سب کمالات ہیں تخیل کے

کھيتوں کو دے لو پانی، بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانوں اٹھتی جوانياں ہيں

سب سے پہلے تو کچھ سوچنے سے پہلے ہميں يہ سوچنا ہوگا کہ ہم سوچنے کی خواہش رکھتے بھی ہيں يا نہيں؟ کيا ہمارے پاس سوچنے کيلیے وقت بھی ہے يا زندگی کی گاڑی کھينچنے يا صنعتی دور کی آسائشوں کے حصول کيلیے صبح سے شام اور شام سے رات تک کولہو کے بيل کی طرح ہر وقت گردش ميں ہی رہتے ہيں؟ سوچیں کہ کيا زندگی صرف دولت کے حصول کا ہی نام ہے؟ کيا انسان ميں موجود احساسات و جذبات و خيالات کی زندگی ميں کوئی اہميت نہيں؟ اگر ايسا ہے تو پھر ماہرين نفسيات کيوں کہتے ہيں کہ زندگی اصل ميں خيالات کے مجموعہ کا نام ہے؟

سوچيں کہ جب انسان حيوان ناطق ہے تو اس ميں 'حيوان ازم' کا سِرے سے ہی خاتمہ کيونکر ممکن ہے کہ فطرت کبھی نہيں بدلتی- يہ بھی سوچيں کہ آيا دنيا بھر ميں آج تک جتنی بھی جنگيں، لڑائياں، يدھ، اور دنگل ہوئے ہيں، انکی بنيادی وجوہات حصول زر، وسائل، مال غنيمت، دولت اور زمين نہيں ہے؟ آيے آج کا پورا دن ہم دل پر پتھر رکھ کر سوچنے کيلیے مختص کرديتے ہيں اور کھل کر سوچتے ہيں کہ اگر کوئی کسی کي زمين کو خريدنا چاہے ليکن زمين کا مالک (فلسطينی، کشمیری) اسے بيچنے سے انکار کر دے تو معاملہ صاف ہو جاتا ہے- ليکن زمين کے مالک کے نہ بيچنے کے باوجود اگر کوئی (اسرائيل، بھارت) زبردستی اسے خريدنے يا ھتيانے پر اتر آئے تو زمين کے مالک کا ردِعمل کيا ہوگا؟ يہ بھیسوچيں کہ جب سڑکيں بنتی ہيں تو حکومت راستے ميں آنے والی زمين کو اس کے مالک سے خريدتی ہے اور اگر مالک نہ بيچنا چاہے تو بھی سڑک تو بننی ہی ہوتی ہے کہ حکومت طاقتور ہوتی ہے جبکہ زمين کا مالک کمزور- کيا يہ بہتر نہيں کہ 'کچھ لو اور کچھ دو' کے مصداق مذاکرات کرکے معاملہ حل کر ليا جائے؟

يہ بھی سوچيں کہ جب ہر چيز فانی ہے، ہر انسان نے خالی ہاتھ ہی جانا ہے تو پھر زمين کا مالک اسے آسانی سے بيچنے پر راضی کيوں نہيں ہوتا، کیوں انسان دولت کی پوجا کرتا ہے؟ کيا اس کی وجہ 'دھرتی ماں' کا فلسفہ ہے يا محض اسکا يہ عمل ايک 'اڑي' ہے؟ سوچوں کو مزيد پھيلائيں اور سوچيں کہ اگر ہر ايک 'دھرتی ماں' کا فلسفہ پکڑ ليتا تو پھر دنيا کيوں وسعت اختيار کرتي؟ سوچيں کہ نبی کريم کا پسنديدہ تجارت کا پيشہ 'دھرتی ماں' فلسفہ کی کسی نہ کسی طرح نفی نہيں کرتا؟--- بس اب مزيد سوچنا فی الحال ممکن نہيں ہے کيونکہ يہ سوچ ليا ہے کہ 'سوچيں پيا تے بندہ گيا'

سب کمالات ہیں تخیل کے
ورنہ کچھ بھی نہیں حقیقت میں
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.