نظام زکوٰۃ و عشر کی افادیت و اہمیت

نظامِ زکوٰۃ و عشر کی اہمیت و افادیت اور اس کا خالص دینی فریضہ ہونا محتاج بیان نہیں ہے ۔جیسے نماز، روزہ اور حج ارکان اسلام سے ہیں ۔ایسے ہی زکوٰۃبھی اسلام کا ایک عظیم و جلیل رکن ہے ۔ قرآن مجیدمیں تقریباً 23مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کی فرضیت اور اس کی ادائیگی کا ذ کر آتا ہے ۔ صحیفہ وحی میں نماز کے ساتھ جو فریضہ سب سے اہم نظر آتا ہے وہ زکوٰۃ ہی ہے ۔ ارشاد باری ہے : واقیموالصلوۃواتواالزکوٰۃ ۔ نمازقائم کرواور زکوٰۃ اداکرو ۔

حضور اقدس ﷺ نے نماز ونظام زکوٰۃ و عشر کی اہمیت کے اظہارکے لئے اسلام کی شرائط بیعت میں بھی اسے داخل فرمایا 5ھ میں وفد عبد القیس نے آستانہ نبوت پرحاضر ہوکر اسلا م کی تعلیما ت دریا فت کیں توآپ نے اعمال میں پہلے نما ز اور پھر زکوٰۃ کو جگہ دی ۔ حضرت جر یر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں : بایعت النبی ﷺعلیٰ اقامۃالصلوٰۃ وایتا ء الزکوٰۃ والنصح لکل مسلم:میں نے حضور اقدس ﷺسے تین باتوں پر بیعت کی ،نمازپڑھنا ، زکوٰۃ اداکرنا اورہر مسلمان کی خیر خواہی چاہنا۔ (بخاری )

اسلام کی تنظیمی زندگی دوبنیا دوں پر قائم ہے ۔ایک روحانی، دوسری مادی ۔ اسلام کا روحانی نظا م نماز سے قائم ہوتا ہے ، جو مسجد میں باجما عت اداکی جائے اور مادی نظا م زکوٰۃ وعشر سے بروئے کار آتا ہے جوبیت المال میں جمع ہوکر مستحقین میں تقسیم ہو ۔ جیسے نماز کا آغاز اسلام کے ساتھ ساتھ ہوا ، اور مدینہ میں آکر تکمیل کوپہنچا ،ایسے ہی زکوٰۃ یعنی مطلق صدقات و خیرات کی ترغیب ابتداء اسلام سے ہی ہوئی ۔لیکن اس کا پور ا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا۔ رمضان 8ھ میں فتح مکہ نے جب تمام عرب کو ایک رشتہ میں منسلک کر دیا تو اس وقت سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی ۔خذ من اموالھم صدقۃ تطھرہم و تزکیھم ۔’’اے رسولِ محترم (ﷺ)! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرو اور اس کے ذریعے ان کو پاک و صا ف کرو۔‘‘(توبہ، 13)

اجتماعیت ایک فطری چیز ہے اور اجتماعیت کے فوائد و ثمرات و برکات و حسنات میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔اس لئے دین اسلام میں نظام زکوٰۃ و عشر اور نماز کو اجتماعی حیثیت میں ادا کرنے پر خاص طور پر زور دیا اور حضور اقدس ﷺ نے نظام زکوٰۃ و عشر کے قواعد و ضوابط مرتب فرما کر اجتماعی طور پرہو اس کے جمع و خرچ کا انتظام فرمایا ۔

انسان کے مالی کاروبار کا معیار عموماً سالانہ آمدنی سے قائم ہوتا ہے ۔اس کے نصاب کا تعین کر کے ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی لازمی قرار دی گئی ۔سونا، چاندی ،جانور ، زمین کی پیداوار اور جو دولت کا سر چشمہ ہیں ،ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ شرحیں مقرر کر کے ان کے مصارف کا تعین فرمایا ۔

عشر کی ادائیگی کے متعلق سورۂ بقرہ اور انعام میں ارشاد ہے :اے ایمان والو! خرچ کیا کرو عمدہ چیزوں سے جو تم نے کمائی ہیں اور اس سے جو پیدا کیا ہے ہم نے تمہارے لئے زمین سے اور کھاؤ اسکے پھل سے جب پھل دینے لگے اور ادا کرو اﷲ کا حق ،جب اس کی فصل کاٹو۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:’’جو زمین بارش یا چشمہ یا زمین کی نمی یا شبنم سے خود بخود سیراب ہو ،اس کی کل پیدا وار کا دسواں حصہ اور جو زمین پانی خرید کر یا جانور پر لاد کر سیراب کی جائے ۔اس کا بیسواں حصہ عشر فرض ہے ۔‘‘(مسلم)

9ھ میں حضور اقدسﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو یمن کا حاکم اور اسلام کا داعی بنا کر بھیجا ،تو ا نکو یہ ہدایت دی کہ جب لوگ توحید کی دعوت اور فریضۂ نماز کی ادائیگی کو قبول کر لیں تو انہیں یہ بھی بتانا :ترجمہ’’ اﷲ تعالیٰ نے ان کے مال پر صدقہ (زکوٰۃ )فرض کی ہے ،جو ان کے دولت مندوں سے وصول کر کے انکے غریبوں کو دی جائے گی۔‘‘(بخاری)

اس سلسلہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ کو خصوصی طور پر یہ ہدایت بھی دی کہ زکوٰۃ و عشر کی جمع و تقسیم کا کام عدل و انصاف اور انتہائی امانت و دیانت کا متقاضی ہے ۔آپ نے فرمایا : ترجمہ’’خبردار! انکے اموال میں سے اعلیٰ قسم کے جانور چھانٹ چھانٹ کر ،وصول کر نے سے احتراز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا ، کیونکہ اس کے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے ۔

اگر چہ حضور اقدس ﷺ کی اس ہدایت کی روشنی کا دائرہ بہت وسیع ہے ،تاہم اس ہدایت سے جو بات نکھر کر سامنے آتی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زکوٰۃ و عشر خالص عبادت ہے اور اس کی انجام دہی میں خلوص و ﷲیت اور جذبۂ رضاء الہٰی کو پیش نظر رکھنا عدل و انصاف ،دیانت و امانت کے تقاضوں کا بہر حال و بہر صورت لحاظ رکھنا اور اس معاملہ میں ہر قسم کے ذاتی مفادات و تعصب سے قطعی طور پر پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے اور قرآن و سنت میں زکوٰۃ نہ ادا کرنے والوں کے لئے جو سخت و شدید و عیدیں سنائی گئیں ۔انکی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جیسے زکوٰۃ و عشر کے معاملہ میں خیانت ، ناجائز کنبہ پروری ،ذاتی مفاد اور دنیاوی منفعت سے کام لینا بھی سخت و شدید گناہِ کبیر ہ ہے ۔

حضور سرور عالم نور مجسم ﷺ نے غریبوں کی دستگیری ، مسکینوں کی سر پرستی ،مسافروں کی امداد ،یتیموں کی خبر گیری ،بیواؤں کی نصرت و اعانت کے لئے خود اپنی حیات اقدس میں زکوٰۃ و عشر کی جمع و تقسیم کا اجتماعی نظام قائم فرمایا اور پھر خلفاء راشدین علیہم الرحمۃ والرضوان بھی انہی خطوط پر نظام عشر و زکوٰۃ کا اہتمام فرماتے رہے ۔

امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں جب بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ۔تو جناب سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے انکے خلاف تلوار کھینچ لی ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے :’’ جو شخص توحید کا قائل ہو ،اسکا خون روا نہیں ،اسکا معاملہ خدا کے سپر دہے ۔اس پر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا :’’خدا کی قسم ! جو نماز و زکوٰۃ میں فرق کرے گا ،میں اس سے قتال کروں گا ۔خدا کی قسم! اگر انہوں نے ایک رسی بھی رو کی ،جو رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں زکوٰۃ دیتے ،تو اس کے نہ دینے پر میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘

دراصل یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو محرم اسرارِ نبوت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے سمجھا اور امت کو سمجھایا اور اس کے سامنے سب نے اطاعت کی گردن جھکا دی ۔پھر خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ الرحمہ نے بھی اس نظام کو جماعتی سطح پر دوبارہ زندہ کیا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے دور میں جب نظام عشر و زکوٰۃ اپنے پورے شباب پر تھا تو ملک میں کوئی زکوٰۃ کی رقم لینے والا نہیں ملتا تھا اور یہ کوئی محض جذباتی بات نہیں ہے ،بلکہ امر واقعہ اور زندہ حقیقت ہے ۔اگر آج قوم مسلم اپنے تمام قسم کے اموال کی زکوٰۃ ادا کرنے کا عزم کرے ، تو پھر پاکستان میں بھی ایسا ہی ماحول پیدا ہو سکتا ہے ۔لیکن زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مصارف زکوٰۃ و عشر کا تعین بھی انتہائی ملحوظ ہونا چاہئیے ۔

مصارف زکوٰۃ:اﷲ تعالیٰ نے مال و زکوٰۃ و صدقہ کے مستحق کا ذکر قرآن کریم میں خود ہی بڑی شرح و تفصیل سے بیان فرما دیا ہے ۔لہٰذا مالِ زکوٰۃ کے حق دار یہی ہیں ان کے علاوہ دوسروں کو دینا جائز نہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بلا شبہ مال زکوٰۃ صدقہ ،فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہے اور ان کے لئے ہے جو (زکوٰۃ وصول کرنے کے ) کام پر مقرر ہیں اور ان کے لئے ہے جن کے دلوں کو (اسلام کی طرف ) مائل کرنا مقصود ہے اور گردن چھڑانے میں (مال زکوٰۃ دینا ہے )اور مقروض کے لئے ہے اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے اور مسافر کے لئے ہے یہ اﷲ کی طرف سے فرض ہے اور اﷲ علم و حکمت والا ہے ۔‘‘ (سورۃ التوبہ 60)

مذکورہ بالا آیت قرآنی میں زکوٰۃ و صدقات کے مصارف اور مستحقین کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو صدقہ فرض و واجب جیسے زکوٰۃ و فطرانہ وغیرہ کے صحیح حقدار ہیں ۔باقی صدقہ نفل تو وہ سب کو دینا جائز ہے اور مذکورہ افراد کو دینا افضل و بہتر ہے ۔آیت قرآن میں مذکور زکوٰۃ و صدقات کے حقدار وں کی تفصیل یہ ہے ۔

1)فقیر : فقیر وہ ہے کہ اس کے پاس کچھ مال ہو لیکن اتنا روپیہ پیسہ نہیں جو نصاب کے قابل ہو ،نہ گھر میں اتنی چیزیں ہیں کہ جن کی قیمت بقدر نصاب ہو ۔یا قیمت بقدرنصاب ہے مگر سب چیزیں حاجت میں داخل ہیں ۔مثلاًضرور ی کتابیں ہیں پہننے کے کپڑے رہنے کا گھر ہے ، کام کاج کے ضروری آلات وغیرہ ہیں ۔کوئی زائد چیز اس کے پاس نہیں کہ جس کی قیمت نصاب کو پہنچے ایسا شخص فقیر کہلاتا ہے ۔زکوٰۃ کا مستحق ہے اگر ایسا شخص عالم بھی ہو تو اس کی خدمت میں اور بھی زیادہ فضیلت ہے ۔

2)مسکین :مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ بھی مال نہ ہو ۔ ایسے شخص کو زکوٰۃ دے کر ثواب حاصل کرو۔اس شخص کو سوال کرنا بھی جائز ہے اور فقیر کو نہیں کیونکہ اس کے پاس کچھ مال ہے گو نصاب کے قابل نہیں ہے ۔مگر جس کے پاس اتنا بھی مال ہے کہ ایک دن کی خوراک کے لئے کافی ہے تو اس کو سوال کرنا حلال نہیں ۔

3)عامل: عامل کو بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے اگر چہ وہ غنی ہو ۔عامل وہ شخص ہے جس کو بادشاہِ اسلام نے عشر و زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہے چونکہ یہ اپنا وقت اس کام میں لگاتا ہے ۔لہٰذا اس عامل کو اپنے عمل کی اُجرت بھی ملنا ضروری ہے تاکہ اس کے اخراجات کے لئے بدرجۂ متوسط کافی ہو ،مگر اُجرت جمع کردہ رقوم کے نصف سے زیادہ نہ ہونی چاہیے ۔اگر مال عامل کے ہاتھ میں ضائع ہو جائے تو زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ۔اگر عامل سید ہے ۔تو زکوٰۃ کے مال سے اس کو اُجرت نہ دی جائے گی ۔ ہاں اُجرت غیر سید فقیر کو دے کر اس کو دی جائے تو جائز ہے ۔مگر غنی عامل کو اسی زکوٰۃ کے مال سے اُجرت دینا جائز ہے ۔اس لئے کہ ہاشمی کا شرف بھی غنی کے رتبہ سے زیادہ ہے قرابت نبی کریم ﷺ کی وجہ سے عامل کے حکم میں ساعی اور عاشر بھی ہے ۔ساعی وہ شخص ہے جو چوپاؤں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر کیا جائے ۔اور عاشر وہ ہے جو سڑکوں پر عشر وغیرہ لینے کے لئے معین کیا جائے ۔
4)مؤلفۃ القلوب:اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو اخوت اور محبت کا درس دیتا ہے اور ہر ایسے غیر مسلم کی دلجوئی کرتا ہے جو قبول اسلام کی طرف مائل ہو ۔مولفۃ القلوب کا مطلب دلجوئی کرنا ہے۔ ایک عام اصول ہے کہ جس کسی حاجت مند کو مالی امداد دی جائے تو وہ دینے والے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو دین اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے مؤلفۃ القلوب کی مدر کھی ہے تاکہ اسلام میں ہر نئے داخل ہونے والے کی دلجوئی ہو اور وہ آسانی سے مسلمانوں کے ضابطۂ حیات کے مطابق عمل پیرا ہو سکے ۔

5)رقاب مکاتب:وہ غلام جو مال معین ادا کرنے کی شرط پر آزاد کیا گیا ہو اگر چہ وہ غنی کا غلام ہو یا خود اس کے پاس نصاب سے زائد ہو ۔تو ایسے غلام کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔مگریہ غلام کسی سید کا نہ ہو کہ اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ من وجہ (یعنی ایک لحاظ سے )یہ مالک کی ملک میں ہے اور مالک سید ہے ۔تو یہ سید ہی کو زکوٰۃ پہنچے گی اور اس کو جائز نہیں ۔

6)غارم یعنی قرضدار:قرضدار کو بھی زکوۃ دینا جائز ہے بشرطیکہ قرض سے زائد کوئی رقم بقدر نصاب اس کے پاس نہ ہو ۔یا کوئی مال حاجت اصلیہ سے فاضل اس کے پاس ایسا نہ ہو کہ جس کی قیمت نصاب کی مقدار کو پہنچے تو ایسے قرضدار کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔یہ بھی شرط ہے کہ قرضدار سید نہ ہو کہ ذریت یعنی آل رسول ﷺ کے احترام کے سبب کسی حال میں سید کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ یہ مال کا میل کچیل ہے ۔لہٰذا اس کی اپنے پاس سے خدمت کرو ۔قرض دار کو دینا فقیر کے دینے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس کو زیادہ احتیاج ہے ۔

قرضدار کا مال دوسروں پر ہے ۔مگر ان سے لینا ممکن نہیں تو ایسے قرضدار کو بھی زکوٰۃ لینا جائز ہے ۔مثلاً جس پر قر ض ہے وہ غائب ہے یا وہ مفلس ہے یا وہ منکر ہے۔ اگر چہ اس کے گواہ بھی ہوں یا مہر مؤجل ،عورت کو یقین ہے کہ طلب کروں گی تو شوہر نہیں دے گا تو ان سب صورتوں میں قرضدار کو زکوٰۃ لینا جائز ہے ۔

7)فی سبیل اللّٰہ :اس سے مراد راہ خدا میں جہاد ہے ،جہاد کا لفظ قتال کے مقابلہ میں عام ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ میں وہ ساری کوششیں شامل ہیں جو مجاہدین نظام کفر کو مٹا کر نظام اسلامی کو قائم کرنے کے لئے کریں ،چاہے وہ قلم و زبان سے ہوں ،یا تلوار سے یا ہاتھ پاؤں کی محنت اور دوڑ دھوپ سے ،اس کا دائرہ نہ تو اتنا محدود ہے کہ اس سے مراد محض قتال ہو اور نہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں رفاہ عام کے سارے کام شامل سمجھ لیے جائیں ۔جہاد فی سبیل اﷲ سے بالاتفاق اسلاف نے صرف وہی کوششیں مرادلی ہیں جو دین حق کو قائم کرنے اس کی اشاعت و تبلیغ کرنے اور اسلامی مملکت کی حفاظت اور دفاع کے لئے کی جائیں اس جدو جہد میں جو لوگ شریک ہوں ۔ان کے مصارف سفر کی سواری ،آلات و اسلحہ اور سرو سامان کی فراہمی کے لئے زکوٰۃ کی رقم صرف کی جا سکتی ہے ۔نیز اس سے مراد وہ زائرین حرم ہیں جو حج کے ارادے سے روانہ ہوں اور راہ میں کسی حادثہ کا شکار ہو کر مال و تعاون کے محتاج ہوں اور وہ طلبہ بھی مراد ہیں جو دین کا علم حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور حاجت مند ہوں ۔

8)ابن السبیل یعنی مسافر:قرآن پاک میں مصارف زکوٰۃ کے سلسلے میں مسافر کے لئے ابن السبیل کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔لغوی اعتبار سے سبیل کے معنی راستہ کے ہیں اور ابن اصلاحاً راستے پر چلنے والے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے لہٰذا ابن السبیل سے مراد ایسا مسافر ہے جس کا ز ادرِاہ ختم ہو گیا ہو یا کم ہو گیا ہو تو ایسے مسافر پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا درست ہے مسافر خواہ اپنے شہر میں خوش حال او ر دولت مند ہو ،لیکن حالت سفر میں اگر وہ مالی امداد کا محتاج ہے تو زکوٰۃ کی مد سے اس کی مدد کی جا سکتی ہے ۔ان مصارف زکوٰۃ و عشر کے علاوہ کسی اور مد میں زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی ناجائز ہے ۔حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت تمام زکوٰۃ خرچ کر رہی ہے بیت المال سے ہوتو درست ورنہ غلط ہے ۔ کیونکہ اس پر وگرام سے 90%صاحب حیثیت فائدے حاصل کر رہے ہیں ۔

Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 658591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.