انسان اور چوپائے خالق کی وہ مخلوق ہیں جن کا تعلق حیوانیات سے ہے اسی لئے
انسان کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے بیشتر بڑے بڑے حیوانوں میں تولید و
افزائش کا نظام بھی انسانوں کے نظام افزائش نسل سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے
لیکن اس کے باوجود انسان اور حیوان میں بہت فرق ہے انسانوں پر خالق کی خاص
عنایت ہے کہ اس نے انسان کو عقل سے نوازا ہے اور یہی وہ اہم خصوصیت ہے کہ
جو انسان اور حیوان میں فرق کو واضح کرتی ہے اگر انسان عقل سے کام نہ لے تو
انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہ رہے
انسان عقل سے کام لے کر کائنات کی ہر چیز کو اپنے اختیار میں کرتے ہوئے
دیگر مخلوقات کو اپنے تابع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ رب کائنات نے
انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں اپنے نائب کی حیثیت سے بھیجا ہے
اور انسان کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لیکر اپنے علم میں
اضافہ کرے اور پھر اس علم کو عملی طور پر بروئے کار لا کر کائنات کو تسخیر
کرے
چونکہ تسخیر کا عمل علم و عقل کے بغیر ممکن نہیں اس لئے انسان کے لئے لازم
ہے کہ وہ اپنی اس عنایت خاص کو ضائع نہ کرے اور اپنے منصب کے مناسب حال
اپنے اس شرف کا حق ادا کرے بیشتر انسانوں نے اپنی عقل اور علم میں اپنی
محنت و تددبیر سے وہ نکھار پیدا کیا ہے کہ جو دنیا کے سامنے لازوال شاہکار
کے طور پر سامنے آئی ہیں
انسان کو یہ خصوصیات یونہی نہیں دے دی گئیں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا
گیا ہے جس کے لئے انسان پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور عقل
سے کام لئے بغیر کسی بھی ذمہ داری سے بخوبی عہدہ برا ہونا ممکن نہیں ہوتا
ہر کام سوچ سمجھ کر دل و دماغ کی رضا مندی کے بعد انجام دینا ہی عقلمندی ہے
عقل علم اور عمل کی بدولت ہی انسان اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے
اور خود کو زندگی میں درپیش آنے والی مشکلات پر قابو پانے کے قابل بناتا ہے
کیا وہ تمام کارہائے نمایاں جو انسان نے دنیا میں انجام دیئے ہیں محض عقل
وعقل علم ہی کے مرہون منت ہیں یا ان تمام کارفرمائی میں کوئی اور بھی انسان
کا دست و بازو رہا ہے اچھا ہے دل کے ساتھ رہے کاروان عقل لیکن کبھی کبھی
اسے تنہا بھی چھوڑ دے کسی بھی کام کو انجام دینے کیلئے وہ کونسا جذبہ ہے جو
انسان کو اکساتا ہے کچھ کر گزرنے کی تحریک دلاتا ہے یہ انسان کے دل میں
مؤجزن جذبہ عشق ہے جو انسان کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دلاتا ہے اگر انسان
محض عقل سے کام لے تو وہ کبھی اپنے مقاصد کو کلی طور پر انجام نہیں دے سکتا
اسی لئے شاعر نے خوب فرمایا ہے کہ “عقل کو تنقید سے فرصت نہیں ہے عشق پہ
اعمال کی بنیاد رکھ“ چونکہ انسانی عقل کسی بھی تحریک پر عمل سے پہلے انسان
کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ سوچ انسان کے دل میں اندیشے اور خدشات
پیدا کرتی ہے اور یہی اندیشے اور خدشات انسان کو آگے بڑھنے اور منزل کی
جانب قدم بڑھانے سے روکتے ہیں جب تک کوئی کسی مرحلے سے گزرتا ہی نہیں وہ اس
کے حقائق تک کیسے پہنچ پائے گا اسکی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ کیسے
لگائے گا
ساحل سے سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہے، فلک پر چمکتے سورج چاند
ستاروں کی روشنی ٹھنڈک اور تپش کیا ہے محض عقل سے ان پوشیدہ حقائق تک رسائی
ممکن نہیں، جذبہ عشق کے بغیر ستاروں پر کمند ڈالنے کی جرات محض عقل کی بنا
کوئی نہیں کر سکتا کہ عقل تو راستے کی دشواریوں کے پیش نظر آسمان کو چھونے
کی خواہش کو رد کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہے، عقل کے پیش کردہ تنقیدی دلائل
ممکنہ خدشات کو راستے کی خود ساختہ دیوار بنا کر منزل تک رسائی میں بذات
خود دشوایوں کا سبب بنتی ہے جبکہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
کے مترادف عشق انسان میں وہ قوت پیدا کرتا ہے وہ تحریک دیتا ہے کہ انسان
تمام خدشات کو پس پشت ڈال کر اور راستے کی تمام رکاوٹوں کو چیرتا ہوا اپنی
مطلوبہ منزل تک پہنچ جاتا ہے
کائنات کی ہر چیز میں عشق کی کارفرمائی عیاں ہے تمام ایجادات و اختراعات کے
پیچھے بھی یہ جذبہ عشق ہی کار فرما ہے عشق کے بغیر زندگی نامکمل ہے عشق
انسان کو اپنی پہچان دیتا ہے
عشق کا مسکن دل ہے اور اپنے دل کے سمندر میں ڈوب کر ہی عشق کی گہرائی اور
عشق کی سچائی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے “اپنے من میں ڈوب کر پا جا مراد
زندگی“ کہ زندگی کی مراد زندگی کا مقصد اپنے من کے سمندر میں ڈوب کر ہی
پایا جاسکتا ہے اور یہی عشق ہے
انسان اپنا کوئی بھی مقصد عشق کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا عشق ہی
منزل کے راستے متعین کرتا اور پھر ان راستوں پر بے دھڑک بنا کسی خوف و خطر
کے گامزن رہنے کی ہمت و تحریک دیتا ہے جو بالآخر انسان کی اپنی منزل تک
رسائی کو ممکن بناتا ہے
علم و عقل کی اہمیت و حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن عشق ان سب پر مقدم ہے جو
کہ انسان کو وہ منزل دکھاتا ہے کہ جس پر پہنچ کر انسان اس مقام تک پہنچتا
ہے کہ جس تک پہنچنے کا عقل سوچ بھی نہیں سکتی اور یہی وہ مقام ہے کہ جس کے
متعلق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
“جلتے ہیں جبرائیل کے پر جس مقام پر
اسکی حقیقتوں کے آشنا تم ہی تو ہو“ |