پاکستان برِ صغیر کے مسلمانوں کے لئے وجود میں آیا جہاں
مسلمان اپنے مذہب اور اسلامی رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ اﷲ
تعالےٰ نے ہمارے بذرگوں کی قربانیوں کے صلے میں ہمیں ایک اسلامی ملک سے
نوازا ۔ ہم نماز روزہ زکواۃ اور حج کو پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرض
سمجھتے ہیں لیکن ہم بحیثیت ایک مسلمان اپنی ا اسلامی رسم و رواج کو نہیں
اپنا سکے۔ ہماری زندگی میں تین مواقع اہم ہیں ۱۔ شادی، ۲۔ پیدائش اور ۳۔
وفات ہے۔
شادی : آپ شادی کی رسم و رواج کو ہی لے لیں۔ شادی کی تمام رسومات ہندو
رسومات سے شروع ہوتی ہیں جس میں مہندی، مایوں اور چوتھی کی رسومات میں
لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں جس کی اسلامی معاشرے میں کوئی اہمیت اور
حیثیت نہیں ہے۔ وہی شادی کا لال جوڑا جب کہ ہمارے اسلامی رسم و رواج کے
مطابق لڑکی سفید رنگ کا جوڑا پہنتی ہے جب کہ ہندو رواج کے مطابق ایک بیوہ
سفید رنگ کا جوڑا پہنتی ہے۔ کیا ہم نے یہ غور کیا ہے کہ ہمارے اسلامی رسم و
رواج میں دلہن اور دلہا کا جوڑا اور ہندو معاشرے کی دلہن اور دلہا کے جوڑے
میں کوئی فرق ہے ہم اگر ہندو دلہن اور دلہے اور مسلم دلہن اور دلہے کو ایک
ساتھ بٹھائیں تو ہمیں یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہو جائے گاکہ کون سا جوڑا
ہندو ہے اور کونسا مسلم۔ ان رسومات میں ناچنا گانا اور ایک دوسرے کو برا
بھلا کہنا یا ایسا مذاق جس سے ایک دوسرے کی تذیل کرنا شامل ہے جو شادی سے
پہلے ہی ایک دوسرے کے بارے میں دل میں برائی کا شائبہ آجانا جو بعد میں
لڑکی اور لڑکے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ اکثر لڑکی کے والدین ان
رسومات کے خاطر لاکھوں روپے کے قرضدار بھی ہو جاتے ہیں ۔ لاکھوں روپے کا
جہیز بھی دیا جاتا ہے تاکہ ان کی بیٹی خوشگوار زندگی بسر کر سکے۔ اگر آپ
غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اتنا لاکھوں روپے کا جہیز اور تحائف دینے کے
باوجود ان کی بیٹی گھریلو مسائل کا شکار ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ گھریلو
مسائل اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ نوبت طلاق تک آ جاتی ہے اور لڑکی ساری عمر طلاق
یافتہ زندگی گزارتی ہے اور اگر بچے ہوں تو وہ بھی ساری زندگی مشکلات اور ۱حساسِ
محرومی کی زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ سب ان ہی ہندو رسم و رواج کی نحوست ہے۔
جبکہ مسلم رسم و رواج کے مطابق شادی کے لئے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی بھی
ضروری ہے اس کے بعد نکاح اور مہر کے معاملات ہیں ۔ ہمارے مذہب میں مہر کی
ایک بہت بڑی اہمیت ہے جبکہ ہم اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ مہر لڑکے کی
مالی حیثیت کے مطابق طے کیا جاتا ہے اور اس کو ادا کرنا بہت ضروری اور اہم
ہے۔ اگر نکاح کے فوراً بعد ادا کر دیا جائے تو یہ بہت اعلیٰ عمل ہے ورنہ
بعد میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو ادا نہ کرنا یا معاف کروانا
شریعت کے خلاف اور گناہ ہے۔شادی کے تمام اخرجات لڑکے کی ذمہ داری ہے ۔نکاح
مسجدمیں کرنا ،شادی کے لئے علیحدہ گھریاپورشن کا انتظام کرنا جہاں لڑکا
نکاح کے فوراً بعد اپنی بیوی کو رکھ سکے۔ اس نئے گھر کی تمام آرائش اور
ضروریات پہلے سے بندوبست کرے۔ شادی کے بعد ولیمہ کرنا سنت ہے اور اس کو سنت
کے مطابق بندوبست کرنا چاہئے جہاں خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ
انتطام ہو ۔ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شوہر اور بچوں کا خیال رکھنا اور
بچوں کی تربیت کرنا ماں کی ذمہ داری ہے جبکہ لڑکے کی ذمہ دار ی ہے کہ بیوی
بچوں اور اپنے والدین کی ضروریات کا خیا ل کرنا ہے۔ بیوی کا یہ فرض اور ذمہ
داری نہیں ہے کہ اپنے شوہر کے والدین کی خدمت کرے اور تمام گھریلو کام کرے۔
اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہے تو وہ ایک بڑا اور اعلیٰ
صلح رحمی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کا بہت بڑا اجر اور ثواب ہے۔ ہمارے معاشرے
میں بہو سے تمام گھریلو کام لینا فرض اور ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور زبر
دستی لڑکی سے کروایا جاتا ہے یہ ہندو رسم و رواج ہے۔ ہمارے بچے اپنی اسلامی
رسم و رواج کا علم نہیں رکھتے اور نہ ہی والدین اور نہ ہی ان کو ان کے حقوق
اور ذمہ داریوں کے بارے میں بتاتے ہیں جس کی وجہ سے شادی کے بعد گھریلو
مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں
کو اپنے اسلامی رسم و رواج کے بارے میں بتائیں اور خود بھی اس مسئلے کے
بارے میں معلومات حاصل کریں کہ شادی کی اسلامی رسومات کیاہیں۔ اور ہمارے
بیٹے اور بیٹیوں کو شادی کے بعد کس طرح زندگی گزارنی چاہئے جس سے ان کو
خوشیاں حاصل ہوں ۔ شادی کے بعد اسلامی رسم و رواج کے مطابق یہ ایک نیا
خاندان بنتا ہے جس کے تمام معاملات انہیں خود ہی حل کرنے ہوتے ہیں۔
پیدائش : ہمارے ہاں بچے کی پیدائش کو ہی لے لیجئے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو
اس کی پہلی تقریب اس کا حقیقہ کرنا ہو تا ہے جس کو ہم اہمیت نہیں دیتے جبکہ
سنت طریقہ یہ ہے کہ ساتویں دن بچے کا ٰعقیقہ کیا جائے اور اس کے سر کے بال
صاف کئے جائیں اور اس کا نام رکھا جائے لیکن کچھ گھرانوں میں اس کی اہمیت
نہیں ہوتی اور وہ اسلامی سنت کے عمل کو اپنے وقت پر ادا نہیں کرتے بلکہ وقت
گزر جانے کے بعد ایک بہت بڑی تقریب کی جاتی ہے جس میں اپنے عزیز رشتہ داروں
کو مدعو کیا جاتا ہے جبکہ یہ ایک صدقہ ہے اس میں صحیح حقدار (غریب غرباء)کو
نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
وفات : ہم اپنے معاشرے میں وفات کے مسائل کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ
میت کے لئے رونا، چلانا اور بین کرنا منع ہے۔ ہمارے مذہب میں صرف تین دن کا
سوگ ہے ۔ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اپنی میت کو غسل نہیں دیتے جس کی وجہ یہ
ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ میت کو کیسے غسل دیا جاتا ہے اور ہم میت
کو غسل دینے والے کو تلاش کرتے رہتے ہیں جبکہ ہم اپنی میت کو اچھی طرح غسل
دے سکتے ہیں جو کوئی دوسرا نہیں دے سکتا کیونکہ غسل دینے والے کا اس میت سے
کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ایک کھانے پینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔
جبکہ ہندو معاشرے میں چوتھا اور تیرھویں کی رسومات ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں
سوئم ، دسواں ، بیسواں اور چالیسواں بھی کیا جاتا ہے۔ جس کی ہمارے مذ ہب
میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس میں طرح طرح کے کھانے رکھے جاتے ہیں جبکہ میت
کے ثواب کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ قرآن خوانی
کرالی ہے یہی کافی ہے۔ جبکہ میت کو مرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ آپ کی طرف
سے اﷲ تعالےٰ کے کلام کوپڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ میت کو قبر میں
آسانیاں ملیں۔ اس کے علاوہ میت کی طرف سے کوئی ایسا نیکی کا کام کر دیا
جائے جس سے میت کو مستقل ثواب ملتا رہے جس کو صدقہ جاریہ کہتے ہیں۔
ہندوستان کے ایک مذہبی انتہا پسند جماعت کے رہنما کا یہ کہنا ہے کہ اگر
مسلمانوں کو ہماری ہی ثقافت اور روسم و رواج رکھنا تھا تو مسلمانوں نے کیوں
ایک الگ ملک بنایا۔ یہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس رہنما نے یہ بات کر
کے پاکستانی مسلمانوں کے منہ پر ایک تماچہ مارا ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے
کہ کیا ہم بحیثیت مسلمان مسلم معاشرے میں رہتے ہیں یا ابھی تک ہندو معاشرے
کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنی رسومات کوبدلنا ہو گا ۔ جب ہم اسلامی رسومات کو
اپنالیں گے تو پھر ہم یہ فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے
رسم و رواج بھی اسلامی ہیں اور ہم مسلم معاشرے میں رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ
ہمیں اور ہمارے بڑوں اور چھوٹوں کو اس پر سوچنے کی اور عمل کی توفیق عطاء
فرمائے۔ آمین ! |