیں ،۔
’’ عہد نبوی ؑ اور عصر حاضر کی نعتیہ شاعری کا علمی وتقابلی جائزہ ـ‘‘ بھی
اس باب کا ایک اہم موضوع ہے ، اس میں عہد حاضر کے شعراء کی نعتیہ شاعری میں
’’ زبان وبیان کی بے اعتدالیاں وبے احتیاطیاں ‘‘ بھی بیان کی گئی ہیں ، یہ
باب چھ سو چودہ حوالہ جات پر مشتمل ہے۔
سات ابواب کی تیس فصول پر مشتمل اس مقالے میں کل تین ہزار ایک سو انچاس
حوالہ جات درج ہیں ،جب کہ اس مقالے کی تکمیل کے لئے عربی زبان کی پچانوے
،اردو کی ایک سو، فارسی کی ایک اور انگریزی کی چار کتب ،یعنی کل دوسو کتب
سے استفادہ کیاگیاہے۔
’’ما ان مدحت محمداً بمقالتی
ولکن مدحت مقالتی بمحمدی‘‘
کے تناظر میں اگر اس مقالہ کو دیکھا جائے ،تو یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان
ہوگا کہ محمدﷺ تو امر ہیں ہی ،ان کی برکت سے اب تبریزی صاحب بھی امر ہوگئے۔ |